امریکہ، سعودی عرب، ایران اور جنگ کے بادل‎

                چند ماہ قبل ریاض سے آنے والی خبروں کے مطابق سعودی عرب اور امریکہ کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تھا جس میں غیر ملکی خبر رساں ادارے کی مطابق دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتوں کو اکیسویں صدی کی نئی شراکت داری کی جانب ایک نیا راستہ قرار دیا گیاتھا۔ سعودی عرب اور امریکہ نے سعوی دارالحکومت ریاض میں دوروزہ عرب سربراہ کانفرنس کے اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اور اس خطہ میں ایرانی اثر و رسوخ کے خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹنے پر زور دیا گیا تھا۔ اس مشترکہ بیان کے اہم نقاط میں سے ایک انتہا پسندی اور دہشت گردی کی سر گرمیوں کے لئے رقوم پر پابندی اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی پر قابو پانے کیلئے نئے اقدامات پر کام کیا جائے گا۔ دفاعی تعاون مضبوط بنانے اور مشرقی وسطیٰ میں خطرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔علاقائی سطح پر ایک متحد اور مضبوط سلامتی کا ڈھانچہ وضع کیا جائے گا۔ سعودی عرب کی دہشتگرد تنظیموں سے نمٹنے کی کی کوششوں کا اعتراف کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ داعش مخالف اسلامی اتحاد اور بین الاقوامی اتحاد کے درمیان تعاون کو مضبوط بنایاجائے گا۔ ایران کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت سے خطے میںاور پوری دنیا کیلئے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔

                کئی دنوں سے مسلسل ایک ہی قسم کی خبروں نے اس بات کے واضح امکانات روشن کر دیئے ہیں کہ اب ایک نئی اسلامی جنگ کے شعلے پوری مسلم دنیا میں بھڑکاہی چاہتے ہیں۔ جس سے خطے کی صورت حال بہت ہی کشیدہ ہوجائے گی اور ہرجانب لہو ہی لہو بہہ رہا ہوگا لیکن اس لہو میں صرف اور صرف مسلمانوں کے خون کی ہی خوشبو ہوگی۔

                جس مشترکہ تعاون کی بات ہو رہی ہے اس کے پس پر دہ مقاصد کچھ اور ہی نظر آرہے ہیں اور ان مقاصد کو صدر ٹرمپ کی اپنی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی تقاریرکو سامنے رکھ کر خوب اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد بھی جن جن خیالات کا اظہار وہ کرتے رہے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک تھے جو انتخابی مہم کے دوران تھے۔ حالات کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ جن جن بہیمانہ عزائم کا صدر ٹرمپ اظہار کرتے رہے ہیں وہ انھیں کھنچی ہوئی لکیروں پر چل رہے ہیں۔ ایک جانب وہ یہود، نصاریٰ اور مسلم اتحاد کی اور ایک دوسرے کے ادب و احترام کی بات کررہے ہیں تو دوسرے جانب مسلمانوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کا پورا کا پورا منصوبہ بنا کر آئے ہیں ۔

                یاد رہے کہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں اسی لئے کامیاب ہوئے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کے خلاف بہت زہر اگلا ہے۔ اس سے یہ بات اظہر من الشّمس ہو گئی کہ وہ ملک جو اپنے آپ کو ہر قسم کے تعصب سے بالاتر سمجھتا ہے وہاں عصبیت اسی طرح بدرجہ اتم موجود ہے جس طرح ان ممالک میں جن کی بنیاد ہی لسانیت یا رنگ و نسل پر رکھی گئی ہو نیز امریکیوں کی تنگ نظری اور مسلمانوں سے نفرت کا بھی ثبوت ٹرمپ کی جیت میں مضمر ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امریکہ میں منتخب ہونے والے صدور اور ان کے وعدے وعید اس طرح کے کبھی نہیں ہوتے جس طرح پاکستان کے سیاسی رہبر و رہنما کیا کرتے ہیں جو آتے تو کچھ اور دعویٰ کرکے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد اپنے ہر وعدے اور دعوے سے پھر جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھ لینا کہ ٹرپ کی انتخابی مہم کے دوران کی گئی باتیں اور دعوے صرف انتخابی مہم کا حصہ تھے غلط ہوگا۔ وہ اپنے سارے دعوں کی تکمیل کرکے رہیں گے، مسلمانوں کو حتی المقدور نقصان پہنچا کر رہے گے اور مسلمانوں مسلمانوں کے درمیان اتنی خلیجیں پیدا کر دیں گے جن کا پٹنا اور پاٹنا ناممکن ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ اس کا آغاز کر چکے ہیں اور بڑی شیطانیت اور نہایت خاموشی کے ساتھ وہ مسلمانوں کی صفوں میں اپنی شیطانیت کا بیج بو چکے ہیں۔

                لگتا ہے صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کی نفسیات اور تاریخ کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انھیں معلوم ہوگیا ہے کہ بیشک مسلمانوں کو کتنے ہی گہرے زخم لگا دیئے جائیں لیکن لبوں کی ہلکی سی بھی مسکان اور ڈالروں کی سبک ہوا ان کے ساری شکایات دور کرکے زخموں کو مندمل کر دیا کرتی ہے۔

                میں اس بات پر حیران ہوں کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں امریکہ کو ہر سظح پر خوب برا بھلا کہا جارہاتھا۔ حکومت مخالف سیاسی پارٹیاں ہوں یا وہ جو کسی نہ کسی طرح حکومت میں شامل ہیں، سبھی امریکہ مخالف سرگرمیوں میں ملوث نظر آرہی تھے۔ ماضی میں یہی ساری پرٹیاں امریکی مفادات کے تحفظ میں پیش پیش بھی رہی ہیں لیکن یہ وہ دور تھا جب روس کو افغانستان سے دھکیلنے کی جد و جہد میں پاکستان اور پاکستانی عوام پیش پیش تھے۔ امریکہ اس وقت سب کو بہت خوبصورت نظر آرہا تھا لیکن جب امریکی مفادات نے پلٹا گھایا اور اس کی کوشش ہوئی کہ پاکستان اس جنگ سے امریکی شرائط پر باہر آجائے تو پاکستان میں ہر سظح پر امریکہ کی مخالفت شروع ہو گئی اور خاص طور سے وہ ساری اسلامی تحریکیں جو یا تو افغان جہاد میں براہ راست شریک تھیں یا ان کی حمایت کیا کرتی تھیں اور امریکہ دشمنی میں بہت آگے نکل گئیں تھیں، وہ ساری کی ساری امریکہ مخالف ہو گئیں۔۔۔ لیکن لگتا ہے ایک مرتبہ پھر وہی سب مذہبی گروہ، پارٹیاں اور جتھے دوبارہ سے امریکی دوستی کی جانب لوٹ رہے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت حالیہ صدر ٹرمپ کا دورہ سعوی عرب، جنگی معاہدے اور ایران مخالف عزائم ہیں جس کے سامنے آنے کے باوجود بھی کسی جانب سے امریکہ کے خلاف کوئی موثر آواز بلند ہوتی نظر نہیں آرہی۔

                پوری دنیا بالعموم اور اسلامی دنیا بالخصوص اس بات سے خوب آگاہ ہے کہ سعودی عرب میں بڑی برق رفتاری کے ساتھ معاشرتی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ خواتین کا پردہ اتارنے کی ہوا چل پڑی ہے، جوئے خانے کھلنے ہیں اور کچھ کا افتتاح بھی ہو چکا ہے، سینما ہال تعمیر کئے جانے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں، ورلڈ ریسلنگ والوں سے دس سالہ معاہدہ کے تحت مقابلوں کا آغاز ہوچکا ہے جس میں خواتین ریسلرز اپنی پوری برہنگی کے ساتھ اپنے اعضا کی نمائش کرتی دکھائی جا رہی ہیں جس سے سعودی عرب کے مردوزن خوب خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن سعودی عرب سمیت پوری مسلم امہ الفی پئے ہوئے ہے۔ حد یہ ہے کہ مذہبی گروہ اور جماعتیں تک سعودی حکومت کے اس فعل کریہہ کے خلاف آواز احتجاج بلند کرنے کیلئے تیار نہیں۔

                اس خاموشی کو کیا سمجھا جائے اور کیا نہ سمجھا جائے۔ یہ ایک بہت ہی درد ناک کہانی بنتی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اگر امریکہ ”سنی مسلمانوں“ سے کوئی معاہدہ کریگا اور وہ بھی ایسا معاہدہ جس میں غیر سنیوں کے خلاف قتل و غارت گری کا درس ہوگا تو امریکہ بہت خوبصورت اور اگر کسی مرحلے پر وہ پلٹ کر دوسرے پلڑے میں جاگرا تو شیطان۔ شاید یہ فلسفہ اس وقت بھی تھا جب افغان وار چھڑی ہوئی تھی اور حکومت سنیوں کی تھی اور اب کیونکہ افغانستان میں حکمرانی کسی اور کی ہے اس لئے امریکہ برا ہو گیا تھا لیکن امریکہ نے ایک بار پھر اپنے مفادات بدل لئے ہیں اس لئے اس کے خلاف پورے ملک میں خاموشی کا ایسا سکوت طاری ہے کہ کوئی سوئی بھی گرجائے تو آواز دور دور تک سنائی دے سکتی ہے۔

                جس قسم کے بیانات سامنے آرہے ہیں اس بات کا گمان یقین کی حد تک ہوچلا ہے کہ اب اس جنگ کی آگ اور اس کے شعلوں کو بھڑکنا ہی بھڑکنا ہے اور امریکہ اس ”اتحاد“ کے پورے منظر نامے میں صرف اور صرف ایندھن کا کردار ادا کریگا یعنی وہ مسلمانوں (سنی) کوہتھیار فراہم کرے گا بلکہ ہتھیاروں کے اتنے ڈھیر لگا دے گا کہ سعوی صحرا اور میدان اسلحوں سے پٹ جائیں کے اور صوتی اثرات کے طور پر جو آوازیں سنائی دے رہی ہونگی اس میں نمایاں آواز ”ڈو مور ڈومور“ کی ہوگی۔ بالکل اسی طرح وہ مخالفین کے ہاتھوں بھی اپنا گولہ بارود فروخت کرکے دونوں سے اپنی دولت میں اضافہ کررہا ہوگا اور وہاں بھی ڈو مور ڈو مور کی صداکاری ہو رہی ہوگی۔

                پاکستان نے دہشتگردوں کے خلاف اپنی پوری بری اور فضائی فور جھونک کر دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور پاکستان کی اس کوشش اور کاوش کو امریکہ سمیت دنیا کے بیشمار ممالک کی جانب سے سراہا گیا لیکن ہر تعریف کے ڈولنگر کے بعد بیک گراونڈ میوزک سے جو آواز سب سے بلند تر سنائی دے رہی ہے وہ یہی ”ڈو مور ڈومور“ کی آواز ہے اور اب عالم یہ ہے کہ جیسے پاکستان نے کچھ کیا ہی نہیں بلکہ بعید نہیں کہ پاکستان کو بھی نہ صرف دہشتگرد ملک قرار دے دیاجائے بلکہ ممکن ہے کہ اس کے خلاف بھی اسی پالیسی کا اعادہ کیا جائے جس پالیسی کو ایران کے خلاف اختیار کیا جارہا ہے۔

                یاد رہے کہ پاکستان ایک مسلم نیوکلیئر طاقت ہے اور پاکستان کا ہر شہری اتنا باشعور اور ذہین ہے کہ وہ دنیا کی اجلی اور میلی آنکھ کو خوب پہچانتا ہے۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ دنیا میں کون اس کا دوست ہے اور کون دشمن۔ دیگر اسلامی ملکوں کا تو عالم یہ ہے کہ ان کے پاس مضبوط دفاعی نظام تک نہیں اور سعودی عرب جیسا بے اندازہ وسائل رکھنے والا ملک بھی اپنی حفاظت کے لئے اپنا دفاعی نظام نہیں رکھتا اور یمن جیسے کمزور ملک سے بھی نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا چہ جائے کہ وہ ایران سے الجھ بیٹھے۔ اس لئے آنے والے دنوں میں ممکن ہے کہ امریکہ یا کوئی بھی اسلام اور مسلمان دشمن ملک پاکستان کی نیوکلیئر تنصیبات کو نشانہ بنا بیٹھے۔ پاکستان دشمن ممالک خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان حلوہ نہیں جس کو ہپ ہپ کر کے پیٹ میں اتارا جاسکتا ہے لہٰذا ان کی کوشش ہوگی کہ پہلے پاکستان کو دنیا میں تنہا کیا جائے اور پھر اندرونی بے چینی سے فائدہ اٹھاکر اس کو مزید کمزور کیا جائے۔ اس لئے ارباب حکومت و اختیار سے درخوست ہے کہ وہ ہر ہر بات کے ہر ہر پہلو کا جائزہ لیتے رہیں اور جو بھی قدم اٹھائیں وہ ملک کے مفادات کو اچھی طرح سامنے رکھ کر اٹھائیں ورنہ حالات کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں