ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۲)
یہ اس دنیا کی زندگی کا سب سے بڑا راہزن ہے؛ بلکہ وہ اس طویل راستے پر راہزنوں کا لیڈر اور انکا رہنما ہے،اس نے اس پر قسم کھائی ہے، اور بار بار کوشش کی ہے، بلکہ وہ اب تک ہر بنی آدم کے لئے اس کی کوشش کر رہا ہے، خواہ انکا کوئی بھی رنگ، شکل، زبان اور طبقہ ہو؛ تاکہ وہ انکے دلوں میں محفوظ ایمان چرا لے، وہ انکی پہلی پیدائش کے دن سے انکی پہلی فطرت چرانے کے لئے کوشاں ہے ۔۔ وہ چاہتا ہے کہ انکی اس فطرت کو مسخ کر ڈالے، تاکہ اسکا وجود تک باقی نہ رہے، یا وہ اسکی جگہ کچھ اور طریقہ اپنا لیں، یاوہ اسے بدل ڈالے، تاکہ وہ اور بنی آدم ایک ساتھ برابر ہو جائیں، وہ انکے بھلائی کے راستے کو کاٹتا ہے، جو سیدھا مالک الملک تک پہنچتا ہے، اس کی کوشش کچھ لوگوں کے ساتھ کامیاب ہو جاتی ہے اور کچھ کے مقابلے میں ناکام، لیکن وہ خود اس سفر کے اختتام پر پریشان حال اور مغلوب ہو گا، اس پر لعنت چسپاں ہو گی، اور وہ کھلے نقصان میں گھرا ہوا ہو گا، کیونکہ اسکے اندر تکبر تھا، اور ٹیڑھ اور گمراہی تھی اور وہ دھوکے باز تھا۔
تو کیا ہم پسند کریں گے کہ یہ ملعون ہمارا راستہ کاٹے، جبکہ ہم دنیا کی اس زندگی میں اﷲ عزوجل کی جانب چل رہے ہوں؟ اور کیا ہم اس راستے پر بلا کسی حفاظت اور بلا اسلحہ نکل کھڑے ہوں گے؟!
وہ جن لوگوں کا اغواء کرتا ہے، اسکی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتا، اور جوابدہی کے احساس سے نکلنا چاہتا ہے، اسکی اس گفتگو کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے: (وقال الشیطن لما قضی الامر ان اﷲ وعدکم وعد الحق ووعدتکم فاخلفتکم وما کان الا ان دعوتکم فاستجبکم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم ما انا بمصرخکم وما انتم بمصرخی انی کفرت بما اشرکتمونی من قبل ان الظالمین لھم عذاب الیم) (ابراہیم، ۲۲) (اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ’’حقیقت یہ ہے کہ اﷲ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں میں نہ تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھامیں اس سے بری الذمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لئے تو دردناک سزا یقینی ہے۔‘‘ )
اور تمہارا کیا حال ہو گا اے انسان جب تمہارے گھر کے راستے میں تمہیں ایک مکاردشمن مل جائے، اور تمہارے گھر جانے کا ہر راستہ بند کر دے، اور تمہارے لئے انتہائی سرکش اور عنادی اور لڑاکا دشمن بن جائے، اسکی ظاہری اور خفیہ فوج کا اتنا بڑا لشکر ہو کہ شمار بھی نہ ہو سکے، اسکے پاس دل کی تباہی کا ہر نوع اور ہر شکل کا اسلحہ ہو، اسکا لشکر طویل جنگ سے اکتاتا اور گھبراتا بھی نہ ہو، اور مسلسل استعمال کے باوجود اسکا اسلحہ کند نہ ہوتا ہو، اسے آپ سے پہلے موت بھی نہ آئے گی، کہ آپ کو اس سے سکون مل جائے ۔۔ اسکے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی، اور نہ ہی وہ تعریف سے متاثر ہوتا ہے، نہ آپ کرم سے اسے مسحور کر سکتے ہیں، نہ باتوں سے نرم کر سکتے ہیں، نہ ملامت سے اسے جھکا سکتے ہیں، نہ صلح پر مجبور کر سکتے ہیں ۔۔ کیا آپ کسی کشمکش کے بغیر ہی اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے، یا بڑے چوکنا ہو کر اسکی بات سنیں گے؟؟
اور کیا ہو گا اگر اس نے آپ کو آپکے گھر ہی میں داخل ہونے سے روک دیا، اور آپ کو اس سے روکنے کے لئے مکمل اصرار کیا، ایسے میں کیا آپ کے لئے مناسب نہ ہو گا کہ بادشاہوں کے بادشاہ سے مدد حاصل کر لیں، اور اس پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے اسکی پناہ میں آجائیں، پھر پوری قوت اور پورا زور لگا دیں اور طویل کشمکش کے بعد آخر کار اپنے گھر میں داخل ہو جائیں، خواہ اس کو روکنے میں کتنی ہی مشقت اور محنت کیوں نہ لگانی پڑے، آپ نے صبر بھی کیا اور جمے بھی رہے، جہدِ مسلسل جاری رکھی، آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ پیدا ہوئی، آپ نے اپنے جہاد پر پوری توجہ مرکوز رکھی، حتی کہ آپ نے اپنی مراد پا لی۔
اور اس ساری قوت کے باوجود، آپ جب تک مومن ہیں وہ آپ کے سامنے کمزور ہے، جب تک آپ مجاہدہ کرتے رہتے ہیں وہ آپ سے ڈرتا رہتا ہے، اور جب تک اس جنگ میں آپ اﷲ سے مدد حاصل کرتے رہتے ہیں وہ شکست خوردہ رہتا ہے، کیونکہ اس نے اس بادشاہِ عظیم کی نافرمانی کی ہے، اور اس قوی اور غالب عزوجل کے اطاعت سے فاسقانہ انداز میں نکل گیا ہے۔
اسکی چالیں کمزور ہیں:
اے انسان تو اس سے لڑائی میں متردد مت ہونا، اسکے سامنے تن کر کھڑا ہو جا، اور اسکی طاقت سے خوفزدہ نہ ہونا، وہ جتنی مرضی طاقت حاصل کر لے، حقیقت میں وہ کمزور ہی رہے گا، جتنا مرضی بلند ہو جائے، نامراد ہی رہے گا، اور کامیاب بھی ہو جائے تو شکست خوردہ ہی رہے گا ۔۔ کیونکہ یہ قوت اسکے مقرب دوستوں کی طرف نہیں پلٹتی، جو اسکی سچی بادشاہت سے نکل گئے ہیں، اور اسکے حکم سے باہر ہیں، اس دشمن کی حکمرانی تو صرف ان دلوں پر ہے، جن کو وہ دھوکہ دیتا ہے، اور وہ اسے اﷲ کو چھوڑ کر اپنا ولی بنا لیتے ہیں، اور اسکے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ انکے لئے خائن ہی ہے، اگرچہ وہ ان پر اپنی خیرخواہی اور ذہانت ثابت کرتا رہتا ہے، اور جب بھی اپنی محبت اور دوستی کا اظہار کرتا ہے تو فراڈ ہی کرتا ہے، کیونکہ اسکی قوت بھی دھوکہ ہے، اسکے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اور اسکے اولیاء اور دوستوں پر جب بھی اس کی قلعی کھلتی ہے وہ جان لیتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں کتنی خیانت کرتا رہا، تو وہ اس سے دور ہٹ جاتے ہیں، وہ نہ اسکے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور نہ اسکی نصیحت قبول کرتے ہیں، وہ اسی لمحے رشد اور صواب کی جانب پلٹ جاتے ہیں، اور اپنا معاملہ اپنے آقا اور اپنی زندگیوں کے مالک سے درست کر لیتے ہیں، جو انکا حقیقی مالک اور رب ذو الجلال والاکرام ہے؛ تاکہ وہ اسکی حفاظت میں عزت اور امن کی زندگی بسر کریں۔
اس دشمن کی قوت اس لحاظ سے بھی کمزور ہے کیونکہ انسانوں ہی کی ایک صنف قلبی طور پر اس سے زیادہ قوی ہے، وہ اس سے بڑے جنگجو ہیں، اسکے چالیں ان پر اثر نہیں کرتیں، وہ نہ اسکی ترغیبات سے متاثر ہوتے ہیں نہ اسکی مکاریوں کے جال میں پھنستے ہیں، بلکہ اسکی مکاریوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، اور اسکی چالوں کا بھید کھول دیتے ہیں، اور اسکی ٹیڑھ کا اظہار کر دیتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کے سامنے اسکے جھوٹ اور مکر کا پول کھول دیتے ہیں۔
اﷲ تعالی نے ہمیں شیطان مردود سے بچنے کی تعلیم دی ہے، اور قرآن پاک میں کئی جگہ اسکا ذکر اسکی تعظیم کے لئے نہیں کیا، بلکہ اس سے چوکنا کرنے کے لئے کیا ہے، پس ابلیس کا ذکر (۱۱) گیارہ مقامات پر کیا گیا، اور شیطان (واحد) کا ذکر (۶۳) تریسٹھ مرتبہ کیا، اور شیاطین (جمع) کا ذکر (۱۳) تیرہ مرتبہ کیا ۔۔ اور یہ انسان اور اسکے اس دشمن کے تعلقات کی اہمیت کی دلیل ہے ، جو انسان کی پیدائش سے لیکر اسکی زندگی کے آخری لمحے یعنی موت تک مسلسل اس سے دشمنی کرتا ہے، اور اسے اﷲ کے راستے سے روکنے کے لئے سرگرم رہتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: بنی آدم کا جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے اسکی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان اسے چھو لیتا ہے، پس وہ شیطان کے چھونے سے چلانے لگتا ہے، سوائے مریم اور انکے بیٹے کے‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے)۔ اور مزید فرمایا: ’’شیطان کہتا ہے: اے رب تیری عزت کی قسم، میں تیرے بندوں کو اسوقت تک گمراہ کرتا رہوں گا، جب تک انکے جسموں میں روحیں موجود ہیں ۔۔ ‘‘۔(اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے درست کیا)۔ اور حسن بصری سے سوال کیا گیا: کیا ابلیس سوتا بھی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر سوتا تو ہمیں راحت مل جاتی۔
ہمارے اور شیطان کے درمیان معرکے کی ابتدا اسوقت ہوئی جب ہمارے باپ آدم ؑ کو تخلیق کیا گیا، اور ابلیس نے ان سے جنگ کا اعلان کیا، اور اسے فیصلے کے دن تک بلا توقف ہرقیمت پر مستقل جاری رکھنے پر اصرار کیا، اور اسے ذرا حیا نہ آئی جب اس نے اپنے عزوجل رب کی نافرمانی کی، اور انکار اور تکبر کیا، اور اسکے حکم سے روگردانی کی ۔۔ وہیں اﷲ نے اپنے بندے آدم کو اس دشمن سے چوکنا کر دیا تھا، اور اس سے فرمایا تھا: (فقلنا یا آدم ان ھذا عدو لک ولزوجک فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی) (طہ، ۱۱۷) (ہم نے آدم سے کہا کہ ’’دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔)
لیکن یہ دشمن دھوکے، بددیانتی، جھوٹ اور غلط بیانی سے لیس ہو کر آدم کے سامنے آیا، اور ان سے مکاری کی، حتی کہ انہیں اور انکی بیوی کو جنت سے نکلوا دیا، اور انکے ساتھ ہی نیچے اترا، اور اولادِ آدم کے ساتھ اس کا قبیح کردار شروع ہو گیا، تاکہ قیمت کی گھڑی کے آنے تک انکو تختہء مشق بناتا رہے، وہ مسلسل اپنے مشن پر رہتا ہے اگرچہ اسکے اغوا اور دھوکے کے انداز بدلتے رہتے ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی ابتلاء اور امتحان کے طریقے بدل گئے ہیں ۔۔ پس ہمیں ایمان کی حقیقی زرہ پہن لینی چاہیے، اور اطاعت کو بھی دوگنا کر دینا چاہیے، اور دائمی عبادات سے قوت حاصل کرنی چاہیے تاکہ اﷲشروع میں ہی اسکی چال کو اسی پر لوٹا دے، اور اسکا راستہ بند ہو جائے۔
اقدامات اور مراتب:
شیطان انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے، اور اسوقت تک سائے کی طرح اس کا تعاقب کرتا رہتا ہے جب تک وہ اسکی پارٹی میں شامل نہ ہو جائے، اور اسکا طریقہ بڑا آسان ہے، وہ ایک ایک قدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، حتی کہ اسکا ہدف پورا ہو جائے۔ اس کو امام غزالی اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’شیطان ابنِ آدم کے پاس اسکے گناہوں کی جانب سے آتا ہے، پھر اگر وہ رک جائے تو وہ خیرخواہی کی جانب سے اس کے پاس آتا ہے، اور اسے بدعت میں ڈال دیتا ہے، اگر وہ اس سے بھی انکار کردے تو وہ اسے رکنے کا حکم دے دیتا ہے تاکہ وہ پوری شدت سے ان چیزوں کو حرام بنا لے جو حرام نہیں ہیں، اگر وہ اس سے بھی انکار کر دے تو وہ اسے اسکے وضو اور نماز میں شک میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ وہ علم سے نکل جائے، اگر وہ اس سے بھی انکار کر دے تو وہ اسکے لئے نیکیاں کرنا آسان کر دیتا ہے تاکہ لوگ اسے دیکھیں کہ وہ کتنا صابر اور بچنے والا ہے، پس وہ بھی لوگوں کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے، اور اسے خود بھی (اپنے یہ اعمال) اچھے لگتے ہیں، اور وہ انہیں کے ذریعے اسے ہلاک کر دیتا ہے‘‘۔
اور شیطان مختلف مراتب میں ایک کے بعد دوسرا وار کر کے (انسانوں کا) اغوا کرتا ہے، اگر انسان اسے کسی ایک میں عاجز کر دے تو وہ اس سے نچلے پر آجاتا ہے، اور ابنِ القیم ۔ رحمہ اﷲ ۔نے اسے چھ مراتب میں تقسیم کیا ہے:
پہلا : کفر اور شرک اور اﷲ اور اسکے رسول کی برابری۔
دوسرا: بدعت، اور یہ اسے فسق اور معاصی سے بھی زیادہ پسند ہے؛ کیونکہ اسکا دین کو ایسا ہی نقصان ہے جیسا کسی چھوتی مرض سے ہوتا ہے۔
تیسرا: ہر طرح کے کبائر۔
چوتھا: صغیرہ گناہ جو اگر جمع ہو جائیں تو انکا ارتکاب کرنے والا ہلاکت میں پڑ سکتا ہے۔
پانچواں: بندے کا ایسے مباح کاموں میں مشغول رہنا جن میں نہ کوئی سزا ہے نہ جزا، بلکہ انجام کار ثواب کا ضیاع ہے جو وہ کسی اور کام میں مشغول ہو کر حاصل کر سکتا تھا۔
چھٹا: یہ کہ اسے بڑے درجے کی نیکی سے ہٹا کر کم فضیلت کی نیکی میں لگا دے۔
اور اگر وہ انسان کو ان چھ مراتب میں بھٹکانے سے عاجز آجائے تو وہ اس پر جن و انس کے شیطانی گروہ مسلط کر دیتا ہے، جو اسے مختلف اذیت میں مبتلا کرتے ہیں، اور اسکی تکفیر اور تضلیل کرتے ہیں۔
اﷲ تعالی نے ہمیں ان سب سے ڈرایا ہے، پس فرمایا: (یا ایھا الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان فانہ یامر بالفحشاء والمنکر ولو لا فضل اﷲ علیکم ورحمتہ ما زکی منکم من احد ابداً ولکن اﷲ یزکی من یشاء واﷲ سمیع علیم) (النور، ۲۱) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، اسکی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اﷲ کا فضل اور اسکا رحم وکرم نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہو سکتا، مگر اﷲ ہی جسے چاہتا ہے، پاک کر دیتا ہے اور اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔)
اور اﷲ کی ہر نافرمانی شیطان کی پیروی سے عبارت ہے، جو وہ شہوات اور شبہات سے بھرے راستے پر قدم اٹھاتا ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے، اور یہ اسکے اقدامات کی طرح متنوع اور کثرت سے ہیں، ان میں بعض یہ ہیں:
نافرمانوں کی نگاہوں میں باطل کو مزین بنا کر پیش کرنا: وہ اﷲ عزوجل سے کہتاہے: (قال رب بما اغویتنی لازینن لھم فی الارض ولاغوینھم اجمعین) (الحجر، ۳۹) (بولا ’’میرے رب جیسا تو نے مجھے بہکایااسی طرح اب میں زمین میں انکے لئے دل فریبیاں پیدا کر کے ان سب کو بہکا دوں گا)۔ یعنی پہلے (برے اعمال کو) زینت دینا، پھر اغواء۔
بچاؤ کے منصوبے:
حدیثِ قدسی میں آیا ہے: ’’۔۔ اور میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا تھا، شیاطین انکے پاس آتے ہیں اور انہیں انکے دین کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیتے ہیں، اور جو میں نے انکے لئے حلال کیا ہے اسے حرام ٹھہرا دیتے ہیں، اور انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ ان کو شریک ٹھہرائیں، جن کے بارے میں میں نے کوئی سند نازل نہیں کی‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
جب آپ کو معلوم ہو گیا کہ شیطان آپ کا اولین دشمن ہے، جب سے آپ کے باپ آدم کی تخلیق ہوئی، اور وہ عمل کرنے والے انسانوں کا راہزنی کا لیڈر ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسکے مقابلے سے فرار مت حاصل کریں، آپ پر لازم ہے کہ آپ اسکے منصوبوں سے آگاہ ہوں، تاکہ اسکے منصوبے چوپٹ کر سکیں، اور اسکے داخل ہونے کے دروازوں سے آگاہ ہوں تاکہ وہ آپ کے دل کی دیوار میں شگاف نہ ڈال سکے، اور نہ آپ کی روح کی دیوار کو پاٹ سکے، اس لئے بندگی کا پہلے سے علم ہونا چاہیے، اور اس پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔
پھر جب آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ کے راستے میں کھڑا ہو کر آپکا راستہ کاٹے گا، اور جہالت کے دروازے سے آپ تک پہنچے گا تو آپ بلا تردد اسے علم کے دروازے سے بند کر دیں، اور تمام راہگزر پر آپ اسی طرح اسکے لئے ایک ایک دروازہ بند کرتے چلے جائیں، تو اسکے لئے تمام داخلی دروازے بند ہو جائیں گے، اور آپ ان سے اس کے برعکس چیزوں کا دفاع کریں گے؛ پس آپ غصّے کام دفاع تحمل اور اسکے اسباب سے کیجئے، او رتکبر کا دفاع عاجزی اور کندھے جھکا کر کیجئے، اور حبِ دنیا کا زہد، قناعت سے، لمبی آرزؤوں کا موت کی یاد سے، حرص کا عطا اور بخشش سے، بخل کا انفاق اور کرم سے، ریا کا اخلاص سے، جزع اور بے صبری کا صبر سے اور اسی طرح دوسرے تمام احوال کا دفاع انکے برعکس سے کیجئے ۔۔ اور یہ کام آپ سے شدید حفاظت، مکمل بیداری اور اﷲ سے استعانت کا مطالبہ کرتے ہیں: (وقل رب اعوذبک من ھمزات الشیاطین ۰ واعوذبک رب ان یحضرون ۰)(المومنون، ۹۷۔۹۸)(اور دعا کرو ’’پروردگار میں شیطان کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں‘‘)
قرآنِ کریم کی تنبیہات:
قرآن کریم میں شیطان کے کئی اخلاق اور اعمال کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا:
۔کبر، حسد، خوش پسندی اور جھوٹ ۔۔
(قال انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین) (ص،۶ ۷) (اس نے کہا، ’’میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے‘‘)
(یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطان الا غروراً) (النساء، ۱۲۰) (وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے، اور انہیں امیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے کچھ نہیں ہیں۔)
۔ انسان دشمنی اور اسکی گمراہی ۔۔
(ان الشیطان لکم عدو مبین) (یوسف، ۵) (حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔)
(ویرید الشیطان ان یضلھم ضلالا بعیداً) (النساء، ۶۰) (شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔۔)
۔خوف دلانا اور معصیت کا حکم دینا ۔۔
(انما ذلکم الشیطان یخوف اولیاء ہ فلا تخافوھم وخافون ان کنتم مومنین) (آل عمران، ۱۷۵) (اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا، جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا زہا تھا، لہذا تم آئندہ سے انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو۔)
(الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء واﷲ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلاً واﷲ واسع علیم) (البقرۃ، ۲۶۸) (شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے، اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اﷲ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امیددلاتا ہے۔)
۔ دشمنی بھڑکانا ۔۔
(وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطان کان للانسان عدواً مبیناً) (الاسراء، ۵۳) (اور اے نبیؐ ؐ، میرے بندوں یعنی مومن بندوں سے کہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو، دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوو شش کرتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔)
۔ ستر پر حملہ ۔۔
(یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ ینزع عنھما لباسھما لیریھما سوء اتھما) (الاعراف، ۲۷) (اے اولادِ آدم، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اس طرح قتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا اور انکے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے تاکہ انکی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے۔)
۔ اﷲ کی تخلیق میں تغییر کا حکم ۔۔
(ولاضلنھم ولامنینھم ولآمرنھم فلیبتکن آذان الانعام ولآمرنھم فلیغیرن خلق اﷲ ومن یتخذ الشیطان ولیاً من دون اﷲ فقد خسر خسراناً مبیناً) (النساء، ۱۱۹) (میں انہیں بہکاؤں گا، میں انہیں آرزؤوں میں الجھاؤں گا، میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے، اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رد وبدل کریں گے، ’’اس شیطان کو جس نے اﷲ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنا لیا وہ صریح نقصان میں پڑ گیا۔)
۔ اﷲ کے ذکر سے روکنا ۔۔
(انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اﷲ وعن الصلاۃ فھل انتم منتہون) (المائدہ، ۹۱) (شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے، اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے، پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟)
نبی اکرم ﷺ کی تحذیرات:
’’شیطان ابنِ آدم (کے جسم) میں خون کی طرح گردش کرتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ ’’غصّہ شیطان سے ہے‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔ ’’بے شک شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ کہ نمازی اسکی بندگی کریں، لیکن انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑانے سے (مایوس نہیں ہوا)‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا)۔ ’’شیطان ابنِ آدم سے مستعار لیتا ہے، اور بادشاہت سے مستعار لیتا ہے، پس شیطان جو کچھ مستعار لیتا ہے، اس کے ذریعے شر سے دھمکاتا ہے، اور حق کی تکذیب کرتا ہے‘‘ (ترمذی نے اسے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے صحیح قرار دیا)۔ ’’شیطان ایک اور دو کو قلق میں مبتلا کرتا ہے، اور جب وہ تین ہوں تو انہیں قلق میں مبتلا نہیں کر سکتا‘‘ (اسے براز نے روایت کیا، اور سیوطی نے صحیح قرار دیا)۔ ’’شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے، وہ دور رہنے والی اور کنارہ اختیار کرنے والی بھیڑ کا شکار کر لیتا ہے، پس بچو اور گروہ میں رہو، اور تم پر لازم ہے جماعت اختیار کرنا، عام لوگوں میں رہنا اور مسجد (میں جانا)‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا)۔’’شیطان تم میں سے ہر ایک کے پاس ہر چیز کے وقت موجود ہوتا ہے، حتی کہ وہ اسکے کھانے کے وقت بھی اسکے پاس ہوتا ہے‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔ ’’شیطان تم میں سے کسی کے پاس نماز میں موجود ہوتا ہے، تو وہ اسے شک میں ڈال دیتا ہے، حتی کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی (رکعتیں) پڑھی ہیں‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے، اور سیوطی نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
شیطان سے بچاؤ:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’کہو: اللھم فاطر السموات والارض، عالم الغیب والشھادۃ، رب کل شیء وملیکہ، اشھد ان لا الہ الاانت، اعوذبک من شر نفسی، ومن شر الشیطان، وشرکہ، قلھا اذا اصبحت، واذا امسیت، واذا اخذت مضجعک‘‘ (احمد نے اسے روایت کیا، اور سیوطی نے اسے صحیح قرار دیا)۔(اے اﷲ آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، غیب اور موجود کے جاننے والے، ہر چیز کے رب اور مالک، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، اور شیطان کے شر سے، اور اسکے شریکوں کے، اسے پڑھو صبح کے وقت اور شام کے وقت، اور اسوقت جب تم اپنے بستر پر لیٹو)۔
اور فرمایا: ’’جس نے کہا: لا الہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شیء قدیر فی یوم مءۃ مرۃ ، کانت لہ عدل عشر رقاب، وکتبت لہ مءۃ حسنۃ، ومحیت عنہ ماءۃ سیءۃ، وکانت لہ حرزاً من الشیطان یومہ ذلک حتی یمسی، ولم یأت احد بافضل مما جاء بہ الا رجل عمل اکثر منہ‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا)۔ (اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے، اور حمد اسی کے لئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، جس نے یہ ایک دن میں سو مرتبہ پڑھا ، اسے دس گردنیں چھڑانے کے برابر اجر ملے گا، اور اسکے لئے سو نیکیاں لکی جائیں گی، اور اسکی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی، اور وہ اس دن اسے شیطان سے بچانے کے لئے کافی ہو جائے گا، چتی کہ شام ہو جائے، اور اس سے افضل کوئی چیز نہیں جو آدمی کو اس سے زیادہ دلا سکے‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا)۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
بہت اہم یاد دہانی — شیطان کی چالیں اور ان سے بچا و کی تدابیر
احسن انداز میں سمجھائ گئ ہیں
بہت ھی بہترین مضمون اسان وسہل انداز میں لکھا گیا ھے ۔۔ڈاکٹر صاحبہ کی بہترین کاوش ھے۔۔۔اللہ ھم شطان کا ہر مقام پر بہترین مقابلہ کرنے والے ثابت ھوں۔اور قخرت میں سرخرو ھو جائیں۔۔۔اس تھریر کا یہ ھی کل حا صل ھو گا۔ان شاء اللہ
۔۔جزاک اللہ