” مزدور کی زندگی “

کچی دیواریں، کمزور بنیادیں، چھت سے ٹپکتا پانی، امیروں کی بستی میں، بڑے لوگوں کے محلات کے درمیان، دو کمروں پر محیط چھوٹی چار دیواری والا گھر ،مگر آج اس گھر میں رونق لگی ہے، غریبوں کے مکان چھوٹے مگر دل بہت بڑے ہوتے ہیں، ہر دکھ درد تکلیف کو برداشت کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے ملنے پر بھی اپنے رب کے شکر گزار ہوتے ہیں، اور آج تو خوشی کا دن ویسے بھی تھا، غریب مزدور” اللہ بخش” اپنی بیٹی کو رخصت جو کررہا تھا، بیٹی کی ذمہ داری کا فرض خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہوئے وہ اپنے رب کا شکر گزار بھی تھا، اس نے محلے میں رہنے والے بڑے لوگوں کو مدعو بھی کیا تھا، مگر کوئی نہ آیا، اور آتے بھی کیوں چھوٹے لوگوں کی خوشیوں میں، چھوٹے مکانوں میں، ان کو عادت ہی بڑی چیزوں کی ہوتی ہے، اللہ بخش ایک صندوق پر محیط اپنی بیٹی کو جہیز دے کر رخصت کررہا تھا، وہ جس محلے میں رہتا تھا، اس نے کئی بار دیکھا تھا، لوگ ہزاروں روپے تو صرف آتشبازی پر خرچ کرتے ہیں، پھر بناؤ سنگھار، کپڑوں کی نمائش اور دیگر کے تو الگ اخراجات ہوتے ہیں، وہ بیٹی کو رخصت کرکے رات کو سوگیا تھا، کل 1 مئی تھا، لیکن اسے کام پر جانا تھا، وہ فجر کے بعد ہی رزق حلال کی تلاش میں نکل گیا، جبکے اس کی گلی میں رہنے والے تمام لوگ 1 مئی عالمی یومِ مزدور کی مناسبت سے چھٹی کے مزے اڑا رہے تھے، لوگ دوپہر 12 بجے سو کر اٹھے، سوشل میڈیا آن کیا، اور مزدوروں کی محبت میں پوسٹ لگانا شروع کردیں اشعار، اقوال، تصاویر، غرض مزدوروں کے حوالے سے ہر چیز پوسٹ کرکے مزدوروں سے اظہارِ یکجہتی کیا،
ایک شخص نے پوسٹ لگائی ،
پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی ،
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں،
جبکہ ان کے محلے میں رہنے والا غریب مزدور اللہ بخش تپتی دوپہر میں سڑک پر گڑھا کھودنے میں مصروف تھا کیونکہ اسے اپنے گھر والوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا تھا۔۔!

حصہ

جواب چھوڑ دیں