راہزن

ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۱)
جب اﷲ تعالی نے انسان کو تخلیق کیا، تو اسے عزت بخشی ، اورفرشتوں نے اسے سجدہ کیا، اور اسے خیر اور شر کا راستہ دکھا دیا، او ر عظیم مقصدِ تخلیق پورا کرنے کے لئے جن وسائل اور سہولیات کی اسے ضرورت تھی وہ بھی عطا کر دیے، اور اس پر اپنی نعمت کے اظہار کے بعد فرمایا: (الم نجعل لہ عینین ۰ ولسانا وّشفتین ۰ وھدیناہ النجدین) (البلد ۸ ۔ ۱۰) (کیا ہم نے اسے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے، اور (نیکی اور بدی کے) دو نمایاں راستے اسے (نہیں) دکھا دیے؟)
اور اسے سیدھا راستہ اختیار کرنے اور اس پر ثبات کی تعلیم دی، اور فرمایا: (وان ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ذلکم وصّاکم بہ لعلکم تتقون) ( الانعام، ۱۵۳) (اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلوکہ وہ اسکے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کجروی سے بچو۔)
یہ اسوجہ سے کہ یہی وہ راستہ ہے جو اسے اسکی امیدوں اور آرزؤوں تک پہنچانے کا ضامن ہے، اور وہ بحیثیت انسان اسکی کرامت اور عزت کی بھی حفاظت کرتا ہے، اور وہ اسکے معتبر ارادے، آزاد مرضی اور سوچنے والے دماغ اور باخبر دل کا نگران ہے۔
تو کیا جب انسان اسلام قبول کرتا ہے تو وہ پورے اطمینان کے ساتھ سیدھے راستے پر گامزن رہتا ہے، حتی کہ انجام تک پہنچ جاتا ہے، یا یہاں ایسی قوتیں بھی ہیں جو زیادتی اور حسد کے ساتھ اسکا راستہ کاٹنا چاہتی ہیں، یا اسے دھوکے میں ڈال کر اور فتنے میں مبتلا کر کے، یا کبر و غرور میں ڈال کر اسکی منزل کھوٹی کرنا چاہتی ہیں؟! گویا کہ میں اس راستے پر چلنا شروع کرتا ہوں تو کتنے ہی راہزن راہ میں کھڑے ہیں، جن کے فتنوں کے کتنے ہی نام ہیں، اور انکی کتنی ہی متنوع شکلیں ہیں، انہوں نے خود کو کتنے خوش کن لبادوں میں لپیٹ رکھا ہے، اور دھوکے کے لئے کتنے خوبصورت روپ اختیار کر رکھے ہیں، انکی پرکشش اور مدہوش کن خوشبوپھیل رہی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر غلاف چڑھا رہے،اور وہ انکے اندر فساد پھیلا رہے ہیں، انکا ہدف اﷲ کی بندگی کرنے والے افراد ہیں، تاکہ وہ ان کے درمیان خلیج پیدا کر کے انہیں غلط فہمیوں اور شبہات میں مبتلا کریں، انکے دین میں اشکالات پیدا کریں، اور انہیں اس راہ سے روک دیں۔
اسی لئے جو اﷲ کے سیدے راستے پر چل رہا ہو، اسے ثابت قدمی اختیار کرنی چاہیے، اور کسی راہزن کے قبضے میں پہنچنے سے چوکنا رہنا چاہیے، کیونکہ ایسے راہزن گھات میں بیٹھے رہتے ہیں، تاکہ اسکا راستہ کاٹیں، اور وہ عمل سے باز آجائے، یا وہ اسے واپس پلٹا لائیں، اور اتنی محنت اور اتنا راستہ طے کرنے کے بعد وہ اسے دوبارہ پہلی جگہ پر پہنچا دیں ۔۔اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسکے راستے میں مکاروں کی سازشیں ہیں، اور مایوسی پھیلانے والوں کا گمراہ کن پروپیگنڈا ہے، اس جدوجہد میں شریک افراد کے لئے مختلف چیلنجز ہیں، تاکہ انکی جدوجہد محدود رہے، اور انکی طاقت دفاع، بچاؤ، روکنے اور قدم مضبوط کرنے میں لگی رہے، اور وہ اس سے رک جائیں، اور انکی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں، اگر وہ احتیاط برتیں تو وہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے، وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھ کر کوشش کریں گے کہ لوگوں کو حسنِ عمل سے دور کر دیں، اور قبیح اعمال مزین بنا کر انکے سامنے پیش کریں، اگر وہ ایک لمحے کے لئے بھی غافل ہوئے تو وہ ان سے اعلی اور قیمتی اور چوٹی کے ا عمال چھین لیں گے جو وہ راہِ جہاد اور ان کے شر سے بچنے کے لئے کر رہے ہیں ۔۔ کیا ہم نے کہا نہیں کہ یہ چور ہیں، جوفساد مچا کر ان سے خیر چرانا چاہتے ہیں، اور حق کی صورت کو مبہم بنا کر ان کے سامنے گمراہی بکھیرنا چاہتے ہیں، وہ جھوٹی امیدیں دلاتے ہیں،اور چاہتے ہیں کہ کم از کم وہ تاخیری حربے ہی اپنانا شروع کر دے، اور وہ پیچھے کی جانب سفر شروع کر دے، وہ مکارانہ انداز میں انتظار کرواتے ہیں، تاکہ موقع پا کر اسے نیچے گرا دیں، اور اس پر چڑھ دوڑیں، اور اگر ممکن ہو تو اسکا خاتمہ کر دیں، وہ جھوٹ کہتے ہیں کہ وہ یہ سب نصیحت کے طور پر حسنِ نیت کے ساتھ کہہ رہے ہیں،اور وہ بڑی دیدہ دلیری اور اصرار کے ساتھ بہتان لگاتے ہیں، اور خوش نصیب ہیں جنہیں انکے خلاف اﷲ کی مدد مل جائے، اور وہ بھاگ اٹھیں، لیکن آپ لوگوں کو انکی پکڑ اور انکے شر سے چوکنا کرتے رہیں، تاکہ وہ اور انکی ذریت ان سے محفوظ رہیں، وہ سب بچ جائیں، اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ٹھہریں۔
انسان کی نجات حاصل کرنے کی حرص:
اﷲ تعالی نے ہر انسان کی جبلت میں رکھا ہے کہ وہ اپنی نجات کا حریص ہے، اگرچہ اس خواہش کی صورت اور اسکی مقدار مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے، اور نجات کی راہیں بھی متنوع ہیں، اسکی متعدد شکلیں ہیں، ان میں سے بعض ایجابی شکل اختیار کرتے ہیں اور بعض سلبی، لیکن ہر ایک یہی گمان کرتا ہے کہ یہ کوشش اسے ساحلِ امان اور نجات تک لے جائے گی۔۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی میں انکی نجات بس دنیا کی زندگی ہی کی کامیابی ہے؛ وہ آخرت کے بارے میں نہیں سوچتے، وہاں نہ انکو ثواب کی امید ہے نہ عذاب کی، یہ وہ لوگ ہیں جو اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے، اور نہ آخرت پر کسی قسم کا ایمان رکھتے ہیں ۔۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ جن چیزوں کو اپنے علم کی بنا پر ضرر رساں سمجھتے ہیں ان سے دور رہتے ہیں، اور جو انکی خواہشات کے مطابق ہوتا ہے اسکے لئے پریشان ہوتے ہیں، اگرچہ وہ انکے لئے مناسب نہ ہو، وہ ہر خواہش اور شہوت کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ یہی نجات کی صورت ہے، کلی نجات کی۔
رہے اﷲ کے نیک بندے، جو حقیقت میں اﷲ پر ایمان رکھتے ہیں، اور اسکے رب ہونے پر راضی ہیں، تو ایسے سب لوگ نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں پختہ راہوں پر چلتے ہیں جو انکے رب کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں، اگرچہ ان پر چلتے ہوئے انہیں تھکاوٹ لاحق ہو، یا مشقت اور جانفشانی کرنی پڑے، وہ جانتے ہیں کہ یہاں جگہ جگہ چور اور اٹھائی گیر اور راہزن بیٹھے ہیں، جو لوگوں کو خیر کی راہوں سے روکتے ہیں، اور ان راستوں سے منع کرتے ہیں، بعض اوقات تو ایسے لوگ آپ کے انتہائی قریب ہوتے ہیں، بالکل ایسے جیسے پہلو میں بیٹھا ہوا ساتھی، مگر وہ آپ کے کٹڑ دشمن بن جاتے ہیں، تاکہ آپ اﷲ کے راستے پر محنت نہ کر سکیں، اگر آپ انکے لئے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں، تو ذرا دیر نہ گزرے گی کہ وہ آپ کو قول و فعل اور اخلاق کے لحاظ سے نفسِ امارہ کے حوالے کر دیں گے، پھر اور بہت سے دشمن آپ کو اچک لیں گے، جن کے ذریعے شیطان مردود فحش اور منکر کا حکم دیتا ہے، اور دنیا کو اثر انداز فتنے کے روپ میں پیش کرتا ہے، پھر نہ کوئی مقصد رہتا ہے نہ وسیلہ، اور گمراہ کن خواہشات اسے اپنا پیروکار بنا لیتی ہیں، اور حکم دیتی اور منع کرتی ہیں، تاکہ وہ سب مل کر راہزنوں کا ایک گروہ بن جائیں، جو اعلانیہ اور خفیہ طور پر کام کرتے رہیں، اور کھلے اور چھپے منصوبے بناتے رہیں ۔۔ پس اسی لئے اﷲکے خالص بندے چوکنے رہتے ہیں، اور ان راہزنوں کی حرکات کا بڑے غور سے جائزہ لیتے ہیں، اور انکی گھات سے باہر انتظار کرتے ہیں، اور اﷲ سے استعانت طلب کرتے ہیں، پس راہزنوں کو ان پر دست درازی کا موقع نہیں ملتا، انکے لئے اﷲ تعالی کا فرمان انکے دشمنِ اول کے بارے میں کافی ہے، جو ۔ شیطان الرجیم ۔ ہے: ۔ (ان عبادی لیس لک علیھم سلطان وکفی بربک وکیلا) (الاسراء، ۶۵) (یقیناً میرے بندوں پر تجھے کوئی اختیار حاصل نہ ہو گا، اور توکل کے لئے تیرا رب کافی ہے۔) پس آپس میں اس چالاک دشمن کے خلاف ایک دوسرے کو جہاد کی نصیحت کرو، جبکہ وہ اپنے گروپ کا لیڈر ہے! اور اسکی شکایت اسکے رب اور مالک سے کرو تاکہ وہ ان سب سے اپنا عذاب ٹال دے، سلف میں سے کسی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے شاگرد سے پوچھا: ’’جب تمہیں شیطان خطاؤں کے لئے دھوکے میں ڈالتا ہے تو تم کیا کرتے ہو؟ وہ بولا: میں مجاہدہ کروں گا۔ پوچھا: اگر وہ دوبارہ کوشش کرے؟ کہا: میں پھر مجاہدہ کروں گا۔ پوچھا: اگر پھر اس نے حملہ کیا؟ بولا: میں پھر مجاہدہ کروں گا ۔ کہا: یہ تو بہت طویل ہو جائے گا، تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے گزرو، تو (ان کا رکھوالا ) کتا تم پر بھونکنے لگے، یا تمہیں راستہ عبور نہ کرنے دے، تو تم کیا کرو گے؟ بولا :میں بار بار گزرنے کی کوشش کروں گا۔ کہنے لگے: یہ تو تم پر بہت طویل ہو جائے گا، لیکن اگر تم بکریوں کے مالک سے مدد مانگو گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
یہاں تک کہ چناؤ مکمل ہو جائے، اور مخلوق کی بندگی خالق کے لئے ثابت ہو جائے، اﷲ نے اس دنیا کو امتحان اور ابتلاء کا گھر بنایا ہے، اور جانچ اور آزمائش کی جگہ۔ نجات کا راستہ مکاروں کی چالبازیوں اور شہوات، فتنوں اور شبہات سے گھرا ہوا ہے، پس ہماری دنیا کی زندگی ایک بڑے سے کمرہء امتحان کی مانند ہے، جس کے مختلف گوشوں میں رب العالمین کی طرف سے ہر وقت جنت میں داخلے کے مختلف ٹیسٹ اور امتحان ہوتے رہتے ہیں، اور ہماری عمریں وہ محدود و معین وقت ہیں جس میں ہم نے اس بڑے امتحان میں کامیابی اور رضا مندی کا درجہ حاصل کرنا ہے، رہا ہمارے اخلاص کا صدق، اور ہماری قوتِ ایمانی تو یہ کامیابی ، تفوق اور ترقی کی علامت ہیں، جنہیں پار کر کے ہی ہم کامیابی کی شاہراہ پر پہنچ سکتے ہیں، اﷲ تعالی نے بھی ہمیں یاد دہانی کروائی ہے: (الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً وھو العزیز الغفور) (الملک، ۲) (جس نے زندگی اور موت کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔)
عقلمند و دانا وہ ہے جس نے زندگی میں تیاری مکمل کر لی، اور ہمت کی کٹھالی میں اسے خوب پیس لیا، اور طاقت اور امان کے اسلحے سے مسلح ہو کر جرأت سے ہر اس شخص کے راستے میں ڈٹ کر کھڑا ہو گیا جو اسکے رب کی طرف جانے کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ صالحین نے اسی طریقے کو اپنایا، تو انہیں معلوم ہوا کہ اس کی گھات مختلف راہوں پر لگی ہوئی ہے، اور وہ انکے مستقر اور ٹھکانوں تک پہنچتے ہیں، اور یہ (صالحین ) درست راستہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ وہ اس پر چلیں، اور اسکے طویل راستوں پر جو بھی چور اچکا، یا حریت اور امن کا دشمن ملے وہ اس سے چوکنا رہیں، اور وہ اﷲ کے دامن میں پناہ لیں، تاکہ وہ انہیں کامیاب کر دے، اور وہ اسی سے صبر وثبات اور حفاظت سے منزل تک پہنچ جائیں۔
نجات اور منزل تک پہنچنے کے اسباب کی تلاش:
اگر آپ واقعی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اسکے اسباب اختیار کیجئے، اور اس خیر کو صرف اپنے تک محدود نہ رکھیں، بلکہ ان نیک لوگوں میں شامل ہو جائیے، جو ایک دوسرے کو اس کی تلقین کرتے رہتے ہیں، اور اسکی دعوت دیتے ہیں، اور بلندیوں تک پہنچنے کے خواہاں ہوتے ہیں، اور نیچے گرنے اور ہلاکت سے ڈرتے رہتے ہیں، پس علیؓ بن ابی طالب بھی ایسے ہی راہزن سے چوکنا کرتے ہیں، جو ہمارا راستہ کاٹنا چاہتا ہے، خواہ ظاہری طور پر یا خفیہ طریقے سے، اگرچہ وہ ہمارے سامنے خوب رنگ چڑھا کر آئے، اور اسکا حسن ظاہر ہو رہا ہو، آپ فرماتے ہیں: ’’بیشک دنیا نے پیچھے کی جانب سفر شروع کر دیا ہے، اور آخری سامنے آنے والی ہے، اور (اس دنیا میں) ان دونوں کے بیٹے ہیں، پس تم آخرت کے بیٹے بنو، اور دنیا کے بیٹے نہ بنو، خبردار زاہدوں نے اس دنیا میں زمین کو بچھونا بنایا، اور مٹی کو فرش، اور پانی کو تازگی، خبر دار جو جنت کے مشتاق تھے انہوں نے شہوات کو بھلا دیا، اور جو آگ سے خوفزدہ ہوئے، انہوں نے حرام کردہ اشیاء چھوڑ دیں، اور جس نے دنیا کا زہد اختیار کیا، اسکے لئے مصیبتیں ہلکی ہو گئیں۔خبردار بلاشبہ اﷲ کے ایسے بندے بھی ہیں جو ایسے دیکھتے ہیں جیسے اہلِ جنت کو ہمیشہ کی جنتوں میں دیکھ رہے ہوں، اور اہلِ جہنم کو جہنم میں عذاب میں دیکھ رہے ہوں، وہ اسکے شر سے امن چاہتے ہیں، انکے دل غمگین ہوتے ہیں، اور انکے نفوس پاکدامن ہوتے ہیں، انکی ضروریات مختصر ہوتی ہیں، وہ اس طویل سفر کے انجام کے لئے اتنے دن صبر کرتے ہیں، انکی راتیں صف باندھے بسر ہوتی ہیں، انکے آنسو انکے گالوں پر بہتے رہتے ہیں، وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے اسے پکارتے رہتے ہیں: ربنا ربنا، وہ اپنی گردن چھڑانے کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ ہے انکی راتوں کا حال! اور وہ دن کے عالم ہیں، حلیم طبیعت، نیکو کار و متقی، گویا کہ وہ ایسا پیالہ ہیں جس کو دیکھنے والا سوال کرتا ہے: یہ بیمار ہیں؟ لیکن ان لوگوں کو کوئی مرض لاحق نہیں، اور لوگ سمجھتے ہیں کہ انکے دماغ میں کوئی خرابی ہے، مگر حقیقت میں لوگوں نے ایک بڑے معاملے کو خلط ملط کر دیا ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں: ’’مجھے تمہارے بارے میں دو چیزوں کا خوف لاحق ہے: لمبی عمر، اور خواہشات کی پیروی، کیونکہ لمبی عمر آخرت بھلا دیتی ہے، اور خواہشات کی پیروی حق سے روکتی ہے ۔۔ آج عمل کا دن ہے اور حساب نہیں، اور کل حسا ب ہو گا، اور عمل (کا موقع) نہیں۔
خبردار بلاشبہ رمضان بھی ان شریر راہزنوں سے نجات کا موقع ہے، تو آؤ اے روزے دارو، انکو روکنے اور دفاع کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جاؤ، تم کامیاب و کامران ہو جاؤ گے!!

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں