1219 ء میں چنگیز خان کے قاصد کے قتل سے شروع ہونے والا تباہی کا سلسلہ ہلاکو خان کے ہاتھوں 1258 ء میں سقوط بغداد پر ختم ہوتا ہے۔ چار دہائیوں پر مشتمل اس داستان میں کئی کردار ایسے ہیں جو اپنی انفرادیت کے باعث تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ان میں حاکم اترار ینال خان جیسے امراء بھی شامل ہیں کہ جس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قراقرم سے آنے والا تجارتی قافلہ لوٹ کر اور تاجروں کو قتل کرکے اس قضیے کی بنیاد ڈالی اور علاؤالدین خوارزم شاہ جیسے ناعاقبت اندیش حکمران بھی ہیں کہ جس نے بین الاقوامی مسلمہ قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے چنگیز خان کے قاصد کو قتل کردیا۔ اسی داستان میں جلال الدین خوارزم شاہ جیسا مرد میدان بھی ہے کہ جس نے آخری سپاہی تک تاتاریوں کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ دریائے آمو سے لے کر دریائے سندھ تک تن تنہا عالم اسلام کے دفاع کی جنگ لڑتا رہا۔ اس دفعہ ایسے ہی دو کرداروں کا تعارف قلمبند کیا جارہا ہے۔
حاکم قوقند ۔ تیمور ملک
تاتاریوں کو سلطنت خوارزم کے جن شہروں پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ان میں قوقند کا شہر سر فہرست تھا۔ قوقند جسے کتابوں میں خجند بھی لکھا گیا ہے سلطنت خوارزم کا مشرقی سرحدی شہر تھا۔ دریائے سیحوں یا سیر دریا کے کنارے واقع یہ شہر خوارزم کا نمایاں ترین سرحدی شہر تھا۔ قوقند کا حاکم مشہور زمانہ تاجک سردار تیمور ملک تھا۔ تیمور ملک اپنی فطری بہادری دلیری اور جنگی حکمت عملی کے باعث خوارزم شاہ کے قابل اعتماد امیروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ روضتہ الصفا کے مصنف نے تیمور ملک کو دلیری میں مشہور ایرانی سردار رستم اور سہراب کے ہم پلہ شمار کیا ہے۔
جب علاؤالدین خوارزم شاہ تاتاری حملے سے پسپا ہو کر پامیر کے میدان سے واپس پلٹ گیا تو تیمور ملک کو اندازہ ہوگیا کہ اب سرحدی شہروں پر حملہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ اس نے قوقند کی دفاعی تیاریاں شروع کردیں۔ شہر کے دفاع کے لیے تیمور ملک کے پاس صرف ایک ہزار سپاہی تھے۔ جبکہ تاتاریوں کی فوج کا ہر اول دستہ ہی پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا ۔ جبکہ چنگیز خان نے جوجی خان کی قیادت میں بیس ہزار کا لشکر قوقند کے لیے روانہ کردیا تھا۔
تیمور ملک کا قلعہ بند ہونا
مختصر ترین فوج رکھتے ہوئے بھی تیمور ملک نے شہر کے دفاع کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس نے اپنا دفاعی مورچہ دریا میں واقع جزیرے پر موجود قلعے کو بنایا اور اپنی سپاہ کے ساتھ ضروری سازو سامان لے کر جزیرے میں قلعہ بند ہوگیا۔
ادھر تاتاری افواج قوقند کے قریب ہی واقع بناکت کے شہر پر حملہ آور ہوئیں اور صرف تین دن کی مزاحمت کے بعد بناکت فتح کرکے قوقند پہنچ گئیں۔ قوقند پہنچ کر جوجی خان کو معلوم ہوا کہ تیمور ملک دریا میں ایک جزیرے پر قلعہ بند ہوگیا ہے اور یہ کہ اس نے ساحل پر موجود تمام کشتیاں بھی اپنے پاس جمع کرلی ہیں۔
اب جوجی سٹپٹایا کہ کیا تدبیر اختیار کرے۔ اس نے اپنے تیر اندازوں اور منجیقوں کا رُخ جزیرے کی طرف کرکے حملہ کردیا۔ مگر جزیرہ ان کی پہنچ سے دور تھا اور منجیقوں کے ذریعے پھینکے گئے بھاری پتھر پانی میں گرتے رہے اور تیمور ملک کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
تاتاریوں کی انوکھی ترکیب
بناکت کی فتح کے بعد جوجی خان سمجھ رہا تھا کہ تمام سرحدی شہر اسی طرح آسانی سے فتح ہوجائیں گے اور چند ہی ہفتوں میں ان سے نمٹ کر وہ خوارزم کے بڑے شہروں پر حملہ آور ہونے والی افواج سے مل جائے گا ۔ مگر تیمور ملک کی اس تدبیر نے اسے قوقند ہی میں روک لیا تھا۔ اب جوجی خان نے اس سے نمٹنے کے لیے ایک انوکھی تدبیر اختیار کی۔ اس نے بناکت سے قیدی بنائے گئے مسلمانوں اور قوقند کے شہریوں کو ساحل اور اطراف کے علاقوں پر موجود بڑے بڑے پتھروں کو جمع کرنے پر مامور کردیا۔ پھر ان پتھروں کو تاتاریوں نے دریا میں پھینکنا شروع کردیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ دریا کے بیج میں سے ایک راستہ نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ عقاب کی طرح چوکنا تیمور ملک سمجھ گیا کہ اب چند ہفتوں میں قلعہ تیر اندازوں کی پہنچ میں آجائے گا۔
تیمور ملک کی بکتر بند کشتیاں
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیمور ملک نے اپنے بحری بیڑے میں موجود بارہ مضبوط ترین کشتیاں منتخب کیں اور ان میں لکڑی کی مضبوط چوبی دیواریں بنوا کر نصب کروائیں۔ ان تختوں کے درمیان تیر اندازوں کے لیے سوراخ کروائے اور اپنے ماہر ترین تیر انداز ان کشتیوں میں سوار کروا کر دریا میں راستہ بناتے تاتاری سپاہیوں پر حملہ آور ہوگیا۔ اس طرح سنگی راستہ بناتے تاتاریوں کا کام رُک گیا۔ تیمور ملک کا یہ حربہ بہت کامیاب رہا۔ اس کی بکتر بند کشتیاں ساحل پر موجود تاتاریوں پر حملہ کرتیں، جوابی تیر اندازی چوبی تختوں کی وجہ سے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتی اور وہ صحیح سلامت واپس آجاتیں۔ اب جوجی خان بڑا پریشان ہوا۔
جوجی خان کا جوابی حملہ
خوارزم پر حملہ آور ہونے سے قبل چنگیز خان چین کی سلطنت کو فتح کرچکا تھا۔ اس فتح میں اس کے ہاتھ چینی افواج کے آتشیں اور باروری اسلحہ بنانے کے ماہر لگ گئے تھے، تاتاری ان ماہرین کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جوجی خان نے اب تیمور ملک کی بکتر بند کشتیوں کو تباہ کرنے کے لیے ان سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ چینی ماہرین نے ہانڈیوں میں بارور بھر کے منجیقوں کے ذریعے تیمور ملک کی کشتیوں پر برسانا شروع کردیا۔ اس طرح تیمور ملک کا حملہ رک گیا ۔
بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں ترمیم
اس صورتحال پر تیمور ملک نے اپنی بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں تبدیلی کی۔ اس نے مٹی اور گارے کا لیپ بنوا کر چوبی دیواروں پر ملوادیا اور مزید یہ کہ لکڑی کے تختوں کی چھت بھی بنوالی اور ان چھتوں پر بھی مٹی کا پلستر کروا کر انہیں آگ سے محفوظ کرلیا۔ اس طرح تیمور ملک کی کشتیاں چینی ماہرین کے آتشیں حملوں سے محفوظ ہو کر دوبارہ تاتاریوں پر کامیاب حملے کرنے لگیں۔
جوجی خان کی روانگی
جوجی خان کو قوقند کا محاصرہ کئے تین ماہ بیت گئے۔ تیمور ملک کے حملوں سے دریا میں راستہ بنانے کا کام سست روی سے چل رہا تھا اور ان سے تاتاریوں کا سخت نقصان بھی ہورہا تھا۔ اس صورتحال سے تنگ آکر جوجی خان نے اس مہم کی ذمہ داری اپنے نائب سردار کو سونپ دی اور خود دریا کے بہاؤ کی سمت ایک لشکر لے کر روانہ ہوگیا۔
تیمور ملک کا قلعے کو چھوڑ کر چلے جانا
تین ماہ کے محاصرے کے دوران اگر چہ تیمور ملک نے تاتاریوں کا جم کر مقابلہ کیا تھا اور انہیں سخت جانی نقصان پہنچایا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے سپاہی بھی شہید ہوتے گئے تھے۔ ایک ہزار کی مختصر سی سپاہ میں سے بڑی تعداد ختم ہوگئی تھی ۔ دوسرا یہ کہ اس کے گمان کے مطابق اس نے تین ماہ تک جوجی خان کو مصروف رکھ کر اپنا فرض ادا کردیا تھا کیونکہ اسے علاؤالدین خوارزم شاہ کی طرف سے یہی ہدایت ملی تھی کہ سرحدی قلعدار زیادہ سے زیادہ وقت تک تاتاریوں کو مصروف رکھیں تاکہ اسے مرکزی لشکر منظم کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے۔ وہ الگ بات ہے کہ پہلے ہی معرکے کے بعد کہیں بھی علاؤالدین نے ٹھہرکر تاتاریوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
بہر حال تیمور ملک نے جب یہ دیکھا کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود دریا میں بنتا راستہ جزیرے کے قریب آتا جارہا ہے، قلعہ کا سامان خوردنوش بھی کم ہوتا جارہا ہے اور قلیل سپاہ کے ساتھ مزید مقابلہ کرنا خود کشی کے سوا کچھ نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی قسم کی کمک سے مایوس ہو کر اس نے جزیرے سے انخلاء کا فیصلہ کرلیا۔
رات کی تاریکی میں تیمور ملک نے اپنی مٹھی بھر سپاہ کے ساتھ ستر کے قریب کشتیوں میں سوار ہو کر قلعے سے کوچ کرتے ہوئے دریا کے بہاؤ کی سمت سفر شروع کردیا۔ تاتاری پہرے دار چوکنا تھے انہیں معلوم ہوگیا اور فوراً ایک گھڑ سوار دستہ دریا کے ساتھ ساتھ روانہ ہوگیا۔
جلد ہی تیمور ملک کی بحری بیڑے تک تاتاری پہنچ گئے اور ساحل سے تیر اندازی شروع کردی۔ تیمور ملک تیار تھا اس نے لکڑی کے تختے نصب ہوئی کشتیاں ساحل کی طرف کردیں اور تاتاریوں پر جوابی تیر اندازی شروع کردی۔
ادھر آگے بناکت کا ساحل قریب تھا اور وہاں پہلے ہی تاتاریوں کا قبضہ تھا۔ بناکت کے مقام پر تاتاریوں کو تیمور ملک کے بحری بیڑے کی اطلاع مل چکی تھی اور اسے روکنے کے لیے انہوں نے دریا کے بیچ آہنی زنجیر نصب کی ہوئی تھی۔ اس مقام پر پہنچ کر تیمور ملک نے اس زنجیر کو توڑدیا اور آگے بڑھ گیا۔ آگے جند کا ساحلی شہر تھا اور یہاں جوجی خان کا لشکر مقیم تھا۔ جند کے مقام پر جوجی خان نے تیمور ملک کو روکنے کے لیے دریا میں کشتیوں کا پُل بنا کر ماہر تیر انداز بٹھادئے اور ساحل پر منجیقیں نصب کرواکراس مرد میدان کا انتظار کرنے لگا۔ جوجی خان کو قوقند میں تیمور ملک کے ہاتھوں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب وہ حساب چکتا کرنا چاہتا تھا۔ مگر تیمور ملک کو اللہ نے کمال زکاوت بخشی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ جوجی خان یقیناًراستے میں جال بچھائے بیٹھا ہوگا۔ چنانچہ دریا میں مناسب ساحل دیکھ کر رات کی تاریکی میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت ساحل پر اتر گیا۔ جب تک تاتاریوں کو علم ہوتا وہ ان کی پہنچ سے دور نکل چکا تھا۔
قربانی کا لازوال مظاہرہ
اب صورتحال اس طرح تھی کہ تیمور ملک اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ آگے آگے تھا اور تاتاری گھڑ سوار دستہ ان کے تعاقب میں سرپٹ دوڑا چلا آرہا تھا ۔ جوجی خان کی ہدایت تھی کہ تیمور ملک کو ہر صورت زندہ یا مردہ پکڑ کے لایا جائے۔ ایسے موقع پر عموماً سالار اپنی جان بچا کر راہ فرار اختیار کرتا ہے اور سپاہیوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کرتا ہے ۔ مگر تیمور ملک نے اپنے ساتھیوں کی بقا کے لیے قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا رہا تاکہ اس کے ساتھیوں کو نکلنے کاموقع مل سکے۔ ایسی مثال ہمیں تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔ تیمور ملک اپنے چند جانثاروں کے ساتھ راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا اور انہیں مصروف رکھتا کہ اس دوران اس کے سپاہی دور نکل جاتے۔ یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ اس کی تمام سپاہ فرار ہوگئی یا تاتاریوں کے ہاتھوں شہید اور تیمور ملک تنہا رہ گیا۔ اس کے تعاقب میں تین تاتاری سپاہی تھے اور اس کے ترکش میں بھی تین تیر ہی باقی بچے تھے۔
تیمور ملک نے ایسا تاک کر نشانہ لگایا کہ ایک تیر حملہ آور تاتاری کی آنکھ میں پیوست ہوگیا۔ اب تیمور ملک نے چلا کر کہا،
’’تمہاری تعداد کے مطابق دو تیر میرے ترکش میں موجود ہیں اور انہیں ضائع کرتے ہوئے مجھے افسوس ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم دونوں لوٹ جاؤ۔ ‘‘
دونوں تاتاری تیمور ملک کی ہیبت سے پہلے ہی خوفزدہ تھے یہ سن کر وہ اور ڈر گئے اور خاموشی سے پلٹ گئے ۔ تیمور ملک کی بہادری کا یہ واقعہ ’’روضتہ الصفاء‘‘اور الجوینی کی ’’جہاں گشائی‘‘دونوں میں تفصیلاً منقول ہے۔
تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ
قوقند کے اس معرکے میں تیمور ملک نے جس دلیری سے تاتاریوں کا مقابلہ کیا تھا اس کا شہرہ پورے خوارزم میں پھیل گیا تھا۔ تاتاریوں کے قابل تسخیر ہونے کا تصور تیمور ملک کی بہادری سے متاثر ہوگیا تھا۔ اگر چہ وہ شہر کا دفاع نہ کرسکاتھا مگر صرف ایک ہزار کی سپاہ کے ساتھ تاتاریوں کا تین ماہ تک مقابلہ کرنا اور زندہ سلامت بچ نکلنا ہی بہت تھا۔ آخر کار یہ مرد جری اپنے بادشاہ علاؤالدین خوارزم شاہ کے پاس پہنچ گیا۔مگر جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ علاؤالدین ذہنی طور پر شکست کھا چکا ہے اور کہیں بھی رُک کر چنگیز خان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس شہزادہ جلال الدین تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لشکر منظم کر رہا ہے اور خوارزم میں صرف وہ ہی اس کام کا اہل ہے۔ چنانچہ تیمور ملک جلال الدین کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جلال الدین نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی ۔جلال الدین بہادروں کا قدردان تھا اور جلد ہی تیمور ملک جلال الدین کے قریبی امراء میں شامل ہوگیا۔ تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ آخر تک برقرار رہا اور تاتاریوں کے خلاف جلال الدین کی مزاحمت میں تیمور ملک اس کے ساتھ شریک رہا۔ آج بھی تاجک قوم کے لوگ تیمور ملک کی دلیری پر فخر کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ نامور فاتح امیر تیمور لنگ جو منگول قبائل سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام تیمور ملک کے نام پر ہی رکھا گیا تھا۔
ملک ترکان خاتون
تیمور ملک جیسے بہادر اور نڈر سالار کے بعد سلطنت خوارزم کی ملکہ ترکان خاتون کا تذکرہ اپنے اندر ایک داستان عبرت لیے ہوئے ہے، ملکہ ترکان خاتون علاؤالدین خوارزم شاہ کی والدہ اور سلطان تکش کی ملکہ تھی۔
خوارزم کی سلطنت کی وسعت میں سلطان تکش کی سالوں کی فتوحات شامل تھیں اور ان فتوحات میں سلطان تکش کی ملکہ کا بڑا نمایاں کردار تھا۔ سلطان تکش نے ترکوں کے مشہور جنگجو فیصلے قیچاق کے سردار کی بیٹی سے نکاح کیا تھا۔اس طرح قیچاقی ترکوں کی مدد سے سلطان تکش کو غیر معمولی وسیع سلطنت حاصل ہوگئی۔ ان ترکوں کی وجہ سے ترکان خاتون کو بھی بطور ملکہ سلطنت میں بے پناہ طاقت اور اثروسوخ حاصل ہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ترکان خاتون نے سلطان تکش کی طرح باقاعدہ دارالحکومت میں اپنا دربار لگانا شروع کردیا جس میں اس کے اپنے امراء اور عمائدین شامل تھے۔ ملکہ کے دربار سے شاہی فرامین کی طرز پر باقاعدہ فرمان جاری کئے جاتے تھے۔ اکثر اوقات سلطان تکش اور ملکہ ترکان خاتون کے احکامات میں تضاد آجاتاتو حکام شش و پنج میں مبتلا ہوجاتے کہ کس کے احکامات پر عمل کریں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ طریقہ وضع کیا گیاکہ بعد میں بھی آنے والے فرمان پر عمل کیا جائے گا۔
سلطان تکش کی وفات کے بعد سلطان علاؤالدین خوارزم شاہ کے دورِ حکومت میں ملکہ ترکان خاتون کا عمل دخل سلطنت میں اور بڑھ گیا۔ ایسا لگنے لگا کہ دو متوازی حکومتیں چل رہی ہیں ۔ علاؤالدین خوارزم شاہ جب بھی اپنی والدہ کا اثرو سورخ کم کرنے کی کوشش کرتا قبچاقی امراء اس کے سامنے آکھڑے ہوتے۔
حاکم اترار ینال خان جس نے چنگیز خان کے قافلے کو لوٹ کر اس قضیے کی بنیاد ڈالی تھی وہ انہی قبچاقی امراء میں سے تھا اور ملکہ ترکان خاتون کا رشتہ دار بھی تھا۔ اسی وجہ سے علاؤالدین اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرسکا۔ اگر چنگیز خان کی شکایت پر ینال خان کے خلاف کاروائی کرلی جائے تو بظاہر اس تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔ مگر ترکان خاتون کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
ترکان خاتون کے دباؤ پر ہی علاؤالدین خوارزم شاہ نے اپنے بڑے بیٹے جلال الدین کے بجائے قطب الدین کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ کیونکہ قطب الدین کی ماں کا تعلق قبچاقی قبیلے سے تھا اور وہ ترکان خاتون کی عزیز بھی تھی جبکہ جلال الدین کی والدہ ہندوستانی نژا د تھی۔ اسی وجہ سے ملکہ ترکان خاتون کا تمام عمر جلال الدین سے اختلاف رہا اور وہ ہر وقت جلال الدین کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔ وہ جلال الدین کو حقارت سے ہندوستانی بہو کا بیٹا کہتی تھی۔
چنگیز خان کی یلغار کے دوران ایک وقت ایسا آیا کہ تمام اختلافات بھلا کر قبچاقی جنگجو علاؤالدین خوارزم شاہ کے جھنڈے تلے تاتاریوں سے لڑنے لگے۔ مگر چنگیز خان نے ایک سازش کے ذریعے اس تعلق کو دوری میں تبدیل کردیا۔ تفصیل اس واقعے کی کچھ اس طرح ہے کہ طبرستان کے حاکم بدرالدین عمید کے باپ اور چچا کو خوارز م شاہ نے کسی بات پر قتل کروادیا تھا اور بدرالدین اس بات پر دل میں بغض لیے بیٹھا تھا ۔سمر قند پر چنگیز خان کے قبضے کے بعد وہ خفیہ طور پر سمر قند پہنچا اور چنگیز خان کو خوارزم شاہ اور ترکان خاتون کے اختلاف کے بارے میں بتایا ۔ تاتاریوں نے اس اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی سازش کی اور ملکہ ترکان خاتون اور چنگیز خان کے درمیان ایک جعلی خط تیار کروا کر علاؤ الدین شاہ تک پہنچا دیا۔ خوارزم شاہ اس خط کو اصل سمجھ بیٹھا اور قبچاقی سرداروں پر سخت خفاہوا۔ قبچاقی سرداروں نے غصے میں آکر خوارزم شاہ کے خیمے پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا مگر خوارزم شاہ بچ گیا۔اس واقعے کے بعد قبچاقی سردار باقاعدہ طور پر خوارزم شاہ سے باغی ہوکر چنگیز خان سے جا ملے۔
ملکہ ترکان خاتون اور علاؤالدین خوارزم شاہ کے اختلاف کے ضمن میں شیخ مجد الدین کے قتل کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ شیخ مجددالدین اور گنج کے ولی کامل شیخ نجم الدین کے کبریٰ کے خلیفہ تھے۔ (شیخ نجم الدین کبریٰ کا ذکر پچھلے مضمون میں تفصیلاً آچکا ہے)شیخ مجد الدین سے ملکہ ترکان خاتون کو خاص عقیدت تھی اور وہ شیخ کی مجالس میں بکثرت جایاکرتی تھی۔اس عقیدت کی بنا پر خوازم شاہ کے امراء نے الزام لگایا کہ ملکہ شیخ مجدالدین سے نکاح کرنے والی ہے۔ اس بات کو سن کر خوارزم شاہ آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے فی الفور شیخ مجدالدین کو دریا میں غرق کرکے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ شاہی فرمان یہ عمل کرتے ہوئے شیخ مجد الدین کو اسی طرح قتل کردیا گیا۔ غصہ ٹھنڈا ہونے پر خوارزم شاہ کو بہت رنج ہوا کہ اس نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔ وہ شیخ نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں پیش ہوا اور شیخ کے قدموں میں تلوار اور جواہرات رکھ کر کہا،
’’یا تو مجد الدین کے خون بہا میں یہ دولت قبول کرلیں ورنہ اس تلوار سے میرا سر قلم کرکے قصاص وصول کرلیں۔‘‘
شیخ نجم الدین کبریٰ نے فرمایا،
’’مجدالدین کا خون بہا یہ مال و دولت نہیں ہے، اس کا قصاص تو تمہارا سر اور تمہاری پوری سلطنت ہے۔اور اس میں میرا بھی سر قلم ہوگا اور اللہ کے بے شمار بندوں کے سر بھی قلم کئے جائیں گے۔ ‘‘
(حوالہ: روضتہ الصفا، نفحات الانس)
اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ بات حرف بہ حرف درست تھی۔ ملکہ ترکان خاتون کی مطلعق العنایت نے سلطنت خوارزم کو بہت نقصان پہنچایا۔ زوالِ خوارزم شاہ کے اسباب میں یہ بھی اہم سبب تھا۔ ملکہ ترکان خاتون کو بر صغیر ہندوستان کی ملکہ نورجہاں کے ہم پلّہ طاقتور شمار کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں میں قدر مشترک تھی کہ ان دونوں کے نام کے سکے ڈھالے گئے۔ مگر ترکان خاتون کو علیحدہ دربار رکھنے کے باعث ملکہ نور جہاں پر سبقت حاصل ہے۔
ملکہ نور جہاں کے برعکس ملکہ ترکان خاتون کا انجام بہت دردناک ہوا۔ سقوط اور گنج کے وقت دارالحکومت چھوڑتے وقت ترکان خاتون نے شقاوت اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیس کے قریب شاہی خاندان کے افراد کہ جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ دارالحکومت خالی دیکھ کر تخت پر قبضہ کرسکتے ہیں انہیں قتل کروادیا تھا۔ اور گنج سے فرار ہو کر شاہی خاندان کی مستورات کے ساتھ ترکان خاتون نے ایلان کے قلعے میں پناہ لی۔ یہاں وزیر اعظم نظام الملک محمد بن صالح بھی ترکان خاتون کے ہمراہ تھا۔ شاہی خاندان کی موجودگی کا علم ہوتے ہی تاتاریوں نے ایلان کا محاصرہ کرلیا۔ ایلان کا قلعہ خوارزم کے مضبوط قلعوں میں شمار کیا جاتا تھا اور چار ماہ تک تاتاری اس کی فصیلوں کا محاصرہ کئے رہے مگر کچھ نہ بگاڑ سکے۔
قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ جب کسی کی بربادی کا فیصلہ کرلے تو ظاہری اسباب اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ ملکہ ترکان خاتون کے سلسلے میں بھی ایسا ہی کچھ عجیب و غریب سا واقعہ ہوا۔ ایلان کا قلعہ سرسبز اور شاداب علاقے میں تھا اور وہاں بارش کثرت سے ہوتی تھی۔ قلعے کی غیر معمولی مضبوطی اور علاقے کی سرسبزی اور شادابی کی وجہ سے ہی خوارزم شاہ نے شاہی خاندان کے لیے اسے چنا تھا۔ بارش کی فراوانی کی وجہ سے قلعے میں پانی کی کمی اور قحط کا خطرہ بھی کم تھا۔ مگر قلعے کا محاصرہ ہوتے ہی علاقے سے بارش نے جیسے منہ ہی موڑ لیا۔ ایلان کا علاقہ خشک سالی کا شکار ہوگیا۔ چار ماہ کے سخت محاصرے اور مکمل ناکہ بندی کے بعد قلعے میں راشن ختم ہوگیا۔محصورین بھوک پیاس کی شدت سے بیتاب ہوگئے اور آخر کار تھک ہار کر قلعے سے باہر نکل آئے۔ قلعے کا دروازہ کھلنا ہی تھا کہ آسمان سے گرج چمک کے ساتھ پانی برسنا شروع ہوگیا۔ جل تھل ایک ہوگیا اور مورخ لکھتا ہے کہ قلعے کے دروازے سے پانی کا ریلہ باہر نشیب کی طرف بہہ رہا تھا۔
وزیر محمد بن صالح کو تاتاریوں نے مستقبل کی مشاورت کے لیے قید کرلیا اور شاہی خاندان کا قتل عام شروع کردیا۔ ملکہ ترکان خاتون کو قید کرکے چنگیز خان کے پاس بھیج دیا گیا۔ چنگیز خان کے دربار میں ملکہ ترکان خاتون کو ذلت اور رسوائی کے لاتعداد مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔ چنگیز خان ملکہ ترکان خاتون کو زنجیریں ڈالے فخریہ انداز میں ساتھ لیے گھومتا تھا اور تاتاریوں کی سالانہ قرولتائی (کانفرنس) میں بھی ملکہ ترکان خاتون کو قیدی کے طور پر فاتحانہ انداز میں لے کر جاتا۔ ملکہ کو بھوک مٹانے کے لیے تاتاریوں کے لنگر سے قطار لگا کر کھانا لینا پڑتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی اس کی نخوت برقرار تھی۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ایک خوارزمی جو ملکہ کا خدمت گار تھا اور دوران قید بھی ملکہ کے ساتھ تھا اس نے ایک دن فرارکا منصوبہ بنایا اور ملکہ سے کہا کہ فرار ہو کر نکل چلتے ہیں اور قریب ہی جلال الدین تاتاریوں سے نبرد آزما ہے اس کی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہے۔
مگر ملکہ ترکان خاتون نے جواب دیا کہ جلال الدین کی پناہ میں جانے سے بہتر ہے کہ چنگیز خان کی قید میں رہ لیا جائے ۔ آخر کار اس قید میں بیچارگی کی حالت میں ملکہ ترکان خاتون کا انتقال ہوگیا۔
فَاعْتَبِرُوْ ایَآاُولِی الْاَبْصَارِ
*۔۔۔*۔۔۔*
7 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
Nice article
ماشاءاللہ ہمیشہ کی طرح بہت تفصیل سے لکھا ہے عدیل بھائی نے۔۔۔۔
حوالہ جات نے تحریر میں مذید جان ڈال دی ہے ۔۔۔
بہت عمدہ مضمون لکھا ھے آپ نے ماشاء اللہ عدیل سلیم صاحب ، سلامت رہیں
پچھلے مضامین کی مانند عدیل جملانہ صاحب نے ایک عمدہ مضموں لکھا ہے امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح کے تاریخی مضامیں پڑھنے کو ملتے رہیں گے۔
ماشاءاللہ، عدیل سلیم ایک منجھے ہوئے قلم کار کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور بہت مختصر وقت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔آپ تاریخ پہ کمال عبور رکھتے ہیں اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ انشاءاللہ اسی طرح ہم آپ کے مضامین سے فیضیاب ہوتے رہیں گے۔
تاتاری حملوں پر بہت آسان اور جامع تحریریں ہیں یہ، کچھ چنگیز خان کی اولاد کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بھی لکھیں عدیل بھائی!
I saw your article well. You seem to enjoy safetoto for some reason. We can help you enjoy more fun. Welcome anytime 🙂