1219 ء میں چنگیز خان کے قاصد کے قتل سے شروع ہونے والا تباہی کا سلسلہ ہلاکو خان کے ہاتھوں 1258 ء میں سقوط بغداد پر ختم ہوتا ہے۔ چار دہائیوں پر مشتمل اس داستان میں کئی کردار ایسے ہیں جو اپنی انفرادیت کے باعث تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ان میں حاکم اترار ینال خان جیسے امراء بھی شامل ہیں کہ جس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قراقرم سے آنے والا تجارتی قافلہ لوٹ کر اور تاجروں کو قتل کرکے اس قضیے کی بنیاد ڈالی اور علاؤالدین خوارزم شاہ جیسے ناعاقبت اندیش حکمران بھی ہیں کہ جس نے بین الاقوامی مسلمہ قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے چنگیز خان کے قاصد کو قتل کردیا۔ اسی داستان میں جلال الدین خوارزم شاہ جیسا مرد میدان بھی ہے کہ جس نے آخری سپاہی تک تاتاریوں کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ دریائے آمو سے لے کر دریائے سندھ تک تن تنہا عالم اسلام کے دفاع کی جنگ لڑتا رہا۔ اس دفعہ ایسے ہی دو کرداروں کا تعارف قلمبند کیا جارہا ہے۔
حاکم قوقند ۔ تیمور ملک
تاتاریوں کو سلطنت خوارزم کے جن شہروں پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ان میں قوقند کا شہر سر فہرست تھا۔ قوقند جسے کتابوں میں خجند بھی لکھا گیا ہے سلطنت خوارزم کا مشرقی سرحدی شہر تھا۔ دریائے سیحوں یا سیر دریا کے کنارے واقع یہ شہر خوارزم کا نمایاں ترین سرحدی شہر تھا۔ قوقند کا حاکم مشہور زمانہ تاجک سردار تیمور ملک تھا۔ تیمور ملک اپنی فطری بہادری دلیری اور جنگی حکمت عملی کے باعث خوارزم شاہ کے قابل اعتماد امیروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ روضتہ الصفا کے مصنف نے تیمور ملک کو دلیری میں مشہور ایرانی سردار رستم اور سہراب کے ہم پلہ شمار کیا ہے۔
جب علاؤالدین خوارزم شاہ تاتاری حملے سے پسپا ہو کر پامیر کے میدان سے واپس پلٹ گیا تو تیمور ملک کو اندازہ ہوگیا کہ اب سرحدی شہروں پر حملہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ اس نے قوقند کی دفاعی تیاریاں شروع کردیں۔ شہر کے دفاع کے لیے تیمور ملک کے پاس صرف ایک ہزار سپاہی تھے۔ جبکہ تاتاریوں کی فوج کا ہر اول دستہ ہی پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا ۔ جبکہ چنگیز خان نے جوجی خان کی قیادت میں بیس ہزار کا لشکر قوقند کے لیے روانہ کردیا تھا۔
تیمور ملک کا قلعہ بند ہونا
مختصر ترین فوج رکھتے ہوئے بھی تیمور ملک نے شہر کے دفاع کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس نے اپنا دفاعی مورچہ دریا میں واقع جزیرے پر موجود قلعے کو بنایا اور اپنی سپاہ کے ساتھ ضروری سازو سامان لے کر جزیرے میں قلعہ بند ہوگیا۔
ادھر تاتاری افواج قوقند کے قریب ہی واقع بناکت کے شہر پر حملہ آور ہوئیں اور صرف تین دن کی مزاحمت کے بعد بناکت فتح کرکے قوقند پہنچ گئیں۔ قوقند پہنچ کر جوجی خان کو معلوم ہوا کہ تیمور ملک دریا میں ایک جزیرے پر قلعہ بند ہوگیا ہے اور یہ کہ اس نے ساحل پر موجود تمام کشتیاں بھی اپنے پاس جمع کرلی ہیں۔
اب جوجی سٹپٹایا کہ کیا تدبیر اختیار کرے۔ اس نے اپنے تیر اندازوں اور منجیقوں کا رُخ جزیرے کی طرف کرکے حملہ کردیا۔ مگر جزیرہ ان کی پہنچ سے دور تھا اور منجیقوں کے ذریعے پھینکے گئے بھاری پتھر پانی میں گرتے رہے اور تیمور ملک کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
تاتاریوں کی انوکھی ترکیب
بناکت کی فتح کے بعد جوجی خان سمجھ رہا تھا کہ تمام سرحدی شہر اسی طرح آسانی سے فتح ہوجائیں گے اور چند ہی ہفتوں میں ان سے نمٹ کر وہ خوارزم کے بڑے شہروں پر حملہ آور ہونے والی افواج سے مل جائے گا ۔ مگر تیمور ملک کی اس تدبیر نے اسے قوقند ہی میں روک لیا تھا۔ اب جوجی خان نے اس سے نمٹنے کے لیے ایک انوکھی تدبیر اختیار کی۔ اس نے بناکت سے قیدی بنائے گئے مسلمانوں اور قوقند کے شہریوں کو ساحل اور اطراف کے علاقوں پر موجود بڑے بڑے پتھروں کو جمع کرنے پر مامور کردیا۔ پھر ان پتھروں کو تاتاریوں نے دریا میں پھینکنا شروع کردیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ دریا کے بیج میں سے ایک راستہ نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ عقاب کی طرح چوکنا تیمور ملک سمجھ گیا کہ اب چند ہفتوں میں قلعہ تیر اندازوں کی پہنچ میں آجائے گا۔
تیمور ملک کی بکتر بند کشتیاں
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیمور ملک نے اپنے بحری بیڑے میں موجود بارہ مضبوط ترین کشتیاں منتخب کیں اور ان میں لکڑی کی مضبوط چوبی دیواریں بنوا کر نصب کروائیں۔ ان تختوں کے درمیان تیر اندازوں کے لیے سوراخ کروائے اور اپنے ماہر ترین تیر انداز ان کشتیوں میں سوار کروا کر دریا میں راستہ بناتے تاتاری سپاہیوں پر حملہ آور ہوگیا۔ اس طرح سنگی راستہ بناتے تاتاریوں کا کام رُک گیا۔ تیمور ملک کا یہ حربہ بہت کامیاب رہا۔ اس کی بکتر بند کشتیاں ساحل پر موجود تاتاریوں پر حملہ کرتیں، جوابی تیر اندازی چوبی تختوں کی وجہ سے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتی اور وہ صحیح سلامت واپس آجاتیں۔ اب جوجی خان بڑا پریشان ہوا۔
جوجی خان کا جوابی حملہ
خوارزم پر حملہ آور ہونے سے قبل چنگیز خان چین کی سلطنت کو فتح کرچکا تھا۔ اس فتح میں اس کے ہاتھ چینی افواج کے آتشیں اور باروری اسلحہ بنانے کے ماہر لگ گئے تھے، تاتاری ان ماہرین کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جوجی خان نے اب تیمور ملک کی بکتر بند کشتیوں کو تباہ کرنے کے لیے ان سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ چینی ماہرین نے ہانڈیوں میں بارور بھر کے منجیقوں کے ذریعے تیمور ملک کی کشتیوں پر برسانا شروع کردیا۔ اس طرح تیمور ملک کا حملہ رک گیا ۔
بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں ترمیم
اس صورتحال پر تیمور ملک نے اپنی بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں تبدیلی کی۔ اس نے مٹی اور گارے کا لیپ بنوا کر چوبی دیواروں پر ملوادیا اور مزید یہ کہ لکڑی کے تختوں کی چھت بھی بنوالی اور ان چھتوں پر بھی مٹی کا پلستر کروا کر انہیں آگ سے محفوظ کرلیا۔ اس طرح تیمور ملک کی کشتیاں چینی ماہرین کے آتشیں حملوں سے محفوظ ہو کر دوبارہ تاتاریوں پر کامیاب حملے کرنے لگیں۔
جوجی خان کی روانگی
جوجی خان کو قوقند کا محاصرہ کئے تین ماہ بیت گئے۔ تیمور ملک کے حملوں سے دریا میں راستہ بنانے کا کام سست روی سے چل رہا تھا اور ان سے تاتاریوں کا سخت نقصان بھی ہورہا تھا۔ اس صورتحال سے تنگ آکر جوجی خان نے اس مہم کی ذمہ داری اپنے نائب سردار کو سونپ دی اور خود دریا کے بہاؤ کی سمت ایک لشکر لے کر روانہ ہوگیا۔
تیمور ملک کا قلعے کو چھوڑ کر چلے جانا
تین ماہ کے محاصرے کے دوران اگر چہ تیمور ملک نے تاتاریوں کا جم کر مقابلہ کیا تھا اور انہیں سخت جانی نقصان پہنچایا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے سپاہی بھی شہید ہوتے گئے تھے۔ ایک ہزار کی مختصر سی سپاہ میں سے بڑی تعداد ختم ہوگئی تھی ۔ دوسرا یہ کہ اس کے گمان کے مطابق اس نے تین ماہ تک جوجی خان کو مصروف رکھ کر اپنا فرض ادا کردیا تھا کیونکہ اسے علاؤالدین خوارزم شاہ کی طرف سے یہی ہدایت ملی تھی کہ سرحدی قلعدار زیادہ سے زیادہ وقت تک تاتاریوں کو مصروف رکھیں تاکہ اسے مرکزی لشکر منظم کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے۔ وہ الگ بات ہے کہ پہلے ہی معرکے کے بعد کہیں بھی علاؤالدین نے ٹھہرکر تاتاریوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
بہر حال تیمور ملک نے جب یہ دیکھا کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود دریا میں بنتا راستہ جزیرے کے قریب آتا جارہا ہے، قلعہ کا سامان خوردنوش بھی کم ہوتا جارہا ہے اور قلیل سپاہ کے ساتھ مزید مقابلہ کرنا خود کشی کے سوا کچھ نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی قسم کی کمک سے مایوس ہو کر اس نے جزیرے سے انخلاء کا فیصلہ کرلیا۔
رات کی تاریکی میں تیمور ملک نے اپنی مٹھی بھر سپاہ کے ساتھ ستر کے قریب کشتیوں میں سوار ہو کر قلعے سے کوچ کرتے ہوئے دریا کے بہاؤ کی سمت سفر شروع کردیا۔ تاتاری پہرے دار چوکنا تھے انہیں معلوم ہوگیا اور فوراً ایک گھڑ سوار دستہ دریا کے ساتھ ساتھ روانہ ہوگیا۔
جلد ہی تیمور ملک کی بحری بیڑے تک تاتاری پہنچ گئے اور ساحل سے تیر اندازی شروع کردی۔ تیمور ملک تیار تھا اس نے لکڑی کے تختے نصب ہوئی کشتیاں ساحل کی طرف کردیں اور تاتاریوں پر جوابی تیر اندازی شروع کردی۔
ادھر آگے بناکت کا ساحل قریب تھا اور وہاں پہلے ہی تاتاریوں کا قبضہ تھا۔ بناکت کے مقام پر تاتاریوں کو تیمور ملک کے بحری بیڑے کی اطلاع مل چکی تھی اور اسے روکنے کے لیے انہوں نے دریا کے بیچ آہنی زنجیر نصب کی ہوئی تھی۔ اس مقام پر پہنچ کر تیمور ملک نے اس زنجیر کو توڑدیا اور آگے بڑھ گیا۔ آگے جند کا ساحلی شہر تھا اور یہاں جوجی خان کا لشکر مقیم تھا۔ جند کے مقام پر جوجی خان نے تیمور ملک کو روکنے کے لیے دریا میں کشتیوں کا پُل بنا کر ماہر تیر انداز بٹھادئے اور ساحل پر منجیقیں نصب کرواکراس مرد میدان کا انتظار کرنے لگا۔ جوجی خان کو قوقند میں تیمور ملک کے ہاتھوں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب وہ حساب چکتا کرنا چاہتا تھا۔ مگر تیمور ملک کو اللہ نے کمال زکاوت بخشی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ جوجی خان یقیناًراستے میں جال بچھائے بیٹھا ہوگا۔ چنانچہ دریا میں مناسب ساحل دیکھ کر رات کی تاریکی میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت ساحل پر اتر گیا۔ جب تک تاتاریوں کو علم ہوتا وہ ان کی پہنچ سے دور نکل چکا تھا۔
قربانی کا لازوال مظاہرہ
اب صورتحال اس طرح تھی کہ تیمور ملک اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ آگے آگے تھا اور تاتاری گھڑ سوار دستہ ان کے تعاقب میں سرپٹ دوڑا چلا آرہا تھا ۔ جوجی خان کی ہدایت تھی کہ تیمور ملک کو ہر صورت زندہ یا مردہ پکڑ کے لایا جائے۔ ایسے موقع پر عموماً سالار اپنی جان بچا کر راہ فرار اختیار کرتا ہے اور سپاہیوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کرتا ہے ۔ مگر تیمور ملک نے اپنے ساتھیوں کی بقا کے لیے قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا رہا تاکہ اس کے ساتھیوں کو نکلنے کاموقع مل سکے۔ ایسی مثال ہمیں تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔ تیمور ملک اپنے چند جانثاروں کے ساتھ راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا اور انہیں مصروف رکھتا کہ اس دوران اس کے سپاہی دور نکل جاتے۔ یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ اس کی تمام سپاہ فرار ہوگئی یا تاتاریوں کے ہاتھوں شہید اور تیمور ملک تنہا رہ گیا۔ اس کے تعاقب میں تین تاتاری سپاہی تھے اور اس کے ترکش میں بھی تین تیر ہی باقی بچے تھے۔
تیمور ملک نے ایسا تاک کر نشانہ لگایا کہ ایک تیر حملہ آور تاتاری کی آنکھ میں پیوست ہوگیا۔ اب تیمور ملک نے چلا کر کہا،
’’تمہاری تعداد کے مطابق دو تیر میرے ترکش میں موجود ہیں اور انہیں ضائع کرتے ہوئے مجھے افسوس ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم دونوں لوٹ جاؤ۔ ‘‘
دونوں تاتاری تیمور ملک کی ہیبت سے پہلے ہی خوفزدہ تھے یہ سن کر وہ اور ڈر گئے اور خاموشی سے پلٹ گئے ۔ تیمور ملک کی بہادری کا یہ واقعہ ’’روضتہ الصفاء‘‘اور الجوینی کی ’’جہاں گشائی‘‘دونوں میں تفصیلاً منقول ہے۔
تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ
قوقند کے اس معرکے میں تیمور ملک نے جس دلیری سے تاتاریوں کا مقابلہ کیا تھا اس کا شہرہ پورے خوارزم میں پھیل گیا تھا۔ تاتاریوں کے قابل تسخیر ہونے کا تصور تیمور ملک کی بہادری سے متاثر ہوگیا تھا۔ اگر چہ وہ شہر کا دفاع نہ کرسکاتھا مگر صرف ایک ہزار کی سپاہ کے ساتھ تاتاریوں کا تین ماہ تک مقابلہ کرنا اور زندہ سلامت بچ نکلنا ہی بہت تھا۔ آخر کار یہ مرد جری اپنے بادشاہ علاؤالدین خوارزم شاہ کے پاس پہنچ گیا۔مگر جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ علاؤالدین ذہنی طور پر شکست کھا چکا ہے اور کہیں بھی رُک کر چنگیز خان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس شہزادہ جلال الدین تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لشکر منظم کر رہا ہے اور خوارزم میں صرف وہ ہی اس کام کا اہل ہے۔ چنانچہ تیمور ملک جلال الدین کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جلال الدین نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی ۔جلال الدین بہادروں کا قدردان تھا اور جلد ہی تیمور ملک جلال الدین کے قریبی امراء میں شامل ہوگیا۔ تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ آخر تک برقرار رہا اور تاتاریوں کے خلاف جلال الدین کی مزاحمت میں تیمور ملک اس کے ساتھ شریک رہا۔ آج بھی تاجک قوم کے لوگ تیمور ملک کی دلیری پر فخر کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ نامور فاتح امیر تیمور لنگ جو منگول قبائل سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام تیمور ملک کے نام پر ہی رکھا گیا تھا۔
ملک ترکان خاتون
تیمور ملک جیسے بہادر اور نڈر سالار کے بعد سلطنت خوارزم کی ملکہ ترکان خاتون کا تذکرہ اپنے اندر ایک داستان عبرت لیے ہوئے ہے، ملکہ ترکان خاتون علاؤالدین خوارزم شاہ کی والدہ اور سلطان تکش کی ملکہ تھی۔
خوارزم کی سلطنت کی وسعت میں سلطان تکش کی سالوں کی فتوحات شامل تھیں اور ان فتوحات میں سلطان تکش کی ملکہ کا بڑا نمایاں کردار تھا۔ سلطان تکش نے ترکوں کے مشہور جنگجو فیصلے قیچاق کے سردار کی بیٹی سے نکاح کیا تھا۔اس طرح قیچاقی ترکوں کی مدد سے سلطان تکش کو غیر معمولی وسیع سلطنت حاصل ہوگئی۔ ان ترکوں کی وجہ سے ترکان خاتون کو بھی بطور ملکہ سلطنت میں بے پناہ طاقت اور اثروسوخ حاصل ہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ترکان خاتون نے سلطان تکش کی طرح باقاعدہ دارالحکومت میں اپنا دربار لگانا شروع کردیا جس میں اس کے اپنے امراء اور عمائدین شامل تھے۔ ملکہ کے دربار سے شاہی فرامین کی طرز پر باقاعدہ فرمان جاری کئے جاتے تھے۔ اکثر اوقات سلطان تکش اور ملکہ ترکان خاتون کے احکامات میں تضاد آجاتاتو حکام شش و پنج میں مبتلا ہوجاتے کہ کس کے احکامات پر عمل کریں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ طریقہ وضع کیا گیاکہ بعد میں بھی آنے والے فرمان پر عمل کیا جائے گا۔
سلطان تکش کی وفات کے بعد سلطان علاؤالدین خوارزم شاہ کے دورِ حکومت میں ملکہ ترکان خاتون کا عمل دخل سلطنت میں اور بڑھ گیا۔ ایسا لگنے لگا کہ دو متوازی حکومتیں چل رہی ہیں ۔ علاؤالدین خوارزم شاہ جب بھی اپنی والدہ کا اثرو سورخ کم کرنے کی کوشش کرتا قبچاقی امراء اس کے سامنے آکھڑے ہوتے۔
حاکم اترار ینال خان جس نے چنگیز خان کے قافلے کو لوٹ کر اس قضیے کی بنیاد ڈالی تھی وہ انہی قبچاقی امراء میں سے تھا اور ملکہ ترکان خاتون کا رشتہ دار بھی تھا۔ اسی وجہ سے علاؤالدین اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرسکا۔ اگر چنگیز خان کی شکایت پر ینال خان کے خلاف کاروائی کرلی جائے تو بظاہر اس تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔ مگر ترکان خاتون کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
ترکان خاتون کے دباؤ پر ہی علاؤالدین خوارزم شاہ نے اپنے بڑے بیٹے جلال الدین کے بجائے قطب الدین کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ کیونکہ قطب الدین کی ماں کا تعلق قبچاقی قبیلے سے تھا اور وہ ترکان خاتون کی عزیز بھی تھی جبکہ جلال الدین کی والدہ ہندوستانی نژا د تھی۔ اسی وجہ سے ملکہ ترکان خاتون کا تمام عمر جلال الدین سے اختلاف رہا اور وہ ہر وقت جلال الدین کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔ وہ جلال الدین کو حقارت سے ہندوستانی بہو کا بیٹا کہتی تھی۔
چنگیز خان کی یلغار کے دوران ایک وقت ایسا آیا کہ تمام اختلافات بھلا کر قبچاقی جنگجو علاؤالدین خوارزم شاہ کے جھنڈے تلے تاتاریوں سے لڑنے لگے۔ مگر چنگیز خان نے ایک سازش کے ذریعے اس تعلق کو دوری میں تبدیل کردیا۔ تفصیل اس واقعے کی کچھ اس طرح ہے کہ طبرستان کے حاکم بدرالدین عمید کے باپ اور چچا کو خوارز م شاہ نے کسی بات پر قتل کروادیا تھا اور بدرالدین اس بات پر دل میں بغض لیے بیٹھا تھا ۔سمر قند پر چنگیز خان کے قبضے کے بعد وہ خفیہ طور پر سمر قند پہنچا اور چنگیز خان کو خوارزم شاہ اور ترکان خاتون کے اختلاف کے بارے میں بتایا ۔ تاتاریوں نے اس اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی سازش کی اور ملکہ ترکان خاتون اور چنگیز خان کے درمیان ایک جعلی خط تیار کروا کر علاؤ الدین شاہ تک پہنچا دیا۔ خوارزم شاہ اس خط کو اصل سمجھ بیٹھا اور قبچاقی سرداروں پر سخت خفاہوا۔ قبچاقی سرداروں نے غصے میں آکر خوارزم شاہ کے خیمے پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا مگر خوارزم شاہ بچ گیا۔اس واقعے کے بعد قبچاقی سردار باقاعدہ طور پر خوارزم شاہ سے باغی ہوکر چنگیز خان سے جا ملے۔
ملکہ ترکان خاتون اور علاؤالدین خوارزم شاہ کے اختلاف کے ضمن میں شیخ مجد الدین کے قتل کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ شیخ مجددالدین اور گنج کے ولی کامل شیخ نجم الدین کے کبریٰ کے خلیفہ تھے۔ (شیخ نجم الدین کبریٰ کا ذکر پچھلے مضمون میں تفصیلاً آچکا ہے)شیخ مجد الدین سے ملکہ ترکان خاتون کو خاص عقیدت تھی اور وہ شیخ کی مجالس میں بکثرت جایاکرتی تھی۔اس عقیدت کی بنا پر خوازم شاہ کے امراء نے الزام لگایا کہ ملکہ شیخ مجدالدین سے نکاح کرنے والی ہے۔ اس بات کو سن کر خوارزم شاہ آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے فی الفور شیخ مجدالدین کو دریا میں غرق کرکے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ شاہی فرمان یہ عمل کرتے ہوئے شیخ مجد الدین کو اسی طرح قتل کردیا گیا۔ غصہ ٹھنڈا ہونے پر خوارزم شاہ کو بہت رنج ہوا کہ اس نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔ وہ شیخ نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں پیش ہوا اور شیخ کے قدموں میں تلوار اور جواہرات رکھ کر کہا،
’’یا تو مجد الدین کے خون بہا میں یہ دولت قبول کرلیں ورنہ اس تلوار سے میرا سر قلم کرکے قصاص وصول کرلیں۔‘‘
شیخ نجم الدین کبریٰ نے فرمایا،
’’مجدالدین کا خون بہا یہ مال و دولت نہیں ہے، اس کا قصاص تو تمہارا سر اور تمہاری پوری سلطنت ہے۔اور اس میں میرا بھی سر قلم ہوگا اور اللہ کے بے شمار بندوں کے سر بھی قلم کئے جائیں گے۔ ‘‘
(حوالہ: روضتہ الصفا، نفحات الانس)
اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ بات حرف بہ حرف درست تھی۔ ملکہ ترکان خاتون کی مطلعق العنایت نے سلطنت خوارزم کو بہت نقصان پہنچایا۔ زوالِ خوارزم شاہ کے اسباب میں یہ بھی اہم سبب تھا۔ ملکہ ترکان خاتون کو بر صغیر ہندوستان کی ملکہ نورجہاں کے ہم پلّہ طاقتور شمار کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں میں قدر مشترک تھی کہ ان دونوں کے نام کے سکے ڈھالے گئے۔ مگر ترکان خاتون کو علیحدہ دربار رکھنے کے باعث ملکہ نور جہاں پر سبقت حاصل ہے۔
ملکہ نور جہاں کے برعکس ملکہ ترکان خاتون کا انجام بہت دردناک ہوا۔ سقوط اور گنج کے وقت دارالحکومت چھوڑتے وقت ترکان خاتون نے شقاوت اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیس کے قریب شاہی خاندان کے افراد کہ جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ دارالحکومت خالی دیکھ کر تخت پر قبضہ کرسکتے ہیں انہیں قتل کروادیا تھا۔ اور گنج سے فرار ہو کر شاہی خاندان کی مستورات کے ساتھ ترکان خاتون نے ایلان کے قلعے میں پناہ لی۔ یہاں وزیر اعظم نظام الملک محمد بن صالح بھی ترکان خاتون کے ہمراہ تھا۔ شاہی خاندان کی موجودگی کا علم ہوتے ہی تاتاریوں نے ایلان کا محاصرہ کرلیا۔ ایلان کا قلعہ خوارزم کے مضبوط قلعوں میں شمار کیا جاتا تھا اور چار ماہ تک تاتاری اس کی فصیلوں کا محاصرہ کئے رہے مگر کچھ نہ بگاڑ سکے۔
قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ جب کسی کی بربادی کا فیصلہ کرلے تو ظاہری اسباب اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ ملکہ ترکان خاتون کے سلسلے میں بھی ایسا ہی کچھ عجیب و غریب سا واقعہ ہوا۔ ایلان کا قلعہ سرسبز اور شاداب علاقے میں تھا اور وہاں بارش کثرت سے ہوتی تھی۔ قلعے کی غیر معمولی مضبوطی اور علاقے کی سرسبزی اور شادابی کی وجہ سے ہی خوارزم شاہ نے شاہی خاندان کے لیے اسے چنا تھا۔ بارش کی فراوانی کی وجہ سے قلعے میں پانی کی کمی اور قحط کا خطرہ بھی کم تھا۔ مگر قلعے کا محاصرہ ہوتے ہی علاقے سے بارش نے جیسے منہ ہی موڑ لیا۔ ایلان کا علاقہ خشک سالی کا شکار ہوگیا۔ چار ماہ کے سخت محاصرے اور مکمل ناکہ بندی کے بعد قلعے میں راشن ختم ہوگیا۔محصورین بھوک پیاس کی شدت سے بیتاب ہوگئے اور آخر کار تھک ہار کر قلعے سے باہر نکل آئے۔ قلعے کا دروازہ کھلنا ہی تھا کہ آسمان سے گرج چمک کے ساتھ پانی برسنا شروع ہوگیا۔ جل تھل ایک ہوگیا اور مورخ لکھتا ہے کہ قلعے کے دروازے سے پانی کا ریلہ باہر نشیب کی طرف بہہ رہا تھا۔
وزیر محمد بن صالح کو تاتاریوں نے مستقبل کی مشاورت کے لیے قید کرلیا اور شاہی خاندان کا قتل عام شروع کردیا۔ ملکہ ترکان خاتون کو قید کرکے چنگیز خان کے پاس بھیج دیا گیا۔ چنگیز خان کے دربار میں ملکہ ترکان خاتون کو ذلت اور رسوائی کے لاتعداد مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔ چنگیز خان ملکہ ترکان خاتون کو زنجیریں ڈالے فخریہ انداز میں ساتھ لیے گھومتا تھا اور تاتاریوں کی سالانہ قرولتائی (کانفرنس) میں بھی ملکہ ترکان خاتون کو قیدی کے طور پر فاتحانہ انداز میں لے کر جاتا۔ ملکہ کو بھوک مٹانے کے لیے تاتاریوں کے لنگر سے قطار لگا کر کھانا لینا پڑتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی اس کی نخوت برقرار تھی۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ایک خوارزمی جو ملکہ کا خدمت گار تھا اور دوران قید بھی ملکہ کے ساتھ تھا اس نے ایک دن فرارکا منصوبہ بنایا اور ملکہ سے کہا کہ فرار ہو کر نکل چلتے ہیں اور قریب ہی جلال الدین تاتاریوں سے نبرد آزما ہے اس کی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہے۔
مگر ملکہ ترکان خاتون نے جواب دیا کہ جلال الدین کی پناہ میں جانے سے بہتر ہے کہ چنگیز خان کی قید میں رہ لیا جائے ۔ آخر کار اس قید میں بیچارگی کی حالت میں ملکہ ترکان خاتون کا انتقال ہوگیا۔
فَاعْتَبِرُوْ ایَآاُولِی الْاَبْصَارِ
*۔۔۔*۔۔۔*
13 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
Nice article
ماشاءاللہ ہمیشہ کی طرح بہت تفصیل سے لکھا ہے عدیل بھائی نے۔۔۔۔
حوالہ جات نے تحریر میں مذید جان ڈال دی ہے ۔۔۔
بہت عمدہ مضمون لکھا ھے آپ نے ماشاء اللہ عدیل سلیم صاحب ، سلامت رہیں
پچھلے مضامین کی مانند عدیل جملانہ صاحب نے ایک عمدہ مضموں لکھا ہے امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح کے تاریخی مضامیں پڑھنے کو ملتے رہیں گے۔
ماشاءاللہ، عدیل سلیم ایک منجھے ہوئے قلم کار کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور بہت مختصر وقت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔آپ تاریخ پہ کمال عبور رکھتے ہیں اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ انشاءاللہ اسی طرح ہم آپ کے مضامین سے فیضیاب ہوتے رہیں گے۔
تاتاری حملوں پر بہت آسان اور جامع تحریریں ہیں یہ، کچھ چنگیز خان کی اولاد کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بھی لکھیں عدیل بھائی!
I saw your article well. You seem to enjoy safetoto for some reason. We can help you enjoy more fun. Welcome anytime 🙂
We are a factory, and the custom coating machine is all manufactured in-house, so we control every aspect of quality and functionality. We can tailor a coating line to your needs and help you bring your ideas to life. Coating Powder Machine
Foshan Shunde District Zunlang Audio Factory is one of the professional companies that started producing car subwoofers earlier in China. It has maintained a rapid development momentum since its establishment. Subwoofer Car Audio
According to Forbes, the current crypto market has reached $2.07 Trillion, which is insane. Millions of traders are taking advantage of it, earning thousands out of the trillions. paragonixprimex.com
Welcome to Villa Marina, an impressive property hidden in plain sight in a corner of Marbella’s Puente Romano Resort. From the moment you go through the iron gates you will be transported to another world and feel like you have just arrived in a French chateau. Italian cypress trees frame the drive and immediately set the scene: Villa Marina exists in its own little bubble, unlike the busy world outside its gates. Villa Marina
very interesting blog, I feel like reading it again and again. Very nice thoughts. vanillagift.com check balance
If you need a minibus rental service with a driver, please request a quote by filling out the form below. The quote will be personalized and based on your needs. Mikrobusz bérlés sofőrrel