حیدر میر خان کا تعلق ہندوستان کے شہر حیدرآباد سے تھا ۔ وہ نویں کلاس میں تھا جب پاکستان وجود میں آگیا ۔ پاکستان دیکھنے کی تڑپ اور شوق اس نوجوان کو ایک دو دوستوں اور ایک عدد سائیکل کے ساتھ پاکستان کھینچ لائی ۔ جب اس نے اپنی ماں کو آواز لگائی کہ ” اماں میں پاکستان جا رہا ہوں ” ۔ اسوقت اس کی ماں ہنڈیا پر سالن چڑھائے بیٹھی تھی وہ غور سے بیٹے کی شکل تک نہ دیکھ سکی ۔ جب تک بھاگ کر صحن میں آئی بیٹا پاکستان کے لئیے نکل چکا تھا ۔ پاکستان تو پاکستان تھا وہ بھی 1947 کا پاکستان کونسا امریکا تھا ۔ یہاں آکر اس کو معلوم ہوا :
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
اس نویں کے طالبعلم نے ایک چائے کے ہوٹل میں نوکری کرلی ۔لوگوں کو چائے پلانا ، صبح سے رات تک میز وں پر کپڑا مارنا ،ٹیبل پر پانی بھر کر رکھنا اور رات کو اسی ہوٹل کی کسی ٹیبل کے نیچے سوجانا ۔ کچھ عرصے بعد اس نوجوان نے کنڈکٹری شروع کردی۔ اس دفعہ سر چھپانے اور رات گزارنے کے لئیے بس کی چھت مل گئی تھی ۔ روزو شب ایسے ہی گزرتے رہے کہ ایک دن پولیس والے کی گاڑی پر کپڑا مارنا کام آگیا ۔ “صاحب” نے تھانے بلا لیا اور اس طرح تھانے میں صفائی کرنا ، سپاہیوں کو چائے پلانا اور تھانے کی دیوار کے ساتھ ہی سوجانا ۔ کچھ عرصے بعد پولیس میں نوکریاں آئیں اور اس نوجوان کو اسی پولیس آفیسر نے بھرتی کروادیا ۔ تھانے میں صفائی کرنے والا اب سپاہی بن چکا تھا ۔ اس نے دن رات ایک کردیا ۔ محنت اور ایمانداری مل کر وہ قیامت ڈھاتے ہیں کہ جسکا اندازہ بھی شاید ہم نہ کرسکیں ۔اس نے ایمانداری کا بیج بونے کے بعد محنت کی سرمایہ کاری شروع کردی ۔ اگر آپ کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور خدا پر یقین ہے تو پھر آپ آج کی محنت کا صلہ آج وصول کرنے کے بجائے اس کسان کی طرح فصل آنے کا انتظار کرینگے جو بیج بونے کے بعد روز صرف اپنی محنت کا پانی اپنی خالی زمینوں پر ڈالتا رہتا ہے لیکن اس کو یقین ضرور ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل میری کھیتی پھل ضرور لائیگی ۔
وہ نوجوان سپاہی سے افسر بنا ۔ سب انسپکٹر ، انسپکٹر ، ایس – ایچ – او ، ڈی – ایس –پی اور پھر سی – آئی – ڈی کا ایس – پی بن گیا ۔ سندھ کے پانچ اضلاع کی پولیس اس کپڑا مارنے والے نوجوان کو سیلوٹ مارنے لگی ۔ لیکن اس کی ایمانداری میں فرق نہیں آیا ۔کبھی غوث علی شاہ اور کبھی قائم علی شاہ اس کے دروازے تک آنے لگے ۔ اسی دروازے پر جہاں آج بھی ٹاٹ کا کپڑا پڑا تھا اور وہ اب بھی اپنی ساس کے دئیے مکان میں رہائش پذیر تھا ۔
نوٹوں سے بھرے بریف کیس آتے۔ جیسے آتے ویسے ہی چلے جاتے ۔ ہر نئے موسم میں آنے والے پھلوں کی پیٹیاں زمین داروں اور وڈیروں کی طرف سے ” تحفے ” میں آتیں ۔ جس طرح آتیں اسی طرح غریبوں میں بانٹ دی جاتیں ۔ بچے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے رہے ۔ گھر میں ماسی تک رکھنے کے لئیے ” ایس – پی ” صاحب کے پاس پیسے نہیں تھے ۔گارڈز اور ڈرائیورز تک حیران و پریشان تھے کے انسانوں کی بستی میں یہ کون آدمی آگیا ہے ؟ 2 ستمبر 2002 کو اس ریٹائرڈ ایس – پی کا لیاقت آباد سے جنازہ اس حال میں اٹھا کہ اس کے اوپر کسی کا ایک پائی پیسہ حساب نہیں تھا ۔لیکن اس کی انویسٹمنٹ تھی ۔
جی ہاں وہ عقل مند پولیس آفیسر تھا سرمایہ کاری تگڑی کرگیا ۔ اس نے عزت ، محبت ، خوشی ، سکون اور اطمینان کی سرمایہ کاری کرلی تھی ۔ خدا کی اس کائنات میں سب سے میٹھا اور بڑا پھل صبر کا پھل ہے ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ “دیہاڑی کی سوچ ” ہے ۔ ہم چاہتے ہیں میں آج محنت کروں اور اس کا صلہ مجھے آج ہی مل جائے ۔ اللہ تعالی نے حیدر میر خان صاحب کو سات اولادیں عطا کیں ۔ دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں سب کا تعلق اندرون سندھ خیرپور کے پسماندہ علاقے سے تھا ۔ آج جب میں ان کے بیٹوں کے پاس دولت کی فراوانی ، خدا کی دی ہوئی ہر نعمت خاص طور پر دین کی سمجھ اور ان کی بیٹیوں کو اپنے محبت کرنے والے شوہروں اور بچوں کے ساتھ سکون اور اطمینان سے دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی کسی کی محنت اور سرمایہ کاری ضائع نہیں کرتا ہے۔
آپ جس کے ساتھ پیسے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو آپ کو یقین ہوتا ہے کہ مجھے منافع بھی یہیں سے ملے گا ۔ لیکن اللہ تعالی کے ساتھ سودا اور سرمایہ کاری کرنے والا “انویسٹمنٹ ” کہیں کرتا ہے اور منافع کہیں اور سے ملتا ہے ۔ بعض دفعہ وہ منافع آپ کو نہیں ملتا لیکن آپ کی اولاد ضرور اس منافع سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔ یاد رکھیں اس دنیا میں عزت ، خوشی ، سکون اور دولت کا اللہ نے بڑا آسان اور سیدھا سا ” فارمولہ ” رکھا ہے ۔آپ اگر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں میں جن چیزوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو دوسروں کی زندگیوں میں انکا اضافہ کرنا پڑیگا ۔ آپ لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردیں اللہ آپ کی زندگیوں کو آسانیوں سے بھردیگا ۔نبی مہربانﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے : جو زمین والوں پر رحم کرتا ہے آسمان والا اس پر رحم کرتا ہے “۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صبر کرنے کے لئیے تیار نہیں ہیں ۔ ہم انتظار کرنے سے گھبراتے ہیں ۔اور یاد رکھیں جلدی کا نتیجہ عام طور پر خراب نکلتا ہے ۔جس طرح پیسہ کمانا پڑتا ہے اسی طرح عزت کمانی پڑتی ہے اور یہ میں نے حیدر میر خان صاحب سے سیکھا ہے ۔ پیسہ کمانا جتنا مشکل ہے ۔ اس کو سنبھالنا اس سے زیادہ مشکل ہے اور عزت کو سنبھالنا ان دونوں سے زیادہ مشکل ہے ۔ عام طور جن کو پیسہ مل جاتا ہے ان کی زندگیوں سے سکون اور اطمینان ختم ہوجاتا ہے ۔نیند کی گولیوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے ۔ سکون اور اطمینان زندگیوں سے چلا جاتا ہے ۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگ پیسے کو اپنا غلام بنانے کے بجائے پیسے کے غلام بن جاتے ہیں اور جو پیسے کا غلام بن جائے پھر وہ لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں نہیں پیدا کرسکتا ہے ۔ اور جو مخلوق کے لئیے آسانی پیدا نہ کرے اس کے لئیےزندگی دشوار تر ہوجاتی ہے ۔ اسلئیے خدارا !” دیہاڑی کی سوچ ” کو چھوڑیں اور سرمایہ کاری کی سوچ کو پروان چڑھائیں ۔ یہ آنے والی نسلوں تک کو خوشیاں فراہم کرے گی ۔