گدھے گاڑیوں کا شہر اوستہ محمد 

دنیا جتنی بھی گھومنی ہے گھوم لیجئے مگر پوری دنیا میں سب سے زیادہ اتنے گدھے آپ کو کہیں نہیں ملیں گے البتہ اوستہ محمد شہر میں آنا ہوتو آپ کو یہاں ضرور مل جائیں گے۔کیونکہ اس شہر میں گدھوں کی کمی نہیں ہے۔ہر دس قدم کے فاصلے پہ آپ کو ایک گدھا ملے گا۔ارے بھائی، اس شہر کی سب سے زیادہ خوبصورتی بھی ان گدھوں کے دم سے ہے جو گاڑیوں میں جتے ہوتے ہیں۔یہ گدھے اس شہر کی ٹریفک جام کردینے میں اہم کردار ادا کرتے اور چند منٹوں میں پورے شہر کی سڑکیں بند کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ چند ٹریفک پولیس اہلکار بھی ان کا کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ گدھے بھلا کیسے قانون کو مانیں گے۔اس شہر میں دھوپ ،حبس ،سردی ،گرمی کا رواج بہت پرانے وقتوں سے چلا آ رہا ہے اس لیئے اس شہر کے لوگوں کے طور طریقے بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نوازی میں بھی بہت مشہور ہیں۔یہان کے لوگ اپنی زمین سے بڑا پیار کرتے ہیں۔یوں کہ ریل کی پٹڑیاں اٹھا کر اپنے گھروں میں لے آتے ہیں ،ریلوے کی اراضی پہ بڑے بڑے بنگلے بنا لیتے ہیں جن کو گرانا کسی کے بس میں نہیں۔
اوستہ محمد ضلع جعفرآباد کی ایک تحصیل ہے۔یہ تحصیل سطح سمندر سے 134 فٹ بلندی پہ واقع ہے۔اس شہر کا نام محمد خان اوستو کے نام پہ رکھا گیاتھا۔ کاروباری اعتبار سے بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔اس شہر میں ایک سو کے لگ بھگ چاول کی ملیں موجود ہے۔بجلی کا فقدان ان مل مالکان کیلئے مشکلات بنتی ہیں۔ اس شہر کی چائے بھی بہت مشہور ہے اور اس کے ساتھ اس شہر کی اندر بھیک مانگتے فقیر بھی جن کے آوازیں بہت عمدہ ہوتی ہیں،عام ملیں گے۔ بازار میں جاتے ہوئے ایک ایسا گداگر بھی ملے گا جو لوگوں کا پاؤں پکڑ کر پیسے وصولتا ہے۔جب تک اس کو پیسے نہیں ملتے تب تک پاؤں نہیں چھوڑتا۔ ہمیں بھی اس گداگر نے کئی مرتبہ پکڑا ،دس بیس روپے دے کے اپنی جان چھڑا ئی۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیاکہ اس شہر کی خوبصورتی یہاں موجود گدھے گاڑیوں کی وجہ سے ہیں تو سن لیجئے کہ یہاں پانچ ہزار کے لگ بھگ گدھے گاڑیاں موجود ہیں جو پورے شہر میں آپ کو ہر وقت ہر گلی میں ملتے رہیں گے۔یہ وہ سواریاں ہیں جو پورے شہر کا بوجھ اٹھا لیتی ہیں، اس شہر میں گدھوں کو دوڑایا بھی جاتا ہے جس پہ لاکھوں روپے کا سٹہ بھی لگایا جاتا ہے۔یہاں آپ کو ایسے ہیروگدھے بھی ملیں گے جن کی قیمت دو لاکھ سے پانچ لاکھ ہے۔ پورے شہر کا بوجھ اٹھانے والا یہ جانور اینٹوں کے کاروبار میں بہت مشہور ہے شہر کے سارے گھر بنانے کا بوجھ انہی نے اٹھایا ہوا ہے کیونکہ گدھے گاڑی میں اینٹ نہیں ٹوٹتی اور ہر گلی ہر محلے میں یہ جانور آسانی سے داخل ہوجاتاہے۔ کبھی دوکان کا سامان اٹھاتے ،کبھی چاول کی فصل کے گھاس اٹھاتے، کبھی میڈیسن اٹھاتے۔ اگر گدھے نہ ملیں گے تو وہ صرف دوکان کے اندر،ورنہ ساری سڑکیں ان گدھوں سے بھری ہوئی ملیں گیں۔
اوستہ محمدکو چار یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ ان یونین کونسل میں ترقیاتی کام بہت کم ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بارش کی دو بوندیں شہر کو کیچڑ بنا دیتی ہیں۔ اس شہر میں مختلف زبانیں بولی جاتی جن میں بلوچی سندھی سرائیکی اور دوسری چھوٹی موٹی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہاں ہندو بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔ 50 فیصد ہندو لوگ کاروباری ہیں۔اس شہر کے بیچ سے نکلنے والی نہر گٹروں کے پانی کیلئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ شہر کی آدھی گندگی اس نہر سے بہتی ہے جس کی وجہ سے یہ شہر ہیپاٹائٹیس بی اور سی کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر مانا جاتا ہے۔ ہر ایک سو آدمی میں سے تین سے چار لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ملیں گے۔
اوستہ محمد کی مشہور جگہیں پرانا ہائی اسکول ، ڈگری کالج ،ہسپتال، ریلوے نظام ،گھنٹہ گھر، چوک اچھی مسجد (سفید مسجد)اور حق باہو کا مزار ہیں۔ریل کا نظام تقریباً سو سالہ ہوگا مگر یہ نظام اب دیکھنے کے لائق نہیں ہے۔ اس کی حالت زار اب صرف کسی کھنڈر سے کم نہیں۔ اس شہر کو گرین بیلٹ کا خوبصورت شہر کہا جاتا ہے مگر صرف نام کی حد تک۔ گرین بیلٹ اب ویران بیلٹ بن رہا ہے۔ اگر کوئی دوست اس شہر میں کچھ دیکھنا چاہتا ہے تو اس شہر میں موجود پانچ ہزار گدھے اور گاڑیاں ہیں ان کے علاوہ یہاں کچھ بھی خاص نہیں رہا۔البتہ اس شہر میں الیکشن کے دوران بہت سے نعرے مشہور ہیں جن میں چند نعرے یہ ہیں۔
دیکھو دیکھو کون آیا۔شیر آیا شیر آیا۔
اگلی باری پھر زرداری۔
ایک زرداری سب پہ بھاری۔
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔
ایک سونامی ایک طوفان عمران خان عمران خان
یہ نعرے صرف الیکشن کے دوران ہی گونجتے ہیں باقی سارا سال گدھے ہنہناتے ہیں۔

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں