آج کا دور مصروفیت سیمعنون ہے ۔مسابقت کی غیر صحت مند دوڑ میں خواہ چھوٹا ہویا بڑا ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہے۔ عدیم الفرصتی کے اس دور میں خاندان کے پورے افراد کو اگر اکٹھاہوکر چندیوم راحت و فرصت اور خوشی و مسرت سے بسر کرنے کا موقع حاصل ہوجائے تو یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ ہر سال گرمائی تعطیلات جہاں طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے لیے نوید مسرت و خوشیوں کا شادیانہ ہوتے ہیں وہیں والدین کی ذمہ داریوں میں یہ ایک بڑے اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔گرماکی تعطیلات میں طلبہ کو با مقصدسرگرمیوں میں مصروف رکھنا والدین کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ عام دنوں میں اسکول کی روز مرہ نصابی سرگرمیوں، تعلیمی مصروفیات اوروقت کی قلت کی وجہ سے والدین بچوں کی دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کی سلسلے میں خو د کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔لیکن گرماکی تعطیلات والدین کو بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کا ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ مبسوط و منظم منصوبہ بندی کے ذریعہ تعطیلات میں والدین بچوں کی اصلاح ،کردار اور شخصیت سازی کی عمدہ کوشش کرسکتے ہیں۔ گرمائی تعطیلات کا آغاز ہوچکا ہے ۔گرمی کے قہر سے بچے دن بھر گھروں میں محبوس ہوکر آوٹ ڈور سرگرمیوں میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔ موسمی حالات کے پیش نظر والدین ایسا منصوبہ ترتیب دیں جو بچوں کو آؤٹ ڈور اور ان ڈور سرگرمیوں میں حصہلینے میں معاون ثابت ہوں۔والدین چھٹیوں میں بچوں کے روز مرہ معمولات اورغذا میں توازن برقرار رکھیں تاکہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما بہترطریقے سے ہوسکے۔چھٹیوں میں اگر طلبہ کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ منفی تفریحی سرگرمیوں کی جانب مائل ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے والدین بچوں کی دینی تعلیم کی منصوبہ بندی پر خصوصی توجہ دیں ٹی وی اسکرینس اور انٹر نیٹ پر وقت ضائع کرنے سے باز رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی صلاحیتوں کو صحیح راہ میں لگانا اساتذہ اور والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔
ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق طویل معیادی چھٹیوں میں بچوں کی روٹین خراب ہو جاتی ہے او ر وہ ا سکول نہ جانے کی وجہ سے اکثر صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں۔چھٹیوں کے دوران والدین کی جانب سے برتی جانے والی لاپرواہی کا خمیازہ معصوم طلبہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔بعض والدین چھٹیوں کو صرف آرام کا وسیلہ سمجھ کراسے ضائع کردیتے ہیں۔چند والدین بچوں کی شرارتوں ،شورو غل یا پھر دیگر وجوہات کی وجہ سے بچوں کو کسی اکیڈیمی یا ٹٹوریل میں داخل کرتے ہوئے خود کو بری الذمہسمجھتے ہیں۔ایسی روایتی سرگرمیاں بچوں کے لئے اضمحلال کاسبب ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات و تعلیم کے نزدیک اس طرح کافیصلہ بچوں کی تخلیقی ،ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔چھٹیوں کی موثر و منظم منصوبہ بندی سے بچوں کی ذہنی، جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ بخشا جاسکتا ہے۔تعطیلات میں نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں بچوں میں قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتی ہیں۔ذیل میں چند ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر طلبہ تعطیلات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اپنے فاضل وقت کو کارآمد طریقے سے گزارتے ہوئے تعطیلات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا پائیں گے۔
تنظیم وقت کی تربیت؛۔ تعطیلات میں بچوں کی تربیت کا پہلا مرحلہ شب و روز کے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ والدین بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی مشاورت سے ان کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کریں۔
بچو ں کی صلاحیتوں کا جائزہ اور لائحہ عمل ؛۔گرمیوں کی تعطیلات میں والدین بچوں کی تعلیمی کمزوریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہتر منصوبہ بندی کے لیے والدین اساتذہ سے مل کر بچوں کی کمزوریا ں معلوم کریں اور اسے دور کرنے میں معاون مشورے حاصل کریں۔بچوں کی گزشتہ تعلیمی کیفیت کا جائزہ لیں۔ان کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرست تیار کریں اور انھیں دور کرنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کریں۔ایسی خامیاں جن کو دور کرنے کے لئے زیادہ وقت مطلوب ہوتا ہے تعطیلات انھیں دور کرنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
آموختہ ؛۔تعلیمی نفسیا ت میں آموختہ و اعادہ ( Law of Repeatation)کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اسی لئے طلبہ کو گر ما کی چھٹیوں میں بھی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ منسلک رکھنا بہت ضروری ہوتاہے تا کہ وہ چھٹیوں سے پہلے پڑھائے گئے اسباق چھٹیوں کے دوران اور بعد میں بھی یاد رکھ سکیں۔
دینی تعلیم کا اہتمام؛۔ دینی تعلیم کا حصول وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ گر ما ئی دینی کلاسس سے بھر پور فائدہ اٹھا ئیں ۔ قریبی مسجد یا مدرسے میں جہاں صباحیہ (صبح کا مدرسہ) یا مسائیہ (شام کا مدرسہ) تعلیم کا انتظام ہے وہاں بچوں کو شریک کرتے ہوئے ناظرہ قرآن پڑھانے کا بندو بست کریں یا خود پڑھائیں ۔ قرآن پاک سیکھانے کی مناسب منصوبہ بندی کریں۔قرآن پاک کی تلاوت سے نہ صرف خیرو برکت حاصل ہوتی ہے بلکہ ہماری زندگی میں ایک خوش گوار انقلاب بھی رونما ہوتا ہے۔موسم کی شدت کے پیش نظر بچوں کی صحت کا خیال رکھنا اور انھیں گرمی اور دھوپ سے بچانا بھی بے حد ضروری ہے۔اس کے لیے دن کے اوقات میں ان ڈور سرگرمیاں ترتیب دیں اور سہ پہر میں کھیلنے کودنے باہر نکلیں۔گرمی میں مشروبات اور سادہ غذا کا شیڈول ترتیب دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ بھی اس سال چھٹیوں میں آ رہا ہے۔ والدین بچوں کو روزے رکھنے، واعظ و نصیحتیں سننے، نماز یں پڑھنے، ذکر و اذکار کرنے، پاک صاف اور با وضو رہنے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور ثواب کمانے کی ترغیب دیں۔ بچوں کو احادیث، آیات، ماثورہ دعاؤں کا نصاب تیار کر کے دیں اور انھیں باقاعدگی سے زبانی یاد کرنے کی تاکید کریں۔ روزانہ کی بنیادوں پر اس کا جائزہ لیتے رہیں۔ اس سلسلے میں والدین کوتاہی سے کا م نہ لیں۔ تفریح اور دعوتوں کے نام پر اولاد کو دین سے دور نہ کریں۔ والدین اگر دلچسپی کے ساتھ روزانہ کے نظام الاوقات پر کاربند رہیں تو اس سے بچوں کو بہت فائدہ ہوگا ورنہ والدین کی بے پروائی کی وجہ سے طلبہ سستی اور کاہلی کا شکار ہوکر اپنی قیمتی چھٹیاں گنوا دیں گے ۔بچوں میں قرآن مجید سے قلبی لگاؤ اور محبت پیدا کرنے کے لیے والدین روزانہ بچوں سے تلاوت کروانے کے ساتھ خود بھی قرآن مجید کی تلاوت کریں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں اور جمعہ کے دن خاص طور پر سورہ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔
دینی سمر کیمپس؛۔اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اور وقت و عمر کی قدردانی کرتے ہوئے اولاد کی تربیت کی فکر کریں۔ لایعنی اور فضول مشغلوں میں ان کے اوقات کو ضائع کرنے کے بجائے دینی تعلیم و تر بیت کا مستقل انتظام کریں اورموسم گرما میں چھٹیوں کے پیشِ نظر چلائے جانے والے’’سمر کلاسس‘‘ اور ’’ سمر کیمپس‘‘سے بھر پور فائدہ اٹھا کر قرآن و سنت کی تعلیمات اور دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کا راستہ ہموار کریں۔ انشاء اللہ چھٹیوں کا بھی صحیح استعمال ہوگا اوروالدین بھی اولاد کی تعلیم وتربیت میں کوتاہی کے گناہ سے محفوظ ہوجائیں گے۔ قرآن فرماتا ہے ’’ائے ایمان والو! اپنے آپ کو او ر اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسا ن اور پتھر ہوں گے۔(التحریم :6)حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ ﷺ اپنے آپ کو تو جہنم سے بچاناسمجھ میں آگیا لیکن گھر والو ں کو کیسے بچائیں تو آپ نے فرمایا کہ جس سے تم کو منع کیا گیاان کو منع کرواور جس کاتم کو حکم دیا گیا ہواس کا انھیں بھی حکم دو۔اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب میں وہ ہوگا جواپنے گھر سے بے خبر رہا۔(روح المعانی:28/156)
تعلیمی سمر کیمپس؛۔ اسکولوں کی جانب سے منعقد کردہ سمر کیمپس بھی طلبہ کو موسم گرما کی چھٹیوں میں نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں مصروف رکھنے میں معاون ہوتی ہیں۔بچوں کودوسرے بچوں سے میل جول بڑھانے ،آپس میں اکٹھے وقت گزارنے اورایک دوسرے سے سیکھنے میں سمرکیمپس مددگار ہوتے ہیں ہر بچے میں قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اس خوبی کو نکھارنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے۔سمر کیمپس مختصر وقت ( دو یا تین گھنٹوں) پر مبنی اپنی سر گرمیوں کے ذریعے طلبہ میں خوش خطی(Hand Writing) ،تحریری و تقریری مہارتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اخبارات ،میگزین اور کتب بینی کے مشاغل اور دیگر معلوماتی پروگرامس ان سمر کیمپس کا خا صہ تصور کیئے جاتے ہیں۔
نماز پنج گانہ کی تربیت ؛۔بچوں کو نماز پنج گانہ کا عادی بنانے میں تعطیلات بہت کارآمد ہوتی ہیں۔ والدین بچوں کو نماز کی تاکید کی بجائے ان کے ساتھ ادائیگی نماز کا معمول بنائیں تا کہ بچوں میں نمازکی عادت پختہ ہو سکے۔بچوں کے دن کی شروعات نمازفجر سے کریں۔فجرکے بہترین اور بابرکت وقت کو بچوں کی نیند کی نذر نہ کریں۔ بچوں کو وقت پر اُٹھنے اور ادائیگی نماز پر حوصلہ افزائی کے لئے گاہے بگاہے انعام سے بھی نوازیں۔ جب صبح خیزی کی عادت بچوں میں پختہ ہو جائے توانھیں فجر کے وقت باری باری دوسروں کو بیدار کرنے کی ذمہ داری پر مامور کریں جس سے ان میں احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی کے تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا۔ والد کا بیٹوں کو باجماعت نماز کاعادی بنانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ مسجد لے کر جائے ،نماز پڑھنے اور امامت کے آداب سکھائے۔
سیر و تفریح ؛۔بچوں کی صرف ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں وقت اور توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت نکال کر انہیں تفریحی مقامات کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے مقامات کی بھی سیاحت کروائیں جن کے ذریعے انہیں اپنے ماضی اور تاریخ کا علم ہو سکے۔ تاکہ تعطیلات میں بھی تعلیم سے ان کا لگاؤ برقرار رہے۔تعلیمی سیر جیسے عجائب گھر، سائنس میوزیم اور تاریخی مقامات کی سیر و سیاحت سے طلبہ کو سیکھنے اور راست مشاہدہ کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ روزانہ کسی پارک، تفریحی مقام، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر تفریح کا پروگرام ترتیب دیں۔ کھلی فضا،مناظر فطرت کے مشاہدہ کے علاوہ جسمانی اور ذہنی صحت پر شاندار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ خاص طور پر صبح کے وقت کلیوں کا چٹکنا اور پھول بننا، پرند وں کی چہچہاہٹ، سورج و چاند کا طلوع و غروب ہونا،، ستاروں کا چمکناپوری کائنات کاآفاقی نظام فطرت بچوں کو اللہ کے احکامات کی پیروی اور پاسداری کے اصول سیکھاتے ہیں۔
آپسی محبت کو فروغ دینے کے کام ؛۔بچوں کی تربیت کے لیے کچھ خاص پہلو ایسے ہوتے ہیں جن پر تعطیلات میں ہی توجہ دی جا سکتی ہے مثلاً باہمی محبت میں اضافے کے لئے چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا(ظہرانہ و عشائیہ) اکٹھے کھانے کا معمول بنائیں۔ معلومات پر مبنی ٹیلی ویژن پروگرامز سب گھر والیمل کر دیکھیں۔ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے بچے گھر کے کاموں میں نہ تو دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی گھریلو ذمہ داریوں میں زیادہ اہم کردار ادا کر پاتے ہیں۔ لہذا تعطیلات کا فائدہ اٹھا کرانہیں اپنے کمرے کی صفائی، مہمانوں کی خاطر تواضع اور استعمال کی دیگر اشیاء کی دیکھ بھال سکھائی جا سکتی ہے۔ سماجی بہبود کے حوالے سے کوئی نہ کو ئی ذمہ داری بچے کو ضرور دی جائے مثلاً چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال ،گھر کے بزرگ جیسے دادا،دادی،نانا،نانی کی دیکھ بھال ان کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی ضروریا ت جیسے غذا پانی کو وقت پر دینا انہیں اخبار پڑھ کر سناناوغیرہ ۔یہ سنہری کام بچوں کی تربیت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ رشتے داروں سے میل جول اور ملاقات کے آداب سکھانے کے لیے انہیں رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے لے کر جائیں۔ والدین کے اس کام سے بچوں میں خونی رشتوں کی اہمیت، صلہ رحمی اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھیں گے۔والدین بچوں کی دوستیوں اور ان کی صحبت پر نظر رکھیں اور ان کی جانچ کے لیے کبھی کبھار ان کے دوستوں کو اپنے گھر بلائیں، ان سے ملیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں، ان کی عزت کریں تاکہ ان کا اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔لیکن اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں بلکہ حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنے بچوں کو ایسی دوستی سے دور رکھیں تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
کراش کورسس؛۔چھٹیو ں میں بچوں کو با مقصد علمی، ادبی اور تفریح سر گرمیوں میں مصرو ف رکھنا ضروری ہوتاہے۔ مطا لعے کی عادت پیدا کر نے کے لیے بچوں کو لائبریری کی رکنیت دلائی جائے۔ لینگویج امپرومنٹ کراش کو رسز کے ذریعے زبان دانی کی مہارتوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر میں مہارت پیدا کرنے کے لیے مختصر مدتی کراش کورسز معاون ثابت ہوتے ہیں۔ خوشخطی (Hand Writing) امپرومنٹ کلاسز کے ذریعے بچوں کی لکھائی کو دلکش بنایا جاسکتا ہے۔ تعطیلات کے دوران مختلف مضامین پر مبنی کراش کورسس طلبہ کے لئے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔کراش کورسس طلبہ کی ذہنی اور تعلیمی صلاحیتوں میں بہتر ی پیدا کرتے ہیں۔ڈاکومینٹری فلمیں اور تاریخی دستاویزات کے مطالعے اور مشاہدے سے طلبہ میں تجسس ،ذوق ا ور اشتیاق کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے ۔
عارضی وجزو وقتی ملازمت؛۔ تعطیلات کے دوران ہائیر سیکنڈری اور گرایجویشن کے طلبہ کوئی جزو وقتی نوکری حاصل کرتے ہوئے نہ صرف اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں سے باہر کی دنیا کا عملی مشاہدہ کرنے کا بھی انھیں راست تجربہ حاصل ہوتا ہے۔اگر کسی قسم کی معاشی تنگی نہ بھی ہو تب بھی طلبہ دیڑھ دو ماہ کی تعطیلات میں ملازمت کرتے ہوئے کام اور پیشے کی اہمیت و افادیت کے متعلق عملی معلومات وتجربات حاصل کرسکتے ہیں۔
رضاکارانہ خدمات .۔طلبہ تعطیلات کے دوران رضاکارانہ طور پر فلاح و بہبود کی مختلف سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے اپنے فاضل وقت کا بہتر استعمال کرسکتے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر مختلف فلاحی کام انجام دینے سے طلبہ میں خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور طلبہ آگے چل کر معاشرے کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار پیش کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔محتاجوں ،یتیموں ،غریبوں اوریا بزرگوں کی خدمت سے طلبہ میں انسانی اقدار پروان چڑھتے ہیں اور انھیں سماج میں بسنے والے مختلف افراد کی ضرورتوں کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔
نئی مہارتیں سیکھنا؛۔ چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر و مہارتیں سکھا نے کی کوشش کریں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ گھر میں اگر لان یا کیاری کی جگہ ہو تو والدین بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا بھی سکھا سکتے ہیں۔ٹوٹی ہوئی اشیا جیسے خراب کمپیوٹر یا میز کی مرمت و درستگی وغیرہ سے طلبہ پیشے کی عظمت و احترام سے واقف ہوتے ہیں۔آن لائین کورسس بھی طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتے ہیں۔ تعطیلات کے دوران طلبہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے ہوئے عملی تجربہ حاصل کرسکتے ہیں۔ جو ان کی آنے والی زندگی میںیقیناًکارآمد ثابت ہوگا۔یہ سرگرمیاں طلبہ کو پیسے کمانے بچانے اور انھیں مناسب طریقے سے خرچ کرنے کی تربیت فراہم کرتی ہیں۔اس کے علاوہ طلبہ باغبانی ،فنون لطیفہ جیسے آرٹس ،ڈرائنگ سنگ تراشی ،نقاشی فوٹو گرافی و دیگر فنون کو سیکھتے ہوئے بھی اپنی تعطیلات کو پر لطف اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔اپنے ذخیرہ الفاظ (Vocabulary) میں اضافے کے ذریعے طلبہ لفظیات کے بہتر استعمال کی مہارت سے خود کو آراستہ کرسکتے ہیں۔یہ مہارت نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کی کامیابی کے لئے ضروری تصور کی جاتی ہے۔ تعطیلات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے طلبہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھیں اور مطالعہشدہ کتابوں سے اخذ کردہ اپنے تجربات کو قلم بند کرنے کی باقاعدہ مشق کریں تاکہ تحریر میں پختگی اور بہتری پیدا ہوسکے۔چھٹیوں میں اچھی عادات کی تشکیل و فروغ پر توجہ مرکوز کریں۔کامیابی فراہم کرنے میں مددگار کتابوں اور مضامین کو مطالعے میں شامل رکھیں۔پڑھنے کی رفتار میں اضافہ کرنے والی مہارتیں کو سیکھیں۔
کھیل کود کی صلاحیتوں کا فروغ ؛۔کھیل ا نسان کی ذہنی، جسمانی نشونما کے لئے نہایت اہم ہو تے ہیں۔ کھیل انسان کو چاق و چوبند اور تندرست رکھتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے کھیل بھی بامقصد ہونے چاہئے ، وقت کی بربادی کا سبب نہ بنیں اور انسانی صحت و تندرستی کا وسیلہ ہوں۔ تیراندازی، تیراکی، نیزہ بازی، کشتی ،کبڈی اور دوڑ جیسے کھیل انسان کی صحت کے لئے معاون ثابت ہوئے ہیں۔کھیل چستی پھرتی پیدا کرنے کے علاوہ نظم و ضبط(ڈسپلن) اور قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کھیل سے قوت حافظہ، قوت برداشت اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور اعضاء و جوارح بھی مضبوطبنتے ہیں۔تعطیلات میں بچے صحت مند کھیلوں کی جانب توجہ نہ کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنے انٹر نیٹ پر گیمز کھیلنے میں وقت ضائع کرتے ہوئے اپنی صحت کو برباد کرلیتے ہیں مذکورہ مشغلے اخلاقی خرابی کا بھی ایک بہت بڑا سبب بنے ہوئے ہیں۔
گھر بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے بچوں کے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار والدین کو ہوتا ہے۔ گو آج کل کے معمولات بچوں کو خود سر بنا رہے ہیں۔ لیکن والدین کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بچوں کی شخصیت کی نشوونما میں و الدین کااتنا ہی کلیدی کردار ہوتا ہے جتنا کہ استاد کا۔ اسکول و کالج میں زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے استاد ہر بچے پر پوری توجہ نہیں دے سکتا لیکن گھر میں والدین تو بچے پر پوری توجہ دے سکتے ہیں کیونکہ بچے اسکول یا کالج میں 5 تا 8 گھنٹے گزارنے ہوتے ہیں جبکہ 16تا19گھنٹے وہ گھر میں بسرکرتے ہیں۔یہ بات صرف چھٹیوں کی نہیں ہے بلکہ عام دنوں میں بھی بچے 16تا19گھنٹے گھر میں گزارتے ہیں ۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ 8 گھنٹے سونے کے نکال کر باقی وقت کو اس طرح تقسیم کریں کہ عام دنوں میں بھی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے دینی تعلیم کا وقت بھی نکل آئے اور بچے نماز کے بھی پابند ہوجائیں۔ نماز کی پابندی جہاں اللہ کی خوشنودی و رضا کا سبب بنتی ہے وہیں بچے نماز کے ذریعے ڈسپلن بھی سیکھتے ہیں۔ وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے اگر والدین یہ سوچ کر کہ بہت زیادہ گرمی ہے بچوں کو آرام کرنے دیں تو یہ ان کی محبت نہیں بلکہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہوگی۔ سخت ترین موسم میں بھی ہمارا دین کسی کام سے ہمیں نہیں روکتا۔الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنا وقت کا اہم اور ناگزیر تقاضہ ہے۔دیڑھ ،دو ماہ کی طویل چھٹیوں کے دوران والدین پیش کردہ نکات بالا کے ذریعے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرسکتے ہیں۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔