آج کا دور مصروفیت سیمعنون ہے ۔مسابقت کی غیر صحت مند دوڑ میں خواہ چھوٹا ہویا بڑا ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہے۔ عدیم الفرصتی کے اس دور میں خاندان کے پورے افراد کو اگر اکٹھاہوکر چندیوم راحت و فرصت اور خوشی و مسرت سے بسر کرنے کا موقع حاصل ہوجائے تو یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ ہر سال گرمائی تعطیلات جہاں طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے لیے نوید مسرت و خوشیوں کا شادیانہ ہوتے ہیں وہیں والدین کی ذمہ داریوں میں یہ ایک بڑے اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔گرماکی تعطیلات میں طلبہ کو با مقصدسرگرمیوں میں مصروف رکھنا والدین کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ عام دنوں میں اسکول کی روز مرہ نصابی سرگرمیوں، تعلیمی مصروفیات اوروقت کی قلت کی وجہ سے والدین بچوں کی دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کی سلسلے میں خو د کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔لیکن گرماکی تعطیلات والدین کو بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کا ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہیں۔ مبسوط و منظم منصوبہ بندی کے ذریعہ تعطیلات میں والدین بچوں کی اصلاح ،کردار اور شخصیت سازی کی عمدہ کوشش کرسکتے ہیں۔ گرمائی تعطیلات کا آغاز ہوچکا ہے ۔گرمی کے قہر سے بچے دن بھر گھروں میں محبوس ہوکر آوٹ ڈور سرگرمیوں میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔ موسمی حالات کے پیش نظر والدین ایسا منصوبہ ترتیب دیں جو بچوں کو آؤٹ ڈور اور ان ڈور سرگرمیوں میں حصہلینے میں معاون ثابت ہوں۔والدین چھٹیوں میں بچوں کے روز مرہ معمولات اورغذا میں توازن برقرار رکھیں تاکہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما بہترطریقے سے ہوسکے۔چھٹیوں میں اگر طلبہ کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ منفی تفریحی سرگرمیوں کی جانب مائل ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے والدین بچوں کی دینی تعلیم کی منصوبہ بندی پر خصوصی توجہ دیں ٹی وی اسکرینس اور انٹر نیٹ پر وقت ضائع کرنے سے باز رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچوں کو بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی صلاحیتوں کو صحیح راہ میں لگانا اساتذہ اور والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔
ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق طویل معیادی چھٹیوں میں بچوں کی روٹین خراب ہو جاتی ہے او ر وہ ا سکول نہ جانے کی وجہ سے اکثر صبح دیر تک سوتے رہتے ہیں۔چھٹیوں کے دوران والدین کی جانب سے برتی جانے والی لاپرواہی کا خمیازہ معصوم طلبہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔بعض والدین چھٹیوں کو صرف آرام کا وسیلہ سمجھ کراسے ضائع کردیتے ہیں۔چند والدین بچوں کی شرارتوں ،شورو غل یا پھر دیگر وجوہات کی وجہ سے بچوں کو کسی اکیڈیمی یا ٹٹوریل میں داخل کرتے ہوئے خود کو بری الذمہسمجھتے ہیں۔ایسی روایتی سرگرمیاں بچوں کے لئے اضمحلال کاسبب ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات و تعلیم کے نزدیک اس طرح کافیصلہ بچوں کی تخلیقی ،ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔چھٹیوں کی موثر و منظم منصوبہ بندی سے بچوں کی ذہنی، جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ بخشا جاسکتا ہے۔تعطیلات میں نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں بچوں میں قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتی ہیں۔ذیل میں چند ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر طلبہ تعطیلات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اپنے فاضل وقت کو کارآمد طریقے سے گزارتے ہوئے تعطیلات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا پائیں گے۔
تنظیم وقت کی تربیت؛۔ تعطیلات میں بچوں کی تربیت کا پہلا مرحلہ شب و روز کے نظام الاوقات کا تعین ہے۔ والدین بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی مشاورت سے ان کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کریں۔
بچو ں کی صلاحیتوں کا جائزہ اور لائحہ عمل ؛۔گرمیوں کی تعطیلات میں والدین بچوں کی تعلیمی کمزوریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہتر منصوبہ بندی کے لیے والدین اساتذہ سے مل کر بچوں کی کمزوریا ں معلوم کریں اور اسے دور کرنے میں معاون مشورے حاصل کریں۔بچوں کی گزشتہ تعلیمی کیفیت کا جائزہ لیں۔ان کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرست تیار کریں اور انھیں دور کرنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کریں۔ایسی خامیاں جن کو دور کرنے کے لئے زیادہ وقت مطلوب ہوتا ہے تعطیلات انھیں دور کرنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
آموختہ ؛۔تعلیمی نفسیا ت میں آموختہ و اعادہ ( Law of Repeatation)کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اسی لئے طلبہ کو گر ما کی چھٹیوں میں بھی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ منسلک رکھنا بہت ضروری ہوتاہے تا کہ وہ چھٹیوں سے پہلے پڑھائے گئے اسباق چھٹیوں کے دوران اور بعد میں بھی یاد رکھ سکیں۔
دینی تعلیم کا اہتمام؛۔ دینی تعلیم کا حصول وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ گر ما ئی دینی کلاسس سے بھر پور فائدہ اٹھا ئیں ۔ قریبی مسجد یا مدرسے میں جہاں صباحیہ (صبح کا مدرسہ) یا مسائیہ (شام کا مدرسہ) تعلیم کا انتظام ہے وہاں بچوں کو شریک کرتے ہوئے ناظرہ قرآن پڑھانے کا بندو بست کریں یا خود پڑھائیں ۔ قرآن پاک سیکھانے کی مناسب منصوبہ بندی کریں۔قرآن پاک کی تلاوت سے نہ صرف خیرو برکت حاصل ہوتی ہے بلکہ ہماری زندگی میں ایک خوش گوار انقلاب بھی رونما ہوتا ہے۔موسم کی شدت کے پیش نظر بچوں کی صحت کا خیال رکھنا اور انھیں گرمی اور دھوپ سے بچانا بھی بے حد ضروری ہے۔اس کے لیے دن کے اوقات میں ان ڈور سرگرمیاں ترتیب دیں اور سہ پہر میں کھیلنے کودنے باہر نکلیں۔گرمی میں مشروبات اور سادہ غذا کا شیڈول ترتیب دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ بھی اس سال چھٹیوں میں آ رہا ہے۔ والدین بچوں کو روزے رکھنے، واعظ و نصیحتیں سننے، نماز یں پڑھنے، ذکر و اذکار کرنے، پاک صاف اور با وضو رہنے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور ثواب کمانے کی ترغیب دیں۔ بچوں کو احادیث، آیات، ماثورہ دعاؤں کا نصاب تیار کر کے دیں اور انھیں باقاعدگی سے زبانی یاد کرنے کی تاکید کریں۔ روزانہ کی بنیادوں پر اس کا جائزہ لیتے رہیں۔ اس سلسلے میں والدین کوتاہی سے کا م نہ لیں۔ تفریح اور دعوتوں کے نام پر اولاد کو دین سے دور نہ کریں۔ والدین اگر دلچسپی کے ساتھ روزانہ کے نظام الاوقات پر کاربند رہیں تو اس سے بچوں کو بہت فائدہ ہوگا ورنہ والدین کی بے پروائی کی وجہ سے طلبہ سستی اور کاہلی کا شکار ہوکر اپنی قیمتی چھٹیاں گنوا دیں گے ۔بچوں میں قرآن مجید سے قلبی لگاؤ اور محبت پیدا کرنے کے لیے والدین روزانہ بچوں سے تلاوت کروانے کے ساتھ خود بھی قرآن مجید کی تلاوت کریں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں اور جمعہ کے دن خاص طور پر سورہ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔
دینی سمر کیمپس؛۔اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اور وقت و عمر کی قدردانی کرتے ہوئے اولاد کی تربیت کی فکر کریں۔ لایعنی اور فضول مشغلوں میں ان کے اوقات کو ضائع کرنے کے بجائے دینی تعلیم و تر بیت کا مستقل انتظام کریں اورموسم گرما میں چھٹیوں کے پیشِ نظر چلائے جانے والے’’سمر کلاسس‘‘ اور ’’ سمر کیمپس‘‘سے بھر پور فائدہ اٹھا کر قرآن و سنت کی تعلیمات اور دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کا راستہ ہموار کریں۔ انشاء اللہ چھٹیوں کا بھی صحیح استعمال ہوگا اوروالدین بھی اولاد کی تعلیم وتربیت میں کوتاہی کے گناہ سے محفوظ ہوجائیں گے۔ قرآن فرماتا ہے ’’ائے ایمان والو! اپنے آپ کو او ر اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسا ن اور پتھر ہوں گے۔(التحریم :6)حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ ﷺ اپنے آپ کو تو جہنم سے بچاناسمجھ میں آگیا لیکن گھر والو ں کو کیسے بچائیں تو آپ نے فرمایا کہ جس سے تم کو منع کیا گیاان کو منع کرواور جس کاتم کو حکم دیا گیا ہواس کا انھیں بھی حکم دو۔اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب میں وہ ہوگا جواپنے گھر سے بے خبر رہا۔(روح المعانی:28/156)
تعلیمی سمر کیمپس؛۔ اسکولوں کی جانب سے منعقد کردہ سمر کیمپس بھی طلبہ کو موسم گرما کی چھٹیوں میں نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں مصروف رکھنے میں معاون ہوتی ہیں۔بچوں کودوسرے بچوں سے میل جول بڑھانے ،آپس میں اکٹھے وقت گزارنے اورایک دوسرے سے سیکھنے میں سمرکیمپس مددگار ہوتے ہیں ہر بچے میں قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اس خوبی کو نکھارنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے۔سمر کیمپس مختصر وقت ( دو یا تین گھنٹوں) پر مبنی اپنی سر گرمیوں کے ذریعے طلبہ میں خوش خطی(Hand Writing) ،تحریری و تقریری مہارتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اخبارات ،میگزین اور کتب بینی کے مشاغل اور دیگر معلوماتی پروگرامس ان سمر کیمپس کا خا صہ تصور کیئے جاتے ہیں۔
نماز پنج گانہ کی تربیت ؛۔بچوں کو نماز پنج گانہ کا عادی بنانے میں تعطیلات بہت کارآمد ہوتی ہیں۔ والدین بچوں کو نماز کی تاکید کی بجائے ان کے ساتھ ادائیگی نماز کا معمول بنائیں تا کہ بچوں میں نمازکی عادت پختہ ہو سکے۔بچوں کے دن کی شروعات نمازفجر سے کریں۔فجرکے بہترین اور بابرکت وقت کو بچوں کی نیند کی نذر نہ کریں۔ بچوں کو وقت پر اُٹھنے اور ادائیگی نماز پر حوصلہ افزائی کے لئے گاہے بگاہے انعام سے بھی نوازیں۔ جب صبح خیزی کی عادت بچوں میں پختہ ہو جائے توانھیں فجر کے وقت باری باری دوسروں کو بیدار کرنے کی ذمہ داری پر مامور کریں جس سے ان میں احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی کے تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا۔ والد کا بیٹوں کو باجماعت نماز کاعادی بنانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ مسجد لے کر جائے ،نماز پڑھنے اور امامت کے آداب سکھائے۔
سیر و تفریح ؛۔بچوں کی صرف ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں وقت اور توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت نکال کر انہیں تفریحی مقامات کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے مقامات کی بھی سیاحت کروائیں جن کے ذریعے انہیں اپنے ماضی اور تاریخ کا علم ہو سکے۔ تاکہ تعطیلات میں بھی تعلیم سے ان کا لگاؤ برقرار رہے۔تعلیمی سیر جیسے عجائب گھر، سائنس میوزیم اور تاریخی مقامات کی سیر و سیاحت سے طلبہ کو سیکھنے اور راست مشاہدہ کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ روزانہ کسی پارک، تفریحی مقام، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر تفریح کا پروگرام ترتیب دیں۔ کھلی فضا،مناظر فطرت کے مشاہدہ کے علاوہ جسمانی اور ذہنی صحت پر شاندار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ خاص طور پر صبح کے وقت کلیوں کا چٹکنا اور پھول بننا، پرند وں کی چہچہاہٹ، سورج و چاند کا طلوع و غروب ہونا،، ستاروں کا چمکناپوری کائنات کاآفاقی نظام فطرت بچوں کو اللہ کے احکامات کی پیروی اور پاسداری کے اصول سیکھاتے ہیں۔
آپسی محبت کو فروغ دینے کے کام ؛۔بچوں کی تربیت کے لیے کچھ خاص پہلو ایسے ہوتے ہیں جن پر تعطیلات میں ہی توجہ دی جا سکتی ہے مثلاً باہمی محبت میں اضافے کے لئے چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا(ظہرانہ و عشائیہ) اکٹھے کھانے کا معمول بنائیں۔ معلومات پر مبنی ٹیلی ویژن پروگرامز سب گھر والیمل کر دیکھیں۔ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے بچے گھر کے کاموں میں نہ تو دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی گھریلو ذمہ داریوں میں زیادہ اہم کردار ادا کر پاتے ہیں۔ لہذا تعطیلات کا فائدہ اٹھا کرانہیں اپنے کمرے کی صفائی، مہمانوں کی خاطر تواضع اور استعمال کی دیگر اشیاء کی دیکھ بھال سکھائی جا سکتی ہے۔ سماجی بہبود کے حوالے سے کوئی نہ کو ئی ذمہ داری بچے کو ضرور دی جائے مثلاً چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال ،گھر کے بزرگ جیسے دادا،دادی،نانا،نانی کی دیکھ بھال ان کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی ضروریا ت جیسے غذا پانی کو وقت پر دینا انہیں اخبار پڑھ کر سناناوغیرہ ۔یہ سنہری کام بچوں کی تربیت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ رشتے داروں سے میل جول اور ملاقات کے آداب سکھانے کے لیے انہیں رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے لے کر جائیں۔ والدین کے اس کام سے بچوں میں خونی رشتوں کی اہمیت، صلہ رحمی اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھیں گے۔والدین بچوں کی دوستیوں اور ان کی صحبت پر نظر رکھیں اور ان کی جانچ کے لیے کبھی کبھار ان کے دوستوں کو اپنے گھر بلائیں، ان سے ملیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں، ان کی عزت کریں تاکہ ان کا اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔لیکن اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں بلکہ حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنے بچوں کو ایسی دوستی سے دور رکھیں تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
کراش کورسس؛۔چھٹیو ں میں بچوں کو با مقصد علمی، ادبی اور تفریح سر گرمیوں میں مصرو ف رکھنا ضروری ہوتاہے۔ مطا لعے کی عادت پیدا کر نے کے لیے بچوں کو لائبریری کی رکنیت دلائی جائے۔ لینگویج امپرومنٹ کراش کو رسز کے ذریعے زبان دانی کی مہارتوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر میں مہارت پیدا کرنے کے لیے مختصر مدتی کراش کورسز معاون ثابت ہوتے ہیں۔ خوشخطی (Hand Writing) امپرومنٹ کلاسز کے ذریعے بچوں کی لکھائی کو دلکش بنایا جاسکتا ہے۔ تعطیلات کے دوران مختلف مضامین پر مبنی کراش کورسس طلبہ کے لئے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔کراش کورسس طلبہ کی ذہنی اور تعلیمی صلاحیتوں میں بہتر ی پیدا کرتے ہیں۔ڈاکومینٹری فلمیں اور تاریخی دستاویزات کے مطالعے اور مشاہدے سے طلبہ میں تجسس ،ذوق ا ور اشتیاق کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے ۔
عارضی وجزو وقتی ملازمت؛۔ تعطیلات کے دوران ہائیر سیکنڈری اور گرایجویشن کے طلبہ کوئی جزو وقتی نوکری حاصل کرتے ہوئے نہ صرف اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں سے باہر کی دنیا کا عملی مشاہدہ کرنے کا بھی انھیں راست تجربہ حاصل ہوتا ہے۔اگر کسی قسم کی معاشی تنگی نہ بھی ہو تب بھی طلبہ دیڑھ دو ماہ کی تعطیلات میں ملازمت کرتے ہوئے کام اور پیشے کی اہمیت و افادیت کے متعلق عملی معلومات وتجربات حاصل کرسکتے ہیں۔
رضاکارانہ خدمات .۔طلبہ تعطیلات کے دوران رضاکارانہ طور پر فلاح و بہبود کی مختلف سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے اپنے فاضل وقت کا بہتر استعمال کرسکتے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر مختلف فلاحی کام انجام دینے سے طلبہ میں خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور طلبہ آگے چل کر معاشرے کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار پیش کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔محتاجوں ،یتیموں ،غریبوں اوریا بزرگوں کی خدمت سے طلبہ میں انسانی اقدار پروان چڑھتے ہیں اور انھیں سماج میں بسنے والے مختلف افراد کی ضرورتوں کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔
نئی مہارتیں سیکھنا؛۔ چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر و مہارتیں سکھا نے کی کوشش کریں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ گھر میں اگر لان یا کیاری کی جگہ ہو تو والدین بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا بھی سکھا سکتے ہیں۔ٹوٹی ہوئی اشیا جیسے خراب کمپیوٹر یا میز کی مرمت و درستگی وغیرہ سے طلبہ پیشے کی عظمت و احترام سے واقف ہوتے ہیں۔آن لائین کورسس بھی طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتے ہیں۔ تعطیلات کے دوران طلبہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے ہوئے عملی تجربہ حاصل کرسکتے ہیں۔ جو ان کی آنے والی زندگی میںیقیناًکارآمد ثابت ہوگا۔یہ سرگرمیاں طلبہ کو پیسے کمانے بچانے اور انھیں مناسب طریقے سے خرچ کرنے کی تربیت فراہم کرتی ہیں۔اس کے علاوہ طلبہ باغبانی ،فنون لطیفہ جیسے آرٹس ،ڈرائنگ سنگ تراشی ،نقاشی فوٹو گرافی و دیگر فنون کو سیکھتے ہوئے بھی اپنی تعطیلات کو پر لطف اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔اپنے ذخیرہ الفاظ (Vocabulary) میں اضافے کے ذریعے طلبہ لفظیات کے بہتر استعمال کی مہارت سے خود کو آراستہ کرسکتے ہیں۔یہ مہارت نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کی کامیابی کے لئے ضروری تصور کی جاتی ہے۔ تعطیلات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے طلبہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھیں اور مطالعہشدہ کتابوں سے اخذ کردہ اپنے تجربات کو قلم بند کرنے کی باقاعدہ مشق کریں تاکہ تحریر میں پختگی اور بہتری پیدا ہوسکے۔چھٹیوں میں اچھی عادات کی تشکیل و فروغ پر توجہ مرکوز کریں۔کامیابی فراہم کرنے میں مددگار کتابوں اور مضامین کو مطالعے میں شامل رکھیں۔پڑھنے کی رفتار میں اضافہ کرنے والی مہارتیں کو سیکھیں۔
کھیل کود کی صلاحیتوں کا فروغ ؛۔کھیل ا نسان کی ذہنی، جسمانی نشونما کے لئے نہایت اہم ہو تے ہیں۔ کھیل انسان کو چاق و چوبند اور تندرست رکھتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے کھیل بھی بامقصد ہونے چاہئے ، وقت کی بربادی کا سبب نہ بنیں اور انسانی صحت و تندرستی کا وسیلہ ہوں۔ تیراندازی، تیراکی، نیزہ بازی، کشتی ،کبڈی اور دوڑ جیسے کھیل انسان کی صحت کے لئے معاون ثابت ہوئے ہیں۔کھیل چستی پھرتی پیدا کرنے کے علاوہ نظم و ضبط(ڈسپلن) اور قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کھیل سے قوت حافظہ، قوت برداشت اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور اعضاء و جوارح بھی مضبوطبنتے ہیں۔تعطیلات میں بچے صحت مند کھیلوں کی جانب توجہ نہ کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنے انٹر نیٹ پر گیمز کھیلنے میں وقت ضائع کرتے ہوئے اپنی صحت کو برباد کرلیتے ہیں مذکورہ مشغلے اخلاقی خرابی کا بھی ایک بہت بڑا سبب بنے ہوئے ہیں۔
گھر بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے بچوں کے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار والدین کو ہوتا ہے۔ گو آج کل کے معمولات بچوں کو خود سر بنا رہے ہیں۔ لیکن والدین کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بچوں کی شخصیت کی نشوونما میں و الدین کااتنا ہی کلیدی کردار ہوتا ہے جتنا کہ استاد کا۔ اسکول و کالج میں زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے استاد ہر بچے پر پوری توجہ نہیں دے سکتا لیکن گھر میں والدین تو بچے پر پوری توجہ دے سکتے ہیں کیونکہ بچے اسکول یا کالج میں 5 تا 8 گھنٹے گزارنے ہوتے ہیں جبکہ 16تا19گھنٹے وہ گھر میں بسرکرتے ہیں۔یہ بات صرف چھٹیوں کی نہیں ہے بلکہ عام دنوں میں بھی بچے 16تا19گھنٹے گھر میں گزارتے ہیں ۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ 8 گھنٹے سونے کے نکال کر باقی وقت کو اس طرح تقسیم کریں کہ عام دنوں میں بھی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کیلئے دینی تعلیم کا وقت بھی نکل آئے اور بچے نماز کے بھی پابند ہوجائیں۔ نماز کی پابندی جہاں اللہ کی خوشنودی و رضا کا سبب بنتی ہے وہیں بچے نماز کے ذریعے ڈسپلن بھی سیکھتے ہیں۔ وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے اگر والدین یہ سوچ کر کہ بہت زیادہ گرمی ہے بچوں کو آرام کرنے دیں تو یہ ان کی محبت نہیں بلکہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہوگی۔ سخت ترین موسم میں بھی ہمارا دین کسی کام سے ہمیں نہیں روکتا۔الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنا وقت کا اہم اور ناگزیر تقاضہ ہے۔دیڑھ ،دو ماہ کی طویل چھٹیوں کے دوران والدین پیش کردہ نکات بالا کے ذریعے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرسکتے ہیں۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...