روٹی کی جستجو

شہر کی مصروفیات ترین شاہراہ پر وہ ہر بائیک والے کو روکتا اورکہتا کہ صاحب! صاحب !رنچھوڑ لائن پر اتار دیں۔دکھنے میں تھوڑا سا ایبنارمل لیکن بات ٹھیک طرح سے کررہا تھا۔کئی بائیک اس کے پاس آئیں اور گذر گئیں وہ ہرکسی کو روکتا اور اپنا مدعا بیان کرتا۔ آخر کار وہ کامیاب ہوا اور ایک اجنبی شخص نے اسے اس کی منزل تک پہنچانے کی حامی بھر لی اور وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا اجنبی شخص پوچھنے لگا یہاں کیوں آئے تھے،؟کہاں جا رہے ہو؟صاحب روٹی لینے آیا تھا۔روز آتے ہو ؟جی روز آتا ہوں۔کھانا نہیں کھاتے؟نہیں، نہیں کھانا ساتھ لے جاتاہوں۔کیا کرتے ہو؟ کچھ نہیں۔کھانا کس کے لئے لے جاتے ہو؟وہ چھوٹے بھائی ہیں ان کے لئے۔۔۔اور کون کون ہے؟ماں ہے اور دو بھائی ہیں۔ماں اسکول میں صفائی کرتی ہے وہیں بھائی پڑھتے ہیں۔اجنبی منزل پر اتارتے ہوئے: گھر کتنی دور ہے تمہارا؟بس زیادہ نہیں۔یہاں سے چنکچی لونگا ،پھر آگے سے ایک اور پھر گھر آجائے گا۔پیسے ہیں کرائے کے؟ ہاں صاحب ہیں۔کب تک گھر پہنچتے ہو؟بارہ بجے تک۔تب تک بھائی سو نہیں جاتے ؟سو جاتے ہیں صاحب۔اماں کھانا رکھ دیتی ہے۔صبح دے دیتی ہے۔
یہ کہانی ہے ایک گھرانے کی اور ایسی کئی ایک اور کہانیاں جو شہر کے شور میں گم ہیں۔
کاش کہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے حکمرانوں کو پتا ہو کہ عوام روٹی کے نوالے کی خاطر کیا کیا کرتے ہیں جسے آپ چھین کر اپنے بینک بھرتے ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں