ووٹ کو عزت دو

قرآن مجید فرقان مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
ان اللہ یامرکم ان تودوا الا منٰت الی اھلھا
’’اللہ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی اما نتیں انہیں پہنچا دو‘‘
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کا شان نزول حضرت عثمان بن طلحہؓ تھے۔جو دربانِ بیت اللہ اور کلید بردار تھے۔جب انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا تو ایک دن انہوں نے آپﷺ کو کعبہ کی چابی دینے سے انکار کر دیا تھا جس پر آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اے عثمان ایک دن ایسا آئیگا کہ کعبہ کی چابیاں میرے پاس ہونگی اور میں جس کو چاہوں اپنی مرضی سے دونگا۔حضرت عثمان بن طلحہؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو گئے تھے،جب مکہ فتح ہوا تو سلطانِ دو جہاں نے سب سے پہلے کعبہ کا طواف فرماتے ہیں پھر عثمان بن طلحہؓ کو طلب کرتے ہیں اور انہیں بیت اللہ کی چابیاں مرحمت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے‘‘گویا امانت کی اہمیت اس قدر ہے کہ وفا و نیکی اسی میں خیال کی جاسکتی ہے۔وہ امانت پیسے کی صورت میں ہو یا ووٹ کی صورت میں۔جمہوری مما لک میں خاص کر پاکستان جیسے نیم جمہوری ملک میں الیکشن کے آتے ہی اس بات کا شور مچا دیا جاتا ہے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے ،ووٹ آپ کے ضمیر کی آواز ہے۔ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیجئے۔اور حال ہی میں ایک نیا نعرہ مارکیٹ میں آیا ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔وغیرہ وغیرہ۔یقیناًیہ آپ کے ضمیر کی آواز ہی ہے اور امانت بھی جیسا کہ حوالہ دیا جا چکا ہے امانت کو امانت والوں کے پاس پہنچا دو۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے ملک میں یہاں ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی شعبدہ باز ہے تو ایسے میں کون سے ایسے لیڈر ہیں جن کی امانت عوام کے پاس بطور ووٹ پڑی ہوئی ہے اور وہ ان کو واپس لوٹا دیں؟عوام تو ہر کس و ناکس تیار ہی ہیں کہ ووٹ کو امانت خیال کرتے ہوئے ان کے حق داروں تک پہنچا دیا جائے۔تاہم حکمران بھی تو اپنے آپ کو اس قابل کریں کہ اگر ووٹ ان کی امانت ہے جو کہ عوام کے پاس رکھی ہوئی ہے۔وہ یہ بات کردار و عمل سے ثابت کریں کہ وہ اولی الامر ہیں جن کے پاس پیسہ ،حاکمیت اور تقویٰ تینوں چیزیں ان کے کردار و عمل سے جھلک رہی ہیں۔حکمران ووٹ کو امانت ہے یاد رکھ لیتے ہیں مگر کیوں اس حدیث مبارکہ کو بھول جاتے ہیں کہ’’حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے‘‘موجودہ حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے آپ کو خود احتسابی کے عمل سے گزار کر سوچنا ہوگا کہ جس ووٹ کے عزت کی بات اور امانت و ضمیر کی آواز کا عوام سے مطالبہ کر رہیں ہیں کیا وہ اس کے حقدار ہیں بھی ،سونے پہ سہاگہ یہ کہ کروڑوں روپے لگا کر ایک کمرشل تیار کر لیا گیا ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ووٹر چاہے ذلت کے گھپ اندھیروں میں اماوسِ پاتال میں اپنی عزت داؤ پہ لگائے ہوئے دم توڑ رہا ہو،میاں صاحب کیوں بھول گئے ہیں کہ ناموسِ رسالت کے شہداٗ،ماڈل ٹاؤن کے شہید،پنجاب اسمبلی کے باہر سفید چھڑی بردار،اساتذہ،وکیلوں اور مظلوم افراد کے ساتھ پولیس کے ذریعے حیوانوں کا سا سلوک کروانا،کیا اس وقت آپ کو ووٹ اور ووٹر کی عزت کا خیال نہیں تھا کل تک جس ووٹر کا جنازہ نکالا جا رہا تھا آج اسی ووٹر اور ووٹ کو عزت دینے کی بات کس منہ سے کی جارہی ہے۔وہ بھی مقدس پاکستان کے مقدس ووٹر تھے۔تب مریم نواز اور عرفان صدیقی جو اس نعرہ کے تخلیق کار ہیں کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کس غار میں منہ چھپائے بیٹھے تھے۔اب انہیں الیکشن نزدیک آتے ہی ووٹ کی حرمت و عزت کا خیال آگیا۔جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق آج ووٹر کو بھی اتنا شعور آ گیا ہے کہ وہ انہیں سیاسی افراد کو عزت دیں گے جنہوں نے عوام کے ووٹ کو عزت دی،وگرنہ تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔کیسا گھناؤنا مذاق ہے کہ ووٹ کو عزت دو ووٹر چا ہے غربت کی چکی پیستے پیستے ذلت کی موت مر جائے۔ووٹ کو عزت دو ووٹر چاہے پینے کے صاف پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہوئے جان،جانِ آفریں کے سپرد کر دے۔بچوں کی تعلیم و تربیت اور ایک وقت کے اچھے کھانے کے لئے باپ مزدوری کرتے ہوئے جسمانی خون کے ایک ایک بوند محنت و مزدوری کی نذر کرتے کرتے موت کی نذر ہو جائے۔ووٹ کو عزت دو ووٹر خواہ جعلی ادویات سے سسک سسک کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کس کس کا ذکر کروں،دل کو روٗوں یا پیٹوں کو جگر کو میں۔صحت،تعلیم،گیس،پانی،سپورٹس،محکمہ جات،کون سا ایسا پیشہ و ادارہ ہے جو سات دہایؤں میں ووٹر کو عزت دے پایا جو اب جادو کی چھڑی سے رات و رات ووٹر ک وعزت کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔جس ملک میں عوام(ووٹر)ننگے جسموں سرِ بازار ذلیل ہوتی ہو،بیٹیوں کی عزت کا جنازہ سرِ محفل نکالا جاتا ہو،چور،چوکیداری کر رہے ہوں،وڈیرے،لٹیرے بن کر پارلیمنٹ کو ہائی جیک کئے بیٹھے ہوں اور طوائفیں اپنے کوٹھوں سے نکل کر کوٹھیوں میں جا بسیں،انسانیت کو پابجولا سرِ بازار ناچنے پر مجبور کر دیا جا رہا ہو،گلی،محلوں،کوچہ و بازار ،جا بجا پھیلے ہوئے گندگی کے ڈھیروں سے پھیلنے والا تعفن شائد اتنی بد بو نہ پھیلا رہا ہو ۔جتنا حکمرانوں کے چہروں سے کراہت اور باس آتی ہو۔جب ووٹر کا یہ عالم ہے تو وہ کون سی عزت ہے جو ایک ووٹ کی پرچی کو دی جانی ابھی باقی ہے۔لہذا حکمران طبقہ ایسی شعبدہ بازیوں اور منافقتوں سے باز رہ ووٹ کو نہیں ووٹر کی عزت کو یقینی بنائیں ووٹ خود بخود آپ کی صندوقچی میں چلی آئے گی۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں