آپ کمال دیکھیں انگریز جب ہندوستان آیا ۔ برصغیر میں مسلمانوں کی شرح خواندگی 94 فیصد تھی اور جب واپس گیا تو اس حال میں کہ شرح خواندگی محض 14 فیصد باقی تھی ۔ یعنی انگریز نے ہمیں مکمل طور پر ” جاہل ” بنادیا ۔ سب سے بڑا ظلم عظیم ہمارے نظام تعلیم کے ساتھ ہوا اور اس ظلم میں انگریز کی آمد سے کہیں زیادہ مسلمانوں کی “بوکھلاہٹ ” کا عمل دخل تھا ۔ مسلمان حکمران اور بالخصوص مغلوں کے پاس “دین اکبری ” ، ” یادگار محبت ” اور اپنی عظمت کی نشانیاں بنانے کا بہت وقت تھا لیکن اگر وقت نہیں تھا تو علمی درسگاہیں قائم کرنے کے لئیے نہیں تھا ۔ آپ کو مغلوں کے پورے دور میں کو ئی ایک قابل ذکر ” جامعہ ” نہیں ملے گی ۔ مغلوں نے 1526 سے لے کر 1857 تک اتنا ترقیاتی کام نہیں کیا جتنا اسی دوران محض چار سالوں میں شیرشاہ سوری نے کردیا ۔
بہرحال انگریز کی آمد کے ساتھ ہی مسلمان واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے اور ان کی یہ تقسیم کسی بڑے مقصد کے لئیے نہیں تھی بلکہ دونوں گروہ ہی اپنی جاتی “عزت ” اور ” ساکھ ” کو بچانے کی فکر میں تھے ۔ایک گروہ وہ تھا جس نے انگریز کو ہندوستان پر خدا کا ” احسان ” قرار دے کر ان کی تعلیمات ، ترجیحات اور رنگ ڈھنگ تک اختیار کرلیا ۔ علی گڑھ سے نعوذ بااللہ ” خدا کا جنازہ ” تک نکال دیا گیا اور انگریز کی لائی ہوئی تعلیم عین ” شریعت ” قرار پائی ۔اسلام دین سے ” مذہب ” بن گیا ۔ ہندومت اور عیسائیت کیونکہ مذاہب تھے اسلئیے انھوں نے ” چھانے ” کے بعد اسلام کو بھی مذہب ڈکلئیر کردیا اور اس گروہ نے آنکھیں بند کرکے انگریز کی لائی ہوئی ” شریعت ” میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔ محبت اور غلامی دو ایسی چیزیں ہیں جس میں سامنے والے کی خامی بھی خوبی بن جاتی ہے ۔ اقبال نے کہا تھا :
جو تھا نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتے ہیں قوموں کے ضمیر
اس سب میں جو دوسرا گروہ تھا اس کو اپنے لباس اور روایات کہیں زیادہ عزیز تھیں ۔ان کو اپنی اور اپنی آنے والی نسل کی بھلائی اسی میں محسوس ہوئی کہ ” جو ہے جیسا ہے ” کی بنیاد پر اپنے پلے سے باندھ لیا جائے ۔ کیونکہ اب شاید دوبارہ مسلمان کبھی نہ ” پنپ ” سکیں ۔ یہ مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب دینی اور دنیاوی تعلیم کا سلسلہ علیحدہ شروع ہوا۔اور شاید مسلمانوں کی زوال پرستی کا سب سے بڑا سبب بھی یہی تھا ۔
امام زین العابدین نے عراق میں جس مدرسے کی بنیاد رکھی تھی وہاں سے ایک ہی وقت میں سائنسدان اور محدثین ساتھ ” پاس آؤٹ ” ہوتے تھے ۔ ایک طرف جہاں جابر ابن حیان اور ابن سینا جیسے سائنسدان تھے تو دوسری طرف اسحق بن راہویہ جیسے محدثین بھی اپنے علم کی روشنی سے دنیا کو منور کر رہے تھے ۔ امام ترمذیؒ اتنے بڑے حدیث کے عالم تھے تو اپنے وقت کی سرجن بھی تھے ۔انگریز آیا اور چلا بھی گیا لیکن جو تعلیمی نظام کی تقسیم وہ ہندوستان میں کرکے گیا اس نے مسلمانوں سے تعلیم ، تحقیق اور تخلیق سب کچھ چھین لیا ۔زمانہ ہوا کہ مدارس سے کوئی تحقیقی یا تخلیقی کام انجام پایا ہو ۔امام ابو حنیفؒہ کیا کمال یہ تھا کہ انھوں نے سالوں لگا کر کئی کئی مہینوں کی محنت کے بعد اسوقت کے جدید مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کیا ۔امام ابو حنیفہؒ کو گذر ے تیرہ سو سال ہوچکے ہیں اور آپ دوسری طرف آپ ہمارا حال دیکھیں بجائے اس کے کہ آج کے دور کے مسائل کو قرآن و حدیث کے مطابق حل کریں ہم امام ابو حنیفہ کی ہی تحقیق کو پڑھ پڑھ کر ان کے گن گا گا کر خوش ہیں ۔
آپ ہمارا المیہ ملاحظہ کریں زمانہ ہوا فارسی زبان سوائے ایران کے دنیا سے ختم ہوچکی ہے ۔ دنیا کی کوئی جدید تحقیق یا ایجاد فارسی میں نہیں ہے لیکن ہمارے مدارس ابھی تک اسی کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔مدارس میں ابھی تک منطق اور فلسفے کی وہی کتب پڑھائی جارہی ہیں جو شاید انگریز کے ہندوستان آمد کے وقت پڑھائی جارہی تھیں ۔ جس طرح ہمارے لئیے انگریز کافر ہے ۔ہمارے مدارس میں انگریزی اس سے زیادہ کافر ہے ۔ آپ کو پاکستان کے کسی ایک مدرسے میں آئنسٹائن یا نیوٹن پڑھنے یا پڑھانے والا نظر نہیں آئیگا ۔ دنیا کی کوئی ریسرچ یا ریسرچ پیپر سرے سے ہمارے مدارس میں “حرام ” ہے ۔ہمیں اسٹیفن ہاکنگ تک میں سوائے کفر کے اور کوئی دوسری خوبی نظر نہیں آتی ہے ۔ اور بھلا آئے بھی کیسے ؟ ہم اپنے مسلک اور فرقے تک سے باہر سوچنے کے لئیے تیار نہیں ہیں آئنسٹائن اور نیوٹن جیسے کافروں کو کیونکر گھسالیں ؟؟ ۔ آپ اس سب کو بھی چھوڑیں ہمارے مدارس میں مدت ہوئی قرآن و حدیث پر ہی کوئی تحقیق کام نہیں ہوا ۔المیہ تو یہ ہے کہ مدارس سے کوئی امام بخاری اور غزالی تک بننے کو تیار نہیں ہے ۔ اپنے اسلاف کے کاموں پر اکتفا ہی واحد ” علم ” ہے ۔مفتی تقی عثمانی صاحب خود بول چکے ہیں کہ مدارس میں بڑے پیمانے پر نصاب اور نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن ان کی یہ خواہش تاحال خواہش ہی ہے ۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے بتایا کہ ہم نے اپنے استاد سے شکوہ کیا کہ ترمذی شریف کی جلد دوئم جو شروع تا آخر معاملات ہیں آپ نے ہمیں سر سری پڑھادی لیکن فقہی مسائل پر کئی کئی دن لگادئیے ۔
دوسری طرف وہ تعلیمی نظام ہے جو ملٹی نیشنل کمپنیز کو بھر بھر کے ” نوکر ” فراہم کرہا ہے ۔ جہاں سے سوچ ہی غلامی کی پیدا ہورہی ہے ۔ جنکا سارا ایمان اور اسلام سب کچھ ” پیسہ ” ہے ۔ جو جیتے ہیں تو ” پیسے ” کے لئیے اور مرتے ہیں تو ” پیسے ” پر ۔ہمارے اسکولز کے پاس تو شاید دین کی بنیادی تعلیمات تک دینے کا وقت نہیں ہے ۔آپ اسکولوں میں جا کر نویں ، دسویں ، او یا ایے لیولز کےطلبہ و طالبات سے وضو اور غسل کے فرائض ہی پوچھ لیں آپ کو اندازہ ہوجائیگا ۔جس طرح مدارس میں نیوٹن اور آئنسٹائن ” شجر ممنوعہ ” ہیں ٹھیک اسی طرح کا سلوک ہمارے اسکولز نے امام بخاری اور امام غزالی کے ساتھ کر رکھا ہے ۔ طلباء کو چھوڑیں اساتذہ اکرام کی اکثریت قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات تک سے نابلد ہے ،کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اس ” چومنے اور ڈر ڈر کر چھونے ” والی کتاب قرآن کا ہماری عملی زندگی سے کیا تعلق ؟؟
جنھوں نے کوئی بیچ کا راستہ نکالنے کا سوچا انھوں نے حفظ کا ایک الگ سیکشن بنا کر اپنی حجت تمام کردی ۔میں نے ایک اسکول کے باہر ” تیز ترین حفظ کی کلاسسز ” تک کا بورڈ لگا دیکھا ہے ۔ہمارا پورا دین اور اسلام سمٹ کر تیز ترین حفظ میں آگیا ہے ۔اب حفظ کی کلاسیں بھی موبائل اور انٹرنیٹ کمپنیز کی طرح ایڈورٹائز کی جارہی ہیں – میرا خیال ہے کہ کچھ عرصے بعد ” فور – جی ” حفظ کی کلاسسز کا بورڈ بھی کہیں آویزاں ہوجائیگا ۔
اب ہمیں اس طبقاتی نظام تعلیم سے جان چھڑا لینی چاہئیے ایسے اسکولز کی اشد ضرورت ہے جو ایک طرف فن لینڈ اور جاپان جیسے جدید ماڈلز رکھتے ہوں اور دوسری طرف دین کی اصل روح قرآن و حدیث کو بطور سسٹم ان اسکولوں میں پڑھایا اور سمجھایا جاتا ہو ۔ جب دنیا کے تمام مضامین ” ایکٹیوٹیز ” کی صورت میں کئیے جاسکتے ہیں تو قرآن کو بھی ” ایکٹیوٹیز ” کے ذریعے سے بچوں کے لئیے دلچسپ کیوں نہیں بنایا جاسکتا ؟ کیا ضروری ہے کہ قرآن کا نام آتے ہی بچوں کے دلوں پر محبت کے بجائے خوف کو غالب کیا جائے ؟ کیا وجہ ہے کہ بچہ دین کا نام سنتے ہی سمجھ لے کہ اب میرا کھیل کود سب کا سب ختم ہوگیا ہے ؟ وہ سائنس کے بارے میں سوچے ، ریاضی پر غور و فکر کرے ، آئی – ٹی کے حوالے سے ہر نئی معلومات حاصل کرلے لیکن نہ قرآن کے بارے میں اس کو سوچ دی جائے ، نہ ہی اس سائنٹفک کتاب پر غور وفکر کروایا جائے اور نہ ہی جدید زمانے کے لحاظ سے قرآن و حدیث سے کام لیا جائے ۔
اس قرآن کو کون کیسے سمجھائے گا اور یہ قرآن آج اکیسویں صدی میں کیسے اپلائی ہوگا ؟ اس کی فکر نہ مدارس کو ہے اور نہ ہی ہمارے جدید اسلامی اسکولز کو ۔ جب تک مدارس کو اپنا نصاب اور لباس پیا را ہے اور اسکولز کو اپنے ” گریڈز “۔اسوقت تک کے لئیے
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغ دار میں