مادرعلمی اور فضلاء کاتعلق

گزشتہ روزایک بہت ہی اہم اجلاس میں مجھے مدعو کیاگیا ،میری مرادپاکستان کے مشہورومعروف ادارہ او ر تعلیم وتربیت کی عظیم درسگاہ’’سلفیہ یونیورسٹی‘‘ ستیانہ بنگلہ ضلع فیصل آبادہے ۔اس اہم اجلاس میں ادارہ کی انتظامیہ نے تمام فضلاء کرام کو اپنے مادر علمی میں حاضری اور اہم میٹنگ کے لیے شرکت کی تاکید کی ہوئی تھی تومیں بھی انہی فضلاء میں سے ایک جو اپنے مادر علمی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی گاڑی پرسوار ہوااوراس جانب رخت سفر باندھا،میری خوشی کی کوئی انتہانہیں تھی ،میرادل ودماغ خوشی ومسرت سے سرشار تھااورتصورات کی دنیا میں کھویاہوامیں اپنے آپ سے بے ساختہ یہ کہہ رہا تھاکہ آج کادن توبڑاہی بابرکت،ماضی کی حسین یادوں کو تازہ کرنے والا ،مسروراوردلفریب گزرے گا۔
میں نے بزرگوں سے سناہے کہ جومادر علمی کی جگہ ہوتی ہے،جہاں تعلیم وتربیت کے حصول کے لیے بچپن اورجوانی کے لمحات گزارے ہوں وہاں کی جودرو دیوارہوتی ہیں انسان کوان سے بھی عقیدت، الفت اورمحبت ہو جاتی ہے،کچھ ایساہی معاملہ میرے ساتھ ہورہاتھاتودوسری طرف مجھے اپنے اساتذہ کرام سے ملنے کی تڑپ عروج پر تھی، یہ وہ روحانی باپ ہیں، جنہوں نے ہم پر احسان عظیم کیا اور ان کے احسان کا بدلہ ہم کبھی بھی نہیں چکاسکتے ،انھوں نے ہمیں دین ودنیاکے علم کی لازوال اور بے مثال دولت کی پہچان کروائی کہ اس سے پہلے ہم حقیقی معنوں میں دین ودنیا کے علوم سے باخبرنہیں تھے،صرف باخبر ہی نہیں کروایابلکہ اس علم کے ساتھ اپنے تعلق کومضبوط کرنے،اس پراستقامت کے ساتھ عمل کرنے اوراس کے ساتھ مرتے دم تک چمٹے رہنے کی تلقین کی،یہی وجہ ہے کہ آج ہم اسی مادر علمی اور اساتذہ کرام کے فیض، ان کی بیش بہاقیمتی نصیحتوں پرعمل درآمدکرتے ہوئے اس علم کی روشنی کوہرسو پھیلانے کی حتی الوسع یعنی اپنی طاقت کے مطابق بھرپور کوشش کررہے ہیں اور(ان شاء اللہ) اللہ کے فضل ورحمت سے مرتے دم تک جاری وساری رکھیں گے ۔
ابھی میں شہرستیانہ میں داخل ہوا اورادارہ کے قریب ہی پہنچاتھا کہ باہر کھڑے طلباء نے ہمارا والہانہ خوشی کے ساتھ استقبال کیا اور مزیدہم فضلاء کرام سے خوشی کااظہارکچھ اس طرح کہ دورسے ہی اھلاًوسھلاً،خوش آمدیدکے بینرز آویزاں نظرآرہے تھے جو اس بات کاواضح ثبوت پیش کررہے تھے کہ شائد ہم سے بھی زیادہ خوشی ادارہ کوہمارے تشریف لانے کی ہے،جیسے کسی ماں کابیٹااپنے گھر سے دور، ملک سے دوربیرون ملک کام کاج کے لیے جاتاہے اور کافی سالوں بعد جب وہ بیٹااپنے گھر آنے کے لیے اطلاع دیتاہے،کہ میں اب چھٹی لے کر گھر آرہاہوں اور وہ رخت سفرباندھتاہے توپتہ ہے کیسی خوشی اورمسرت کے لمحات ہوتے ہیں اس کی ماں پرجو سا لہاسال اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھنے کے لیے ترستی اورتڑپتی ہے کہ کب وہ وقت آئے اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھے،اس کاحال احوال پوچھے،اس سے باتیں کرے وغیرہ،یقینااہل دل ،زندہ ضمیراس بات کو بخوبی جانتے ہوں گے اور محسوس بھی کیاہوگا،حالانکہ میں خودبیرون ملک بھی نہیں رہتابلکہ پیارے وطن عزیز پاکستان ہی میں رہتاہوں لیکن یہ ضرور ہے کہ جس گاؤں میں،جن گلیوں میں ،جہاں اپنے بچپن کے دن گزارے اس سے دورہوں پھر بھی جب کافی دنوں بعد اپنے گھر آنے کی اطلاع دیتاہوں تو ماں جی کی خوشی کی انتہانہیں ہوتی ہے ۔
یہاں پر ماں جی کاذکرخیر شروع ہوگیاہے تو کیوں نامیں ایسی ہی ایک عظیم ماں کاذکر کرتاچلوں،محترم ذوالفقارچیمہ صاحب جو نامور کالم نگاراورنیشنل ووکیشنل اینڈٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے سربراہ ہیں،وہ ایک مرتبہ کہتے ہیں کہ میں اپنی ماں جی کے فوت ہونے کے بعدکسی دن اچانک گھرچلاگیاتو امی جان کی خادمہ میرے پاس آگئیں اورمیری ماں جی کو یادکرکے روپڑیں پھر مجھے بتانے لگیں کہ آپ کی والدہ کے کئی ایسے واقعات ہیں جن کاآپ کو علم نہیں ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن سخت سردی کاموسم تھااور آپ کے آنے کی اطلاع ملی توآپ کی امی جان مغرب کی نمازپڑھتے ہی گھرکے گیٹ کے پاس کرسی پربیٹھ گئیں،ہم نے بہت کوشش کی کہ آپ کمرے میںآجائیں مگروہ نہ مانیں اورآگے سے جواباًیہ کہتی کہ میرابیٹاآرہا ہے اورمیں اپنے بستر پرلیٹی رہوں،یہ کیسے ہوسکتاہے میں اپنے بیٹے کوگیٹ پر جاکر ملوں گی لیکن آپ نہ آئیں، سردی کاموسم تھاسردی بڑھتی گئی اور وہ گیٹ سے نہ اٹھیں اورانہیں اس سردی کی وجہ سے نمونیے کابخار ہوگیااور کئی دن بستر سے نہ اٹھ سکیں لیکن اس حالت میں بھی بارباریہی تاکیدکرتی تھیں کہ میرے بیٹے ’’ذوالفقار کو نہ بتاناوہ پریشان ہوگا‘‘۔ ایسی ہی مہربان اورعظیم ماؤں کی طرح ہمارے مادرعلمی ’’ سلفیہ یونیورسٹی‘‘ستیانہ نے اپنے بیٹوںیعنی فضلاء کومدعو کیااور ان کے استقبال واکرام میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
تو خیرمیں جب ادارے میں داخل ہواتوماضی کی حسین یادوں کے بنددریچے کھل گئے ،ماضی کے وہ گزرے ہوئے لمحات جیسے اچانک پھر واپس آگئے ہوں،وہی اساتذہ کرام اورہم رکاب جو ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے ایک بار پھر اکٹھے ہو گئے اور دل باغ باغ ہو گیااور میں دل ہی دل میں کہہ رہاتھا کہ آج مادر علمی میںآنے کاحق ادا ہو گیاہے ،اللہ میرے مادرعلمی کو ہمیشہ آباد،سلامت رکھے ۔آمین۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں