انسان روئے زمین کی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنے مستقبل کے انتخاب کا موقع عنایت فرمایا ہے۔جدید نفسیات کی رو سے آج انسا ن کو اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ اس کا مستقبل قسمت یا پھر تقدیر کے تابع نہیں بلکہ اس کی اپنی سوچ ،فکر اور اعمال پر منحصر ہوتا ہے۔خو ش نصیبی کو ایک اتفاقی،حادثاتی اور وقتی شئے سے ہر گزتعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ خو ش قسمتی کادار و مدار انسان کی اپنی پسند،انتخاب اورانداز فکر پر ہوتا ہے۔مستقبل کا تصور یا خاکہ صرف فلم کے ایک ٹریلر کی مانند ہوتا ہے جس میں ان عناصر کو ہی ہم نمایا ں کر تے ہیں جنھیں نمایا ں کرکے دکھاناچاہتے ہیں۔فلم کی نوعیت کا راست تعلق ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ فلم کو مزاحیہ رنگ دینا یا پھر حزن و ملال کی کیفیت سے آراستہ کرنا ہمارے انتخاب پر منحصر ہوتا ہے ۔بالکل اسی طرح ہماری زندگی کی خوشیوں کا،سکون و اطمینان کا ،مصائب اور شدائد کا دارو مدار ہمار ے انتخاب اور انداز فکر پر منحصر ہوتا ہے۔جس طرح ایک کمپیوٹر سافٹ ویر کی تیاری میں ہم جن امور کوپروگرامنگ کے طور پر شامل کرتے ہیں اسی کے عین مطابق ہم اپنے اہداف و مقاصد کوحاصل کر نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم اپنے زندگی کو اپنی طرز فکر کی بنا پر خوشیوں سے آراستہ یا پھر غموں سے پامال کر تے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایک معروف اصطلاح ہے جوکہ حقیقت پر مبنی ہے’’ gigo(گیگو)‘‘۔ اس مخفف کی توسیعی شکل garbage in garbage out (کوڑا ڈالو ،کوڑا نکالو) ہوتی ہے۔کمپیوٹر کی اس معروف اصطلاح کا اگر بامحاورہ اردو ترجمہ کیا جائے تو ہوگا’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ یا پھر ’’جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔‘‘انسان مستقبل میں وہی پاتا ہے جس کے حصول کی وہ اپنے حال میں سعی و کاوش کرتاہے۔اسلام میں جزا اور سزا کا دارو مدار بھی انسانی اعمال پر منحصر ہے۔’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘یہ حدیث انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں وہی پائے گا جس کی وہ فی زمانہ کوشش کررہا ہے۔این ایل پی(NLP)نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ( عصبی لسانیاتی منصوبہ بندی)پر عمل کرنے والے افراد اپنی زندگی مسرت اور اطمینان سے بسر کرتے ہیں۔NLP زندگی کو خوشیوں سے مالامال کرنے کے ساتھ ساتھ سکون ا ور اطمینان فراہم کرتی ہیں۔ انسانی زندگی کو خوشیوں اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کرنے کے لئے اس علم کو سیکھنے اور اس کی ترویج و اشاعت بہت ضروری ہے تاکہ بنوع انسان اس سے بہرورہوسکے۔NLPجدید نفسیات کی ایک بہترین دین ہے۔یہ تین اجزاء اعصاب(Neuro)،لسانیات(liguistic)اور پروگرامنگ(programming)پر مشتمل ہوتی ہے۔باالفاظدیگر اس کو عصبی لسانیاتی اظہاربھی کہہ سکتے ہیں۔
اعصاب(Neuro)۔ ہماراعصبی نظام ہر لمحہ مختلف افعال، سرگرمیاں اور تغیرات کا منبع و محور ہوتا ہے۔ ذہن میں انجام پانے والے ان افعال سرگرمیوں اور تغیرات کا ہمیں مطلق کوئی علم نہیں ہوتا ہے۔ جسم کو اگر ایک کمپیوٹر سے تشبیہ دی جائے تب دماغ کو ایک ہارڈ ویر اور اس پر مرتسم شدہ(انسٹالڈ) افکار ،رویوں،عقائد و خیالات اورانداز فکر کو سوفٹ ویر کہاجاسکتا ہے۔ کمپیوٹر کے کل پرزوں کو ہارڈ ویر کہا جاتا ہے اور کمپیوٹر کے کل پرزے جس زبان میں گفتگو یاترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں اس کو سوفٹ ویر کہاجاتا ہے ۔ جس طر ح سے کمپیوٹرسوفٹ ویر کوہم اپنی سادہ آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم ،اپنے دماغ پر کندہ افکار،خیالات،عقائد وغیرہ کو بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں۔یہ تما م افعال دماغ میں ایک پروگرام کی طرح نقش ہوتے ہیں۔دماغ کی پروگرامنگ میں ہمارے پانچوں حواس خمسہ (نظر،لمس،سماعت،ذائقہ،اور شامہ )کلید(key)کا کام کرتے ہیں۔انٹرنیٹ پر جتنی ویب سائٹس پائی جاتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ویب سائٹس ہمارے دماغ میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔عام طور پر ہم اکثر غم ،حزن و ملال ،مایوسی اور یا سیت کی ویب سائٹس کو بروز کرتے ہوئے اپنی غم ،مایوسی اور اضطراب میں اضافہ کرتے ہیں۔
زبان (liguistic):۔حواس خمسہ کی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے۔ حواس خمسہ اپنے پانچوں عضو سے باہم مربوط ہوکر ایک زبان تشکیل دیتے ہیں اور ا سی زبان کے سہارے وہ جذبات و احساسات کی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ اگرآپ اپنی آنکھیں موند لیں اور ایک چمچ شکر آپ کے منہ میں ڈالی جائی تب ایک لمحہ سوچے بنا آپ آنکھیں بند رکھ کر ہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے منہ میں شکر ڈالی گئی ہے۔شکر کے میٹھے ذائقے کی پہچان آپ کے دماغ کو کس نے سکھائی؟آپ بالکل بجا فرماتے ہیں کہ یہ کام آپ نے انجام نہیں دیا۔شکر کے بجائے اگر منہ میں لیمو کا رس ڈال دیا جائے تب لیمو کے رس سے آپ کے منہ سے لعاب کا اخراج ہوگا۔کیا لیمو کے رس پر منہ کو لعاب کا اخراج آپ نے سکھا یا ہے ؟آپ کہیں گے کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے۔اسی عمل کو لسان ذہنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جذبات اور احساسات کا اظہار اسی زبان کے تحت ہوتاہے۔ماحول،پرورش، اورحالات جن کا ہم سامنا کرتے ہیں مختلف طریقوں سے ہمیں تجزیہ اور تعبیر کا علم عطا کرتے ہیں۔بچپن میں اگر ایک بچے کی مسلسل حوصلہ افزائی و ہمت افزائی کی جائے تب اس میں خود اعتمادی پروان چڑھے گی اس کے برخلاف اگر بچپن سے ہی بچے کی حوصلہ شکنی کی جائے تب اس میں عدم اعتمادی اور بے حوصلگی پروان چڑھے گی۔عدم حوصلہ گی اور بے اعتمادی کی وجہ سے ذہن میں، میں بیکار ہوں،میر ی قسمت خراب ہے،میں پڑھ نہیں سکتا ،میں یہ نہیں کرسکتا میں وہ نہیں کرسکتااور میں امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جیسے احساسات سر اٹھا تے ہیں۔اس طرح شعوری اور لاشعوری طور پرہمارے دماغ پر کئی نقش کندہ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں ان باتوں کا خا ص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پروگرامنگ(programming):۔ہمارے حواس خمسہ اپنے تاثرات پیش کرنے یا احتجاج درج کروانے کے لئے ایک مخصوص زبان کا استعمال کرتے ہیں اور یہ زبان ذہن میں پروگرام کی ہوئی ہوتی ہے۔یہ نہ تو ہم کو نظر آتی ہے اور نہ ہم اس کو جانتے ہیں۔پروگرامنگ دماغ پر مرتسم تاثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔پانچوں حسی عضو کے کام کرنے کی وجہ سے جو تاثرات اور نقش ذہن پر کندہ ہوجاتے ہیں اسی کو پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر سگریٹ نوشی میں مبتلا ایک شخص کہتا ہے کہ سگریٹ پینے سے اس کو گوناگوں سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔اسی کو ذہنی پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔اس کے برعکس ایک شخص سگریٹ پینے کی کوشش میں کھانسنے لگتا ہے اور ہاتھ سے سگریٹ پھینک دیتا ہے۔ یہ بھی ایک پروگرام ہے۔ اپنی زندگی میں ہم آئے دن ایسے واقعات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذہنی افلاس ،افسردگی غم اور حزن و ملال کی ایک اور اہم وجہ توہم پرستی بھی ہے ۔ہمارے معاشرے میں توہم پرستی ایک عام بات ہے۔ ہم توہم پرستی کو نفسیات کی اصطلاح میں اگر وائرس سے تعبیر کر یں تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ مخصوص زائچوں اور نقشوں کی گھر میں عدم موجودگی کی وجہ سے خوش حالی داخل نہیں ہورہی ہے۔بلی کے راستہ کاٹنے سے کام بگڑ جاتے ہیں،یا پھر مخصوص ایام جیسے اماوس پر کوئی نئے کام کو شروع کرنے سے نقصان ہوتا ہے ۔ ان خیالات یا تواہم کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ توہم پرستی کا شکا ر شخص ان باتوں کا جواز ، معنی ،مفہوم ا ور استدلال پیش کرسکتا ہے پھر بھی ان امور پرایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے کیونکہ یہ شبہات اس کے ذہن میں پروگرام کئے ہوتے ہیں۔ توہم پرستی کا یہ عمل لگاتار جاری رہنے سے ہمارا کمپیوٹر(ذہن)وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے۔اور یہ صورتحال کمپیوٹر س (ذہنوں) کے لئے تباہ کن اور خطرناک ہوتی ہے۔ خطرات کے پیش نظر بھی ہم اپنے ذہنوں کو اسکان نہیں کر تے ہیں یا پھر ہم ذہن کو اسکان کرنے کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔اگر اسکاننگ کا ہنر جانتے بھی ہوں ہماری لاپروہی اور کاہلی ہم کو اس سے باز رکھتی ہے۔لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ (NLP)کے ذریعہ یہ ممکن ہے۔NLPکوئی طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی پروگرامنگ کی ایک خاص تکنیک (مہارت)ہے۔
اکثر کامیاب لوگ کہتے نظرآتے ہیں کہ ان کی کامیابی خو د انہی کی رہین منت ہے یعنی وہ سلف میڈ (اپنی محنت سے ترقی کرنے والے) ہیں۔لیکن میری نظر میں جو ناکام ہوتے ہیں وہ سلف میڈ ہوتے ہیں کیونکہ کامیاب افراد کی کامیابی میں کسی نہ کسی کا تعاون اور مدد شامل ہوتی ہے۔ جب کہ ناکام حضرات کی ناکامی میں کسی اور کا کوئی حصہ و کردار نہیں ہوتا ہے۔ناکام افراد کی ناکامی میں خو د ان کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔NLPکا بنیادی مقصدذہن کو مثبت فکر سازی کے لئے تیار کرنے میں رہنمائی و رہبری فراہم کرنا ہے جس کے ذریعہ آدمی اپنی مدد آپ کرتے ہوئے منفی رجحانات اور اذیت ذات کے عمل سے خود کو محفوظ و مامون رکھ سکتا ہے۔اگر آدمی اکثر منفی سوچ میں ملوث ہوتب ذہن اس کو منفی ذہن سازی (پروگرامنگ) پر ابھار تا ہے۔ ماہر نفسیات جگ جگلر (Jig Jiggler) اس ضمن میں رقم طراز ہے کہ ’’خوف ایک ایسا تاریک کمرہ ہے جہاں صرف نیگیٹوز ہی تیار ہوتے ہیں۔‘‘ یہاں نیگیٹوز سے مراد فوٹوگرافی فلم نہیں ہے بلکہ منفی خیالات و افکار ہیں۔اسی لئے انسان کو ہمیشہ مثبت فکر سے جینے کی تلقین کی جاتی ہے۔اسلام گمان کو ایک باطینی بیماری قرار دیتا ہے اور اس سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔’’اے ایمان والو،کثرت گمان سے بچو۔بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘(سورۃ الحجرات:12)شیطان دلوں میں وساوس پیدا کرتے ہوئے انسان کو خوف اور غم میں مبتلا کردیتا ہے۔اسی لئے اسلام انسانوں کو وسوسوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔حسن ظن سے متعلق حدیث مبار ک میں آتا ہے ’’اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ مجھ سے ظن رکھتا ہے۔اب بندے کی مرضی ہے جیسا چاہے مجھ سے ظن رکھے۔‘‘مثبت فکر کے ذریعہ انسان اپنے غموں سے نجات پاسکتا ہے۔اسی لئے آدمی کو ہر پل مثبت سوچنا چاہیئے۔اگر ہرن جیناکا خواہش مند ہوتو لازمی طور پر اس کو تیز تر دوڑنا سیکھنا ہوگا نہیں توکسی شیر وببر کا لقمہ تر بننے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اسی طرح اگر شیر و ببر جینا چاہتے ہیں تو ان کو ہر ن سے تیز دوڑنا ہوگا ورنہ ہرن بھاگ جا ئے گا اور وہ بھوکوں مرجائیں گے۔جو روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور چیالینجس کا سامنا کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ہر دن ہم کو اپنے صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے مزید موقعے پیدا کر نا چاہیئے۔کسی کوبھی کوئی شئے یونہی حاصل نہیں ہوجاتی ہے بلکہ بہادر اور جوانمرد تو وہ ہوتے ہیں جو موقعوں کا انتظار کرنے کے بجائے خود مواقع پیدا کر تے ہیں۔مواقع کوئی ایسا درواز ہ نہیں ہے جو کوئی دوسرا آپ کے لئے وا کرے گا۔اسے تو خود آپ کو ہی کھولنا ہوتا ہے۔طویل مدت سے ذہنوں میں گھر کیئے ہوئے عقائد، تواہم و منفی سوچ کو بدل کر اور ذہن کی ری پروگرامنگ کے ذریعہ ہم اپنے زندگی کو خوشی و مسرت اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔کئی افراد نے NLPسائنس کے ذریعہ نہ صرف معجزات انجام دیئے ہیں بلکہ ناممکنا ت کو ممکن کر دکھایا ہے۔جو اپنے آپ کو بے مصرف سمجھتے تھے اپنے گمان سے بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔جو مایوسی اور ناکامی کی وجہ سے خو د کشی کے دہانے پر تھے آج خود اعتمادی سے عظیم کامیابیوں کے حصول میں مصروف ہیں۔NLPسائنس کا سب سے حیرت ناک او رتعجب خیز پہلو یہ ہے کہ ہم کو خدشات و فریب میں گرفتار کیئے بغیر خوش و خرم رکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔
NLP:۔کمپیوٹر انجینئرریچڈبینڈلر اور عمرانیات و لسانیات کے عالم جان گرینڈردونوں نے اپنے نفسیاتی مطالعہ کی روشنی میں اپنا ایک نئے نظریے اعصابی لسانیاتی پروگرامنگ(Neuro liguistic programming)کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے اپنے کرشماتی نظریہ کی تحقیق کے دوران متعدد ماہرین نفسیات سے ملاقاتیں کیں جن میں ڈاکٹر ملٹن ایرکسن(Dr.Milton Ericson)قابل ذکر ہیں۔بینڈلر اور گرینڈر نے بہت عرق ریزی اور محنت کے بعد آسان اور قابل قدرعصبی لسانی پروگرام(مہارت) تکینک سے دنیا کو متعارف کروایا۔جسے نیورلنگوسٹک پروگرام(عصبی لسانی پروگرام)کہاجاتا ہے۔ریچڈ اور گرینڈر کے مطابق خوشی ،مسرت اور غم ہماری اپنی ذات میں ہی پنہاں ہوتے ہیں ہم اپنی فکر صلاحیتوں کو مثبت رنگ دیکر ہمیشہ خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ ہم سکون کی تلاش میں سرگرداں،حیران و پریشان پھرتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔یونانی اساطیر (داستانوں) میں ایک تمثیل کو پیش کیا گیا ہے۔تمام یونانی خداؤں نے ایک اجلاس طلب کیا ۔اجلاس میں انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا۔چند دیوتاؤں نے اعتراض پیش کیا کہ اگر انسان کو ذہنی سکون عطاکر دیا گیا تووہ کبھی کام نہیں کرے گا۔دیوتاؤں نے تجویز پیش کی کہ انسان کو ذہنی سکون ہر گز فراہم نہ کیا جائے جس کی بعض دیوتاؤ ں نے مخالفت کی۔ایک دیوتا نے کہا کہ سکون کو ایک غار میں چھپا کر رکھ دیا جائے اور غار کے منہ کو ایک بڑی چٹان سے بند کر دیا جائے ۔اگر آدمی محنت کر ے گا اور غار سے چٹان ہٹا دے گا تب اس کو ذہنی سکو ن نصیب ہوجائے گا۔دوسرے دیوتا نے کہا کہ ایک طاقتور انسان کے لئے یہ کام بہت ہی آسان ہوگا۔اگر سکون کو کسی برفیلی پہاڑی کی چوٹی پر رکھدیا جائے تو وہ وہاں تک نہیں پہنچ پائے گا۔تیسرا دیوتا نے کہا کہ انسان برف سے کسی نہ کسی طرح بچاؤ کرتے ہوئے چوٹی تک پہنچ کر ذہنی سکون کو حاصل کر لے گا۔بہتر یہی ہوگا کہ اسے سمندر کی تہہ میں چھپا دیا جائے۔چوتھے دیوتا نے کہا کہ آپ تما م کی آرا بیکار ہیں ۔ایسی تجویز دو کہ انسان تھک ہار کر بھی ذہنی سکون کو حاصل نہ کرنے پائے۔تمام دیوتا سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور ازسر نو سوچنے لگے۔ایک نوجوان دیوتانے تجویز پیش کی جس کوتمام دیوتاؤں نے شرف قبولیت بخشا۔نوجوان دیوتا کی تجویز تھی کہ ذہنی سکو ن کو یہاں وہا ں چھپانے کے بجائے اس کو خود انسان کی ذات میں چھپا دیا جائے۔انسان ذہنی سکون کو دیوانہ وار تلاش کر ے گا لیکن اس کو پتہ نہیں چلے گا کہ ذہنی سکون تو خود اس کی ذات میں رکھا گیا ہے۔تمام دیوتاؤں اس رائے پر متفق ہوگئے۔تب سے دیوتاؤں نے ذہنی سکون کو انسان کی ذات میں پوشیدہ کر دیا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج بھی معدودے چند افراد کے بیشتر کو یہ بات نہیں معلوم ہے۔آج بھی انسان ذہنی سکون کے لئے متعد د حربے اختیار کر رہاہے کوئی شراب میں سکون ڈھونڈ رہاہے تو کوئی منشیات میں۔کوئی دولت میں توکوئی جو ے میں۔الغرض انسان مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے بعض دنیاوی زندگی کو خیرآباد کہتے ہوئے سنیاس لے رہے ہیں تو چند خود کشی سے بھی احتراز نہیں کر رہے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو ناکامی ہی حاصل ہورہی ہے۔سکون اطمینان تو انسان کی ذات میں ہی پنہاں ہے اور جو چاہتے ہیں کہ انہیں ذہنی سکون اور اطمینان قلب حاصل ہو یہ ان کو مل ہی جاتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی ذات میں غوطہ زن ہوں۔ذہن شعور اور تحت الشعورجیسی دو کیفیات پر مبنی ہوتا ہے۔بیشتر افعال و سرگرمیوں شعور ی طور پر انجام پاتی ہیں لیکن یہ افعال اور سرگرمیوں تحت الشعور کے زیر نگیں اور زیر قابو انجام پاتی ہیں۔انسان کے اچھے یا برے کارنامے،قابل قبول یا قابل اعتراض تبصرے تحت الشعور میں نقش ہوجاتے ہیں۔والدین سے منتقل ہونے والی عادات و اطوار، رسم و رواج،سماجی ومعاشی اور ثقافتی ماحول اور بچپن کے تجربات انسانی ذہن پرنہ صرف گہر ا اثر ڈالتے ہیں بلکہ یہ ذہن میں(تحت الشعور) پیوست ہوجاتے ہیں۔حالانکہ یہ نقش صحیح نہیں ہوتے ہیں پھر بھی ہم غلامی کی حد تک اس فریب کے مطیع رہتے ہیں۔ان تباہ کن پر فریب نظریات کو ہی ہم ابدی سچائی کے طور پر تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ان افراد کو ایسے پر فریب جال سے نجات دلانے میں عصبی لسانی پروگرامنگ(Neuro liguistic programming)بہت سود مند ثابت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر بعض افراد کے ذہنوں میں درجہ ذیل باتیں پروگرام ہوتی ہیں۔وہ ان باتوں کو سچ مانتے ہیں لیکن انھیں غور کرنا چاہیئے یہ سچائی نہیں ہے صرف ان کا اندھا عقیدہ ہے۔(1)اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے میری زبان بند ہوجاتی ہے۔(2)میں جو بھی پڑھتا ہوں یا د نہیں رہتاہے۔(3)میں اپنی توہین اور بے عزتی کبھی نہیں بھولتا ہوں۔(4)باٹنی کی کلا س بہت ہی بو ر ہے۔(5)کسی مخصوص طبقہ یا مذہب کے لوگ بہت ہی ظالم ہوتے ہیں۔(6)الجبرا ء سے میں بہت گھبراتا ہوں۔(7)میں بہت ہی بد قسمت ہوں اور میرے ستارے خراب ہیں۔(8)ملازمت پیشہ عورت پر کبھی بھروسہ نہیں کر نا چاہیئے۔(9)امریکہ جانے والے تما م افراد شراب پیتے ہیں۔(9)سفر کے آغاز پر کسی کا چھینکنا بدشگونی ہے۔(10)اگر بلی راستہ کاٹ دے تو جس کام کے لئے جارہے ہیں اس میں کامیابی نہیں ملے گی۔(11)شراب پینے سے میں خود کو پرسکون اور ہلکا پھلکا محسوس کر تا ہوں۔(12)شراب پینے سے تما م غم فراموش ہوجاتے ہیں یا تما م غم غلط ہوجاتے ہیں۔(13)مجھے زندگی میں کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔(14)میں زندگی بھر کار نہیں چلا پاؤں گا۔(15)دنیا میں کوئی بھی میرے سے زیادہ پریشان نہیں ہے۔(16)مجھے کوئی نہیں سمجھتا سب میرے دشمن ہیں۔(17)مجھے ضرور کوئی خطرنا ک بیماری ہے یا ہوسکتی ہے۔اگر اسی طرح لکھتے جاؤں تو یقیناًیہ مضمون ان کا احاطہ نہیں کر پائے گا۔مذکورہ تمام بیانات میں دراصل کوئی سچائی نہیں ہے۔جو یہ بہانے بناتے ہیں ان کو ہی یہ اچھے لگتے ہیں۔اور اسی ڈگر پر ان کا ذہن کام کرتا ہے۔دماغ بھی ان کو اسی طرح کی تجاویز دیتا ہے اور آخر کار یہ تجاویز ذہن میں مختلف شکلوں میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ یہ تمام نقوش باطل اور جھوٹے ہیں۔عصبی لسانی منصوبہ بندی (پروگرامنگ) باطل نظریات سے نجات دلاکر انسان کو عظیم کامیابیوں کی طرف گامزن کرتی ہے۔
ہم ا پنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو فراموش کر دیتے ہیں۔ عام طور پر انسان کامیابی سے زیادہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کو یا د کرتا ہے۔انسان اپنی زندگی کے خوش گوار ایام بھول جاتا ہے اور مشکل اور برے حالات جس کو اس نے خود پیدا کیا تھا، یاد رکھتا ہے ۔ نفسیات میں اسی کو اذیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہم خودکو ایک ہیرو کی طرح دیکھے نہ کہ ایک ویلن کے طور پر۔آج کا عام انسان منفی خیالات میں گھرا ہوا ہے جیسے ’’یہ میں نہیں کر سکتا ‘‘۔’’یہ بالکل نا ممکن ہے۔‘‘اور بالاخر یہ منفی خیالات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔دنیا میں ایسے بہت لوگ ہیں جو اپنی عارضی پریشانیوں کو بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں اور زندگی کے لطف و سرور سے محروم ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ بہت ہی سود مند ہوتی ہے۔یہ آدمی کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرتی ہے۔اس تکنیک کا سب سے اہم گر یہ ہے کہ آدمی اپنی ایک کامیابی کو دوسری کامیابی کا زینہ بنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ سے فیضیا ب ہونے والوں میں کمپیوٹر دنیا کا بے تاج بادشاہ بل گیٹس، (“awaken the giant within you” and Unlimited Powe”) کا عظیم مصنف انتھونی رابنس شامل ہیں جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں کسی خاص تعلیم و تربیت کے بغیر فقید المثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔انسانی ذہن عظیم طاقتوں کا سر چشمہ ہے۔یہ کمپیوٹر سے بھی کم وقت میں پیچیدہ سے پیچیدہ کام انجام دے سکتا ہے۔انسانی افکار و خیالات کی پرواز اور رفتا ر کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ذہن میں منفی افکار کو جگہ دے کراور مثبت افکار سے دامن کترا تے ہوئے انسان ایک فرسودہ اور اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے۔بہت کم افراد جانتے ہیں کہ اپنے ذہن پر قابو پاتے ہوئے ہم ایک بہتر ،خوشحال اور کامیاب زندگی بسر کر سکتے ہیں۔جو لوگ اس سچائی سے انحراف کر تے ہیں دوسروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح رقص کر تے رہتے ہیں۔اس ضمن میں ایک کہاوت مجھے یا د آرہی ہے ’’ اگر بلی اندھی ہوجائے تو چوہا اس کے پیٹھ پر رقص کرنے لگتا ہے۔ ‘‘بالکل اسی طر ح جب ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے ہیں تب معمولی سے معمولی مسائل اور ادنی سے ادنی لوگ ہمارااستحصال کرنے لگتے ہیں۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ نہ صرف دماغ پر قابو پانے کے گر سکھاتی ہے بلکہ دماغ پر غلبہ حاصل کرنے کا بھی ہمیں علم عطا کرتی ہے۔مروجہ نفسیاتی تکنیک آدمی کی شخصیت کو سنوار کر اس کو اس کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتی ہیں لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ اس سے ایک ہاتھ آگے جاکر آدمی کو ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کا ہنر سیکھاتی ہے اور نہ صرف ان کو ترقیوں کی معراج تک پہنچاتی ہے بلکہ ان کو اس مقام پرقائم رہنے کے گر بھی سیکھاتی ہے۔
اپنی زندگی کے خوشگوار دنوں کو یا د کیجیئے ۔اپنی پیدائش سے لیکر آج تک کے تما م اہم خوشگوار واقعات کو یک بہ دیگر ترتیب وار ذہن میں اس طرح لائیے جیسے آپ ایک فلم دیکھ رہے ہیں۔اس کام کودن میں کم از کم ایک بار دہرائیے پھر دیکھیئے کہ ایک ہفتے کے اندر آپ میں کیسی خوش گوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔درحقیقت آج بھی ہم یہ تما م کام انجام دے رہے ہیں لیکن ہمارا سفر مقابل سمت میں جاری ہے۔ کامیابی کے لئے منزل اور سمت کا تعین ضروری ہوتاہے۔منزل تک پہنچنے اور سمت کے تعین کے علاوہ راستے کے مصائب و شدائد کا سامنا کرنے کا حوصلہ NLP فراہم کرتی ہے۔ خوش گوار یادوں کو تازہ کرنے کے بجائے دکھ بھرے ایام کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ہم خود کو مضطرب ،پریشان اور غمگین کرتے ہیں۔ خوشی اور کامیابی کے حصول کے لئے اپنے ذہن پر قابو حاصل کیجیے اپنی سوچ کو مثبت بنائیے۔ہمیشہ شکر گزاری کی عادت ڈالیئے ۔شکر گزاری کا جذبہ صرف مثبت فکر سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اس تناظر میں حضرت شیخ سعدی ؒ کا ایک واقعہ ہماری ذہن سازی کے لئے کارآمد ہوگا۔ایک مرتبہ سعدیؒ کے پاس جوتے تک میسر نہیں تھے اور ننگے پیر چلنے سے ان کو بہت ہی کوفت اور تکلیف ہورہی تھی ان کے پیروں میں چھالے پڑگئے تھے۔وہ زندگی کو کوس رہے تھے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے پیر وں کو جوتے تک میسر نہیں ہیں۔ابھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا تھا کہ آپ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو پیروں سے معذور تھا ور کمر کے بل گھس کر راستہ طئے کر رہاتھا۔ تب آپ نے سوچا کہ میں اس آدمی سے بہت ہی قسمت والا ہوں کہ میری پاس جوتے نہیں تو کیاہوں میرے پیر تو سلامت ہیں۔مثبت سوچ کی ہی بدولت سعدی کا نام علم و ادب کی دنیا میں آج بھی روشن و منور ہے ۔دنیا کو مسخر کرنے کے لئے ہم کو تسخیر ذات کے مرحلے سے گزرناپڑتا ہے۔ذات کی تسخیر میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے ذہن پر قابو اور غلبہ پانے میں کامیابی حاصل کر تے ہیں۔ جو لوگ منفی پہلو سے بھی مثبت پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں وہ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی بہت لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی خوشیوں سے مامور و آباد کرنا چاہتیہیں توہم کو ہمیشہ زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر مرکوز کرنی چاہیئے۔جو لوگ مثبت اور روشن پہلوؤ ں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں نہ صرف وہ دنیا میں کامیاب وکامران رہتے ہیں بلکہ معاشرے میں ان کو ایک خاص مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ لوگ ان کو عز ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہر محفل میں ان کا استقبال کیا جاتا ہے ۔کیونکہ یہ لوگ نہ صرف خوش رہنے کا ہنر جانتے ہیں بلکہ دوسروں کے غم خوار و مونس ہوتے ہیں اور ہمیشہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔کامیاب اور خوش گوار زندگی گزارنیکے لئے ذہنی رویوں،مثبت فکراور مثبت طرز عمل کو بہت اہمیت حاصل ہے۔جو شخص منفی فکر سے اجتناب کرتے ہوئے ،مثبت سوچ اور مثبت طرز عمل کو اپنا تا ہے وہ نہ صرف زندگی بھر خوش و خرم رہتا ہے بلکہ فقیدالمثال کامیابی کے دروازے اس کے لئے وا ہوجاتے ہیں۔
اہم بلاگز
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔