انسان روئے زمین کی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنے مستقبل کے انتخاب کا موقع عنایت فرمایا ہے۔جدید نفسیات کی رو سے آج انسا ن کو اس بات کا علم ہوچکا ہے کہ اس کا مستقبل قسمت یا پھر تقدیر کے تابع نہیں بلکہ اس کی اپنی سوچ ،فکر اور اعمال پر منحصر ہوتا ہے۔خو ش نصیبی کو ایک اتفاقی،حادثاتی اور وقتی شئے سے ہر گزتعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔بلکہ خو ش قسمتی کادار و مدار انسان کی اپنی پسند،انتخاب اورانداز فکر پر ہوتا ہے۔مستقبل کا تصور یا خاکہ صرف فلم کے ایک ٹریلر کی مانند ہوتا ہے جس میں ان عناصر کو ہی ہم نمایا ں کر تے ہیں جنھیں نمایا ں کرکے دکھاناچاہتے ہیں۔فلم کی نوعیت کا راست تعلق ہماری سوچ پر ہوتا ہے۔ فلم کو مزاحیہ رنگ دینا یا پھر حزن و ملال کی کیفیت سے آراستہ کرنا ہمارے انتخاب پر منحصر ہوتا ہے ۔بالکل اسی طرح ہماری زندگی کی خوشیوں کا،سکون و اطمینان کا ،مصائب اور شدائد کا دارو مدار ہمار ے انتخاب اور انداز فکر پر منحصر ہوتا ہے۔جس طرح ایک کمپیوٹر سافٹ ویر کی تیاری میں ہم جن امور کوپروگرامنگ کے طور پر شامل کرتے ہیں اسی کے عین مطابق ہم اپنے اہداف و مقاصد کوحاصل کر نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم اپنے زندگی کو اپنی طرز فکر کی بنا پر خوشیوں سے آراستہ یا پھر غموں سے پامال کر تے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایک معروف اصطلاح ہے جوکہ حقیقت پر مبنی ہے’’ gigo(گیگو)‘‘۔ اس مخفف کی توسیعی شکل garbage in garbage out (کوڑا ڈالو ،کوڑا نکالو) ہوتی ہے۔کمپیوٹر کی اس معروف اصطلاح کا اگر بامحاورہ اردو ترجمہ کیا جائے تو ہوگا’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ یا پھر ’’جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔‘‘انسان مستقبل میں وہی پاتا ہے جس کے حصول کی وہ اپنے حال میں سعی و کاوش کرتاہے۔اسلام میں جزا اور سزا کا دارو مدار بھی انسانی اعمال پر منحصر ہے۔’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘یہ حدیث انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں وہی پائے گا جس کی وہ فی زمانہ کوشش کررہا ہے۔این ایل پی(NLP)نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ( عصبی لسانیاتی منصوبہ بندی)پر عمل کرنے والے افراد اپنی زندگی مسرت اور اطمینان سے بسر کرتے ہیں۔NLP زندگی کو خوشیوں سے مالامال کرنے کے ساتھ ساتھ سکون ا ور اطمینان فراہم کرتی ہیں۔ انسانی زندگی کو خوشیوں اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کرنے کے لئے اس علم کو سیکھنے اور اس کی ترویج و اشاعت بہت ضروری ہے تاکہ بنوع انسان اس سے بہرورہوسکے۔NLPجدید نفسیات کی ایک بہترین دین ہے۔یہ تین اجزاء اعصاب(Neuro)،لسانیات(liguistic)اور پروگرامنگ(programming)پر مشتمل ہوتی ہے۔باالفاظدیگر اس کو عصبی لسانیاتی اظہاربھی کہہ سکتے ہیں۔
اعصاب(Neuro)۔ ہماراعصبی نظام ہر لمحہ مختلف افعال، سرگرمیاں اور تغیرات کا منبع و محور ہوتا ہے۔ ذہن میں انجام پانے والے ان افعال سرگرمیوں اور تغیرات کا ہمیں مطلق کوئی علم نہیں ہوتا ہے۔ جسم کو اگر ایک کمپیوٹر سے تشبیہ دی جائے تب دماغ کو ایک ہارڈ ویر اور اس پر مرتسم شدہ(انسٹالڈ) افکار ،رویوں،عقائد و خیالات اورانداز فکر کو سوفٹ ویر کہاجاسکتا ہے۔ کمپیوٹر کے کل پرزوں کو ہارڈ ویر کہا جاتا ہے اور کمپیوٹر کے کل پرزے جس زبان میں گفتگو یاترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں اس کو سوفٹ ویر کہاجاتا ہے ۔ جس طر ح سے کمپیوٹرسوفٹ ویر کوہم اپنی سادہ آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے ہیں بالکل اسی طرح ہم ،اپنے دماغ پر کندہ افکار،خیالات،عقائد وغیرہ کو بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں۔یہ تما م افعال دماغ میں ایک پروگرام کی طرح نقش ہوتے ہیں۔دماغ کی پروگرامنگ میں ہمارے پانچوں حواس خمسہ (نظر،لمس،سماعت،ذائقہ،اور شامہ )کلید(key)کا کام کرتے ہیں۔انٹرنیٹ پر جتنی ویب سائٹس پائی جاتی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ویب سائٹس ہمارے دماغ میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔عام طور پر ہم اکثر غم ،حزن و ملال ،مایوسی اور یا سیت کی ویب سائٹس کو بروز کرتے ہوئے اپنی غم ،مایوسی اور اضطراب میں اضافہ کرتے ہیں۔
زبان (liguistic):۔حواس خمسہ کی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے۔ حواس خمسہ اپنے پانچوں عضو سے باہم مربوط ہوکر ایک زبان تشکیل دیتے ہیں اور ا سی زبان کے سہارے وہ جذبات و احساسات کی ترجمانی کا کام انجام دیتے ہیں۔ اگرآپ اپنی آنکھیں موند لیں اور ایک چمچ شکر آپ کے منہ میں ڈالی جائی تب ایک لمحہ سوچے بنا آپ آنکھیں بند رکھ کر ہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے منہ میں شکر ڈالی گئی ہے۔شکر کے میٹھے ذائقے کی پہچان آپ کے دماغ کو کس نے سکھائی؟آپ بالکل بجا فرماتے ہیں کہ یہ کام آپ نے انجام نہیں دیا۔شکر کے بجائے اگر منہ میں لیمو کا رس ڈال دیا جائے تب لیمو کے رس سے آپ کے منہ سے لعاب کا اخراج ہوگا۔کیا لیمو کے رس پر منہ کو لعاب کا اخراج آپ نے سکھا یا ہے ؟آپ کہیں گے کہ میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے۔اسی عمل کو لسان ذہنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جذبات اور احساسات کا اظہار اسی زبان کے تحت ہوتاہے۔ماحول،پرورش، اورحالات جن کا ہم سامنا کرتے ہیں مختلف طریقوں سے ہمیں تجزیہ اور تعبیر کا علم عطا کرتے ہیں۔بچپن میں اگر ایک بچے کی مسلسل حوصلہ افزائی و ہمت افزائی کی جائے تب اس میں خود اعتمادی پروان چڑھے گی اس کے برخلاف اگر بچپن سے ہی بچے کی حوصلہ شکنی کی جائے تب اس میں عدم اعتمادی اور بے حوصلگی پروان چڑھے گی۔عدم حوصلہ گی اور بے اعتمادی کی وجہ سے ذہن میں، میں بیکار ہوں،میر ی قسمت خراب ہے،میں پڑھ نہیں سکتا ،میں یہ نہیں کرسکتا میں وہ نہیں کرسکتااور میں امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جیسے احساسات سر اٹھا تے ہیں۔اس طرح شعوری اور لاشعوری طور پرہمارے دماغ پر کئی نقش کندہ ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں ان باتوں کا خا ص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پروگرامنگ(programming):۔ہمارے حواس خمسہ اپنے تاثرات پیش کرنے یا احتجاج درج کروانے کے لئے ایک مخصوص زبان کا استعمال کرتے ہیں اور یہ زبان ذہن میں پروگرام کی ہوئی ہوتی ہے۔یہ نہ تو ہم کو نظر آتی ہے اور نہ ہم اس کو جانتے ہیں۔پروگرامنگ دماغ پر مرتسم تاثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔پانچوں حسی عضو کے کام کرنے کی وجہ سے جو تاثرات اور نقش ذہن پر کندہ ہوجاتے ہیں اسی کو پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔مثال کے طور پر سگریٹ نوشی میں مبتلا ایک شخص کہتا ہے کہ سگریٹ پینے سے اس کو گوناگوں سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔اسی کو ذہنی پروگرامنگ کہا جاتا ہے۔اس کے برعکس ایک شخص سگریٹ پینے کی کوشش میں کھانسنے لگتا ہے اور ہاتھ سے سگریٹ پھینک دیتا ہے۔ یہ بھی ایک پروگرام ہے۔ اپنی زندگی میں ہم آئے دن ایسے واقعات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذہنی افلاس ،افسردگی غم اور حزن و ملال کی ایک اور اہم وجہ توہم پرستی بھی ہے ۔ہمارے معاشرے میں توہم پرستی ایک عام بات ہے۔ ہم توہم پرستی کو نفسیات کی اصطلاح میں اگر وائرس سے تعبیر کر یں تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ مخصوص زائچوں اور نقشوں کی گھر میں عدم موجودگی کی وجہ سے خوش حالی داخل نہیں ہورہی ہے۔بلی کے راستہ کاٹنے سے کام بگڑ جاتے ہیں،یا پھر مخصوص ایام جیسے اماوس پر کوئی نئے کام کو شروع کرنے سے نقصان ہوتا ہے ۔ ان خیالات یا تواہم کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ توہم پرستی کا شکا ر شخص ان باتوں کا جواز ، معنی ،مفہوم ا ور استدلال پیش کرسکتا ہے پھر بھی ان امور پرایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے کیونکہ یہ شبہات اس کے ذہن میں پروگرام کئے ہوتے ہیں۔ توہم پرستی کا یہ عمل لگاتار جاری رہنے سے ہمارا کمپیوٹر(ذہن)وائرس سے متاثر ہوجاتا ہے۔اور یہ صورتحال کمپیوٹر س (ذہنوں) کے لئے تباہ کن اور خطرناک ہوتی ہے۔ خطرات کے پیش نظر بھی ہم اپنے ذہنوں کو اسکان نہیں کر تے ہیں یا پھر ہم ذہن کو اسکان کرنے کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔اگر اسکاننگ کا ہنر جانتے بھی ہوں ہماری لاپروہی اور کاہلی ہم کو اس سے باز رکھتی ہے۔لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ (NLP)کے ذریعہ یہ ممکن ہے۔NLPکوئی طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی پروگرامنگ کی ایک خاص تکنیک (مہارت)ہے۔
اکثر کامیاب لوگ کہتے نظرآتے ہیں کہ ان کی کامیابی خو د انہی کی رہین منت ہے یعنی وہ سلف میڈ (اپنی محنت سے ترقی کرنے والے) ہیں۔لیکن میری نظر میں جو ناکام ہوتے ہیں وہ سلف میڈ ہوتے ہیں کیونکہ کامیاب افراد کی کامیابی میں کسی نہ کسی کا تعاون اور مدد شامل ہوتی ہے۔ جب کہ ناکام حضرات کی ناکامی میں کسی اور کا کوئی حصہ و کردار نہیں ہوتا ہے۔ناکام افراد کی ناکامی میں خو د ان کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔NLPکا بنیادی مقصدذہن کو مثبت فکر سازی کے لئے تیار کرنے میں رہنمائی و رہبری فراہم کرنا ہے جس کے ذریعہ آدمی اپنی مدد آپ کرتے ہوئے منفی رجحانات اور اذیت ذات کے عمل سے خود کو محفوظ و مامون رکھ سکتا ہے۔اگر آدمی اکثر منفی سوچ میں ملوث ہوتب ذہن اس کو منفی ذہن سازی (پروگرامنگ) پر ابھار تا ہے۔ ماہر نفسیات جگ جگلر (Jig Jiggler) اس ضمن میں رقم طراز ہے کہ ’’خوف ایک ایسا تاریک کمرہ ہے جہاں صرف نیگیٹوز ہی تیار ہوتے ہیں۔‘‘ یہاں نیگیٹوز سے مراد فوٹوگرافی فلم نہیں ہے بلکہ منفی خیالات و افکار ہیں۔اسی لئے انسان کو ہمیشہ مثبت فکر سے جینے کی تلقین کی جاتی ہے۔اسلام گمان کو ایک باطینی بیماری قرار دیتا ہے اور اس سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔’’اے ایمان والو،کثرت گمان سے بچو۔بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘(سورۃ الحجرات:12)شیطان دلوں میں وساوس پیدا کرتے ہوئے انسان کو خوف اور غم میں مبتلا کردیتا ہے۔اسی لئے اسلام انسانوں کو وسوسوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔حسن ظن سے متعلق حدیث مبار ک میں آتا ہے ’’اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کا وہ مجھ سے ظن رکھتا ہے۔اب بندے کی مرضی ہے جیسا چاہے مجھ سے ظن رکھے۔‘‘مثبت فکر کے ذریعہ انسان اپنے غموں سے نجات پاسکتا ہے۔اسی لئے آدمی کو ہر پل مثبت سوچنا چاہیئے۔اگر ہرن جیناکا خواہش مند ہوتو لازمی طور پر اس کو تیز تر دوڑنا سیکھنا ہوگا نہیں توکسی شیر وببر کا لقمہ تر بننے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اسی طرح اگر شیر و ببر جینا چاہتے ہیں تو ان کو ہر ن سے تیز دوڑنا ہوگا ورنہ ہرن بھاگ جا ئے گا اور وہ بھوکوں مرجائیں گے۔جو روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور چیالینجس کا سامنا کرتے ہیں وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ہر دن ہم کو اپنے صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے مزید موقعے پیدا کر نا چاہیئے۔کسی کوبھی کوئی شئے یونہی حاصل نہیں ہوجاتی ہے بلکہ بہادر اور جوانمرد تو وہ ہوتے ہیں جو موقعوں کا انتظار کرنے کے بجائے خود مواقع پیدا کر تے ہیں۔مواقع کوئی ایسا درواز ہ نہیں ہے جو کوئی دوسرا آپ کے لئے وا کرے گا۔اسے تو خود آپ کو ہی کھولنا ہوتا ہے۔طویل مدت سے ذہنوں میں گھر کیئے ہوئے عقائد، تواہم و منفی سوچ کو بدل کر اور ذہن کی ری پروگرامنگ کے ذریعہ ہم اپنے زندگی کو خوشی و مسرت اور سکون و اطمینان سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔کئی افراد نے NLPسائنس کے ذریعہ نہ صرف معجزات انجام دیئے ہیں بلکہ ناممکنا ت کو ممکن کر دکھایا ہے۔جو اپنے آپ کو بے مصرف سمجھتے تھے اپنے گمان سے بھی زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔جو مایوسی اور ناکامی کی وجہ سے خو د کشی کے دہانے پر تھے آج خود اعتمادی سے عظیم کامیابیوں کے حصول میں مصروف ہیں۔NLPسائنس کا سب سے حیرت ناک او رتعجب خیز پہلو یہ ہے کہ ہم کو خدشات و فریب میں گرفتار کیئے بغیر خوش و خرم رکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔
NLP:۔کمپیوٹر انجینئرریچڈبینڈلر اور عمرانیات و لسانیات کے عالم جان گرینڈردونوں نے اپنے نفسیاتی مطالعہ کی روشنی میں اپنا ایک نئے نظریے اعصابی لسانیاتی پروگرامنگ(Neuro liguistic programming)کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے اپنے کرشماتی نظریہ کی تحقیق کے دوران متعدد ماہرین نفسیات سے ملاقاتیں کیں جن میں ڈاکٹر ملٹن ایرکسن(Dr.Milton Ericson)قابل ذکر ہیں۔بینڈلر اور گرینڈر نے بہت عرق ریزی اور محنت کے بعد آسان اور قابل قدرعصبی لسانی پروگرام(مہارت) تکینک سے دنیا کو متعارف کروایا۔جسے نیورلنگوسٹک پروگرام(عصبی لسانی پروگرام)کہاجاتا ہے۔ریچڈ اور گرینڈر کے مطابق خوشی ،مسرت اور غم ہماری اپنی ذات میں ہی پنہاں ہوتے ہیں ہم اپنی فکر صلاحیتوں کو مثبت رنگ دیکر ہمیشہ خوش و خرم رہ سکتے ہیں۔ ہم سکون کی تلاش میں سرگرداں،حیران و پریشان پھرتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔یونانی اساطیر (داستانوں) میں ایک تمثیل کو پیش کیا گیا ہے۔تمام یونانی خداؤں نے ایک اجلاس طلب کیا ۔اجلاس میں انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا۔چند دیوتاؤں نے اعتراض پیش کیا کہ اگر انسان کو ذہنی سکون عطاکر دیا گیا تووہ کبھی کام نہیں کرے گا۔دیوتاؤں نے تجویز پیش کی کہ انسان کو ذہنی سکون ہر گز فراہم نہ کیا جائے جس کی بعض دیوتاؤ ں نے مخالفت کی۔ایک دیوتا نے کہا کہ سکون کو ایک غار میں چھپا کر رکھ دیا جائے اور غار کے منہ کو ایک بڑی چٹان سے بند کر دیا جائے ۔اگر آدمی محنت کر ے گا اور غار سے چٹان ہٹا دے گا تب اس کو ذہنی سکو ن نصیب ہوجائے گا۔دوسرے دیوتا نے کہا کہ ایک طاقتور انسان کے لئے یہ کام بہت ہی آسان ہوگا۔اگر سکون کو کسی برفیلی پہاڑی کی چوٹی پر رکھدیا جائے تو وہ وہاں تک نہیں پہنچ پائے گا۔تیسرا دیوتا نے کہا کہ انسان برف سے کسی نہ کسی طرح بچاؤ کرتے ہوئے چوٹی تک پہنچ کر ذہنی سکون کو حاصل کر لے گا۔بہتر یہی ہوگا کہ اسے سمندر کی تہہ میں چھپا دیا جائے۔چوتھے دیوتا نے کہا کہ آپ تما م کی آرا بیکار ہیں ۔ایسی تجویز دو کہ انسان تھک ہار کر بھی ذہنی سکون کو حاصل نہ کرنے پائے۔تمام دیوتا سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور ازسر نو سوچنے لگے۔ایک نوجوان دیوتانے تجویز پیش کی جس کوتمام دیوتاؤں نے شرف قبولیت بخشا۔نوجوان دیوتا کی تجویز تھی کہ ذہنی سکو ن کو یہاں وہا ں چھپانے کے بجائے اس کو خود انسان کی ذات میں چھپا دیا جائے۔انسان ذہنی سکون کو دیوانہ وار تلاش کر ے گا لیکن اس کو پتہ نہیں چلے گا کہ ذہنی سکون تو خود اس کی ذات میں رکھا گیا ہے۔تمام دیوتاؤں اس رائے پر متفق ہوگئے۔تب سے دیوتاؤں نے ذہنی سکون کو انسان کی ذات میں پوشیدہ کر دیا۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج بھی معدودے چند افراد کے بیشتر کو یہ بات نہیں معلوم ہے۔آج بھی انسان ذہنی سکون کے لئے متعد د حربے اختیار کر رہاہے کوئی شراب میں سکون ڈھونڈ رہاہے تو کوئی منشیات میں۔کوئی دولت میں توکوئی جو ے میں۔الغرض انسان مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے بعض دنیاوی زندگی کو خیرآباد کہتے ہوئے سنیاس لے رہے ہیں تو چند خود کشی سے بھی احتراز نہیں کر رہے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو ناکامی ہی حاصل ہورہی ہے۔سکون اطمینان تو انسان کی ذات میں ہی پنہاں ہے اور جو چاہتے ہیں کہ انہیں ذہنی سکون اور اطمینان قلب حاصل ہو یہ ان کو مل ہی جاتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی ذات میں غوطہ زن ہوں۔ذہن شعور اور تحت الشعورجیسی دو کیفیات پر مبنی ہوتا ہے۔بیشتر افعال و سرگرمیوں شعور ی طور پر انجام پاتی ہیں لیکن یہ افعال اور سرگرمیوں تحت الشعور کے زیر نگیں اور زیر قابو انجام پاتی ہیں۔انسان کے اچھے یا برے کارنامے،قابل قبول یا قابل اعتراض تبصرے تحت الشعور میں نقش ہوجاتے ہیں۔والدین سے منتقل ہونے والی عادات و اطوار، رسم و رواج،سماجی ومعاشی اور ثقافتی ماحول اور بچپن کے تجربات انسانی ذہن پرنہ صرف گہر ا اثر ڈالتے ہیں بلکہ یہ ذہن میں(تحت الشعور) پیوست ہوجاتے ہیں۔حالانکہ یہ نقش صحیح نہیں ہوتے ہیں پھر بھی ہم غلامی کی حد تک اس فریب کے مطیع رہتے ہیں۔ان تباہ کن پر فریب نظریات کو ہی ہم ابدی سچائی کے طور پر تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ان افراد کو ایسے پر فریب جال سے نجات دلانے میں عصبی لسانی پروگرامنگ(Neuro liguistic programming)بہت سود مند ثابت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر بعض افراد کے ذہنوں میں درجہ ذیل باتیں پروگرام ہوتی ہیں۔وہ ان باتوں کو سچ مانتے ہیں لیکن انھیں غور کرنا چاہیئے یہ سچائی نہیں ہے صرف ان کا اندھا عقیدہ ہے۔(1)اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے میری زبان بند ہوجاتی ہے۔(2)میں جو بھی پڑھتا ہوں یا د نہیں رہتاہے۔(3)میں اپنی توہین اور بے عزتی کبھی نہیں بھولتا ہوں۔(4)باٹنی کی کلا س بہت ہی بو ر ہے۔(5)کسی مخصوص طبقہ یا مذہب کے لوگ بہت ہی ظالم ہوتے ہیں۔(6)الجبرا ء سے میں بہت گھبراتا ہوں۔(7)میں بہت ہی بد قسمت ہوں اور میرے ستارے خراب ہیں۔(8)ملازمت پیشہ عورت پر کبھی بھروسہ نہیں کر نا چاہیئے۔(9)امریکہ جانے والے تما م افراد شراب پیتے ہیں۔(9)سفر کے آغاز پر کسی کا چھینکنا بدشگونی ہے۔(10)اگر بلی راستہ کاٹ دے تو جس کام کے لئے جارہے ہیں اس میں کامیابی نہیں ملے گی۔(11)شراب پینے سے میں خود کو پرسکون اور ہلکا پھلکا محسوس کر تا ہوں۔(12)شراب پینے سے تما م غم فراموش ہوجاتے ہیں یا تما م غم غلط ہوجاتے ہیں۔(13)مجھے زندگی میں کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔(14)میں زندگی بھر کار نہیں چلا پاؤں گا۔(15)دنیا میں کوئی بھی میرے سے زیادہ پریشان نہیں ہے۔(16)مجھے کوئی نہیں سمجھتا سب میرے دشمن ہیں۔(17)مجھے ضرور کوئی خطرنا ک بیماری ہے یا ہوسکتی ہے۔اگر اسی طرح لکھتے جاؤں تو یقیناًیہ مضمون ان کا احاطہ نہیں کر پائے گا۔مذکورہ تمام بیانات میں دراصل کوئی سچائی نہیں ہے۔جو یہ بہانے بناتے ہیں ان کو ہی یہ اچھے لگتے ہیں۔اور اسی ڈگر پر ان کا ذہن کام کرتا ہے۔دماغ بھی ان کو اسی طرح کی تجاویز دیتا ہے اور آخر کار یہ تجاویز ذہن میں مختلف شکلوں میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ یہ تمام نقوش باطل اور جھوٹے ہیں۔عصبی لسانی منصوبہ بندی (پروگرامنگ) باطل نظریات سے نجات دلاکر انسان کو عظیم کامیابیوں کی طرف گامزن کرتی ہے۔
ہم ا پنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔لیکن پھر بھی ان کو فراموش کر دیتے ہیں۔ عام طور پر انسان کامیابی سے زیادہ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کو یا د کرتا ہے۔انسان اپنی زندگی کے خوش گوار ایام بھول جاتا ہے اور مشکل اور برے حالات جس کو اس نے خود پیدا کیا تھا، یاد رکھتا ہے ۔ نفسیات میں اسی کو اذیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ہم خودکو ایک ہیرو کی طرح دیکھے نہ کہ ایک ویلن کے طور پر۔آج کا عام انسان منفی خیالات میں گھرا ہوا ہے جیسے ’’یہ میں نہیں کر سکتا ‘‘۔’’یہ بالکل نا ممکن ہے۔‘‘اور بالاخر یہ منفی خیالات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔دنیا میں ایسے بہت لوگ ہیں جو اپنی عارضی پریشانیوں کو بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں اور زندگی کے لطف و سرور سے محروم ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لئے نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ بہت ہی سود مند ہوتی ہے۔یہ آدمی کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرتی ہے۔اس تکنیک کا سب سے اہم گر یہ ہے کہ آدمی اپنی ایک کامیابی کو دوسری کامیابی کا زینہ بنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ سے فیضیا ب ہونے والوں میں کمپیوٹر دنیا کا بے تاج بادشاہ بل گیٹس، (“awaken the giant within you” and Unlimited Powe”) کا عظیم مصنف انتھونی رابنس شامل ہیں جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں کسی خاص تعلیم و تربیت کے بغیر فقید المثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔انسانی ذہن عظیم طاقتوں کا سر چشمہ ہے۔یہ کمپیوٹر سے بھی کم وقت میں پیچیدہ سے پیچیدہ کام انجام دے سکتا ہے۔انسانی افکار و خیالات کی پرواز اور رفتا ر کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ذہن میں منفی افکار کو جگہ دے کراور مثبت افکار سے دامن کترا تے ہوئے انسان ایک فرسودہ اور اذیت ناک زندگی گزار رہا ہے۔بہت کم افراد جانتے ہیں کہ اپنے ذہن پر قابو پاتے ہوئے ہم ایک بہتر ،خوشحال اور کامیاب زندگی بسر کر سکتے ہیں۔جو لوگ اس سچائی سے انحراف کر تے ہیں دوسروں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی طرح رقص کر تے رہتے ہیں۔اس ضمن میں ایک کہاوت مجھے یا د آرہی ہے ’’ اگر بلی اندھی ہوجائے تو چوہا اس کے پیٹھ پر رقص کرنے لگتا ہے۔ ‘‘بالکل اسی طر ح جب ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے ہیں تب معمولی سے معمولی مسائل اور ادنی سے ادنی لوگ ہمارااستحصال کرنے لگتے ہیں۔نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ نہ صرف دماغ پر قابو پانے کے گر سکھاتی ہے بلکہ دماغ پر غلبہ حاصل کرنے کا بھی ہمیں علم عطا کرتی ہے۔مروجہ نفسیاتی تکنیک آدمی کی شخصیت کو سنوار کر اس کو اس کے مطلوبہ مقام تک پہنچاتی ہیں لیکن نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ اس سے ایک ہاتھ آگے جاکر آدمی کو ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنے کا ہنر سیکھاتی ہے اور نہ صرف ان کو ترقیوں کی معراج تک پہنچاتی ہے بلکہ ان کو اس مقام پرقائم رہنے کے گر بھی سیکھاتی ہے۔
اپنی زندگی کے خوشگوار دنوں کو یا د کیجیئے ۔اپنی پیدائش سے لیکر آج تک کے تما م اہم خوشگوار واقعات کو یک بہ دیگر ترتیب وار ذہن میں اس طرح لائیے جیسے آپ ایک فلم دیکھ رہے ہیں۔اس کام کودن میں کم از کم ایک بار دہرائیے پھر دیکھیئے کہ ایک ہفتے کے اندر آپ میں کیسی خوش گوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔درحقیقت آج بھی ہم یہ تما م کام انجام دے رہے ہیں لیکن ہمارا سفر مقابل سمت میں جاری ہے۔ کامیابی کے لئے منزل اور سمت کا تعین ضروری ہوتاہے۔منزل تک پہنچنے اور سمت کے تعین کے علاوہ راستے کے مصائب و شدائد کا سامنا کرنے کا حوصلہ NLP فراہم کرتی ہے۔ خوش گوار یادوں کو تازہ کرنے کے بجائے دکھ بھرے ایام کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ہم خود کو مضطرب ،پریشان اور غمگین کرتے ہیں۔ خوشی اور کامیابی کے حصول کے لئے اپنے ذہن پر قابو حاصل کیجیے اپنی سوچ کو مثبت بنائیے۔ہمیشہ شکر گزاری کی عادت ڈالیئے ۔شکر گزاری کا جذبہ صرف مثبت فکر سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اس تناظر میں حضرت شیخ سعدی ؒ کا ایک واقعہ ہماری ذہن سازی کے لئے کارآمد ہوگا۔ایک مرتبہ سعدیؒ کے پاس جوتے تک میسر نہیں تھے اور ننگے پیر چلنے سے ان کو بہت ہی کوفت اور تکلیف ہورہی تھی ان کے پیروں میں چھالے پڑگئے تھے۔وہ زندگی کو کوس رہے تھے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے پیر وں کو جوتے تک میسر نہیں ہیں۔ابھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا تھا کہ آپ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو پیروں سے معذور تھا ور کمر کے بل گھس کر راستہ طئے کر رہاتھا۔ تب آپ نے سوچا کہ میں اس آدمی سے بہت ہی قسمت والا ہوں کہ میری پاس جوتے نہیں تو کیاہوں میرے پیر تو سلامت ہیں۔مثبت سوچ کی ہی بدولت سعدی کا نام علم و ادب کی دنیا میں آج بھی روشن و منور ہے ۔دنیا کو مسخر کرنے کے لئے ہم کو تسخیر ذات کے مرحلے سے گزرناپڑتا ہے۔ذات کی تسخیر میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے ذہن پر قابو اور غلبہ پانے میں کامیابی حاصل کر تے ہیں۔ جو لوگ منفی پہلو سے بھی مثبت پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں وہ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی بہت لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگی خوشیوں سے مامور و آباد کرنا چاہتیہیں توہم کو ہمیشہ زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر مرکوز کرنی چاہیئے۔جو لوگ مثبت اور روشن پہلوؤ ں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں نہ صرف وہ دنیا میں کامیاب وکامران رہتے ہیں بلکہ معاشرے میں ان کو ایک خاص مقام اور مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ لوگ ان کو عز ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہر محفل میں ان کا استقبال کیا جاتا ہے ۔کیونکہ یہ لوگ نہ صرف خوش رہنے کا ہنر جانتے ہیں بلکہ دوسروں کے غم خوار و مونس ہوتے ہیں اور ہمیشہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔کامیاب اور خوش گوار زندگی گزارنیکے لئے ذہنی رویوں،مثبت فکراور مثبت طرز عمل کو بہت اہمیت حاصل ہے۔جو شخص منفی فکر سے اجتناب کرتے ہوئے ،مثبت سوچ اور مثبت طرز عمل کو اپنا تا ہے وہ نہ صرف زندگی بھر خوش و خرم رہتا ہے بلکہ فقیدالمثال کامیابی کے دروازے اس کے لئے وا ہوجاتے ہیں۔
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...