ناکامی کے خوف کا جن

عمران ایک دفتر میں ملازمت کیا کرتاتھا۔اسے دفتر سے نکال دیاگیا،وہ بیروز گار ہوگیا۔بیروز کیاہوااس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی۔وہ تنہائی کا شکار ہوگیا۔ایک کمرے میں بیٹھ کر ایک کاغذپر لکیریں بناتااور مٹادیتا۔پھر ایسے ہی اپنے آپ سے باتیں کرتاچلاجاتا۔اتوار کے دن اس کا دوست اس کے پاس آیا۔بات چیت ہوئی اس نے بھی اس کیفیت کو بھانپ لیا۔تو پوچھا کیاہوا۔یار جاب چھوٹ گئی ہے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا۔پلاننگ بناتاہوں کہ اب جاب نہیں کاروبار کروں گا۔لیکن خوف ہے کہ اگر یہ چھوٹاساکاروبار بھی بند ہوگیاتو۔اس میں بھی ناکامی ہوگیا تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔نوکری کرتاہوں پھر مہینے کے بعد نکال دیاتو۔
قارئین :یہ وہ عمومی رویہ ہے جو ہمارے معاشرے میں عام بھی ہے اور ہم اس کے نقصانات بھی اْٹھارہے ہیں۔آسان الفاظ میں سمجھیں تو اسے ناکامی کے خوف سے موسوم کرسکتے ہیں یا پھر ہم ناکامی سے ڈرتے ہیں۔یہ وہ خوف ہے۔جس نے اچھے بھلے قابل لوگوں کو ذہنی مریض بنادیا۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں۔دنیا میں جو بھی کام کریں گے اس میں نفع اور نقصان کا امکان باقی رہے گا۔کامیابی اور ناکامی دونوں اندیشہ اپنی جگہ رہے گا۔انسان کو حقیقت پسند ہوناچاہیے۔ناکامی سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ یہ کامیابی کا زینہ ہے۔
لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں کچھ پانے کے لئے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔اللہ عزوجل نے آپ کو کن صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر آپ کے پروفائل میں چند ناکامیوں کا ذکر نہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ضرورت سے زیادہ محتاط ہیں۔ آپ نے خود کو پوری طرح ایکسپلور EXPLORE ہی نہیں کیا۔ ایسی زندگی توانائی جوش اور ولولے سے محروم ہوتی ہے۔جولوگ زندگی کو ایک شاہراہ پر رواں رکھتے ہیں۔و ہ زندگی کی دیگر رونقوں اور رعنائیوں سے محروم بلکہ وہ اس معاملے میں گویانابینا ہوتے ہیں۔کیونکہ وہ لگے بندھے انداز میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔جبکہ کچھ کرگزرنے والے لوگ اس فریکیونسی سے نکل کر اس لگے بندھے حصار کو توڑ کر کامیابی کی بلندیوں کو چھوتے ہیں۔
کمفرٹ زون سے باہر نکلنے کے اس سفر میں یقیناً ہم کچھ غلطیاں کریں گے۔ کچھ ناکامیاں ہمارے حصے میں آئیں گی لیکن زندگی میں کچھ قابل ذکر حاصل کرنے کے لئے ہمیں ان عارضی ناکامیوں کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ ان ناکامیوں کو Celebrate کریں۔ان سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ان کا سامنے کرنا چاہیے۔
محترم قارئین :
ناکامی کا خوف اس قدر بھیانک ہے کہ کبھی ڈرائیونگ کا ٹیسٹ اسٹیج پر تقریر کرنا اور کسی ملازمت کے انٹرویو جیسے چھوٹے چھوٹے ٹاسک ہمارے لئے خوف ناک مرحلے بن جاتے ہیں۔ بہتر رویہ یہی ہے کہ Opportunity (مواقعوں)کے دروازے پر خود دستک دی جائے، کسی سے مدد یا رہنمائی چاہیے ہو تو اپنی خواہش کا اظہار کر دیا جائے، اگر انکار سننے کو ملے تو اسے بھی قابل قبول اور نارمل بات سمجھا جائے۔اسے اپنے ذہن پر سوار نہ کیاجائے۔
تاریخ انسانیت بتاتی ہے کہ بعض اوقات کئی دفعہ انکار سننے کے بعد ایک ہاں ایسی مل جاتی ہے جو آپ کے لیے ترقی کا راستہ آسان بنا دیتی ہے۔ایک عجیب سی بات کہ ہم کسی کام کے لئے ایک دو دفعہ کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں رستہ بدل لیتے ہیں۔ کوئی کامیابی آسانی سے نہیں ملتی، آپ کے رستے میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں۔یہ دراصل ان لوگوں کا راستہ روکنے کے لئے ہوتی ہیں جو اپنے مقصد اور جذبے میں سچے نہیں ہوتے۔
ہم خود سے زیادہ دوسروں کی رائے کو اپنے ذہن پر سوار کرلیتے ہیں۔ ایک بات ذہن نشین کرلیں۔دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں یہ اتنا اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ خود اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ خود سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ اپنی Skills کو بہتر بنانے کے لئے آپ کتنی محنت کر سکتے ہیں۔
مشاہد ہ سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ کامیاب لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے وہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنی کوشش پر بھروسہ کرتے ہیں اور کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ ہم ہر ناکامی سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ ہر ناکامی میں ہماری کامیابی کا بیج پوشیدہ ہوتا ہے۔ ناکامیوں سے گزرنے کے بعد ہی آپ کے ہاتھ میں ایسے ٹولز آتے ہیں۔ جن سے آپ کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ جب ہم اپنے اہداف اپنے پوٹینشل سے نیچے رکھتے ہیں تو نہ صرف اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔بلکہ معاشرے کو بھی اچھے پروفیشنلز موجددوں بزنس مینوں مصنفین اور آرٹسٹوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ آپ کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں۔اپنی صلاحیتوں کا مکمل اظہار چاہتے ہیں۔ اپنے خوابوں کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ ایک عام سطح سے بڑھ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو جرات مندانہ سوچ اپنائیں۔ اپنے حصے کی ناکامیوں سے گزریں۔ کسی بھی ناکامی کو حتمی نہ سمجھیں اور آگے بڑھتے رہیں۔ آپ شاندار کامیابی کے قریب ہوتے جائیں گے۔تو پھر کیا کہتے ہیں۔آج سے اپنے اندر کے ناکامی کے خوف کو نکالیں اور چلیں اس شاہراہ پر جو کامیابی کی جانب جاتی ہے۔ناکامی کو قبول کرنے اور اس کے ازالہ کے لیے کوشش کو اپنا شعار بنائیں تو کچھ بعید نہیں کہ لوگ آپ کی مثال نہ دیں۔اور آپ کا شمار کامیاب لوگوں میں ہوجائے۔
محترم قارئین:آپ سچے دل سے تسلیم کرلیں کہ کامیابی کی طرح ناکامی بھی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے اور جب کبھی آپ کا ناکامی سے سامنا ہو تو آپ اسے اپنی زندگی کا کل سمجھنے کی بجائے ایک جز کے طور پر لیں۔

1 تبصرہ

  1. سچاکہا۔آج میری طرح کی کتنی پڑھی لکھی لڑکیاں بھی کس قدر زندگی سے بیزار ہیں ۔بہت مایوس ہیں ۔سمجھ نہیں آتی زندگی میں سکھ کیسے آئے گا۔ڈاکٹر جی شکریہ ۔کوشش کروں گی کہ بار بار اس تحریر کو پڑھ پڑھ کر مطمئن کروں.میں گوگل پر جب ڈاکٹر ظہورااحمد دانش لکھتی ہوں جہاں جہاں آپ کی تحریر ہوتی ہے لازمی پڑھتی ہوں ۔میں نے اپنی امی کو بھی بتایا ہے کہ مجھے ایک ہمدرد انسان مل گیا ہے جو لگتاہے میرے ہر مسئلے کا حل رکھتاہے ۔امی بھی بہت دعا کرتی ہیں ۔
    ثناسعید

جواب چھوڑ دیں