فداک امی وابی یا رسول اﷲ ﷺ
میرے ماں باپ آپؐ پر قربان اے اﷲ کے رسول ﷺ!!!
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ بات کہاں سے شروع کروں، اتنی عظیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے بار بار قلم کو اپنی بے مائیگی کا احساس پکڑ لیتا ہے، مگر کیا کروں کہ آئے دن دل تڑپتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دنیا ہمارے نبیﷺ کی ذاتِ اقدس پر حملے کر کر کے ہمارے ایمان کی کمزوری اور طاقت کا اندازہ لگاتی ہے، ہماری نیند ، بے ہوشی اور موت کا معائنہ کرتی ہے، کبھی تقریر، کبھی تحریر اور کبھی ان دونوں سے ہٹ کر مگر برق رفتار اور کثیر الاثر الیکٹرانک میڈیا کا ہتھیار!!! ایک جانب امت کو نازیبا الفاظ، خاکوں، فلموں کے ذریعے اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے تو دوسری جانب آزادیء اظہارکے عالمی دو غلے رویے کی کند چھری سے اس بے بس امت کو ذبح کیا جاتا ہے۔
شاید یہ گستاخانِ رسول ﷺ یہ نہیں جانتے کہ پوری امت کی تاریخ میں انکا انجام ذلت اور رسوائی ہی ہوا ہے جب کہ میرے نبی محترم ﷺ کے لئے اﷲ کا اعلان ہے : ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘۔
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا یہ بھی امتیاز ہے کہ آپؐ پر فدا ہونے والے ابتدائے اسلام ہی سے سر فروشی کی تاریخ مرتب کر رہے ہیں، اسلام کے پہلے شہید حارثؓ بن ابی ہالہ نے حضور اکرمﷺ کو بچاتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپ ؐ کو کفار کے حملے سے بچایا، اور وہ آپ ؐ کا دفاع کرتے ہوئے فرما رہے تھے:’’اتقتلون رجلًا ان یقول ربی اﷲ‘‘۔۔۔۔(سورۃ المومن، آیۃ۲۸)۔
کفر واسلام کی پہلی جنگ غزوہء بدر میں دو بچے کفر کے ایک سردار کی تلاش میں ہیں، انہوں نے اسے دیکھا نہیں، مگر اس کے قتل کا عزم لئے بڑے اصرار کے ساتھ اجازت لے کر میدانِ جہاد میں اترے ہے، ایک صحابی سے ابو جہل کا پوچھتے ہیں، اور اپنا ارادہ بھی بیان کر دیتے ہیں، وہ اس عزم کا سبب پوچھتے ہیں تو معاذؓ اور معوذؓ کا جواب ہے: ’’کان یوذی رسول اﷲ ﷺ‘‘، یعنی ابو جہل رسول اﷲ ﷺ کو مکہ میں ایذا دیا کرتا تھا، اس لئے وہ اسکے بدلے اسے قتل کرنا چاہتے ہیں، اور یہ اﷲ کی قدرت ہے کہ وہ اس سورما کو ان بچوں کے ہاتھوں ذلت سے قتل کرواتا ہے۔
رسالت مآب حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو انکے چچا زاد اور ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے اپنے باپ کے کہنے پر آپؐ کو اذیت دینے کے لئے برا بھلا کہا اورآپکی بیٹی کو طلاق دے دی، رسول اﷲ ﷺ نے اسے بددعا دی: ’’اللہم سلّط علیہ کلباً من کلابک‘‘، (اے اﷲ اس پر اپنا ایک کتا مسلط کر دے)۔ عتیبہ شام کے سفر پر تھا جب اس نے رات کو پڑاؤ ڈالا تو اسے ایک شیر کی دھاڑ سنائی دی، اس کا رواں رواں کانپ اٹھا، ساتھیوں نے اسے تسلی دی مگر اسے یقین تھا کہ محمد (ﷺ) کی بددعا سے وہ بچ نہ پائے گا، انہوں نے اس کے خیمے کے گرد رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور اسے درمیان میں سلایا، مگر رات کو شیر آیا اور سب کے سر سونگھے اور عتیبہ پر پل پڑا اور اسے ہلاک کر دیا۔ (البہیقی) اﷲ تعالی کا آپؐ سے وعدہ ہے:’’انا کفیناک المستھزئین‘‘۔ الحجر، ۹۵۔
قرآن کریم نے نام لیکر ابو لہب پر لعنت بھیجی، اور اسکے اور اسکی بیوی کے بد انجام کی خبر دی، جو رسول اﷲ ﷺ کو اذیت دینے میں پیش پیش تھے۔
قرآن کریم سے استشہاد
’’یآایھا الرسول بلّغ ما انزل الیک من رّبک ۔۔۔ واﷲ یعصمک من النّاس‘‘ ۔۔۔ (المائدۃ، ۶۷) (اے پیغمبرؐ، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ۔۔۔ اﷲ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ۔۔۔ )۔
’’سیکفیکھم اﷲ، وھو السّمیع العلیم ‘‘ (البقرۃ، ۱۳۷)۔ (اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اﷲ تمہاری حمایت کے لئے کافی ہے، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے)۔
’’الیس اﷲ بکافٍ عبدہ، ویخوّفونک بالّذین من دونہ ‘‘۔۔۔(الزمر، ۳۶)۔ (اے نبیؐ، کیا اﷲ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں)۔
’’انّ شانئک ھو الابتر‘‘ (الکوثر، ۳)۔ (تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے)۔
’’انّ الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والآخرۃ واعدّلھم عذاباً مھیناً‘‘۔ (الاحزاب، ۵۷)۔ (جو لوگ اﷲ اور اسکے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اﷲ نے لعنت فرمائی ہے اور انکے لئے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے۔)
’’ومنھم الذین یؤذون النبیّ ویقولون ھو اذن، قل اذن خیر لّکم یؤمن باﷲ ویؤمن للمؤمنین ورحمۃ للذین آمنوا منکم، والذین یؤذون رسول اﷲ لھم عذاب الیم‘‘۔ (التوبۃ، ۶۱)۔ (ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی ؐ کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو، وہ تمہاری بھلائی کے لئے ایسا ہے، اﷲ پرایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد رکھتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو تم میں سے ایمان دار ہیں۔ اور جو لوگ اﷲکے رسولؐ کو دکھ دیتے ہیں ان کے لئے دردناک سزا ہے۔)
یہ تمام وثائق ثابت کرتے ہیں کہ اﷲ رسول ﷺ کا محافظ ہے، انکا مددگار ہے، اور جو رسول ﷺ پر ظلم کے مرتکب ہوں ان سے خود انتقام لینے والا ہے۔ وہ آپ ﷺ کا تمسخر اڑانے والوں کی پکڑ اپنا حق سمجھتا ہے، بلکہ وہ آپ ﷺ کا استہراء اڑانے والوں کے مقابلے میں اکیلا ہی کافی ہے۔
ابنِ تیمیہؒ اپنی کتاب ’’الصارم المسلول‘‘ کے ۱۴۴ صفحہ پر لکھتے ہیں:
۔ ’’یہ اﷲ تعالی کی سنت ہے کہ اگر مومنوں کے پاس اتنا اقتدار نہ ہو کہ وہ اﷲ اور اسکے رسول ﷺ کو اذیت دینے والے سے انتقام لے سکیں تو اﷲ اس سے اپنا حق سمجھ کر انتقام لیتا ہے اور وہ انکے لئے کافی ہے ۔۔ اور جس کسی نے آپ ﷺ سے برائی کی، یا بغض رکھا یا عداوت رکھی، اﷲ اسکی جڑ کاٹ دیتا ہے اور اسے اور اسکی نسل کو مٹا ڈالتا ہے۔ اور تاریخ میں ایسے متعدد واقعات موجود ہیں، کہ جس نے آپ کو برا بھلا کہا، اور اگر کسی نے فوراً بدلہ نہ لیا تو اﷲ نے خود اس سے انتقام لیا۔ السعدی کی رائے ہے کہ جس کسی کا ایسا عمل ظاہر ہو گیاکہ اس نے آپ ﷺ کی استہزاء کی تو اﷲ نے اسے ہلاک کر دیا اور وہ بری موت مارا گیا۔
تاریخ کی کتابوں میںیہ قصّہ ابنِ عباسؓ کی روایت سے موجود ہے کہ کفار کے بعض اکابرین نے رسول اﷲﷺ کی استہزاء کی، وہ ولید بن المغیرۃ، اسود بن عبد یغوث، اسود بن المطلب، حارث بن غیطل السہمی، اور عاص بن وائل تھے، حضرت جبریل ؑ آئے تو آپؐ نے ان سے ان کی شکایت کی، آپؐ نے انہیں ولید بن المغیرہ دکھایا، جبریل نے اسکی طرف اشارہ کیا، اور اسکا ہاتھ بھیگا ہوا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا، تو جبربلؑ نے کہا: ’’میں انکے مقابلے میں آپؐ کی طرف سے کافی ہوں، پھر انہوں نے حارث بن غیطل السہمی کی طرف دیکھا،اور اس کے پیٹ ک طرف اشارہ کیا، آپؐ نے پوچھا: جبریل نے کہا: ’’میں اس کے لئے آپؐ کی طرف سے کافی ہوں، پھر عاص بن وائل السہمی کی طرف دیکھا اور اسکے پاؤں کے اخمص یعنی نچلی جانب اشارہ کیا، آپؐ نے فرمایا: ’’مین نے کچھ نہیں کیا‘‘، جبربل نے کہا: میں انکے لئے آپؐ کی طرف سے کافی ہوں۔ پھر جب ولید بن المغیرہ گھر سے نکلا تو وہ خزاعہ کے ایک شخص کے پاس سے گزرا، جو اپنا تیر ٹھیک کر رہا تھا، وہ ولید بازو پر لگ گیا اور اسکی بڑی رگ کٹ گئی، اسود بن المطلب اندھا ہوا، اور وہ ایسے کہ وہ ایک درخت کے نیچے آیا، تو کہنے لگا: ’’اے بیٹو، تم میرا دفاع کیوں نہیں کرتے؟ میں قتل ہو جاؤں گا، وہ کہنے لگے ہمیں تو کچھ نظر نہیں آرہا، وہ بولا: میری آنکھ میں ایک کانٹا پڑ گیا ہے، وہ دیکھتے رہے مگر انہیں کچھ دکھائی نہ دیا حتی کہ وہ اندھا ہو گیا۔ اسود بن عبد یغوث باہر نکلا تو کسی جانب سے تیر آیا اسے جا لگا، اور وہ مر گیا۔ الحارث بن غیطل کو پیلا پانی جاری ہو گیا، اور وہ کثرتِ اجابت سے مر گیا، اور العاص بن وائل کی موت بھی اسی طرح واقع ہوئی کہ اس کا پاؤں کانٹے دار جھاڑی پر اس بری طرح پڑا کہ کانٹے اس میں بھر گئے اور وہ مر گیا۔ (اصفہانی نے اسے دلائلِ نبوت کے باب میں درج کیا ہے، ۱:۶۳) یہ پانچوں اپنی قوم کے سرکردہ افراد تھے، انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کی استہزاء کی، تو اس نے اپنی قدرت سے انہیں سزا دی اورانکے لئے وہ اکیلا ہی کافی ہے۔
بزّار اور طبرانی نے الاوسط میں حضرت انسؓ کی روایت لکھی ہے کہ: نبی اکرم ﷺ مکہ کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپؐ کو دیکھ کر چپکے چپکے آنکھوں سے اشارے شروع کر دیے، اور کہنے لگے: ’’یہ صاحب خود کو اﷲ کا نبی کہتے ہیں‘‘، حضرت جبریلؑ آپ کے ہمراہ تھے، انہوں نے انکی جانب انگلی سے اشارہ کیا، جو کفار کے جسموں پر ناخنوں کی طرح لگا اور انکے ایسے بد بو دار زخم بن گئے کہ کوئی انکے قریب بھی نہ آتا تھا۔ (دیکھئے الدر المنثور، ۱۰۰:۵)
صحیحین میں ایک عجیب واقعہ درج ہے: بنو نجار کا ایک عیسائی شخص مسلمان ہو گیا، وہ نبی اکرم ﷺ پر وحی کی کتابت کرنے لگا، پھر وہ الٹے قدموں پھر گیا اور مرتد ہو کر دوبارہ عیسائیت میں داخل ہو گیا، وہ اہلِ کتاب کے پاس چلا گیا اور رسول اﷲ ﷺ کا مذاق اڑانے لگا، اور دعوی کرنے لگا کہ وہ وحی میں وہ کچھ شامل کر دیتا تھا جو اس میں نہیں تھا، اور وہ کہتا: اﷲ کی قسم، محمد (ﷺ) وہی جانتے ہیں جو میں بتاتا ہوں، وہ کچھ عرصہ اسی طرح رہا، پھر اﷲ نے اسے ہلاک کر دیا، لوگوں نے اسے دفن کیا، مگر اگلی صبح زمین نے اسے (قبر سے) باہر پھینک دیا، لوگ کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور انکے اصحاب نے کیا ہے۔ انہوں نے ہمارے ساتھی کی قبر کھود کر اسے نکالا اور باہر ڈال دیا، انہوں نے قبر کے گڑھے کو اور گہرا کیا اور اسے پھر دفن کر دیا، صبح اسے پھر زمین نے باہر اگل دیا تھا، اسکے ساتھی کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور انکے ساتھیوں کا کام ہے، انہوں نے اسکی قبر سے اسے باہر پھینکا کیونکہ یہ ان سے بھاگ گیا تھا، اور انہوں نے اسے پا لیا، انہوں نے تیسری مرتبہ جتنی گہری قبر کھود سکتے تھے کھود دی اور دفن کر دیا، لیکن اگلی صبح وہ پھر زمین سے باہر پڑا تھا، تو انہوں نے جان لیا کہ یہ کسی آدمی کا کام نہیں ہے، پس انہوں نے اسے چھوڑ دیا اور چلے آئے۔ (بخاری حدیث نمبر۱۷ ۳۶، مسلم حدیث نمبر۲۷۸۱) یہ اﷲ کی شان ہے کہ اس نے اپنے نبی ﷺ کا استہزاء کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا۔
نبی مہربان ﷺ نے بادشاہوں کے نام خط ارسال کئے تو قیصر وکسری کو بھی خط بھیجا گیا، قیصر نے اس خط کا اکرام کیا تو اسکی سلطنت باقی رہی، اگرچہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا، اور کسری نے اس خط کی اہانت کی اور اسے پرزے پرزے کر دیا، اور رسول اﷲ ﷺ کا مذاق اڑایا، وہ تھوڑے عرصے بعد بری طرح قتل ہوا اور اسکی مملکت پارہ پارہ ہو گئی۔ (الصارم المسلول، ۱۴۴)
اﷲ کے نبی ﷺ کے استہزاء کرنے والوں کے بدلے کی صرف یہی صورت نہیں کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا ان کے لئے زمین پھٹ پڑے، بلکہ اس کے لئے متعدد اور متنوع صورتیں ہیں، کبھی اﷲ تعالی ان پر ایسے بندے مسلط کر دیتا ہے جو اسے ہلاک کر دیتے ہیں، جیسے کعب بن اشرف نے نبی رحمت ﷺ کو ستایا، اور اشعار کے ذریعے انکا استہزاء کیا تو محمد بن سلمہؓ نے رسول اﷲ ﷺ کے حکم پر اسکا کام تمام کیا، ایک یہودیہ رسول اﷲ ﷺ کو گالیاں بکتی تھی، ایک صحابی نے اسکا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا، اورایک نابینا صحابیؓ کی بیوی رسول اﷲ ﷺ کی اہانت کرتی تھی، اور وہ انکے بچوں کی ماں بھی تھی، انہوں نے اسے قتل کر دیا، اور خمیطہ نے رسول اﷲ ﷺ کی ہجو کی تو اسکی اپنی قوم کے ایک شخص نے اسے قتل کر دیا، (الصارم المسلول، ۹۵) ابو عفک یہودی نے آنحضرت کی ہجو بیان کی تو سالم بن عمیرؓ نے اس سے قصاص لے لیا، (الصارم المسلول، ۱۰۱) اور انس بن زنیم نے آپؐ کی ہجو کی تو خزاعہ کے ایک لڑکے نے اس سے بدلہ لے لیا(الصارم المسلول، ۱۰۲)، سلام بن ابی الحقیق نے آپؐ کے لئے ابال کھایا تو عبد اﷲ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا کام تمام کر دیا۔ (الصارم المسلول، ۱۳۵)۔
اﷲ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی دشمنوں سے اس طرح بھی حفاظت کی کہ انکے دلوں میں انکی ہیبت اور رعب طاری کر دیا، کہا جاتا ہے کہ غورث بن الحرث کہتا تھا: میں ضرور محمد (ﷺ) کو قتل کروں گا؟ اس کے ساتھی اس سے پوچھتے: تم انہیں کیسے قتل کرو گے وہ کہتا کہ میں ان سے کہوں گا: مجھے اپنی تلوار دیں، جب وہ مجھے اپنی تلوادیں گے تومیں ان کی گردن اڑا دوں گا ۔ وہ آپؐ کے پاس آ کر کہنے لگا: محمد مجھے ذرا اپنی تلوار دو میں اسے سونگھوں گا، آپؐ نے اسے تلوار دے دی، اس کے ہاتھ لرز اٹھے اور تلوار نیچے زمین پر گر گئی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیرے اور تیرے ارادے کے درمیان اﷲ حائل ہو گیا‘‘۔ (الدر المنثور، ۱۱۹:۳)
ابن کثیر میں بیان کیا گیا ہے کہ ابو جہل کہتا تھا: لات اور عزی کی قسم، اگر میں نے محمد (ﷺ) کو نماز پڑھتے دیکھا تو میں ضرور آپ کی گردن پر پاؤں رکھ دونگا اور آپؐ کا چہرہ خاک آلود کر دوں گا، پس جب رسول اﷲ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے وہ آپؐ کی گردن پر پاؤں رکھنے کے لئے آیا، مگر آگے بڑھتے ہوئے وہ اچانک الٹے قدموں پیچھے پلٹنے لگا، اور اپنے ہاتھ سے کچھ پیچھے کرنے لگا، اس سے پوچھا گیا: تجھے کیا ہوا؟، وہ بولا: میرے اور انکے درمیان آگ کی ایک ھولناک خندق ہے، جس سے شعلے لپک رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ میرے ذرا بھی قریب آتا، فرشتے اسکو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے‘‘۔ (۵۳۰: ۴)
ابنِ عباس کی روایت ہے کہ قریش کے کچھ لوگ الحجر میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے باہم عہد کیا کہ لات، عزی اور منات الثالثۃ الاخری، اور نائلہ اور اساف کی قسم، اگر ہم نے محمد (ﷺ) کو دیکھا تو ہم سب اکٹھے اس پر یکبارگی حملہ کر دیں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، یہ سن کر ان کی بیٹی فاطمہ روتی ہوئی اندر آئی، رسول اﷲ ﷺ اندر آئے تو انہوں نے ان کو بتایا کہ یہ آپ کی قوم کے افراد ہیں، انہوں نے آ پ کو اکٹھے ہو کر قتل کرنے کا عہد کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک اس خون میں شریک ہو گا، آپؐ نے فرمایا: جاؤ وضو کا پانی لاؤ، پھر آپؐ بے وضو کیا، اور مسجد میں چلے گئے، انہوں نے جب آپؐ کو دیکھا بولے: ہاں وہ آگئے، اور ان کی آنکھیں جھک گئیں اور ان کے کان سینوں پر گر گئے، ان کی آنکھیں آپؐ کو دیکھ نہ پائیں، ان میں سے کوئی بھی آپؐ کی جانب نہ بڑھا، نبی اکرم ﷺ ان کے سروں پر پہنچ گئے، آپؐ نے مٹھی بھر خاک لی اور ’’شاھت الوجوہ‘‘ کہہ کر ان کے چہروں پر پھینک دی، ان میں سے جس پر ایک کنکر مٹی بھی پڑی وہ بدر کے روز کفر کی حالت میں مارا گیا۔ (دیکھئے دلائلِ النبوۃ، ۶۵:۱) اﷲ نے سچ فرمایا، ہم آپؐ کے لئے کافی ہیں۔
نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کی محبت شرطِ ایمان ہے، آپؐ نے فرمایا: لا یؤمن احدکم حتی اکون احبّ الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین۔ (متفق علیہ) یعنی تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کی اولاد ، اس کے باپ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
عہدِ رسالت کا واقعہ ہے کہ ایک یہودی اور ایک (منافق) مسلمان اپنے جھگڑے کا فیصلہ کروانے کے لئے رسول اﷲ ﷺ کے پاس لے گئے، رسول اﷲ ﷺ نے فیصلہ یہودی کے حق میں کیا، منافق کو سخت تکلیف پہنچی اور اس نے یہودی سے کہا کہ ہم اس معاملہ کو حضرت عمرؓ کے پاس لے جاتے ہیں، (اس کا خیال تھا کہ عمرؓ یہودیوں کے دشمن ہیں اس لئے فیصلہ اس کے حق میں کریں گے) حضرت عمرؓ نے پوری تفتیش کے بعد پوچھا کہ رسول اﷲ ﷺ کافیصلہ منظور کس کو نہیں ہے، منافق کے اقرار پر انہیں رک جانے کو کہا، عمرؓ اندر گئے، اپنی تلوار نکالی، اس کی دھار چیک کی اور آ کر منافق کی گردن اڑا دی، رسول اﷲ ﷺ کو اس کی خبر دی گئی، آپ ﷺ نے فرمایا ہم عمرؓ کے ساتھ ہیں۔
مدینہ کے یہودی رسول اﷲﷺ کو زِک پہنچانے کے نئے نئے انداز اختیار کرتے، آپ ﷺ کی مجلس میں آتے، اور بظاہر’’ راعنا ‘‘ کہہ کر مگر دل کا غبار نکالتے ہوئے ’’راعینا‘‘ کہتے، حضرت سعدؓ بن عباد ان کی زبان سمجھتے تھے ، کہ وہ آپؐ کو ’’او احمق‘‘ کہتے ہیں، انہوں نے دھمکی دی کہ اگر اب کسی نے ایسا لفظ استعمال کیا تو اس کی گردن اڑا دوں گا، پھر سورہ البقرۃ کی یہ آیۃ نازل ہوئی:
یاأیھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا وللکافرین عذاب الیم( البقرۃ، ۱۰۴)
آغازِ اسلام ہی سے ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والوں سے سختی سے نبٹا گیااور اس میں کسی کی دینی حیثیت اور دنیوی منصب کا خیال نہیں رکھا گیا، حضرت عمرؓ بن خطاب کے دور میں بحرین کا عیسائی پادی گستاخیء رسول کا مرتکب ہوا، اسے کچھ نو عمر لڑکوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا، معاملہ حضرت عمرؓ تک پہنچا تو آپ نے اس قتل کو درست قرار دیا۔
تاریخِ اسلامی میں گستاخانِ رسول ﷺ کے اعداد شمار دیکھے جائیں تو ریاستِ مدینہ کے قیام سے اب تک ۴۰ گستاخان کو عوام نے اور ۸۰ کو عدالتوں نے سزائیں دی۔
اسپین کی اسلامی ریاست میں پادریوں نے توہینِ رسالت کی مہم چلا رکھی تھی، وہ خود بھی آپﷺ کی شان میں گستاخی کرتے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے، چناچہ ۲۳۶ ھ میں ۵۳ شاتمانِ رسول کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں پادری بھی تھے۔
توہینِ رسالت ایسا معاملہ نہیں جسے کسی صورت بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جائے، شہنشاہ اکبر کے زمانے میں ایک ہندو نے شانِ رسالت مآب میں گستاخی کی، معاملہ بیربل اور ابو الفضل کے سپرد ہوا، توہین ثابت ہو گئی، علماء کے بھی دو گروہ بن گئے، محل کی خواتین بھی ہندو مجرم سے ہمدردی رکھتی تھیں، قاضی القضاۃ نے سزا سنائی اور فیصلہ نافذ کر دیا گیا۔
حقیقت رائے نے حضرت فاطمہؓ اور رسول اﷲ ﷺ کی شان میں گستاخی کی، زکریا شاہ لاہور کا گورنر تھا، اس نے ہندو اکثریتی آبادی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سزا کو نافذ کیا۔
اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھنے والے اور ان سے محبت کرنے والے حزب اﷲ کا گروہ ہیں اور وہ حزب الشیطان سے کسی قسم کی الفت، محبت اور مروت نہیں رکھتے، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
لاتجد قوماً یؤمنون باﷲ والیوم الآخر یوادّون من حاد اﷲ ورسولہ ولو کانوا آباءھم او اخوانھم او عشیرتھم ۔۔۔ (المجادلۃ، ۲۲)
تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا بھائی یا اہلِ خاندان ۔۔
یعنی یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنانِ خدا اور رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت جمع نہیں ہو سکتی ۔۔۔ (تفہیم القرآن پنجم، ۳۶۶)
اسی کے بے شمار نمونے غزوات میں بھی دکھائی دیے اور مسلمانوں کی عام زندگی میں بھی، سچے مومنوں نے ان تمام رشتوں کو کاٹ کر پھینک دیا جو ان کے دین کے راستے میں مزاحم ہوئے، غزوہء بدرمیں ابو عبیدۃؓ نے اپنے باپ عبد اﷲ بن جراح کو قتل کیا، مصعبؓ بن عمیر نے اپنے بھائی عبید کو عمرؓ بن خطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا، حضرت ابو بکرؓ اپنے سگے بیٹے سے لڑنے کو تیار ہو گئے، حضرت علیؓ حضرت حمزۃؓ اور عبیدۃ بن الحارث نے عتبہ شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے اور ثابت کیا کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کسی رشتے کے سامنے مغلوب نہیں ہو سکتی۔
یہ آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ایسی مملکت جسے لا الہ الا اﷲ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ، شانِ رسالت کے معاملے میں لیت و لعل کا شکار ہے، قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک توہینِ رسالت کے کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی، اس وقت بھی جیلوں میں کم ازکم چودہ مجرمان ایسے ہیں جن پر جرم ثابت ہو چکا ہے، لیکن سزا نافذ نہیں ہوئی، حالانکہ پرویز مشرف جیسے حکمران بھی ہیں جو زندہ موجود ہیں مگر ان کے اقدامِ قتل کے کئی مجرم پھانسی کی سزا پا چکے ہیں۔
اس ملک میں ایسا گورنر بھی تھا جو شاتمِ رسول آسیہ بی بی کی اشک شوئی کے لئے جیل جا تا ہے اور قانون میں تبدیلی کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔
اور کروڑوں مسلمانوں کا دل دکھانے پر جب ایک محبِ رسول اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتا ہے توبیرونی آقاؤں کو اسے پھانسی دے کر خوش کیا جاتا ہے۔
گاہے گاہے کبھی ہلکی اور کبھی تیز آوازیں ناموسِ رسالت کے قانون میں تبدیلی کے لئے اٹھتی رہتی ہیں، لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ایسے قانون کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ یہی سوال امام مالکؒ سے بھی پوچھا گیا تھا، کہ کوفہ کے کچھ مولویوں کی رائے ہے کہ گستاخیء رسول ﷺ کی سزا موت سے کم بھی ہو سکتی ہے؟
آپ نے فرمایا: ’’اگر گستاخ گستاخی کے بعد بھی زندہ رہے تو پھر امت کے زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا‘‘۔
اس معاملے کا سب سے حساس پہلو یہ ہے کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال کیا جائے، تو اس کا تدارک کیسے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قانون کو فعالیت کے ساتھ عدالتیں استعمال کریں اور شہادتوں کی بنیاد پر درست فیصلے کریں تو غلط استعمال بھی محدود ہو جائے گا، بروقت سزاؤں کا نفاذ عوام کا اعتماد بڑھائے گا۔
’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے، اور اگر کسی کو مسلمان جانتے ہوئے ناحق قتل کیا تو اس کی سزا سے دنیا میں بچ بھی جائے تو آخرت میں نہ بچ پائے گا، حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک کافر کو تلوار دیکھ کر کلمہ پڑھنے پر قتل کردیا تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اے اسامہ تم کیا کرو گے اس روز جب وہ کلمہ کے ساتھ آئے گا؟، اور آپؐ بار بار یہی دہراتے رہے حتی کہ اسامہؓ نے تمنا کی کہ : ’’کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا‘‘ اور یہ عمل میرے نامہء اعمال میں نہ ہوتا۔
دنیا میں کوئی قانون ایسا نہیں جسے غلط تشریح سے استعمال کی کوشش نہ کی جاتی ہو، لیکن نظامِ انصاف ظالموں کی ٹیڑھ کو سیدھا کرتا ہے، اگر دنیا میں زن، زر اور زمین کی بنیاد پر اور نسلی، قومی اور لسانی عصبیتوں کے نام پر قتل ہونے والے اعداد و شمار کا موازنہ توہینِ رسالت کے مقتولوں سے کیا جائے تو یہ تعداد کافی کم ہے، لیکن یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ بموں کی ماں بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیتی ہے، مگر ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی اور ایک نوجوان جس کا معاملہ ابھی تک واضح نہیں قتل ہوتا ہے (قابلِ افسوس جرم، انتہائی سفاکی سے)لیکن اخبار و جرائد اور میڈیا کے چینلز پر ایسی آوازیں اور شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، ترحم کی ایسی آوازیں کہ ہزاروں انسانوں کے قتل کی روداد دب کر رہ گئی ہے۔
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...