پٹھان جو کبھی ہماری شمالی سرحدوں کے دربان اور محافظ ہوا کرتے تھے اور جن کی موجود گی میں نہ تو ہماری پاک افواج کو اس بات کی کوئی فکر ہوئی کہ ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہیں اور نہ روایتی یا عسکری نگرانی کی ضرورت محسوس ہوئی آج وہی پٹھان پاکستان کے لئے بلائے جان کہلانے لگے ہیں۔ ان کی بات سننے کو کوئی تیار و آمادہ نہیں، ان کو ملک کا ہمدرد ماننے میں پاکستانیوں کو ترد ہے، وہی جو افغان وار میں اپنا سب کچھ ہار چکے ہیں انھیں ملک دشمن تصور کیا جاتا ہے، غدار سمجھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
شمالی علاقوں میں کیا کچھ ہوتا رہا اور ان پر کس کس طرح کے عذاب آتے رہے، یہ کہانی اپنی جگہ، لیکن ان کو ملک کے اندر بھی عجیب عجیب انداز میں دیکھا اور سوچا جاتا ہے۔ لو جی! طالبان آگئے، یہ تو شہریوں کے لئے بلائے جان ہیں، یہ تو اسمگلر ہیں، منشیات فروش ہیں، اغواکار ہیں، چور ہیں اچکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جن کے دم سے کبھی پاکستان کی شان ہوتی تھی، جو طاقت اور قوت میں اپنی پہچان ہوتے تھے، جو مشینوں سے بھی زیادہ برق رفتاری کے ساتھ میلوں بجھائی جانے والے ٹیلیفون، بجلی، پانی اور گیس کی لائینوں کیلئے زمین کو اس طرح کھود کر رکھ دیا کرتے تھے جیسے وہ زمین نہ ہو ریت سے بنی بوئی بھر بھری دیواریں ہوں جو انگلیوں کے اشاروں پر گرائی جا سکتی ہوں، جن کے سامنے پہاڑ بھی دھراجایا کرتے تھے اور چٹانیں بھی ریزہ ریزہ ہو جایا کرتی تھیں آج وہی پٹھان محض پٹھان ہوکر رہ گئے ہیں۔ خوف کی علامت، دہشت کی علامت، طالبان کی علامت یعنی باالفاظ دیگر ملامت ہی ملامت۔
بی بی سی کے صحافی و تجزیہ نگار “محمد حنیف” ان کی ترجمانی کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں “آسمان سے برسائی جانے والی اپنے پرایوں کی آگ اور قبائلی علاقوں میں بچھائی گئی خونی شطرنج میں طویل عرصے سے قائم ایک سیاسی اور سماجی ڈھانچہ تو تباہ ہوا ہی ہے ہم شہروں میں بسنے والوں کو ان علاقوں کی آدھی ادھوری خبر بھی ان لوگوں کے ساتھ پہنچتی ہے جو جان بچا کر شہروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ہم نے بےدلی سے ان کی داستانیں سنیں اور سر ہلا دیا کہ یہ تو پشتون کلچر کا حصہ ہے۔ جنگجو قبائل، ہماری سرحدوں کے محافظ، نہ انگریز کی ماننے والے نہ سوویت یونین کی۔ ان کی عزت کرو، ان کی شان کی قصیدے پڑھو لیکن اگر لٹ پٹ کر ہمارے شہروں میں آن پہنچیں تو انھیں شک کی نگاہ سے دیکھو، پریشان رہو کہ کہیں دہشت گرد تو نہیں آ گئے، کوئی منشیات فروشی کے اڈے تو نہیں کھول لیں گے۔ حکومت انھیں کیمپوں میں کیوں نہیں رکھتی، کھلا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ یعنی ماحول وہی جو ہمارے بچپن میں تھا جب ہمارے بڑے کہا کرتے تھے پٹھان کا ڈر ہے‘ جیسے شعر اور لطیفے سن کر ہنس دیتے تھے۔
اب جبکہ ہم ساری اندرونی جنگیں تقریباً جیت چکے ہیں اور اس کی گواہی فوجی ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر معتبر صحافی دورے کر کے لا چکے، اب جبکہ علاقہ غیر اپنا ہو چکا، فٹبال اور کرکٹ کے میچ ہو چکے تو امید یہی ہونی چاہیے تھی کہ وہاں کے لوگوں کی بات تحمل سے سنی جاتی لیکن ہمارے پالیسی سازوں کا پشتون کی آواز کا ڈر ختم ہو کر ہی نہیں دیتا”۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک، شرم یا عار نہیں کہ کچھ باتوں کو سمجھنے کیلئے ان کے پس پشت عوامل کا سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہوتا ہے اور جب تک ان کو خوب اچھی طرح ذہن نشین نہ کر لیا جائے اور جان نہ لیا جائے اس وقت تک ہم کہنے والے کی بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ ایک ٹیچر نے ایک چھوٹی کلاس کے بچے کو حساب پڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سیب ہے، اور یہ ایک اور سیب تو بتاؤ یہ کتنے سیب ہوئے۔ بچے نے کہا ‘تین”۔ ٹیچر کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے پھر سوال دہرایا۔ دیکھو یہ ایک سیب ہے اور یہ ایک اور سیب تو کل سیب کتنے ہوئے؟۔ جواب میں پھر تین کہا گیا۔ ٹیچر غصہ میں آگئی اور سوچنے لگی کہ یا مجھے پڑھانا یا سمجھا نا نہیں آتا یا یہ بچہ ہی کن ذہن ہے۔ اپنے غصہ پر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا اچھا یہ ایک آم ہے اور یہ ایک اور آم۔ اب بتاؤ کل کتنے آم ہوئے؟۔ بچے نے کہا “دو”۔ واہ وا شاباش۔ ٹیچر خوش ہو گئی۔ اس نے موقع غنیمت جان کر پھر سوال کیا۔ یہ ایک سیب ہے اور یہ ایک اور سیب تو کل سیب کتنے ہوئے۔ بچے کا جواب وہی پرانا تھا “تین”۔ یہ بات سن کر پہلے تو ٹیچر کو غصہ آیا لیکن اس نے اظہار کئے بغیر بچے سے سوال کیا۔ جب میں نے تم سے آموں کے بارے میں سوال کیا تو تمہارا جواب ایک اور ایک “دو” آیا جو درست تھا لیکن جب جب میں تم سے یہی سوال سیبوں کے بارے میں کرتی ہوں تمہارا جواب “تین” کیوں ہوتا ہے؟۔ بچے نے کہا امی نے اسکول آتے ہوئے میرے بستے میں ایک سیب رکھ دیا تھا کہ میں لنچ ٹائم میں کھالوں۔ اب آپ خود ہی سمجھ لیں کہ سیب “دو” ہوئے کہ “تین”۔
میں یہ نہیں کہتا کہ “منظور پشین” کی تحریک پاکستان مخالف تحریک نہیں ہوگی۔ ممکن ہے کہ جو پاکستان سوچ رہا ہو بات وہی ہو لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اس کے پیچھے لازماً کوئی غیر ملکی ہاتھ ہی ہو؟۔ کیا اس میں ہماری کسی بھی کوتاہی یا زیادتی کا کوئی پہلو بھی نہیں ہوگا؟۔
اظہار رائے پر پابندیاں کبھی کوئی اچھائی کو جنم نہیں دیتیں۔ پابندیاں جنتی بھی غلط فہمیوں کو جنم دیں وہ کم ہیں اسلئے کہ سینہ بسینہ جو باتیں بھی عوام تک پہنچتی ہیں وہ ہر آگے بڑھتے قدم کے ساتھ مرچ مسالوں کا اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں۔ خادم حسین کا اسلام آباد والا دھرنا کئی دن بعد خبروں کی زینت بنا اور اسی طرح لاہور میں جاری خادم حسین ہی کا دھرنا خبروں سے تا حال غائب ہے۔ اس صورت حال میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ ہم عوام تک پہنچنے والی “سچائیوں” میں جھوٹ کی کتنی آمیزش ہو گی؟۔
چنانچہ محمد حنیف اپنے تجزیہ و تبصرے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں ” پشتون تحفظ تحریک کے نوجوان رہنماؤں کی باتیں میں نے بھی فیس بک اور یو ٹیوب پر سنی ہیں۔ صرف لہجہ نیا ہے، باتیں پرانی ہیں۔ اگر منظور پشتین کہتا ہے کہ جو کچھ پاکستان کے آئین میں میرے لیے لکھا ہے وہ مجھے دے دو تو اس پر ملک دشمنی کے الزامات کیوں لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ ہمیں کچھ کہانیاں سناتا ہے جن سے ہمارا محبِ وطن میڈیا بچاتا آیا ہے۔ بچوں کے اوپر گرنے والے بموں کی کہانیاں، اپنے گھروں میں بےعزت ہوتے بزرگوں کی کہانیاں۔
ہم وہاں آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں اس بات کا کھوج لگانا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا۔ ایک گداگر کی صدائے مفلسی واقعی سچی ہے یا یہ اس کا پیشہ ورانہ انداز ہے۔ کوئی واقعی مظلوم ہے یا ڈھونگ رچا رہا ہے اور کیا یہ واقعی معذور ہے یا سوانگ رچائے ہوئے ہے۔ سچ کیا ارباب اختیار و صاحب اقتدار ہی کی کہی ہوئی بات ہے یا جو ان دونوں کے ستائے ہوئے کی زبان سے نکلتی آہ و بکا؟۔ سچ کیا وہی ہے جو الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا میں شائع شدہ خبریں ہیں یا وہ زبانیں اور چہرے جن کی تحریر، تقریر اور تصویر پر پابندی لگا دی گئی ہے؟ پشتون تحفظ تحریک کیا ہے اور ان کے اغراض و مقاصد کیا ہیں، اس پر تو کسی کو بات کرتے، ان کے مقاصد بتاتے یا ان کے مطالبات بیان کرتے تو کسی کو نہیں سنا البتہ وہ “پاکستان مخالف ہیں، اس پر سب کو بہت کچھ کہتے اور بیان کرتے دیکھا گیا ہے۔ چنانچہ بی بی سی کے تجزیہ نگارتحریک کے رہنماؤں کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ “پشتون تحفظ کی تحریک ابھی پشاور سے اسلام آباد کے راستے میں ہی تھی کہ ہمارے تحفظ کے لیے قائم اداروں کے خودساختہ محافظوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے کہ نئے غدار آ گئے، نئے طالبان آ گئے اور ابھی ابھی خطروں سے آزاد ہوتی ریاست کو ایک نئے خطرے کا سامنا ہے۔ کوئی اہلِ دل ہوتے تو گلے لگاتے، گریہ کرتے، وعدے کرتے کہ جو ماضی میں ہو گیا آئندہ نہیں ہونے دیں گے لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ آ گیا ایک اور دشمن، اس کے ساتھ بھی وہیں کریں گے جو اس کے بڑوں کے ساتھ کیا تھا۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ہماری ریاست ازل سے قومی یکجہتی کا ڈنڈا لہراتی پھرتی ہے لیکن جیسے ہی اسے کوئی مختلف لہجہ سنائی دیتا ہے چاہے وہ قبائلی پشتون کا ہو یا مکران کے بلوچ کا ہماری ریاست کو تشنج کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت اپنے ان دانشوروں اور نہا دھو کر ٹی وی سٹوڈیوز میں براجمان دفاعی تجزیہ نگاروں پر ہوتی ہے جو پشتون نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں کہ یہ نہ کہو، ایسے بات نہ کرو کیونکہ اس سے ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچے گا۔ کیا اس ملک کی بنیادیں اتنی کھوکھلی ہیں کہ چند ہزار پشتون نوجوانوں کے ایک ساتھ چلنے سے لرزنے لگتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ یہ ہمارے نام نہاد محبِ وطنوں کا وہ خوف ہے جو ایک نئی آواز، ایک نیا لہجہ سن کر خوف سے کانپنے لگتا ہے”۔
یہ سارا تجزیہ بی بی سی کے ایک تجزیہ نگار کا ہی کیوں نہ ہو لیکن میں بھی ایسا ہی خیال کرتا ہوں کہ ایک جمع ایک “سیب” تین ہی ہیں لیکن ایک جمع ایک “آم” دو ہیں۔ یعنی جب تک سب لوگ کسی بھی تحریک کے پیچھے چھپے عوامل کو اس “سیب” کی حقیقت کو جاننے کی کوشش نہیں کریں گے جو بچے کے بستے میں رکھا ہوا تھا اس وقت تک وہ بچے ہی کو غلط مانتے رہیں کے اور اسے سزا پر سزا دیئے جائیں گے۔