عورت برائے فروخت؟

آج کل عورت نما مردوں کا تذکرہ زبان زد عام ہے۔ اخباروں میں، گفتگووں میں، محفلوں میں۔ گزشتہ دنوں یوم عورت پر مخصوص کلاس کی عورتوں کا عورت مارچ، گتے اور کتبے اٹھائے صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے تھا۔ بھانت بھانت کے نعرے، شور غوغا، میرا جسم میری مرضی کا آوازہ، کھانا گرم کر لو؛ کی تختیاں اور دیگر عبارات سے موسوم کتبے اٹھا کر سڑکوں پر مارچ جاری تھا۔ میں سوچنے لگا ان کے جسم پر کس نے حق جمایا ہوگا؟ پھر خیال گزرا یقیناًوالدین ، گھر والوں نے ،کسی لچھن سے منع کیا ہوگا تو جواب میں میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا لیا۔ لیکن یہ تو وہیں موقع پر مناسب تھا ناں!! دنیا کو بتانے کی کیا ضرورت؟؟ انہیں ہی کہہ دینا کافی ہوتا کیوں کہ اور تو کسی نے کبھی ان کے جسم پر دعوی نہیں کیا کہ نہ جی تیرا جسم، میرا جسم، جو چاہوں کروں۔
خیر سانپ گزر چکا لکیر باقی ہے۔ اور لکیر روشن ایسی کہ اب بھی چند دن قبل ایک سائیکل مارچ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی عورت مارچ کا پارٹ ٹو معلوم ہوتا تھا۔ انہوں نے بھی درج شدہ نعروں کے کتبے اٹھا رکھے تھے۔ ایلیٹ کلاس کی ان جوان لڑکیوں کو دیکھا تو خیال گزرا وہ جو چند مشاہیر نفسیا ت کہتے ہیں ناں!! عورت کی سب سے بڑی خواہش توجہ طلبی ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ مفروضہ غلط نہیں۔ کیوں کہ عورت کے حقیقی مسائل، ان کی مشکلات، ان کے حقوق، ان کا مقام، وہ جو اب تک تسلیم ہی نہیں کیے گئے اس کو نظر انداز کر کے، میرا شہر میری سڑکیں، میری سڑک میری مرضی، راستہ دو عورت راج آرہا ہے۔ یہ نعرے تو صرف موضوع بننے کے لیے ہیں۔ یقیناًانہیں موضوع بننے میں دلچسپی ہے۔ وگرنہ تو سڑک ہر پاکستانی مرد و عورت کی ہے جس پر ہر کوئی اپنی مرضی اور خوشی سے کوئی بھی سواری چلا سکتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ان ایلیٹ کلاس کی سمجھ دار لڑکیوں کو کیا معلوم کہ مسائل ہوتے کیا ہیں؟ انہی کے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کا حال ملاحظہ فرما لیجیے (سوائے چند کے) سمجھ جائیں گے سارا قصہ، فقط مخصوص لابی کی کارستانی ہے۔ حقیقتا انہیں عورت کے مسائل سے کوئی بھی دلچسپی نہیں۔ انہی سے پوچھیے کبھی غریب و نادار عورتوں کی غربت، بیماری اور دیگر معاشرے کے نوکیلے دانتوں میں پستی مفلوج الحال عورت کی بات بھی کی؟؟ جب یہ اپنی کار سے نیچے پاؤں رکھتی ہیں اور بھکارن قریب آجائے تو دیکھا کیجیے ناک سکیڑ کر کتنا بڑا بد تہذیب و بدتمیز کا ہیولا ان کے منہ سے نکلتا ہے اور نظر انداز کرنا کسے کہتے ہیں یہ بھی معلوم پڑ جائے گا۔
یہ ان کی جوش آزادی کا ایک حربہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان احتجاجی عورتوں کو عورت ہونے سے مسئلہ ہے۔ ان ڈانگ اٹھائے لمبے بالوں والے، سرخی پاوڈر والے، لالی کاجل والے، گلے میں چین لٹکائے، پھندا ڈالے، سائڈ بیگ لٹکائے، ہاتھوں میں بریسلٹ باندھے، میک اپ سے تھپے چہروں والے مردوں کو بتا دینا چاہیے کہ تمہارا جسم تمہاری ہی ملکیت ہے۔ ہاں تم تو اسلام کی آمد کے ساتھ ہی آزاد ہو گئی تھی۔ اب تمہارے مرد تمہیں تمہارا حق نہ دیں تو اسلام کو کیوں پتھر مارتی ہو؟؟ دیکھو تم اپنا معیار خود گھٹاتی ہو۔ وگرنہ یقین کرو تم بہت عظمت والی ہو۔ بقول ممتاز مفتی: مان لیا جائے انسان کی عظمت جزبے سے ہے، عقل سے نہیں تو عورت کو برتری حاصل ہے مردوں پر، جذبے سے انکار ممکن نہیں۔ کیوں کہ محبت، خدمت، اپنائیت، قربانی، میل ملاپ، رشتے، یہ سب اوصاف جذبات پر استوار ہوتے ہیں۔ اب اگر تم جذبہء ہمدرددی سے خالی ہو تو کوئی بات نہیں۔ کھانا خود گرم کرنے کا نعرہ پر بھی سر تسلیم خم ہے کہ تم پر فرض نہیں اور گورے نے اوون ایجاد کیا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ کل کلاں پاکستانی عورت جوش آزادی میں مکر جائے، پھر ان کے بھائی بہن بیٹے کھانا کیسے گرم کرے گے سو انہوں نے یہ ایجاد کیا ہم فائدہ اٹھائیں گے۔
میں ان عورتوں کو دیکھ کر سوچنے لگتا ہوں انہیں کہہ دینا چاہیے یہ بینر پر سے عورت مارچ مٹا کر مرد مارچ لکھ دیں اور یہ جو کہتی ہیں۔ چادر چار دیواری عورت کے لیے ہے۔ خدا ان کا بھلا کرے انہوں نے برات کا اعلان کر دیا کہ ہم تو عورتیں نہیں یہ عورت کو مبارک۔ شاباش جوش آزادی میں خود کو عام کر دیا۔ پھر کہو احترام نہیں۔ اپنی قدر و منزلت کھو دی۔ چلو کوئی بات نہیں۔ اور انہیں عورت ہونے سے مسئلہ ہے نا؟ مان لیا کوئی بھی مسئلہ ہے۔ لیکن کتبے اٹھا کے کیا ہوگا؟ صرف تصویریں اور پیغام۔۔۔؟ یار!!! تم احتجاج کرو نا ٹھیک سے۔ عورتوں کی زیر استعمال تمام چیزوں سے برات کا اعلان کردو۔ ان ڈنڈو پر اٹھائے بینرز، پلے کارڈز کو پھینکو۔ یہ کتبے ککھ فائدہ نہیں دیں گے۔ قینچیاں اٹھاؤ، سر بازار اسی طرح مرد مارچ کرتے ہوئے اپنے بال کاٹ ڈالو۔ روایتی لباس ترک کر دو، اپنے کانوں میں ڈلے بھندے نوچ پھینکو، اپنی ناک میں لگی مونگ نکال دو، زنانہ سلیپر، جوتیاں اپنے سر پر مار کر دور پھینکو، اپنے سائڈ بیگز جمع کر کے جلا دو، عملا کر دکھاو، نعرے تو بہت لگ گئے۔ اپنے ہاتھوں میں سے یہ کتبے پھینکو، قینچیاں تھامے کھڑی رہو۔ تاکہ جب تم ہٹو تو تمہاری لٹیں بکھری ہوئی ہوں۔ اپنی نسوانیت کا قتل کرتی اپنی آزادی کا اعلان کرو۔
اسلام تو تمہیں بہت آسانیاں دیتا ہے۔ عقل سے بھی کچھ کام لو۔ صرف جزبات سے ہی نہیں۔ خدا میرے، تمہارے کسی بھی عمل، ایمان سے بے پرواہ ہے۔ تم مسلمان ہو یا کوئی اور اسے کوئی فائدہ نہیں۔ فائدہ تمہارا اور میرا ہے۔ تم ایمان لائی، اسلام قبول کیا۔ مسلمان ہو، تو جب تم نے مذہب کے اس کلب کو جوائن کیا ہے تو ہر کلب کے جیسے اصول و ضوابط ہوتے ہیں ا نکی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ لائبریری جوائن کرو تو خاموشی وہاں کا ضابطہ ہے اس پر عمل کرتی ہو۔ کوئی کلب جوائن کرو تو وہاں کے اصول اپناتی ہو۔ ایسے ہی پھر چوں چراں کیے بغیر دین کے احکامات پر، اصول و ضوابط پر عمل کرو۔ لیکن اگر خائف ہو، دین کا لحاظ ہے نہ وطن کا، اپنے دین پر نادم ہو، کلب کے اصول آنکھوں میں کھٹکتے ہیں تو میری جان کلب میں شمولیت پر خدا تعالی تمہارے پاؤں نہیں پڑا تھا کہ نہ نہ نہ تو ایمان لا، تو مسلمان ہو، کلب کا ممبر بننا نہ بننا آپ کی اپنی ثواب دید پر ہے۔ کسی ایک کو چن کر اس پر عمل کرو۔ یوں کتبے اٹھا کر پھرنے سے کیا ہوگا؟
اور ہاں! میں محفل میں جلیبیاں تلنے آیا نہ ہی پھلجڑیاں چلانے، مجھے پتا ہے اب مجھے کٹھ ملا ثابت کر کے دقیانوس اور بدتہذیب ٹھہرایا جائے گا۔ بہرحال آپ تو تہذیب یافتہ ہیں ناں! اور آپ ہی کی تہذیب آزادی رائے کی بڑی قائل ہے۔ سو یہ میری رائے سمجھیے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں