لہو رستا جسم اور سسکتی روح کیا,امت کو رونے کی اجازت ہے؟

چند دن نہیں گزرے فسلطین کے زخمیوں کی تصویریں تھیں، بے بس مظلوم فلسطینی عورتوں اور اور بچوں کی لہو میں ڈوبی ہوئی تصویریں ۔۔ بہتا ہوا سرخ سرخ لہو، انکے گھروں کو مسمار کر دیا گیا، آدھی گری ہوئی چھتیں ۔۔ ویران ہوتے مکان اور آبادیاں ۔۔ اور ان گھروں سے گھسیٹ کر لے جائے جاتے جوان ۔۔ جن کی بوڑھی مائیں اور جوان سہاگنیں ہر قیمت پر انہیں ظالم اسرائیلیوں کے ہاتھوں سے کھینچنے کی کوشش کر رہی ہیں، بچے چلا چلا کر اپنے باپوں کو پکار رہے ہیں مگر قابض اسرائیلی فوج اس طرح انہیں کھینچ کر لے جاتی ہے، جیسے قصاب ذبح ہونے والے جانور کو!! اور بلکتے بے بس مجبور بچے اور عورتیں سسکتی رہ جاتی ہیں ۔۔
ابھی فضا میں ان مظلوموں کی چیخیں بھی باقی ہیں، جن پر شام کے شہر غوطہ میں بمباری کی گئی، شہر کا شہر اجاڑ دیا گیا، ہسپتالوں کے ملبے سے ننھے منے بچوں کی لاشیں نکالی گئیں، سسکتے زخمی وجود، ایک باپ کی گود میں دو شہید بچے، ایک چلاتا ہوا باپ، جسکے گھر میں کوئی سلامت نہیں بچا تھا، ایک روتا ہوا بوڑھا، غوطہ کی بربادی پر اللہ سے فریاد کرتا ہوا، عمارتوں کی گرد بیٹھنے سے پہلے مدد کو پہنچنے والے مسلمان بھائی، جو ملبہ ہٹا ہٹا کر زخمیوں کی سانسیں گن رہے تھے، انہیں بازؤوں میں تھام کر امدادی کیمپوں میں پہنچا رہے تھے، یتیموں سے آباد خیمہ بستیاں ۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں خالی آنکھوں سے اپنے مستقبل سے بے نیاز آسمان کی جانب دیکھتی آنکھیں اور مدد کے لئے پکارتی زبانیں ۔۔جنہیں مسلمانوں کی آباد حکومتوں میں کتنے ہاتھ مل پائے؟!! ہاں دل سے کراہتی امتِ مسلمہ کی دعائیں انہیں برابر پہنچتی رہیں ۔۔ دعاؤں میں بھی اک ڈھارس تو ہے ۔۔
اور پھر کشمیر کے گھبرو جوانوں کا بہتا لہو ۔۔ بے بس عورتوں اور بچوں کی پکار ۔۔ اس بستی سے اٹھنے والی پکار جس کے حکمران ظالم ہیں، جن کا نشانہ کشمیر کے جوان ہیں ۔۔ جن کا کام ماؤں کی گودیں اجاڑنا ہے ۔۔ معصوم کلیوں اور غنچوں کو انکے باپ اور بھائیوں سے محروم کرنا ۔۔ اتنا خون بہا کہ گلیوں میں بہنے لگا ۔۔ گرم گرم تازہ تازہ لہو ۔۔ انکی مائیں بہنیں اور بیٹیاں سسک اٹھیں ۔۔ انکی مساجد سے الوہی نغمے ابھرے ’’لا الہ الا اللہ ۔۔ تیرا میرا رشتہ کیا ۔۔ لا الہ الا اللہ ۔۔ پاکستان سے رشتہ کیا ۔۔ لا الہ الا اللہ ۔۔ ‘‘۔ اور اسی الوہی کلمے کا ورد کرتی ہوئی عورتوں نے ان گلیوں سے اس پاک لہو کو دھویا، انکے جوانوں کا پاکیزہ لہو ۔۔ وہیں سے آسیہ اندرابی کی غم میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری: ’’ہم کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے ۔۔ پاکستان ایک دن کے لئے یومِ سیاہ کا اعلان ہی کر دے‘‘، یعنی مادی اور عسکری مدد فقط اخلاقی مدد میں محصور ہو گئی ، شاید آسیہ اندرابی ہمارے حکمرانوں کے خوف سے واقف ہیں، کسی بڑی مدد کا کہہ کر اپنے الفاظ ضائع نہیں کئے ۔۔
اور اب پڑوسی افغانستان کے قندوز کے مدرسے میں حفاظِ قرآن کی تقریبِ اسناد پر بمباری ۔۔ بم برساتے پرندے ۔۔ دنیا کے سب سے ناتواں دشمن پر حملہ ۔۔ بچوں پر حملہ ۔۔ بچے جو بے ضرر ہیں ۔۔ تمام دنیا کے بچوں کی مانند!!! لیکن قندوز کے حفاظِ قرآن بچے بے ضرر نہیں تھے ۔۔ انکے ہاتھوں میں ہی نہیں سینے میں بھی قرآن تھا ۔۔ قرآن نے ان کے چہرے پر نور بنا دیے تھے ۔۔ ایسے بچے تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں بستے، ایسے بچے مسلمان آبادیوں کی رونق ہیں، ایسے بچوں کی قدر افزائی کی جاتی ہے ۔۔ چند دن پہلے ہی تو ترکی کے حفاظ بچوں کا ایک لشکر بیت اللہ الحرام کی زیارت کو آیا تھا، انکی حکومت نے ان کے حفظ کے انعام کے طور پر انہیں عمرہ کروایا تھا، جن ممالک کے حکمران ’’زندہ‘‘ ہوتے ہیں وہاں حفاظ کی ایسے ہی پزیرائی کی جاتی ہے ۔۔ افغانستان کے ان حفاظ کے پروٹوکول کے لئے افغان حکومت نے تو کوئی اعلان نہ کیا تھا، مگر وہ نہ صرف اس مدرسے کی شان تھے بلکہ اپنی ماؤں کے شہزادے بھی تھے، قندوز کے کتنے گھر انکی تلاوت سے مہکتے تھے، یہ بچے بڑے اہتمام سے تیار ہو کر اپنی دستار بندی کی تقریب میں آئے تھے، اپنی ماؤں کو پھولوں کے ہار دے کر ۔۔ جو دستار بندی کے بعد واپس لوٹتے ہوئے گھر کی دہلیز پر ماؤں نے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالنے تھے ۔۔ میں نے حفاظ کے ناموں کی لسٹ دیکھی، کتنے شہداء کے بیٹے تھے، کچھ مہاجرین کے ۔۔ نجانے انکے ناموں کی لسٹ پوری بیان ہو گئی تھی یا اس سے قبل ہی انکی اگلی لسٹ تیار ہو گئی تھی ۔۔ شہید ابنِ شہید ہو جانے والوں کی لسٹ!!ایک سو ایک حفاظ بچوں کی شہادت کی لسٹ!!
اتنے پیارے پیارے بچے، سفید کپڑوں میں ملبوس بچے، پھولوں کا زیور پہنے ہوئے، دستار باندھے، سندِ حفظ ہاتھوں میں تھامے ۔۔ اگلے سفر پر چل دیے، قالین سرخ لہو میں نہا گئے، بچوں کے چہرے اور لباس سب لال لال ہو گئے ، مسجد اور مدرسے کی دیواریں بھی ۔۔ چہروں کی چمک زود افزوں ہو گئی ۔۔ ماؤں کی آنکھوں سے لہو بہنے لگا ۔۔ جدائی کے صدمے سے آنکھیں برسنے لگیں، اتنے ظلم اور سفاکی پر ہر مسلمان کا دل بجھ گیا ہے ۔۔ دلِ بے قرار کو کسی طور سکون نہیں مل رہا ۔۔ افسوس ان مظلوموں کے لئے انصاف کی کوئی آواز نہیں اٹھ رہی، ہونٹ مہر بلب ہیں ۔۔ زبانوں پر تالے لگے ہیں ۔۔ شاید مہذب دنیا کے’’ انسانوں ‘‘نے ان پر ’’رونے ‘‘ کی اجازت نہیں دی، کیونکہ اب تو مظلومیت کا رونا رونے یا دکھ کا اظہار کرنے سے پہلے اس کے عواقب و نتائج کو جانچا جاتا ہے، اور اب ہمارا حال یہ ہو گیا ہے کہ ہم لہو لہو بدن اور چاکِ گریبان بھی پہلے دکھ کے اظہار کا اجازت نامہ مانگتے ہیں ۔۔ مبادا ہم پر ہی دہشت گردی یا دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگ جائے!!
کیا رونا بھی دہشت گردی ہے؟؟ مجھے چودہ سو برس پہلے کا ایک قصّہ یاد آ گیا ہے، جب بدر کے مقام پر کفر و اسلام کا پہلا معرکہ پیش آیا تھا ۔۔ اللہ نے اپنے مٹھی بھر سپاہیوں کی لاج رکھ لی تھی، اور ایک ہزار کا طاقت ور لشکر اپنے ستر سورماؤں کی لاشیں اٹھا کر ، ستر کو قید میں چھوڑ کر ہزیمت زدہ بھاگ آیا تھا، شکست سے چور ،ہزیمت سے جھکی آنکھوں اور اپنے زخم چاٹتے قریش نے ایک اعلان بڑے واشگاف انداز میں کیا تھا: ’’کوئی اپنے مقتولوں پر نوحہ نہیں کرے گا‘‘، مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مزید ذلیل نہیں کیا جائے گا ۔۔ اور پھر ساری آہ و بکا اور کراہیں سینے میں ہی جمع ہو گئیں ۔۔ اسود بن المطلب جیسا نابینا اپنے تین بیٹوں کی ہلاکت پر رونا اور بلکنا چاہتا تھا ۔۔ اس کے نوحے اس کے سینے میں شور کر رہے تھے، مگر کفار قریش کے حکم کی تعمیل میں وہ خاموش رہا تھا ۔۔ پھر ایک روز کسی عورت کے رونے کی آواز پر اس نے اپنے غلام کو بھیجا، جاؤ دیکھو، بدر کے مقتولوں پر رونے کی اجازت مل گئی ہے؟ غلام نے آکر خبر دی کہ وہ تو ایک عورت ہے جو اپنا اونٹ کھو جانے پر بین کر رہی ہے، اس کا سینہ جل اٹھا، اور اس نے اپنا درد شعر کے قالب میں ڈھالا: وہ اس پر روتی ہے کہ اس کا اونٹ کھو گیا ہے؟ اور اس غم نے اسکی نیند حرام کر دی ہے، اونٹ پر نہ رو، بدر پر رو جس میں قسمتیں ہی پھوٹ گئیں ۔۔ ‘‘۔
سری دیوی ۔۔ سٹیفن ہاکنگ ۔۔ اور اس جیسوں کے غم میں نوحے لکھنے والو ۔۔۔ امتِ مسلمہ کے غم میں نوحہ لکھنے اور رونے کی اجازت دے دو ۔۔ امت کا سینہ خونِ مسلم کی ارزانی پر جل رہا ہے ۔۔۔
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں