اُف یہ بیویاں

عورت ٹیڑھی پسلی کی وہ تخلیق ہے کہ ایک بار بیوی بن جائے تو پھر ٹیڑھے سے ٹیڑھے مرد کو بھی یک جنبش انگلی ایک ہی پاؤں پہ وہ ناچ نچواتی ہے کہ شوہر نامدارکے تمام کس بل نکال دیتی ہے۔اور مرد بے چارہ جو قبل از شادی کسی کو پلے نہیں باندھتا تھا اب بیوی کے پلو سے ایسے بندھا رہتا ہے جیسے اونٹ کے گلے میں بلی اور بلی بھی وہ کی جو بہت سے بلوں میں اکیلی گھری ہوئی ہو جیسے رضیہ غندوں میں اور دور کھڑا ایک خاوند لاچارگی و نحیف آوازمیں کہہ رہا ہو کہ :شیر بن شیر؛
بیوی آ پکا وہ قانونی حق ہے جسے آپ سو(۱۰۰)دو سو(۲۰۰) افراد کی موجودگی میں قبولیت ثلاثہ کے ساتھ بخوشی حق قبولی میں لیتے ہیں۔بعد از شادی بعدین دو سو دن شادی مرگ ہو بھی جائے تو یقین مانیں آپ دنیا کے خوش قسمت ترین خاوند خیال کئے جائیں گے ہو سکتا ہے آپ کو :عائلی شہید: کے اعلی رتبے پر خیال کیا جائے۔
بیوی میں کوئی اور خوبی ہو نہ ہوایک خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ یہ جب چاہے کوئی سا بھی روپ دھار سکتی ہے۔جب چاہے گرگٹ بن کے کوئی سا بھی رنگ بدل لے۔رنگ بدلنے کے لئے خاوند،سسرال،یا میکہ کہیں سے بھی بیوی کو اجازت نامہ درکار نہیں ہوتا بلکہ یہ پہلے سے ہی :بیوی نامہ:میں ڈیٹا اسٹور میں پڑا ہوتا ہے۔بس یہ بیوی پر منحصر ہے کہ ذاتی منشا و مدعا کے مطابق کب ،کونسا روپ دھار کر خاوند،ساس،نند،اوردیورانی کو بیوقوف بنانا ہے۔یعنی گھر میں دھونے والے برتنوں کی کثرت ہو تو کثرت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لئے بھی بیوی کے سر میں درد نکل سکتاہے،سسرالی مہمانوں کی آمد آمد ہو تو :خاتون خانہُ:گندے دوپٹے سے سر باندھ کر بوڑھی :دائیہ
؛کی وضع اپنا سکتی ہے۔اور اگرمیکہ والوں سے کوئی دور پار کے رشتہ دار بھی آ جائیں تو :کپتی بیوی: کے غلاف سے دھارمک ،بی بی اور موٗدب بیوی کہاں سے عود کر آ جائے گی کہ پورا سسرال انگشت بدنداں،حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ :ہیں: ایسا روپ تو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔البتہ تنخواہ کا دن وا حد دن ہوتا ہے جس میں ایک دم کپتی بیوی گل اندام محبوبہ کی وضع قطع اپنا لے گی کہ :سکے خاوند: کو یقین نہیں آتا کہ وہ ذاتی بیوی سے مخاطب ہے یا کسی اور کی بیوی کے سامنے کھڑا ہے۔بیوی کے یہ ناز و نخرے اس وقت تک چلتے ہیں تا وقتیکہ شوہر کا والٹ اور پاکٹ خالی نہ ہو جائے۔
ایام ماہ آ خرجب شوہر کا والٹ اور پاکٹ خالی ہو جاتے ہیں تو فوری طور پہ :گجی ماں:جیسے ٹکا کے بے عزتی کرتی ہے جیسے بچپن میں رات تاخیر سے وآنے پہ اماں کرتی تھیں۔بعض اوقات تو اماں سے بھی دو ہاتھ آگے ہی رہتی ہے۔
بیوی کا پاور ھاؤس اسکا میکہ ہوتا ہے جبکہ خاوند کے لیے یہ جگہ بارگاہ ادب سے کم نہیں۔ ہر اس شخص کو کسھیانی مسکراہٹ اور عزت و مقام بخشتے ہوئے جھک کر سلام اور گلے لگانا پڑتا ہے جو آر پار سے بھی بیوی کے جاننے والے ہوں۔بقول شاعر
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
بیوی جب بھی پاور ہاؤس سے ایندھن لے کر آتی ہے تو اسکی زبان کی شعلہ زنی ہندو دھرم کی کالی ماتا سے مطابقت رکھے ہوئے ہر اس رشتے کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے جو اسے پسند نہ ہو۔نند اور ساس زیر عتاب وہ دو بڑے اور نا پسندیدہ کردار ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات کی نہیں اورجورو کی زبان یک جنبش چار انچ لحم کے لوتھڑے سے چار فٹ برابر تیر و تیغ بن کر طعنہ زنی سے افراد بیت ہی نہیں اہل محلہ بھی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ بہو میکہ سے فیول فل کروا کے واپس میکہ تشریف لا چکی ہے۔
بیوی کی زبان دانی اور لسانی فقرات کے سامنے بڑے سے بڑے پہلوان بھی نیم جان دکھائی دیتے ہیں کہ اپنی عزت کسے عزیز نہیں۔اگر خاوند کو عزت بچانا عزیز ہو تو بہو کے عزیزان کے عزیزان کے عزیز بن جائے وگرنہ وآپ اکیلے اور بہو ساس دو۔آپ جانتے ہیں ایک پھر ایک اور دو گیارہ تصور کئے جاتے ہیں۔لیکن یہاں تو سب ریاضیاتی فارمولا اور اردو ضرب الامثال باندھی کی طرح ہاتھ باندھے مجسم بت بنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں کہ ایک اور ایک محض گیارہ ضرور ہوتے ہونگے مگر ایک بیوی اور ایک ساس گیارہ کے بھی باپ ہوتے ہیں۔
بیوی میکے تب جاتی ہے جب سسرالیوں کے ظلم و زیادتی کا ڈیٹا میکہ کے میگا کمپیوٹر (ساس) میں ٹرانسفر کرنا ہو۔یہ ڈیٹا میگا کمپیوٹر (ساس)کی میموری(دماغ) میں اس وقت تک محفوظ رہتا ہے جب تک لڑکی کے سسرال سے کسی قسم کا وائرس حملہ نہ کر دے۔ادھر وائرس کا حملہ ہوا ادھر بیوی اور ساس کا انٹی وائرساتنی تیزی سے ایکٹو ہوتا ہے کہ وہ فائل بھی محفوظ کر لیتی ہے جو ابھی ڈون لوڈ ہوئی بھی نہ ہو۔یعنی اب وہ باتیں بھی دھڑا دھڑ پرنٹ ہو کر مارکیٹ میں آئیں گی جو ابھی سسرال والوں کے ذہن میں کسی کونے کھدرے میں پڑی ہوں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ سب بیویاں ایک ہی چشمہ سے سیر آب ہو کر آ ئی ہوں چنداں بہت سگھڑ اور بی بی قسم کی بیویاں بھی ہوتی ہیں۔ویسے بیوی اگر بی بی ہو تو بے بی بن کر راج دلاری کہلاتی ہے اگرنہ بے بے بن کر وہ پھڈے ڈالتی ہے کہ بڑے بڑے پھنے خان،پھڈے باز بیوی کے ڈر سے بازار کی راہ لیتے ہیں۔ہاں کبھی کبھار کوئی آشفتہ سر بیوی کے سامنے شیر بننے کی جراٗت کر بھی لیتا ہے جیسے کی میرے ایک دوست نے جو ماہر نباتیات ہے نیا نیا گھر بنانے کی خوشی میں مجھے پروقار دعوت پہ مدعو کیا یونہی دالان میں داخل ہوا تو پودوں کے بنا گھر دیکھ کر میرے منہ سے غیر ارادی طور پہ نکل گیا کہ سعید یار گھر میں کوئی پودا ،کسی گلاب کی قلم یا زیبائشی پودے کی جڑ ھی لگا لو تو سعید نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لب کشائی کی کہ یہ ایک فساد کی جڑ لگائی تو ہوئی ھے وہ دن اور آج کا دن میرے سعیدالفطرت سعید دوست کا گھر فساد زدہ ھے۔
سیانے کہتے ہیں کہ عورت سے اسکی عمر اور مرد سے اسکی تنخواہ کے بارے میں کبھی سوال نہیں کرنا چاہیے مگر میرے سکہ رائے یہ ہے کہ مرد سے بھلے اسکی تنخواہ کے بارے میں پوچھ لیا جائے مگر عورت سے اسکی عمر کے بارے میں تشویش کوئی بری بات نہیں تاہم بیوی سے کچھ نہ ہی پوچھا جائے تو بہتر از سسرال خصوصاًخاوندہوگا کہ
ایک چپ ہزار سکھ
اگر آپ کامیاب خاوند بننا چا ہتے ہیں تو مسکرانے،ہنسنے،اور جی حضوری کی عادت ڈال لیجئے افاقہ میں رہینگے اور بیوی کی پناہ میں کوئی ظالم ہی ہوگا جو بیوی کی پناہ میں نہ رہنا چاہتا ہو
چند اقوال جو سالہا سال کی محنت شاقہ سے خاوند حضرات نے وضح کئے ہیں
ٌٌئمسکراہٹ سے آپ دنیا تو فتح کر سکتے ہیں بیوی کو گرویدہ نہیں۔
بیوی پرائی اور بچے اپنے ہی اچھے لگتے ہیں۔
ایسی مخلوق جو کروڑ پتی خاوند کو دنوں میں کنگال کر دے۔
بیوی اور گوگل میں قدر مماثلت یہ ہے کہ گوگل لفظ کی تحقیق میں آپ کو دس دس جواب فراہم کرتا ہے جبکہ بیوی ہر بات پہ دس دس مرتبہ جواب دیتی ہے بلکہ بعض اوقات تو :کورے جواب:سے جوابتی ہے۔
بیوی اگر خاموش ہو تو ڈاکٹر کے پاسلے جانے سے بہتر ہے اسے اللہ کی رحمت خیال کرتے ہوئے نوافل شکرانہ ادا کئے جائیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں