شخصیت فر د کے ذہنی ،جسمانی ،شخصی ،برتاؤ ،رویوں ،اوصاف ا ور کردار کے مجموعہ کا نام ہے باالفاظ دیگر اگر سہل انداز میں شخصیت کی تعریف کی جائے تو یہ انسان کے ظاہری و باطنی صفات ،نظریات اخلاقی اقدار ،افعال احساسات اور جذبات سے منسوب ہے۔ ظاہری حسن وجمال وقتی طور پر کسی کی توجہ تو مبذول کرسکتا ہے لیکن کردار کا دائمی حسن ہی انسان کو زندہ جاوید بنا تا ہے ۔تعمیر کردار میں فکر و نظریات کا کلیدی رول ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے موت و حیات کی تخلیق کا اصل سبب کردار کی آزمائش ہی بتا یاہے۔ ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھیں کہ تم میں سے کو ن بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘(سورہ ملک آیت نمبر 2)قرآن کی یہ آیت زندگی کے ترجیحات کے تعین میں ہماریمدد کرتی ہے۔ترجیحات کے تعین میں ناکامی کے سبب ہی آج ہم درپیش مسائل کو حل کرنے میں الجھن کا شکار ہیں اور ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔ہم اپنے مال و متاع کے اضافے میں دن رات مصروف ہیں اور خبر بھی نہیں ہے کہ یہ اضافہ ایک دن شر کی صورت میں ظاہر ہوگا اگر چیکہ ہم اسے اعلیٰ اور عمدہ کردار کی حامل شخصیتوں کے ہاتھوں منتقل نہ کردیں۔ ہمیں طئے کرنا ہوگا کہ ہماری سب سے بڑی دولت کیا ہے یقیناًہماری سب سے بڑی اور عظیم دولت مال و متاع سونا چاند نہیں بلکہ ہمارے بچے ہماری اولادہے جن کے دم سے ہمارے آنگن جنت کی تصویر نظر آتے ہیں۔گھر میں رونقیں لگی رہتی ہیں۔اس عظیم دولت کا بگاڑ ہی دراصل ہمارے لئے خسران عظیم ہے۔ اگر ہم حقیقت میں زوال کو روکنا یا کمال سے بدلنا چاہتے ہیں تو افراد کی شخصیت ساز ی بالخصوص بچوں کی اخلاقی،روحانی اور سماجی تربیت پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی ہوگی تاکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہبن سکے۔معاشرے کی تعمیر کا انحصار افراد کی تعمیر پر ہوتا ہے۔افراد کی تعمیر میں خاندان ،سماج ،مدارس،یونیورسٹیز اورمعاشر ے کاکلیدی کردار ہوتا ہے۔ حال کے احوال کی تبدیلی اور مستقبل کی تعمیر ، نسل نو کی تعمیر سے ہی ممکن ہے۔نئی نسل کو ڈاکٹر ،انجیئنر،ماہر قانون،کامیاب تاجر یا کچھ اوربنانے سے پہلے ایک،خوش اخلاق ،باوقاراور اچھا انسان بنا نا ہوگا جس کے لئے کردار کی تعمیر ( شخصیت کی تعمیر )ضروری ہے۔اچھے اوصاف واخلاق سے آراستہ لوگ انسانیت کے سفیر ہوتے ہیں اسی لئے زندگی کی بے شمار ترجیحات میں شخصیت کی تعمیر کو اولیت حاصلہے۔ تعمیر شخصیت میں کردار کو بانکپن عطا کرنے والے عناصر کی پہچان بہت ضروری ہے۔ ان عناصر کی تلاشمیں پریشان ہونے کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ اسلام شخصیت کی تعمیر کا ایک نہایت آسان فارمولہ پیش کرتا ہے۔قرآن اور سیرت رسول شخصیت کی تعمیر میں مددگار عناصر کا تعارف پیش کرتی ہے۔
قانون فطرت (سنت اللہ)سے آگہی ؛۔
بچے جس ماحول میں پروان چڑھتے ہیں اس کا رنگ ان کی شخصیت پر غالب رہتا ہے ۔یہ کلیہ صرف بچوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ سچ ہے کہ بڑوں پر بھی ماحول کا اثر مرتب ہوتا ہے۔وہ افراد جن کی تربیت مختلف ماحول ،طرزمعاشرت اور دین پر ہوئی ہو وہ صالح نظریات ،اعلیٰ اخلاق ،اوصاف حمیدہ کو ایک زنجیر خیال کرتے ہیں اور ان بندشوں سے ان میں سرکشی کا طبعی میلان پایاجاتاہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے ’’ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا تے ہیں‘‘۔(بخاری و مسلم) معلم کائناتﷺکی تربیت اور شخصیت سازی پر مبنی اس حدیث کو انگریز فلسفی جان لاک (John Locke) اپنے نظریہ تعلیم (Tabula Rasa) یعنی بچوں کے ذہن کو ایک لوح سادہ (Plain Slate)کی صورت میں پیش کرتا ہے اور اس فکر کو ڈاکٹر فل (Dr.Phil)یوں دہراتا ہے ’’بچہ ایک سادہ تختی ہے جس پر اس کے والدین ہر دن کچھ نہ کچھ نقش کرتے رہتے ہیں‘‘۔(A Child is a plain slate in which a parent writes on every day,Dr.Phill)۔بچے سے قربت رکھنے والا ہر شخص اور ماحول اس پر اپنے نقش چھوڑتے ہیں اور انہی تجربات اور ماحول کے زیر اثر بچے کی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔بچے بچپن ہی سے احساس ،اقدار اور رویے سیکھتے ہیں جن کا وہ اپنی عملی زندگی میں مظاہرہ کرتے ہیں۔دراصل آدمی اپنے ان رویوں اور نظریات کی غمازی کرتے ہیں جنہیں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پراپناتا ہے۔ لاشعوری طور پر فکر اور رویے یقین میں بدلتے رہتے ہیں۔ حدیث مذکورہ میں نصرانی اور یہودیوں کو اہل کتاب ہونے کے باوجودان کی رذیلہ صفات اور خباثتوں کی وجہ سے مذموم اور غیر پسندیدہ امت قراردیا گیا ہے۔ہمیں غور کرنا چاہئے جن اوصاف رذیلہ کو اپنا کر یہودی اور نصرانی مقہور ہوئے ان اوصاف کو اپنا کر بھلا ہم کیسے اللہ کی خوشنودی اور سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق بچوں کو پاکیزہ ماحول ،درست انداز فکر اور طرز معاشرت فراہم کرناضروری ہے تاکہ کسی بھی خباثت اور مسموم اوصاف سے نوزائیدہ ذہنوں کو محفوظ رکھا جاسکے اور اسے دین فطرت کے عین مطابق بنایا جاسکے۔تعلیم کی فراہمی میں آج کا معاشرہ نہایت چست ہے لیکن پاکیزہ ماحول کی فراہمی میں یکسر ناکام ہوگیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی اضطراب اور ناانصافیاں سر اٹھا چکی ہیں۔
اپنا پورٹریٹ خود بنائیں؛۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے سا تھ ہوں‘‘(جامع ترمذی) شخصیت کی تعمیر میں انسان کی اپنی سوچ اور فکر کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اسی اسلامی نظریے کوولیم جیمزیوں بیان کرتا ہے’’آپ اپنے بارے میں جو تصویر بناتے ہیں اگر یہ تصویر ایک طویل عرصے تک آپ کے ذہن میں رہے تو آپ بھی ویسے ہی بن جائیں گے جیسا آپ سوچتے ہیں۔‘‘منفی سوچ اور خیالات کے زیر اثرایک متوازن اور پسندیدہ شخصیت کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔منفی سوچ اور خیالات ایسے وائرس ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ذہن و قلب ماؤف اور ناامید ہوجاتے ہیں۔جب کوئی پروگرام میں وائرس آجاتا ہے توفارمیٹنگ کے ذریعے اس کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاتاہے۔ اپنی بہتری اور ترقی کے لئے انسان کو بھی اپنے ذہن کی فارمیٹنگ کرنی ضروری ہے تاکہ کارکردگی کو بہتر بناکر کامیابی کے راستوں پر گامزن ہوسکے۔
فکر کی تبدیلی؛۔
فکر کی تبدیلی سے ترقی کی جانب بڑی جست لگائی جاسکتی ہے برائن ٹرائسی اس ضمن میں اپنی کتاب’’ جیسے خیالات ویسی زندگی‘‘ (Change Your Thinking Change Your Life)میں ایک تیس سالہ شادی شدہ دو بچوں کی ماں کی روائیداد بیان کرتا ہے ۔اس عورت کی پیدائش اور پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں بچوں کو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا اور ان کے ساتھ خراب سلوک برتا جاتاتھا۔والدین کی بدسلوکی کے نتیجے میں وہ خاتون بری طرح احساس کمتری کا شکار ہوگئی اس کا اعتماد سلب ہوگیا وہ اپنی قدر سے ناواقف ہوگئی اور خود کو کسی لائق نہ سمجھنے لگی۔ایک روز جس کار میں و ہ سفر کررہی تھی اس کا حادثہ ہوجاتا ہے اور وہ خاتون اپنی یاداشت گنوا بیٹھتی ہے۔لاکھ کوشش کے بھی جب اس کی یاداشت بحال نہ ہو تی ہے تو اسے دواخانے سے ڈسچارچ کردیا جاتا ہے۔۔اپنے ماضی کو بھول بیٹھی یہ خاتون گھر میںیاداشت کے متاثر ہونے کے اسباب اور حافظہ و یاداشت کوبہتر بنانے پر مبنی میڈیکل رپورٹس کا مطالعہ شروع کردیتی ہے۔ماہرین سے معلومات کے لئے رجوع کرتی ہے۔جدید معلومات سے لیس یہ عورت اپنی حالت پر ایک مقالہ پیش کرتی ہے ۔جہاں وہ اپنی نئی یاداشت ،اعصابی کارکردگی ،تجربات اور خیالات کی روشنی میں کنونشن کے شرکاکے سوالات کا مدلل جواب دیتی ہے۔ افراد خاندان اور اس کے معالجین اس تبدیلی پر حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔دراصل دواخانے او ر حادثے کے بعد گھر پر حاصل ہونے والی توجہ نے اس میں اعتماد کی کیفیت پیدا کردی اور وہ خود کو اہم اور لائق سمجھنے لگی ۔ میڈیکل شعبے میں اہمیت کی حامل شخصیت کہلانے لگی۔ اسے لکچرس کے لئے مدعو کیا جانے لگا ۔ماضی کے تمام منفی خیالات اس کے ذہن سے محو ہوچکے تھے۔ ماضی میں اس کے ذہن سے چمٹاکمتری کا احساس ختم ہوچکاتھا۔اب وہ ایک بالکل نئی شخصیت تھی۔اگر ہم بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے متمنی ہیں تب اپنی منفی سوچ سے ہمیں چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے ۔منفی سوچ ہماری ذات کو محدود کردیتی ہے ۔
اعتماد کی بحالی کے لئے مثبت خیالات و افراد سے رشتہ جوڑیں؛۔
کسی بھی شخص کو جب مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ اپنی ذات میں کمی اور کمتری محسوس کرنے لگتا ہے۔والدین بچوں کو بے جا تنقید کا نشانہ بناکر ان کی شخصیت کو تباہ کردیتے ہیں۔عمر کے ابتدائی دور میں جب کسی بچے کو لگاتار تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ خود کو اس تنقید اور سزاکا مستحق سمجھنے لگتا ہے۔اپنی قدر و قیمت اور اہمیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ بچپن میں محبت اور شفقت نہ ملنے کی وجہ سے بلوغت اور جوانی میں بچے مختلف معاشرتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔کلیوں کو پھول بننے کے لئے جس طرح شبنم کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح بچوں میں اپنی ذات کی قدر(عزت نفس) کا جذبہ جاگزیں کرنے کے لئے محبت اور شفقت کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔اعتماد سے محروم شخص بھی محبت اور شفقت کی وجہ سے بے پنا ہ کارکردگی پیش کرنے کے لائق بن جاتا ہے۔انسان کو ناکامی،تنقید اور رد کیئے جانے کا خوف ہمیشہ پریشان کرتاہے۔ انسان اپنے خوف پر قابو پانے کے لئے ان کاموں کی انجام دہی میں لگ جائے جن سے وہ خوف زدہ رہتا ہے۔منفی سوچ ایک زہر ہلاہل ہے جس سے بچنا بے حد ضروری ہے۔ منفی سوچ ذہنی و جسمانی صحت پر اثر انداز ہوکر فطری صلاحیتوں کو تباہ کردیتی ہے اور جس سے آدمی کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ منفی فکر کو پروان چڑھانے والے، عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے والے آپ کی تحقیر وتذلیل کرنے والے افراد، افکار اورخیالات سے آپ کو چوکنا رہنا چاہئے۔یہ افراد ،افکار اور خیالات آپ کے دشمن ہیں جو آپ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔جس طرح منفی نظریات کے حامل افراد سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اپنے آپ کو بھی منفی سوچ سے محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔انسان کی سوچ جس قدر مثبت ہوگی اس کی زندگی اتنی ہی خوش گوار اور پرمسرت گزرے گی۔ مثبت سوچ انسان کو طاقت و توانائی فراہم کرتی ہے۔مثبت سوچ انسان میں اعتماد پیدا کرتی ہے۔انسان کی شخصیت ،صحت ،جرات اور تخلیقی صلاحیتوں کی تعمیر میں مثبت سوچ کاکلیدی کردار ہوتا ہے۔ مثبت سوچ ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہے اور کارکردگی کو عروج و بلندی بخشتی ہے۔انسان کا دماغ ایک وقت میں صرف ایک ہی خیال پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہوتا ہے خواہ وہ مثبت خیال ہو یا منفی۔ لیکن یار رکھیئے انسان اپنے انداز فکر کی تبدیلی پر قادر ہے ۔وہ منفی خیالات کو مثبت خیالات سے بدل کر اپنی زندگی کو خوش گوار بنا سکتا ہے۔
تعمیر شخصیت کا اسلامی فارمولہ؛۔
انسانی شخصیت، تخلیق اور تعمیر کی دوجہات سے عبارت ہے۔تخلیقی اعتبار سے انسان کوکائنات میں ساری مخلوقات پر برتری حاصل ہے ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘۔ ( سورہ تین)۔ اگر چیکہ یہ کلیہ انسانوں کو دیگر مخلوقات پر برتری عطا کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کا شرف عطا کرتا ہے۔ لیکن انسانوں پر انسانوں کی برتری کے بھی اللہ نے اصول مقرر کیئے ہیں جس کی بنیاد پر انسان کو اعزاز و افتخار حاصل ہوتا ہے۔’’بے شک زیادہ عز ت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار (اللہ سے ڈرنے والا) ہے۔‘‘(سور ہ حجرات )مضمون کی ابتدائی سطور میں سور ہ ملک کی آیت کے ذریعے یہ بات واضح کر دی گئی کہ موت و حیات کی تخلیق کا اصل سبب ہی کردار کی آزمائش ہے۔یہ دنیا دارالعمل ہے‘ اچھے اعمال سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ برے اعمال تخریب شخصیت کا باعث بنتے ہیں۔ انسان کو پیدائشی طور پر ہی تما م مخلوقات پر برتری اور فضیلت بخشی گئی لیکن اپنے ہم جنسوں پر برتری اور فضیلت کے حصول کے لئے انسان کو اپنی شخصیت کی تعمیرکی ضرورت ہوتی ہے اسی وجہ سے دنیا کو دارالعمل قرار دیا گیاہے۔تعمیر شخصیت کے لئے اسلام ہماری مکمل رہبری و رہنمائی فرماتا ہے۔قرآن اور اسوہ رسول اکرم ﷺ کی روشنی میں ایمان ویقین(Faith) ،علم (Knowledge)،تفکر(Deliberation)، نیت،ارادہ (Motive) ،عمل (Execution)، اور نتیجہ عمل(Consequences)اور احتساب شخصیت سازی کے اہم عناصر قرار دیئے گئے ہیں۔
ایمان و یقین (Faith)؛۔
ایمان و یقین سے مراد وہ جذبہ ہے جو انسان کو غفلت ،بخل اور بزدلی سے آزاد کرکے تذبذب اور بے یقینی کا خاتمہ کردیتاہے۔ ایمان اقرار ،تصدیق اور عمل سے مربوط ہے۔ایمان دعوے کانہیں بلکہ رویوں (Attitude)کانام ہے ایما ن ایک ایسا جذبہ ہے جوانسان کو خالق کائنات کی ہیبت ،عظمت ،کبریائی اور محبت سے سرشار کرتا ہے، نبی اکرم ﷺ کی اطاعت پر مائل کرتا ہے ۔ ایمان انسان کو نہ صرف اللہ اور اس کے رسول کو ماننے بلکہ اللہ اور رسول کی ماننے کے لائق بناتا ہے۔ایمان سلوک اور مسلسل عمل کانام ہے۔ایمان جب ٹھیک ہوتا ہے توزندگی کے سارے معاملات درست ہوجاتے ہیں۔ایمان آدمی میں اچھا کردار پیدا کرتا ہے۔، چوری،جھوٹ،خیانت،رشوت ،دھوکہ،فسق و فجور،شراب خوری،زناسے اسے باز رکھتا ہے۔ برے کاموں سے روکتا اور اچھائی کاحکم دیتا ہے۔ایمان زبانی دعوے کا نہیں بلکہ عمل کا نام ہے۔ ایک صحابی نے نبی اکرم ﷺ سے نصیحت کے لئے کہا، آپ ﷺ نے فرمایا’’کہو!میں اللہ پر ایمان لایا،پھر اسی پر استقامت اختیار کرو۔‘‘ ایمان و یقین کی اسی طاقت نے دنیا میں ایک مثالی انقلاب برپا کیا ۔ علم ،اخلاق،فکر و فلسفہ ،سیاست اور حکومت کے میدان میں ایسی بے شمار عبقری شخصیات پیدا کیں جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی۔ایمان استقامت اور ثابت قدمی کا نام ہے۔
علم(Knowledge)؛۔
تعمیر ذات میں علم کی کلیدی حیثیت ہے۔ علم انسان کو خیر و شر سے آگاہ کرتاہے اور جاہلوں سے آدمی کو ممتاز کرتا ہے۔’’اے بنی کہہ دیجئے کیا علم والے(عالم) اوربے علم (جاہل ) برابر ہوسکتے ہیں‘‘(سور ہ الزمر آیت 9)۔علم عرفان ذات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔نفس کی پہچان کے لئے علم ضروری ہے اسی لئے کہا گیا ہے ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانااس نے رب کو پہچانا‘‘۔علم خیر و شر کے حدود متعین کرنے کے علاوہ انسان کو خشیت الہی سے آراستہ کرتا ہے اور یہ ہی خشیت اسے خیر پر مائل اور شر سے دور رکھتی ہے۔’’بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں علم والے(عالم ) ہی ڈرتے ہیں‘‘۔(سورہ فاطر آیت 28)علم ایک امکانی طاقت ہے لیکن جب اس کے مطابق عمل کیا جاتا ہے تو یہ ایک حقیقی طاقت بن جاتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں ایمان(علم) کے ساتھ عمل کی تلقین مربوط نظر آتی ہے۔پاکیزہ علم دل اور دماغ کی تربیت کرتا ہے۔علم انسان میں کردار کی مضبوطی ،ضبط نفس ،سننے سیکھنے اور جاننے کا جذبہپیدا کرتا ہے۔
تفکر(Deliberation)؛۔
علم کا دوسرا مرحلہ تفکر اورغور و خوض ہے۔غور و فکر کی صلاحیت انسانی ذات کوگہرائی اور گیرائی عطا کرتی ہے۔تفکر انسان پرانفس اور آفاق کیحقیقتیں کھول دیتا ہے۔تفکر ذہن و عقل پر پڑے راز و ظلمتوں کے پردے چاک کردیتا ہے۔فطر ی صلاحیتوں کے حساب سے انسان دنیا میں پائی جانے والی بہت ساری مخلوقات میں بہت کم فطری صلاحیتوں کا حامل ہے۔یہ پرند ے کی طرح اڑنا نہیں جانتا،چیتے کی طرح دوڑ نہیں سکتا ،مچھلی کی طر ح تیر نہیں آتا،بندر کی طرح درختو ں پر چڑھ نہیں سکتا،نہ عقاب کی طرح تیز نظر ہوتی ہے اور نہ بلی کے پنچوں کی طرح مضبوط پنچے۔ پھر بھی انسان عظیم اس لئے ہے کہ اس میں سوچنے کی عظیم صلاحیت پائی جاتی ہے۔یہ اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے جبکہ جانور اپنے ماحول کے تابع رہتے ہیں۔انسان غور و فکر کی کوتاہی کی وجہ سے مکمل طور پر اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ تسخیر کائنا ت کے لئے تسخیر ذات ضروری ہے اور تسخیر ذات و کائنات کے عمل میں تفکر اور غورو فکر انسان کے لئے بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔
نیت ،ارادہ (Motive)؛۔
نیت کے بغیر شخصیت کی تعمیر ناممکن ہے۔ عمل و کردار کی دنیا میں نیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘۔انسان کا عمل اس کی نیت کا عکاس ہوتا ہے۔جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اس کا عمل ہوگا ۔ اسی وجہ سے شخصیت کی تعمیر میں نیت کی درستگی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔نیت دراصل ایک بیج ہے اگر بیج اچھا ہوگا تب ہی اس سے بہتر پودا اور عمدہ پھل حاصلہوں گے۔
عمل (Execution)؛۔قرآن عملیات کی نہیں بلکہ عمل کی کتاب ہے۔ حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ سخت جدوجہد کا عملی نمونہ ہے۔ محنت شاقہ اور ڈسپلن ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کو برتر انسان بنایا اور رسول اکرم ﷺنے ہماری محنت کی سمت اور سانچے کو بھی متعین کردیا ہے۔ غلط سمت میں دوڑنے والا یقیناًمنزل سے دور ہوجاتا ہے اور غلط سانچے میں خود کو ڈھالنیسے شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر محض خواہش ،علم، غوروفکر، اچھی نیت و ارادے سے انجام نہیں پاتیبلکہ شخصیت معاون عناصر کوعمل کے قالب میں ڈھالنے سے ممکن ہوتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر آرزؤں سے نہیں بلکہ آرزؤں کو حقیقت میں بدلنے سے ہوتی ہے۔ قرآن فرماتا ہے ’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘(سورہ نجم آیت 54) ضروری ہے کہ انسان شخصیت کی تعمیر میں سعی و عمل سے کام لے۔عمل سے فرار نہ اختیار کرے خواہشات پر اکتفا نہ کرے بلکہ خواہش کے بیج کو اپنے عمل ، تدبیر اور سعی و کوشش سے بیج کو سایہ دار ،ثمر آور شجر میں تبدیل کردے۔ خواہش کو عمل کے سانچے میں ڈھالیں۔
نتیجہ عمل(Consequences)؛۔ نتیجہ عمل شخصیت کے تعمیر ی عمل میں آخری پڑاؤ ہے لیکن یہ ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ کامیابی کی صورت میں آدمی غرور و تکبر کا شکار ہوسکتا ہے یا ناکامی کی صورت میں ناامیدی اور بے یقینی کا ۔ یہ دونوں بھی کیفیات انسانی شخصیت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔شخصیت کی تعمیر کاایک اسلامی اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی کامیابی کو اللہ کے فضل و کرم سے تعبیر کرے اور کامیابی پر شکر ادا کرے ۔تکبر اور غرور کا ہرگزمظاہر ہ نہ کرے۔ناکامی کی صورت میں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ناامید ہونے کے بجائے دانشوری اور حکمت سے کام لیتے ہوئے کامیابی کے بہتر راستے ڈھونڈے۔ کامیابی کے لئے عمل میں دوام و استقامت کردار کاایک لازمیجزو ہوتاہے۔ محض ایک یا دو مرتبہ کی کوشش سے دل خواہ نتائج حاصل ہونا ضروری نہیں ہے۔مقاصد کے حصول کے لئے مسلسل جدو جہد درکار ہوتی ہے۔ اس وقت تک سعی و کوشش سے کنارہ کشی اختیار نہ کریں جب تک آپ کی محنت رنگ نہ لائے۔ اس کے لئے آپ کو خواہ کتنی ہی محنت ،مشقت، اذیت و تکلیف سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے۔یہی فکر حقیقی طور پر انسان کی شخصیت کو سنوار کر اسے فخرا ور تقلید کے قابل بناتی ہے۔
یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
مایوسی ایک ایجنڈا
مشہور کہاوت ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے، دنیا میں انسان امیدوں کے سہارے زندگی گزار تاہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تومایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے ۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتاہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتاہے ۔اس کی محنت اورجدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتاہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتں لگا تاہےاور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتاہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتاہے مگر یہی وہ اُمیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتاہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تویہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتاہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہو۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پرکاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا اُمیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھےمسائل کا ایک جنگل تھا مگراس وقت اُمیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کسی جماعت پراعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔
ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا رب اللہ ہےاس کی رحمت بڑی وسیع ہےاس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔...
مسلمانوں کی حکمرانی اور زوال
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب علمی، سائنسی، ثقافتی، اور سیاسی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ ابتدائی اسلامی خلافتیں، جیسے خلافت راشدہ، اموی خلافت، عباسی خلافت، اور بعد ازاں عثمانی سلطنت، اسلامی دنیا کی طاقت اور عظمت کی علامت رہی ہیں۔ ان حکمرانوں نے نہ صرف اپنے علاقوں کو وسیع کیا بلکہ علمی اور فکری میدانوں میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ تاہم، تاریخ کے ساتھ ساتھ، یہ عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں، اور مسلمانوں کی حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ یہ زوال محض کسی ایک وجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ مختلف عوامل اس کی بنیادی وجوہات بنے۔
مسلمانوں کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے چند بنیادی عوامل کارفرما تھے۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو علم، انصاف، مساوات، اور اتحاد کی طرف راغب کیا۔ خلافت راشدہ کا دور خاص طور پر ایک مثالی دور سمجھا جاتا ہے، جہاں خلیفہ اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات تھے اور انصاف کا بول بالا تھا۔ علم و تحقیق کو فروغ دیا گیا اور بغداد، دمشق، قرطبہ اور دیگر شہروں میں علمی و سائنسی مراکز قائم کیے گئے۔
اسلام نے نہ صرف مذہبی اعتبار سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ مسلمانوں کو ایک متحد امت میں تبدیل کر دیا۔ اسی اتحاد اور ایک مضبوط قیادت کی بدولت مسلمان دنیا کے مختلف خطوں میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔مسلمانوں کی حکمرانی کا زوال مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا، جن میں اندرونی اور بیرونی عوامل دونوں شامل تھے۔
مسلمان حکمرانوں میں جب قیادت کا فقدان پیدا ہوا، اور حکومتیں بدعنوانی کا شکار ہوئیں، تو ان کے درمیان آپسی اختلافات بڑھتے گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد، اموی اور عباسی خلافتوں میں حکمرانوں کے اندرونی خلفشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔ یہ خلفشار اور سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو ٹھیس پہنچنے لگی۔
خلیفاؤں کی جگہ بادشاہت اور موروثی نظام نے لے لی، اور خاندانی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے۔ انصاف اور احتساب کی وہ روح جو خلافت راشدہ میں دیکھی گئی تھی، رفتہ رفتہ غائب ہو گئی، اور حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔
ابتدائی مسلم دور میں علم و تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں، فلسفیوں، اور ماہرینِ ریاضی نے دنیا کو نئے افکار دیے اور یورپ کو بھی علمی روشنی فراہم کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، علم کی اس جستجو میں کمی آتی گئی۔ علم و تحقیق کی جگہ قدامت پسندی اور روایت پرستی نے لے لی، اور علمی ترقی رک گئی۔
عباسی دور کے بعد، مسلمانوں میں علمی زوال تیزی سے بڑھا۔ مدارس میں صرف مذہبی علوم پر زور دیا گیا، اور دنیاوی علوم اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کیا گیا۔ اس علمی جمود نے مسلمانوں کو دنیا کی باقی قوموں سے پیچھے دھکیل دیا، اور یورپ میں ہونے والی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے برعکس، اسلامی دنیا میں کوئی بڑا علمی انقلاب نہ آ سکا۔
مسلمانوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت تھی۔ خلافتِ عباسیہ کے بعد،...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
جزاک اللّٰہ خیرا