معصوم قلی اور بھاری بستے

قلی کے نام سے تو آپ واقف ہی ہیں۔ جی جی !وہی، ریلوے اسٹیشن پر اتریں تو اولاََ جو آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ مخصوص ٹوپی اور معمولی سے لباس میں ملبوس ہمہ وقت خدمت کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ آپ کا بھاری بھر کم بیگ، بورا، توڑا آپ کا لایا ساز و سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے آپ کی آسانی کا سامان کرتے، معمولی سا معاوضہ لے کر کسی دوسری گاڑی کی آمد کے منتظر بیٹھ جاتے ہیں کہ گاڑی آئے اور وہ کسی اور کی خدمت کر کے اپنے بیوی بچوں کے لیے ٹکڑا پیدا کر سکیں۔ ایسے بہت سے قلی بھی آپ نے سامان ڈھوتے دیکھے ہوں گے؛ بے ساختہ آپ کو ترس بھی آیا ہوگا کہ گرمی کی شدت، ٹھٹھرتی سردی،لاغر و نحیف سا جسم، صبح دیکھتے ہیں نہ شام، بس جتے رہتے ہیں کاروبار زندگی میں، کہ پیٹ بھی تو پالنا ہے۔اور ہم انا کے بوجھ تلے دبے بابو بن کر پاس سے گزر جاتے ہیں۔
میں نے بہت سے قلی دیکھے ہیں۔ سکھر کی چھوہارہ منڈی میں ایسے قلی بھی دیکھے جو من من کے وزنی بورے، گاڑی سے اتار کر گوداموں میں یا گوداموں سے ٹرکوں اور مختلف گاڑیوں میں منتقل کرتے تھے۔ میں نے لکڑ منڈی میں بھاری چھیلے ہوئے درخت اٹھاتے مزدور بھی دیکھے۔ میں نے سبزی منڈی میں منوں وزنی توڑے، بوریاں اٹھائے ٹرکوں میں سامان بھرتے باربردار بھی دیکھے۔ ابھی کل ایسے قلی دیکھے جو گھسٹ کر چل رہے تھے۔ جن کے کندھوں پر بھاری بھر کم بستے، ان کے لیے کسی طور اس بوجھ سے کم نہ تھے جو قلی اسٹیشنوں پر ڈھوتے ہیں۔ بیچاروں کا اترا ہوا منہ،ڈھلکے ہوئے کندھے، خود کو سنبھالیں یا اپنا بستہ سنبھالیں۔ تعلیم کے نام پر اسکول سربراہان کی طرف بھاری بھر کم کتب کا نصاب، ڈبل ڈبل کتابیں، ورک بک، ایکٹیوٹی بک، نوٹ بک اور پتا نہیں کون کون سی بکس، بستوں میں بھر کر معصوم بچوں پر لاد کر صبح اسکول آتے اور شام کو وہی بوجھ لاد کر گھر جاتے ہیں۔ آپ نے نہیں دیکھے؟ تو فرصت نکال کر ضرور دیکھیے گا۔ اور ہمت کر کے اس نرسری ، پریپ، فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے بچے کے کندھے پر لدے بستے کو اٹھا کر چیک کیجئے۔ پھر انصاف سے فیصلہ کیجیے گا کہ آیا یہ بچہ اتنا بوجھ اٹھانے کا متحمل بھی ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ ماہ و سال یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اور اس بوجھ اٹھانے کا انہیں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ الٹا بھاری بھر کم فیسیں ہم خود لے جا کر اسکول کے گرو کی خدمت میں پیش کرتے ہیں کہ جناب کا شکریہ۔ جناب نے پورا مہینہ بچو ں کو مبتلائے بوجھ رکھا۔ جناب نے گھر کے شورشرابے سے کانوں کو سکون بخشا۔ جناب نے ہمارے بچوں کو آگاہی کے نام پر وقت کا ضیاع کروایا۔ جناب کے وضع کردہ بھاری نصابی کتب سے تعلیمی کارکردگی تو جو رہی سو رہی؛ بچے کے شانوں، کندھوں، پنڈلیوں میں درد کی ٹیسیں اٹھیں، اور اسے اس بچپن میں ہی بوجھ اٹھانے کا عادی کر دیا۔ حضور یہ معاوضہ قبول فرمائیں۔ اور پھر مہر ثبت کی گئی رسید لے کر بڑی شان سے نکل کر گھر جاتے ہیں کہ چلو مہینے بھر بچوں کو سنبھالنے کا معاوضہ دے دیا۔ یقین کیجیے انتہاکا ظلم اور بے حسی ہے۔
لیکن بے بس و مجبور قلی وہ سامان صبح و شام ڈھونے پر مجبور ہیں۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان پر مسلط کردہ اس بوجھ سے ان معصوموں کا انگ انگ ہل جاتا ہے۔ کندھے ڈھلک جاتے ہیں۔ کمر اور بازووں میں تکلیف، ٹانگوں میں شدید درد، لیکن فکر نہ والدین کو ہے نہ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو کہ وہ معصوم بچوں پر ظلم کر کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور متعلقہ اداروں کو تو ویسے بھی فرصت نہیں۔ بچوں کے ڈاکٹر سے رجوع کریں تو دھنگ رہ جائیں کہ کمر اور کندھوں کے درد کے مرض میں مبتلا بچوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔عقل و دانش رکھنے والے مسیحا دوا سے زیادہ احتیاط برتنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ کہ دوا کی ضرورت تو نہیں البتہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور بوجھ سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی اداروں کے منتظمین ایک دن اپنی کار میں پچھلی سیٹ پر رکھے بیگ کو اپنے بچے کی کمر پر لاد کر پیدل اسکول بھجوانا پسند کریں گے؟ ہر گز نہیں کیوں کہ ان کا بچہ بستے کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا۔ تو دوسرے معصوم بچوں پر ان کی نظریں کیوں ترس نہیں کھاتیں؟ مان لیا تعلیم بہت ضروری ہے۔ اسکول والے بچوں کو مصروف رکھنے کا معاوضہ بھی لیتے ہیں لیکن خدا کے لیے معصوموں کے بچپن کا ہی خیال کر لیں۔ اب سب تو اتنی حیثیت نہیں رکھتے ناں !کہ گاڑی و ملازم کا انتظام کریں جو بچے کا بیگ اٹھا کر اسکول و گھر پہنچائے۔ وہ اسکولوں کی فیسیں ادا کر لیں بڑی بات ہے۔ دیکھا جائے تو وہ لوگ بھی تو ان پڑھ نہیں رہے جو معمولی سے بستے میں چند کتابیں کاپیاں، ہاتھ میں لکڑی کی تختی تھامے خراماں خراماں اسکول جاتے اور ویسے ہی اچھلتے کودتے واپس آجاتے تھے۔ انہوں نے بھی تو نام پیدا کیا جو کندھے سے بستہ لگائے پتلی پتلی تین کتابیں ایک سلیٹ اٹھائے اسکول جاتے تھے۔ نہ تعلیم کا بوجھ تھا ،نہ بستے کا بھاری پن؛ نہ ہی کوئی تیسری الجھن۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان معصوموں کے لیے ایسی مختصر نصابی کتاب وضع کی جائے۔ جس سے بچے کی ابتدائی ضرورت پوری ہو۔ دسیوں قسم کی نوٹ بکس کے بجائے ایک ہی کاپی پر کام چلایا جا سکتا ہے۔ آٹھ قسم کی کتابوں کے ساتھ دس قسم کی کاپیاں ضروری تو نہیں۔ ایسا بھی تو ممکن ہے ایک ہی کتاب بمع مشقی اسباق کے وضع کر کے ضرورت پوری کی جا ئے اور بھاری بوجھ سے چھٹکارا دلایا جائے۔
خدا کے لیے بچوں پر ترس کھائیں اور بقول ہمارے بزرگ ادیب جناب رضا علی عابدی کے ’’ہمارے پرانے نظام کو بحال کریں ‘‘،اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ وگرنہ ہمارے بچے ابھی سے بڈھے ہو جائیں گے۔ کمر کے درد میں مبتلا، بیمار اور معصوم بچے ہم کھو دیں گے۔ خدا کے لیے بچوں کو بچہ ہی رہنے دیں قلی نہ بنائیں ۔کیا کوئی ہے جو اس ظلم و بے حسی کے سدباب کے لیے آگے آئے؟کیاکوئی ہے؟؟

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں