گزشتہ بلاگ میں عالم اسلام پر چنگیزی یلغار کے سلسلے میں سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ جسے بڑی تعداد نے پسند کیا اور کئی احباب نے چنگیزی یلغار پر مزید لکھنے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ اس سلسلے کو وسعت دیتے ہوئے اب سلطنتِ خوارزم کے دارالحکومت اور گنج کی تباہی کو قلمبند کیا جارہا ہے اور ضمنی طور پر خوارزم کی عظیم روحانی شخصیت شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کا احوال بھی پیش خدمت ہے۔
اور گنج:
اور گنج کا شہر جسے انگریزی میں Urgenchلکھتے ہیں دریائے آموکے کنارے واقع تھا۔ یہ شہر عالم اسلام پر چنگیز خان کی یلغار کے وقت سلطنت خوارزم کا دارالحکومت تھا۔ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے سمر قند اور بخارا اس شہر کے ہم پلہ تھے۔ اور گنج اُس وقت صنعت و حرفت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ خوارزم کا دارالحکومت ہونے کے سبب علاقائی تجارت کا مرکز بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ معاشی طور پر اورگنج کی حیثیت خوارزم کے دیگر شہروں میں نمایاں تھی۔
دریائے آمو کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں مچھلیوں کا کاروبار عروج پر تھا۔ اورگنج کی دریائی مچھلیوں کی مانگ پورے خوارزم میں تھی۔ اس کے علاوہ اورگنج کے خشک میوہ جات بھی بہت مشہور تھے۔ تلوار سازی اور مروجہ جنگی سازو سامان کی صنعت کے حوالے سے اورگنج کی نمایاں حیثیت تھی۔ دینی اور عصری علوم میں اورگنج کے مدارس اور جامعات یکتا تھیں۔ ’’جامعہ اور گنج‘‘ خطے کی مشہور جامعہ تھی جس کے شیخ الحدیث علامہ فخر الدین رازیؒ جیسے نابغہ روزگار شخص تھے۔ صاف ستھرے محلے، خوشنما باغات، خوبصورت مساجد اور ان مساجد کے بلند و بالہ مینار اور دیدہ زیب گنبد اور گنج کی پہچان تھے۔ دفاعی نکتہ نظر سے شہر کی حفاظت مضبوط اور مستحکم فصیل کے ذریعے کی جاتی تھی۔ اور گنج کی فصیل اونچائی اور مضبوطی کے لحاظ سے خوارزم کے دیگر شہروں سے منفرد تھی۔ (چنگیزی یلغار کے وقت اسی فصیل نے شہر کی پانچ ماہ تک حفاظت کی۔)
سمر قند بخارا اور دیگر شہروں کی بربادی کے بعد اور گنج میں چاروں طرف سے پناہ گزینوں کا سیلاب آگیا تھا۔ یہ پناہ گزین اپنے ساتھ تباہی اور بربادی کی داستانیں لائے تھے۔ قتل و غارت گری اور تاتاری وحشیانہ پن کی کہانیاں سن کر اور گنج کی فضا بوجھل ہوگئی تھی ۔ دارالحکومت کے باسیوں میں بھی وحشی تاتاریوں کا خوف پیدا ہوگیا تھا۔ اگرچہ فصیل کی مضبوطی بہت زیادہ تھی مگر پھر بھی ایک اندیشہ عوام میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ ایسے میں سلطان علاؤالدین کی وفات اور سلطان جلال الدین کی تخت نشینی نے اورگنج کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کردی۔
جلال الدین کی بطور خوارزم شاہ اور گنج آمد:
گزشتہ ماہ تفصیل سے عرض کیا جاچکا ہے کہ علاؤالدین خوارزم شاہ چنگیز خان کی یلغار سے گھبرا کر بحرِخزر میں روپوش ہوگیا تھا۔ دوران روپوشی ہی ولی عہد سلطنت شہزادہ قطب الدین ازلاق کی بطور ولی عہد نامزدگی کا لعدم قرار دیتے ہوئے علاؤالدین خوارزم شاہ نے جلال الدین کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ چنانچہ جلال الدین خوارزم شاہ کے طور پر اور گنج میں داخل ہوگئے۔
تاتاری حملے سے خوفزدہ اور گنج کے عوام نے جلال الدین کا استقبال کیا مگر اس کے بھائی قطب الدین ازلاق نے جلال الدین کی دارالحکومت آمد بطور خوارزم شاہ کے دل سے قبول نہیں کی۔اس نازک دور میں جب تاتاری خوارزم میں تباہی مچا رہے تھے بجائے بھائی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے قطب الدین نے جلال الدین کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ دارالحکومت میں پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ تخت خوارزم کا اصل وارث قطب الدین ازلاق ہی ہے اور یہ کہ جلال الدین نے اس کا حق غضب کرلیا ہے۔ آہستہ آہستہ قطب الدین نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کا گروہ منظم کرلیا۔
ادھر سمر قند میں چنگیز خان کو یہ اطلاع ملی کہ خوارزم شاہ کا انتقال ہوگیا ہے اور جلال الدین کی تخت نشینی پر اختلافات پیدا ہورہے ہیں تو اس نے اور گنج پر حملہ کرنے کیلئے یہ وقت بہترین خیال کرتے ہوئے اپنے لشکر کو پیش قدمی کرنے کا حکم دے دیا۔
جلال الدین کی دارالحکومت سے روانگی
اور تاتاریوں کی آمد :
دارالحکومت اور گنج میں اپنے خلاف سازشوں کو محسوس کرتے ہوئے جلال الدین نے عالم اسلام کی سر بلندی کے خاطر ایک عظیم فیصلہ کیا۔ اسے علم تھا کہ تاتاری کسی بھی وقت اور گنج پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ خوارزم کی افواج پہلے ہی تتر بتر ہوچکی تھی۔ مٹھی بھر افراد اور گنج کے دفاع کیلئے بچے تھے اگرچہ دیگر شہروں سے اور گنج میں جلال الدین کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی رضاکاروں کی آمد شروع ہوگئی تھی مگر پھر بھی صورت حال غیر اطمینان بخش تھی۔ ایسے میں جلال الدین نے قطب الدین سے لڑنے کے بجائے کہ اس میں مسلمانوں کا سراسر نقصان تھا ایک عجیب قدم اٹھایا۔ اس نے دارالحکومت قطب الدین کیلئے خالی چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ انخلاء کا فیصلہ کرلیا۔ امت مسلمہ کی خاطر اقتدار چھوڑنے کی روایت تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ مگر جلال الدین خوارزم شاہ نے آپس کے خون خرابے سے بچنے کے خاطر اور گنج کا دفاع قطب الدین ازلاق کے سپرد کرتے ہوئے اور گنج سے روانگی اختیار کرلی۔
جلال الدین کے جاتے ہی قطب الدین کو تاتاریوں کی آمد کی اطلاع ملی۔ اب وہ گھبرا یا کہ اکیلا کس طرح تاتاریوں کا مقابلہ کرے ۔ قطب الدین نے شاہی خزانہ سمیٹا اور اپنے اہل خانہ کو ساتھ لے کر دارالحکومت سے فرار ہوگیا۔ اس کے جاتے ہی تاتاری لشکر باجی نویان کی قیادت میں اورگنج پہنچ گیا۔ ابن خلدون کے مطابق اورگنج سے جلال الدین کی روانگی کے تین دن بعد ہی باجی نویان لشکر جرار کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
پہلا معرکہ:
محاصرہ شروع ہوتے ہی ایک دن تاتاریوں نے شہر کے نواح میں موجود اہل شہر کے مال مویشی ہانک کر تاتاری لشکر کی سمت لے جانے شروع کئے اور گنج والوں نے یہ دیکھ کر تاتاریوں کا پیچھا شروع کردیا۔ کئی میل دور تک مسلمانوں نے تاتاریوں کا تعاقب کیا اور پھر گھات لگائے تاتاریوں نے مسلمانوں کو اچانک گھیر لیا اور زبردست حملہ کردیا۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اس میں دونوں فریقوں کا سخت جانی نقصان ہوا۔ بالآخراہل اور گنج شہر کی طرف پسپائی اختیار کرتے ہوئے واپس ہوئے۔ تاتاری پیچھا کرتے ہوئے شہر کے اندر تک داخل ہوگئے مگر پھر واپس آگئے ۔ اگلے دن باجی نویان نے فصیل پر بھر پور حملہ کردیا۔ مگر اس حملے کو اورگنج کے سپاہ نے ناکام بنا دیا۔
چنگیز خان کے بیٹوں کی آمد:
چنگیز خان کو معلوم تھا کہ اورگنج کا دفاع بہت سخت انداز میں کیا جائے گا اور پھر شہر کی فصیل کی مضبوطی کا بھی اسے علم تھا ۔چنانچہ اس نے اپنی پوری قوت اور گنج کی طرف روانہ کردی۔ سب سے پہلے اور گنج کا محاصرہ کرنے والی سپاہ سے چنگیز خان کا بیٹا اوکتائی خان اپنی سپاہ کے ساتھ آکر مل گیا۔ اس کے بعد مشہور تاتاری سالار بقرجن نویان ، چنگیز خان کا دوسرا بیٹا چغتائی خان اور پھر بڑا بیٹا جوجی خان اپنے اپنے لشکر کے ساتھ پہنچتے چلے گئے ۔ اسی طرح تاتاری لشکر کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ محاصرے میں چنگیز خان نے جتنی سپاہ استعمال کی اتنی سپاہ کسی اور حملے میں استعمال نہیں کی۔ علامہ ابن اثیرؒ لکھتے ہیں، ’’چنگیز خان نے لشکر کا جو حصہ اور گنج بھیجا تھا وہ باقی تمام حملوں کی فوجوں سے بڑا تھا۔‘‘
امیر خمار ترکی کی مزاحمت اور تاتاریوں کی طرف
سے فصیل پر تنوں کی بارش:
اور گنج میں اب شاہی خاندان کا کوئی بڑا موجود نہ تھا ۔ اہلِ شہر نے اب خمار ترکی نامی امیر کو حاکم تسلیم کرتے ہوئے اس کی قیادت میں تاتاریوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ سمر قند اور بخارا کی نسبت اورگنج میں تاتاریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ خمار ترکی کے شب خون حملوں اور چھاپہ مار دستوں نے تاتاریوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف فصیل شہر کو نقصان پہنچانے کے لیے تاتاریوں نے درختوں کے تنے جمع کئے اور انہیں پانی میں بھگو کر بھاری کرلیا اور پھر ان تنوں کو منجیقوں کے ذریعے فصیل کی دیوار پر برسانا شروع کردیا۔ اس بارش سے کئی جگہ شگاف پڑ گئے۔ مگر شہر والوں نے ان شگافوں کو فوراً بند کردیا۔ اس کے علاوہ منجیقوں سے آتش گیر مادہ بھی برسایا جاتا رہا۔
شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ
اور گنج کا ذکر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کے بغیر نا مکمل رہے گا۔ آپ سلسلہ کبرویہ کے بانی اور وقت کے مشہور صوفی بزرگ تھے۔ آپ کا شمارماورالنہر کے صاحبِ طریقت بزرگوں میں ہوتا تھا۔ آپ ایک عرصے سے اورگنج میں مقیم تھے۔ تاتاری حملے سے قبل آپ نے اپنے خلفاء کی مجلس طلب کی اور ان سے فرمایا کہ ’’عنقریب ایک فتنہ اس شہر پر نازل ہونے والا ہے جس سے ہر چیزبرباد ہوجائے گی، لہٰذا تم سب لوگ اپنے اپنے علاقوں کی طرف نکل جاؤ اور یہ شہر چھوڑدو۔ ‘‘
آپ کے ایک خلیفہ نے کہا کہ حضرت آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں جس پر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے فرمایا کہ مجھے حکم نہیں ہے اور میں یہیں شہید ہوگا۔ سوال کیا گیا کہ حضرت آپ اس فتنے کے فرو ہوجانے کی دعا کیوں نہیں کرتے؟ جس پر شیخ نے جواب دیا کہ یہ مشیت ایزدی ہے اور اسے کوئی نہیں ٹال سکتا ۔ جامع التواریخ کے مصنف نے اس واقعے کو تفصیل سے درج کیا ہے۔
بہر حال شیخ نے فتنہ تاتار کے وقت اور گنج سے ہجرت نہیں کی اور جب چنگیز خان کے بیٹوں نے اورگنج کا محاصرہ کرلیا تو چنگیز زادوں کو شیخ کی کرامات کے بارے میں بتایا گیا۔ چنگیز زاد ے ان باتوں سے متاثر ہوئے اور انہوں نے شیخ نجم الدین کبریٰ کو پیغام بھیجا کہ آپ کو امان دی جاتی ہے اور آپ فوراً شہر سے نکل جائیں کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہماری مہم کا انجام غارت گری کے سوا کچھ نہ ہو۔
اس پر شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے وہ جواب دیا ہے جسے آج تک تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا:
’’اس شہر میں میرے مریدین رہتے ہیں، انہیں چھوڑ کر اگر میں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘
اس پر تاتاریوں نے آپ کو اپنے ساتھ دس افراد کی جان بخشی کی پیشکش کی جسے آپ نے قبول نہیں کیا۔ اس پر آپ کو سو افراد کو ساتھ لے جانے کی پیش کش کی گئی جسے آپ نے پھر منع فرمادیا۔ آخر میں چنگیز خان کے بیٹوں نے شیخ سے کہا کہ آپ اپنے ساتھ ایک ہزار افراد لے جائیں ہم کوئی تعرض نہیں کریں گے ، جس پر آپ کا جواب تھا:
’’یہ کیسے ممکن ہے کہ جس قوم کے ساتھ میں نے سکون کے ستر سال گزارے ہیں، مصیبت کے وقت میں انہیں چھوڑ کر چلاجاؤں ۔ میری غیرت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ ‘‘(جامع التواریخ)
چنانچہ شیخ نجم الدین آخر وقت تک اور گنج میں رہے اور پھر تاتاریوں سے جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے۔اس طرح شیخ نے حمیت اور غیرت کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
سفاکیت اور درندگی کا انوکھا منصوبہ اور
چنگیززادوں میں اختلاف:
عالم اسلام پر تاتاریوں کی جانب سے کی جانے والی لشکر کشی تقریباًدو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس لشکر کشی کے دوران تاتاریوں نے سفاکیت اور درندگی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ جن کی نظیر نہ ان سے پہلے کہیں ملتی ہے اور نہ ہی ان کے بعد دنیا میں کسی نے اپنی مفتوح اقوام سے ایسا سلوک کیا۔ تاتاریوں نے عام اور نہتے مسلمانوں سے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا۔ قتل و غارت گری کی وہ داستانیں رقم کیں کہ انہیں لکھتے ہوئے آج کا مورخ بھی کانپ اٹھتا ہے۔ شہر فتح کرنے کے بعد پوری پوری آبادیوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔خصوصاً وہ شہر جہاں مسلمانوں نے زیادہ مزاحمت دکھائی ان علاقوں میں تو انسانوں کے ساتھ ساتھ کتے اور بلیوں کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ پوشیدہ خزانوں کی برآمدگی کے لیے مشتبہ مالدار افراد پر تشدد کے نت نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔
مقتولین کی کھوپڑیوں کے مینار بنانا ان کا مشغلہ بن گیا تھا۔ شہر کے باسیوں سے تمام مال و دولت چھینتے ، ان کا قتل عام کرتے، اس کے بعد ان کے مکانات کو آگ لگادیتے اور اس طرح تہہ خانوں میں چھپے ہوئے لوگ بھی زندہ جل کر ہلاک ہوجاتے۔ سمر قند بخارا، قوقند، اترار اور دیگر شہروں میں عام مسلمانوں اور جنگی قیدیوں سے یہی سلوک کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ جن شہروں کو امان دی گئی اور باقاعدہ معاہدہ کرکے قبضہ کیا گیا ان شہروں میں بھی کسی نہ کسی بہانے سے یہی سلوک کیا گیا۔ ایسے مواقع پر وہ مسلمان عمائدین جو غداری کرکے تاتاریوں سے ساز باز کرلیتے انہیں بھی بعد میں قتل کردیا جاتا۔
سمر قند میں بر شمشاش خان نے عین لڑائی کے دوران اپنی تیس ہزار کی سپاہ کے ساتھ تاتاریوں سے معاہدہ کرکے مسلم لشکر سے علیحدگی اختیار کرلی۔ بعد میں کچھ دن تو برشمشاش خان اور اس کی سپاہ سے عمدہ سلوک روا رکھا گیا۔ مگر ایک رات اچانک حملہ کرکے برشمشاش خان اور اس کی تیس ہزار کی سپاہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا۔
(روضتہ الصفا کے مصنف نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے)
مقصد اس تمہید کا یہ تھا کہ اپنے قارئین کو یہ بتایا جائے کہ اور گنج والوں کے ساتھ تاتاریوں نے وہ سلوک کیا جو باقی اور کسی جگہ نہیں کیا۔ اس شہر کی تباہی کیلئے وہ سامان پیدا کئے گئے کہ جن کے باعث شہر میں موجود انسانوں کے ساتھ چرند پرند، حیوانات، باغات، ہریالی اور یہاں تک کہ تمام مکانات اور عمارتیں بھی نیست و نابود ہوگئیں۔ یعنی کہ اس شہر کا نام و نشان ہی مٹ گیا ۔ بعد میں اور گنج کے نام سے الگ شہر دوسری جگہ بسایا گیا۔
تفصیل اس سانحے کی کچھ اس طرح ہے کہ اورگنج کا شہر دریائے آمو یا دریائے جیحوں کے کنارے آباد تھا۔ تاتاری لشکر کی مدد کیلئے چنگیز خان نے اپنے تین بیٹے جوجی، اوکتائی اور چغتائی خان اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ بھیج دیے تھے کیونکہ دارالحکومت ہونے اور مضبوط فصیل شہر کے باعث چنگیز خان سخت مزاحمت کی توقع رکھتا تھا۔ اس طرح اور گنج کے باہر تاتاریوں کا عظیم الشان لشکر جمع ہوگیا۔ چغتائی خان نے اس افرادی قوت کو دریائے آمو کا رُخ تبدیل کرنے کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔چغتائی خان نے ارد گرد کے علاقوں میں موجود مسلمان قیدیوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ تاتاریوں کو لگا کر دریا میں پتھروں کا بند باندھنا شروع کردیا کہ اس طرح دریا کا رخ تبدیل ہوجاتا اور گنج کا شہر پانی میں غرق ہوجاتا ۔ چغتائی خان نے سپاہ کی بڑی تعداد اس کام پر مامور کردی۔ اس موقع پر جوجی خان نے اس منصوبے کی مخالفت کردی۔ اس نے کہا، ’’یہ شہر بہت سر سبز اور خوبصورت ہے اور مزید یہ کہ خاقان اعظم چنگیز خان نے یہ شہر مجھے بخش دیا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے۔ ‘‘چغتائی خان نہیں مانا اور دونوں بھائیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ۔ مگر اس دوران دریا پر بند باندھنے کا کام چلتا رہا۔ باہمی اختلاف کے باعث تاتاری لشکر کا نظم و ضبط کمزور پڑگیا اور ان کے حملوں میں وہ قوت نہ رہی ۔ تاتاریوں کو کمزور پڑتا دیکھ کر مسلمانوں نے حملے تیز کردئیے اور تاتاری مقتولین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔
تولی خان کی آمد
چنگیز خان اس دوران طالقان کے محاصرے میں مصروف تھا کہ اسے اس صورتحال کی اطلاع ملی۔ اس کے جاسوس نے بتایا کہ جوجی اور چغتائی کی چپقلش کے باعث تاتاریوں کا جانی نقصان ہورہا ہے۔ چنگیز خان نے فوراً اس صورتحال کو سنبھالنے کیلئے اپنے چوتھے بیٹے تولی خان کو اورگنج روانہ کیا اور اپنا ایک مکتوب اوکتائی خان کے لیے بھیجا جس میں اوکتائی خان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ حکمت سے کام لے کر جوجی خان اور چغتائی خان کے درمیان صلح کروائے۔ تولی خان اور گنج پہنچ گیا اور چنگیز خان کی ہدایات کے عین مطابق اوکتائی خان جوجی اور چغتائی کے درمیان صلح کروانے میں کامیاب رہا اور اس طرح تاتاری نئے جوش اور ولولے کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔
آخری معرکہ
تاتاریوں کا نیا انداز دیکھ کر مسلمانوں نے بھی شہر سے باہر نکل کر حملوں میں تیزی کردی۔ فصیل کی اوپر اور دروازوں کے ساتھ ساتھ دو بدو لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ اورگنج میں مسلمانوں نے بڑی بے جگری سے دفاع کیا اور تاتاری سپاہ کی بڑی تعداد قتل کی۔ شہر کے باہر تاتاریوں کی لاشوں کے انبار لگ گئے مگر ان کی تعداد اس قدر تھی کہ پھر بھی اور گنج والے کمزور ہوتے چلے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اورگنج کے سقوط کے بعد اسکے نواح میں جگہ جگہ تاتاری لشکر کے مقتولین کی باقیات تقریباً سو سال بعد تک موجود رہیں۔ اور گنج میں جتنے تاتاری مارے گئے اتنے کسی اور جگہ قتل نہیں ہوئے ۔ جامع التواریخ جو سقوط اور گنج کے سو سال بعد لکھی گئی اس کے صفحہ نمبر 313 میں مصنف فضل اللہ ہمدانی رقم طراز ہیں۔
’’تاتاریوں کی ہڈیوں کے جمع کرنے سے جو ٹیلے وجود میں آئے تھے ان کے آثار اب بھی نواحی علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ ‘‘ (جامع التواریخ)
مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔ محاصرے کے تقریباً چھ ماہ بعد آخر کار اور گنج کی فصیلوں کے شگاف سے تاتاری شہر میں داخل ہوگئے۔ شہر کے اندر بھی مختلف محلے الگ الگ دفاعی تدابیر اختیار کئے ہوئے تھے۔ ہر محلے کی اپنی فصیل بھی موجود تھی۔ تاتاری ایک کے بعد ایک محلے پر قبضہ کرتے چلے گئے۔ ہر محلے میں لڑائی شروع ہوگئی۔ عورتیں اور بچے گھر کی چھتوں سے تاتاری لشکر پر حملہ کر رہے تھے۔
مفتی علاؤ الدین خیوطی کا وفد یہ صورت حال دیکھ کر اہل اور گنج نے پہلی مرتبہ تاتاریوں سے امان طلب کی ۔ عمائدینِ شہر کا وفد مفتی علاؤالدین خیوطی کی سربراہی میں جوجی خان کے سامنے پیش ہوا اور شہر والوں کے لیے امان طلب کرنے کا خواہاں ہوا۔ مفتی صاحب نے جوجی خان سے کہا:
’’ہم آپ کی دہشت تو دیکھ چکے ہیں، اب ہمیں اپنے رحم و کرم کا نظارہ بھی کروائیں۔ ‘‘
جوجی خان نے جواب دیا،
’’دہشت تو تم لوگوں نے پھیلا رکھی ہے کہ میرے سپاہیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے ہیں، اپنی دہشت تو میں تم لوگوں کو اب دکھاؤں گا۔‘‘
اس طرح یہ وفد ناکام ہوگیا اور شہر والوں کی درخواست مسترد کردی گئی۔
شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کی شہادت
شیخ نجم الدین کبریٰ کو جب اطلاع ملی کہ جنگ اب شہر کے اندر شروع ہوگئی ہے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مریدین نے کہا کہ حضرت اس وقت باہر نکلنا خطرناک ہوگا، آپ نے جواب دیا ، ’’میں تو بس اپنے سفید بال شہادت کے رنگ سے رنگنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
شیخ کے اعلا ن کو سن کر ان کے مریدین ان کے ساتھ باہر آگئے اور آپ نے اس مٹھی بھر جماعت کے ساتھ تاتاریوں پر حملہ کردیا، پتھروں کا ایک تھیلا آپ کے پاس تھا جس سے اسّی سالہ یہ ولی کامل تاتاری سپاہ پر حملہ کرکے اصحاب بدر کی یاد تازہ کر رہا تھا،جلد ہی یہ پتھر ختم ہوگئے تو آپ نیزہ تان کر تاتاریوں کے مجمع میں گھس گئے اور کئی سپاہیوں کو ہلاک کردیا۔ ایسے میں ایک تیر آپ کے سینے میں پیوست ہوگیا۔ مورخ لکھتا ہے کہ آپ نے وہ تیر اپنے سینے سے نکال کر آسمان کی طرف اُچھا ل دیا، اور فرمایا:
’’میرے مالک میں تیری رضا میں خوش ہوں ۔‘‘
اس طرح شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ نے جام شہادت نوش کیا ، کہا جاتا ہے کہ اس زخمی حالت میں بھی آپ نے ایک تاتاری پر حملہ کرکے اس کے ہاتھ میں موجود تاتاری علم کو چھیننے کی کوشش کی اور تاتاری علم کو ہاتھوں میں اس طرح مضبوطی سے پکڑلیا کہ وہ شہادت کے بعد بھی شیخ کے ہاتھوں سے جدا نہ ہوا۔
مولانا جلال الدین رومی ؒ نے جو شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ کے خلیفہ مولانا بہاؤ الدین ؒ کے فرزند تھے اس واقعے پر فرمایا:
’’بہ یکے دست مئے خالصِ ایمان نوشند
بہ یکے دست دگر پرچمِ کافر گیرند‘‘
ترجمہ: اللہ کے عاشق ایک ہاتھ سے ایمان کی خالص شراب نوش کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے کافر کا پرچم تھام لیتے ہیں۔)
تباہی شروع ہوتی ہے
آخری حملے کے تقریباً ایک ہفتے بعد تاتاری شہر پر مکمل طور پر قابض ہوگئے مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔ اب تباہی اور بربادی کا اصل دور شروع ہوا ، جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ خوارزم بھر سے پناہ گزین اور گنج میں جمع ہوگئے تھے ان میں لاتعداد اہل ہنر دفن بھی موجود تھے۔ ان کے علاوہ بھی اورگنج میں بڑی تعدادمیں ہنر مند طبقہ موجود تھا۔ تاتاریوں نے آنے والے وقت کی ضرورت کے حساب سے ہنر مندافراد کو قیدی بناتے ہوئے الگ کردیا۔ اسی دوران شہر میں لوٹ مار کا دور چلتا رہا۔ امیر اور دولت مند افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تاکہ وہ پوشیدہ مال و دولت تاتاریوں کے حوالے سے کردیں۔ اس سلسلے میں مکر و فریب سے بھی کام لیا گیا۔ جان بخشی کے جھوٹے وعدے بھی کئے گئے ۔ غرض جب اورگنج میں لوٹنے کو کچھ باقی نہ بچا تو قیدیوں کے علاوہ تمام مرد و عورت اور بچوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ تلواریں، نیزے، چاقو غرض ہر ہتھیار اور گنج کے لوگوں پر استعمال کیا گیا ۔ یہاں تک کہ ایک بھی زندہ انسان باقی نہیں بچا۔ جامع التواریخ میں اورگنج کے مقتولین کی تعداد بارہ لاکھ شمار کی گئی ہے۔ لکھا گیا ہے کہ اس قتل عام میں پچاس ہزار تاتاریوں نے حصہ لیا۔
اب تاتاریوں نے اپنے اگلے منصوبے پر عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ عرض کیا گیا تھا کہ قیدیوں اور سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد دریائے آمو کا رُخ تبدیل کرنے کے لیے پتھروں کا بند تعمیر کررہی تھی۔ جوجی خان اور چغتائی خان کی چپقلش کے دوران بھی اس منصوبے پر کام چلتا رہا۔ بعد میں جب اوکتائی خان نے باہمی اختلاف ختم کیا تو اس منصوبے پر کام اور تیز کردیا گیا۔ اب جب اورگنج کا قتل عام مکمل ہوگیا تو باقاعدہ طور پر دریائے آمو کا رخ تبدیل کرکے اورگنج شہر کی جانب کردیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر پانی میں غرق ہوگیا!
تباہی اور بربادی کی یہ وہ مثال ہے جو انسانی تاریخ میں شاید ہی اور کہیں ملے کہ ایک بھرے پڑے شہر کی آبادی کو قتل کرکے اسے پانی میں اس طرح غرق کردیا گیا کہ تمام جاندار ، نباتات، کیڑے ، مکوڑے اور عمارتیں دریا کی تند و تیز موجوں میں غائب ہوگئیں۔ اس طرح مکانات کے خفیہ کمروں اور تہہ خانوں میں پوشیدہ انسان بھی غرق ہوگئے۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ المیہ تھا کہ جس نے سنا اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ اس طرح بھی ممکن ہے ۔
ابن اثیر ؒ اپنی تاریخ ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’تاتاریوں نے اس شہر کو مکمل طور پر غرق کردیا، عمارتیں تہہ و بالا ہوگئیں، ان کی جگہ پانی نے لے لی، دوسرے شہروں میں تو کئی لوگ بچ جاتے تھے لاشوں کے نیچے چھپ کر یا تہہ خانوں میں پناہ لے کر مگر اس شہر میں جو بچ گیا اسے پانی نے غرق کردیا یا عمارتوں کے گرنے سے ہلاک ہوگیا۔ ‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
12 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ عدیل سلیم صاحب ہمارے نوجوانوں کے لیے عام فہم انداز میں اس علاقے کے عروج و زوال کی داستان قلم بند کر رہے ہیں جس کو پاکستان کے مورخین نے افسوس ناک طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے. یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے برصغیر پاک و ہند کے تہذیبی ڈانڈے ملتے ہیں. خطہ عرب سے محمد بن قاسم کی فاتحانہ آمد اور المناک واپسی کے بعد ایک طویل وقفے تک مسلمانوں کی آمد برصغیر میں معطل رہی. جس کے بعد برصغیر کے شمال سے مسلمانوں کی دوبارہ فاتحانہ آمد شروع ہوئی. اس طرح مضمون میں مذکور علاقوں سے فاتحین کے ساتھ ساتھ وہاں کی تہذیبی زندگی بھی برصغیر میں در آئی جس کی مماثلت آج بھی ان خطوں میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے. دیر آید درست آید کے مصداق عدیل سلیم صاحب کی یہ کاوش قابلِ تحسین ہے.
شاندار عدیل صاحب تاریخ کی گم گذشتہ گوشوں دے نئی نسل کوروشناس کرنے کے لئے دلچسپ و عام فہم انداز میں لگنا آپ ہی کا خاصہ ہے۔
امید ہے کہ آپ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ خدا کرے زور قلم او ذیادہ۔
ما شاء اللہ
.
اللہ کریم
آپ کے علم میں
مشاہدہ میں
دور اندیشی میں
قلم میں
عجز میں
وسعت، برکت، روانی و فراوانی عطا فرمائے
خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں
.
جاوید اختر آرائیں
بہت اہم اور تاریخی موضوع کو عدیل سلیم نے سہل اور سادہ بنا کر قاری کو تاریخ کی گم گشتہ گلیوں کی طرف بہت عمدگی سے مائل کیا ہے۔ یہ سلسلہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ جاری اور مکمل ہو کر کتابی صورت میں اور آن لائن مہیا ہونا چاہئیے تاکہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور پڑھنے والے اس سے ہمیشہ استفادہ حاصل کر سکیں۔
ماشاء اللہ ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
امجد محمود صاحب!
آپ نے درست کہا کہ ان علاقوں کی تاریخ پر بہت کم لکھا گیا ہے جن کے سماجی اثرات برصغیر پاک و ہند کے باشندوں پر بہت گہرے نظر آتے ہیں ۔
بالخصوص ان تاتاری سرداروں کا تذکرہ جو بعد میں مسلمان ہو گئے اور ان ہی میں سے ایک نے برصغیر میں مغل سلطنت کی بنیاد ڈالی ، جن کے لئے اقبال نے کہا تھا “پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے “
ماشاءاللہ بہترین تحریر۔ تاریخ کے گمنام گوشوں کو آسان فہم انداز میں روشناس کرا نے کا جو سلسلہ بھائی عدیل سلیم نے شروع کیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔
لائق تحسین ہیں آپ کی یہ کاوشیں۔ اللہ آپ کے قلم کو مزید نکھار عطا کرے اور آپ اسی طرح اپنی تحاریر سے ہمیں مستفید کرتے رہیں۔
شکریہ تمام احباب کا ۔۔
بہت عمدہ تحریر بھائی عدیل سلیم جملانہ آپ کی سلامت رہیں
very informative and authentic
عدیل جملانہ ایک نو آموز لکھاری ہیں لیکن انکی تحریر سے پختگی جھلکتی ہے امید ہے کہ آئیندہ تحریر اور بہتر ہوجائے گی اور ہمیں اس بھی بہتر مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔
ان شااللہ
یہ مضمون عالم اسلام کے بے شمار سقوط میں سے ایک کی تاریخ بتاتا ہے جو عامتہ الناس کی نظر سے اوجھل ہیں بد قسمتی سے پورے عالم اسلام پر آج بھی اسی طرح کی بے حسی طاری ہے جیسی اورگنج کے سانحے کے وقت تھی۔ لیکن بات یقین سے کہی جاسکتی کہ امت مسلمہ نے کم از کم
“تاریخ سے یہ سبق تو سیکھا ہے کہ اس سے کوئ سبق نہیں سیکھناہے “
عدیل سلیم کے دیگر بلاگز کی طرح یہ بھی عام فہم انداز میں لکھا گیا ہے، تاریخ جیسے خشک موضوع کو اتنے دلچسپ انداز میں پیش کرنا کہ دلچسپی آخر تک برقرار رہے بلا شبہ عدیل سلیم کا خاصہ ہے ۔۔۔۔۔
A detailed but interesting article ..
keep it up.