سہیل وڑائچ میاں نوازشریف کے ’’صحافتی وارفتگان‘‘ میں سے ایک ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ میاں صاحب کو پاکستان کا ’’دائمی وزیراعظم‘‘ بنوا دیں۔ سہیل وڑائچ کے میاں صاحب سے عشق کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے 17 مارچ 2018ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں میاں نوازشریف کو عہدِ حاضر کا ’’داراشکوہ‘‘ قرار دیا ہے اور اس بات کا ’’ماتم‘‘ کیا ہے کہ برصغیر میں ’’داراشکوہ‘‘ بار بار کیوں ہارتا ہے، اور ’’اورنگ زیب‘‘ ہمیشہ کیوں فتح مند قرار پاتا ہے؟ ’’عہدِ حاضر کے داراشکوہ‘‘ کا مقدمہ لڑنے کے لیے سہیل وڑائچ کو ’’اصل داراشکوہ‘‘ سے ’’معانقہ‘‘ کرنا پڑا ہے اور انہوں نے اپنے کالم میں داراشکوہ کی تعریف کا دریا بہادیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ داراشکوہ کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ حضرت میاں میر اور دوسرے درویشوں کا عقیدت مند، آرٹ اور فن کا دلدادہ، عوام دوست اور رحم دل تھا۔ سہیل وڑائچ نے ہم جیسے لوگوں پر ’’مہربانی‘‘ کرتے ہوئے اُس فرانسیسی مؤرخ کا نام بھی لکھ دیا ہے جسے تاریخ ’’برنیئر‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی برنیئر ہے جس نے اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کشمکش پر قلم اٹھایا ہے، اور جس کی تحریروں کے حوالے ڈاکٹر مبارک جیسے سیکولر اور سوشلسٹ دانش وروں کی تحریروں میں ’’جلوے‘‘ بکھیرتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے بھی اسی برنیئر کے ذریعے اورنگ زیب کے گلے پر کالم کی چھری پھیری ہے اور داراشکوہ کے سر پر ’’عظمت کا تاج‘‘ پہنایا ہے۔ سہیل وڑائچ نے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوازشریف کو عہدِ حاضر کے داراشکوہ قرار دیا ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کو عہدِ جدید کا ’’اورنگ زیب‘‘ باور کرایا ہے۔
میاں نوازشریف کے ایک اور صحافتی عاشق ’’سابق سوشلسٹ‘‘ اور موجودہ جمہوریت پرست اور آزاد منڈی کے چیمپئن وجاہت مسعود ہیں۔ انہوں نے سہیل وڑائچ کے کالم ’’داراشکوہ ہر بار کیوں ہارتا ہے‘‘ کو 20 مارچ 2018ء کے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں داد و تحسین سے نوازا، اور سہیل وڑائچ کے کالم کو ’’معجزہ‘‘ قرار دیا۔ مزید فرمایا کہ سہیل وڑائچ نے ساڑھے تین سو سال کی تاریخ کو ایک سوال میں سمو دیا۔ ظاہر ہے کہ آدمی سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ ہو اور اورنگزیب پر کیچڑ نہ اچھالے، یہ کیسے ہوسکتا ہے! چنانچہ وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں اورنگ زیب کو ’’ظلم‘‘ اور داراشکوہ کو ’’امن و محبت‘‘ کا استعارہ بناکر پیش کیا ہے۔
محمد سعید اظہر بھی جنگ کے کالم نگار اور میاں صاحب کے ’’طرف دار‘‘ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے 21 مارچ 2018ء کے کالم میں سہیل وڑائچ کے اس خیال کی تصدیق کی ہے کہ میاں نوازشریف عصرِ حاضر کے داراشکوہ ہیں، اور فرمایا ہے کہ داراشکوہ متذبذب عوامی طرزِعمل کی وجہ سے ہارتے رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میاں صاحب کے کسی ’’دشمن‘‘ نے انہیں عہدِ حاضر کا داراشکوہ قرار نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں صاحب کے تین پرستاروں نے ان کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ تسلیم کیا ہے۔ روزنامہ جنگ میاں صاحب کا صحافتی ترجمان ہے۔ اسے میاں صاحب کے جدید داراشکوہ ہونے پر اعتراض ہوتا تو وہ سہیل وڑائچ، وجاہت مسعود اور محمد سعید اظہر کے کالم شائع نہ کرتا۔ اس طرح میاں نوازشریف کے عہدِ حاضر کا داراشکوہ ہونے کا چوتھا گواہ خود میر شکیل الرحمن کا روزنامہ جنگ ہے۔ جنگ کثیرالاشاعت اخبار ہے اور میاں صاحب کا غیر سرکاری ترجمان بھی، چنانچہ میاں صاحب کا پورا خاندان اور نوازلیگ روزنامہ جنگ پڑھتی ہے۔ چونکہ میاں صاحب، ان کی دختر، ان کے برادرِ خورد اور نواز لیگ کے کسی ترجمان نے اب تک میاں صاحب کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ قرار دینے پر اعتراض نہیں کیا چنانچہ میاں صاحب کے جدید داراشکوہ ہونے کے دعوے پر پانچویں گواہی خود میاں صاحب، ان کے خاندان اور ان کی پارٹی نے دے دی ہے۔ سہیل وڑائچ کے کالم کو دیکھا جائے تو اس میں ایک تکون یا Triangle موجود ہے۔ اس تکون کا ایک نقطہ فرانسیسی مؤرخ برنیئر ہے جو اورنگ زیب اور داراشکوہ سے متعلق واقعات کا راوی ہے۔ اس تکون کا دوسرا نقطہ داراشکوہ اور تیسرا نقطہ اورنگ زیب ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مستند تاریخی حوالے داراشکوہ اور اورنگ زیب کی تصویرکشی کرنے والے فرانسیسی مورخ برنیئر کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔
تاریخ نویسی کے لیے ہر طرح کے تعصب، نفرت، بغض اور حسد سے ماورا ہونا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی مؤرخ، غیر جانب دار مؤرخ کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ مگر برنیئر یا برنیئے کی مشکل یہ ہے کہ وہ اسلام سے شدید نفرت کرتا تھا اور اس نے اسلام کو چھے گالیاں دی ہیں یا اس پر چھے رکیک الزامات لگائے ہیں۔ اس نے اسلام کو ’’توہم پرستی‘‘ قرار دیا ہے۔ ’’مہلک اور تباہ کن قوانین‘‘ کا مجموعہ باور کرایا ہے۔ اسے ’’تلوار کے زور‘‘ پر نافذ ہونے والے دین کا نام دیا ہے۔ اسے ’’قابلِ نفرت فریب‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ اسے ’’بے معنی اور فضول ٹوٹکا‘‘ کہا ہے، اور کہا ہے کہ اسلام اب بھی ظالمانہ تشدد کے ذریعے انسانیت پر مسلط ہے۔ (’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 191)
برنیئر صرف اسلام کو گالیاں دے کر نہیں رہ گیا، اُس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’جعل ساز‘‘ اور ’’جھوٹا نبی‘‘ قرار دیا ہے۔
(’’سیکولرزم، مباحث اورمغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 192)
برنیئر کو جہانگیر سے بڑی محبت تھی، مگر اس محبت کا سبب خود برنیئر کے الفاظ میں ملاحظہ کرلیجیے:
’’بسترِ مرگ پر جہانگیر نے ایک عیسائی کی موت مرنے کی تمنا کی۔‘‘ (’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ صفحہ 192)
اتفاق سے برنیئر عیسائی تھا، اور بدقسمتی سے داراشکوہ ہندوازم کے ساتھ ساتھ عیسائیت سے بھی متاثر تھا۔ اس کی دو بہنوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ چنانچہ برنیئر محسوس کرتا تھا کہ داراشکوہ بادشاہ بن گیا تو ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت ایک عیسائی کے ہاتھ میں آسکتی ہے۔ لیکن برنیئر صرف اسلام اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت اور عیسائیت ہی سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے باطن کی ناپاکی کی کئی اور صورتیں بھی موجود تھیں۔ ان میں سے ایک ناپاکی یہ تھی کہ جہاں آرا شاہ جہاں کی بیٹی تھی، اسے اپنے والد سے شدید محبت تھی، اور یہ ایک ’’معمول کی بات‘‘ تھی، مگر برنیئر نے شاہ جہاں اور جہاں آرا کے درمیان جنسی تعلق ’’ایجاد‘‘ کردکھایا۔ اُس نے اس ضمن میں رکاکت کی انتہا کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ شاہ جہاں کو اس تعلق کے سلسلے میں مولویوں نے فتویٰ بھی مہیا کردیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں برنیئر نے کوئی ’’ٹھوس شہادت‘‘ کیا، ٹھوس شہادت کی طرف ’’اشارہ‘‘ بھی فراہم نہیں کیا۔ یہ ہے وہ عظیم مؤرخ جو ڈاکٹر مبارک، سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود جیسے لوگوں کا ’’ہیرو‘‘ ہے، اور جسے وہ اورنگ زیب عالمگیر جیسی عظیم الشان اور تاریخ ساز شخصیت کو ’’گرانے‘‘ اور’’داراشکوہ‘‘ جیسے اسلام دشمن، ہندوازم اورعیسائیت کے پرستار کو ’’ابھارنے‘‘ کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ گفتگو ہمیں اس سوال تک لے آئی ہے کہ سہیل وڑائچ اور ان جیسے لوگوں کا ’’اصل داراشکوہ‘‘ کون تھا اور اس کے بارے میں ہماری تاریخ کیا کہتی ہے؟
علامہ شبلی نعمانی برصغیر کے بڑے علماء میں سے ایک ہیں۔ وہ ’’سیرت النبیؐ‘‘ اور ’’الفاروق‘‘ جیسی معرکہ آراء کتب کے مصنف ہیں۔ شبلی نے 1909ء میں اورنگ زیب پر ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں شبلی ’اصل داراشکوہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاہ جہاں کے آخری دور میں جب معاملات داراشکوہ کے ہاتھ میں آگئے تو وہ (یعنی داراشکوہ) کھل کر ہندوئوں کی حمایت کرنے لگا۔ اس نے ویدوں کے مذہبی اور فلسفیانہ حصوں کا جو اپنشد کہلاتے ہیں، سیرالاسرار کے نام سے ترجمہ کیا اور کہا کہ قرآن اصل میں اپنشد ہی ہے۔‘‘
(’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 20)
یہ اسلام اور قرآن کے سلسلے میں داراشکوہ کا نسبتاً ’’نرم بیان‘‘ ہے۔ اس لیے کہ دارا نے ایک بار یہ بھی کہا کہ اپنشد قرآن سے برتر کتاب ہے۔ الٰہ آباد کے شیخ محب اللہ کے نام دارا کا ایک خط محفوظ ہے۔ اس خط میں دارا نے لکھا ہے کہ وہ اپنے وجدانی معارف و اثرات کو الہامی کتب کے مندرجات سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہے۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔صفحہ 206)
دارا کے ان خیالات سے ظاہر ہے کہ وہ ایک جگہ قرآن کو اپنشد کہتا ہے۔ یہ دارا کی روحانی اور فکری گمراہی کی پہلی منزل تھی، اور یہ منزل بتارہی تھی کہ دارا گمراہی اور ضلالت میں مزید ترقی کرے گا۔ اور اس نے مزید ترقی کی، یہاں تک کہ اس نے اپنشدوں کو ’’قرآن سے برتر‘‘ قرار دے دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ دارا یہ باتیں اُس وقت کررہا تھا جب وہ ہندوستان کا بادشاہ نہیں تھا۔ دارا ہندوستان کا بادشاہ بن جاتا تو پھر وہ کہتا کہ چونکہ اپنشد قرآن سے برتر ہیں اس لیے قرآن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآن اپنشد سے کم تر بن جاتا تو پھر احادیث، سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقہ اور اسلامی تاریخ و تہذیب کو کون پوچھتا؟ یعنی اورنگ زیب کے بجائے دارا اقتدار میں آجاتا تو وہ ہندوستان کو اسلام کا قبرستان بنادیتا، خاص طور پر اس صور ت میں جبکہ وہ اپنے خیالات کو الہامی کتب کے مندرجات یا متن سے مدیر افضل خیال کرتا تھا۔ یہ ہے داراشکوہ کی وہ ’’دانش وری‘‘، وہ ’’علمیت‘‘، وہ ’’صوفیانہ طرزِ فکر‘‘، وہ ’’ادب اور فن‘‘ سے دلچسپی جس کا سہیل وڑائچ اور اُن جیسے افراد پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن چلتے چلتے داراشکوہ کے کچھ اور ’’زریں خیالات‘‘ بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ برنیئے کا مدیر کانسٹیبل منہوچی کے حوالے سے لکھتا ہے:
’’عیسائی جذبات جن کے ذریعے مشنری پادریوں نے کوشش کرکے اسے (یعنی دارا کو) سرگرم کیا، اس کی زندگی کے آخری لمحات میں بیدار ہوگئے تھے، چنانچہ اسے موت سے قبل کہتے سنا گیا
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے موت دے رہا ہے، جبکہ ابن اللہ اور مریم مجھے نجات دلائیں گے۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 223)
سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود صاحب! یہ ہے آپ کا ’’اصل داراشکوہ‘‘… یہ ہے اس کی ’’نرمی‘‘… یہ ہے اس کی میاں میر اور درویشوں سے عقیدت… یہ ہے اس کی آرٹ اور فن سے وابستگی… یہ ہے وہ داراشکوہ جس کے ہارنے کا آپ کو ’’دکھ‘‘ ہے۔ تو کیا آپ حضرات کو عہدِ حاضر کے داراشکوہ میاں نوازشریف میں بھی ’’اصل داراشکوہ‘‘ کی ’’خوبیاں‘‘ نظر آتی ہیں، اور آپ چاہتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ’’عہدِ حاضر کا داراشکوہ‘‘ بھی وہی کچھ کہے جو اصل داراشکوہ کہہ کر جاچکا ہے؟ کیا جس طرح اصل داراشکوہ ہندوستان کو اسلام کا قبرستان بنانے کی سازش کررہا تھا آپ چاہتے ہیں کہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام کا قبرستان بنانے کی جدوجہد کرے؟ چونکہ میاں نوازشریف، ان کے ترجمان اور ان کی جماعت میاں صاحب کو اصل داراشکوہ کے برابر بٹھانے کی کوشش پر خاموش ہیں، اس لیے اہلِ پاکستان کیا برصغیر کی پوری ملتِ اسلامیہ، بلکہ پوری امتِ مسلمہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ میاں صاحب واقعتا خود کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ خیال کرتے ہیں۔ میاں صاحب کی طرف اگر کوئی شخص تنکا بھی پھینک دیتا ہے تو میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اور میاں صاحب کی پارٹی کے راہنما آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن میاں نوازشریف کے ’’ممتاز صحافتی عاشقوں‘‘ نے میاں صاحب کو داراشکوہ جیسے اسلام دشمن اور ہندوازم اور عیسائیت کے پرستار سے جاملایا لیکن میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اس بات پر مشتعل ہوئیں نہ خواجہ سعد رفیق اور طلال چودھری کو غصہ آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی واقعتا میاں صاحب کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کو ہندوستان سے عشق ہے، مودی جیسا اسلام دشمن اور پاکستان مخالف انہیں اپنے دربار میں طلب کرتا ہے تو میاں صاحب دھمال ڈالتے ہوئے مودی کے دربار میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ مودی دو ملکوں، دو قوموں، دو تہذیبوں اور دو مذاہب کے تعلقات کو ’’نواز مودی‘‘ کے مسئلے میں ڈھالتے ہوئے جاتی امرا تشریف لاتے ہیں تو میاں صاحب نہال ہوجاتے ہیں۔ میاں صاحب کو پاکستان اور بھارت کی سرحد ایک ’’لکیر‘‘ نظر آتی ہے۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ ہولی کھیلیں۔ میاں صاحب کو دونوں ملکوں کی ثقافت ایک جیسی نظر آتی ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح داراشکوہ کو قرآن اپنشد جیسا دکھائی دیتا تھا۔ داراشکوہ کا وہ بیان ہم کوٹ کرچکے جس میں اس نے کہا ہے کہ نعوذباللہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے موت دے رہا ہے‘‘۔ میاں صاحب کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ پوری جرأت کے ساتھ ختمِ نبوت کے قانون پر حملہ کرچکے ہیں۔ شنید ہے کہ پنجاب میں جہاد سے متعلق آیات نصاب سے نکالی جاچکی ہیں۔ میاں صاحب کے گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری ہورہی تھی۔ ہم نے فرائیڈے اسپیشل کے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ نجکاری کا عمل اتنا غیر شفاف ہے کہ پاکستان کے اہم ترین قومی ادارے کو ہمارا دشمن خرید سکتا ہے۔ اتفاق سے، محض اتفاق سے سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا نوٹس لیا اور تحقیقات کرائیں تو معلوم ہوا کہ بھارت کا متّل گروپ پاکستان اسٹیل ملز خرید رہا تھا، البتہ اس کا فرنٹ مین کوئی اور تھا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ اگر ’’کمزوری کی حالت‘‘ میں یہ سب کرسکتا ہے تو وہ ’’طاقت ور‘‘ بن کر کیا نہیں کرے گا؟ تجزیہ کیا جائے تو ان تمام حقائق میں اس سوال کا جواب موجود ہے کہ داراشکوہ کو بار بار شکست کیوں ہوتی رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہوکر بھی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کرے گا، اس پر اصرار کرے گا، ہندوازم اور عیسائیت کو اسلام پر ترجیح دے گا، اسلامی تہذیب اور تاریخ کو مسخ کرے گا اور انہیں مٹانے کی سازش کرے گا تو وہ گرے پڑے سے گرے پڑے مسلم معاشرے میں بھی کیسے کامیاب ہوگا!
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ سہیل وڑائچ اور اُن جیسے ’’پاک طینت‘‘ لوگوں کے پسندیدہ مؤرخ برنیئر کی تکون کا تیسرا نقطہ یعنی اورنگ زیب کے بارے میں مسلم تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر ہم شبلی کی تصنیف ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ یہ کتاب آج سے 109 سال قبل شائع ہوئی تھی، مگر یہ آج بھی ایک زندہ تصنیف ہے۔ اس تصنیف کے آغاز میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف اپنی دلی نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ اس نفرت کا ایک مظہر کسی غلیظ عیسائی رہنما کا یہ بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسکندریہ کے کتب خانے کو نذرِ آتش کردیا تھا۔ شبلی کے بقول ’’یہ ایک تاریخی جھوٹ تھا، مگر یہ جھوٹ اتنے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا کہ اچھے اچھوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ بات سچ ہی نہ ہو۔ شبلی کے بقول ایسا ہی معاملہ اورنگ زیب عالمگیر کا ہے۔ ان کے بارے میں مغربی مؤرخین نے اتنے بڑے پیمانے پر دروغ گوئی کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
(’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 1 )
اس سے قبل کہ اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے، ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ آخر برنیئر سمیت مختلف یورپی مؤرخین اور اُن کے تھوکے ہوئے نوالے چبانے والے ڈاکٹر مبارک، سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود جیسے لوگوں کو اور خود داراشکوہ اور ہندوئوں کو اورنگ زیب ’’زہر‘‘ کیوں لگتا ہے؟ تاریخ اس سوال کا ایک ہی جواب مہیا کرتی ہے، اور وہ یہ کہ اورنگ زیب اسلام کا سچا سپاہی، باعمل مسلمان اور برصغیر میں اسلام اورملتِ اسلامیہ کی بقا و سلامتی کی علامت تھا اور اسے اسلام سے ایسا عشق تھا کہ اس نے 43 برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ اس عمر میں حفظ تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اورنگ زیب تہجد گزار تھا، ’’ماثرِ عالمگیری‘‘ میں ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں بھی خشوع و خضوع کی حالت میں نماز ادا کرتا تھا۔ بلخ کی مہم کے دوران دشمن کے دستوں نے اسے گھیر لیا تھا لیکن نماز کے وقت پر وہ گھوڑے سے اترا اور امامت شروع کردی۔ امیر بلخ عبدالعزیز خان یہ منظر دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے لڑائی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ایسے شخص سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ داراشکوہ کو اورنگ زیب کی نماز اتنی ناپسند تھی کہ وہ اورنگ زیب کو ’’وہ نمازی‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ سہیل وڑائچ اور ان جیسے افراد کا ہیرو برنیئر اورنگ زیب کی مذہبیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’وہ ایسی پرہیزگاری کا ڈھونگ کرتا تھا جو اس کے دل میں تھی ہی نہیں۔‘‘
(سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 193،203،204)
سوال یہ ہے کہ برنیئر کو اورنگ زیب کے ’’دل کا حال‘‘ کس طرح معلوم ہوا؟ مگر جو شخص اورنگ زیب کے رسولؐ کی مذہبیت کو نہ مانتا ہو وہ اورنگ زیب کی مذہبیت کو کیا مانے گا؟
تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ اورنگ زیب کو اقتدار سے دلچسپی نہ تھی، بلکہ وہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنا چاہتا تھا، مگر وہ دیکھ رہا تھا کہ اللہ کا دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت برصغیر میں سنگین خطرات سے دوچار تھی۔ بدقسمتی سے کوئی شخص اورنگ زیب کے زمانے کے برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچ کر یہ نہیں بتاتا کہ اورنگ زیب کیوں اقتدار میں آیا؟ اور اس کا اقتدار میں آنا کیوں ضروری تھا؟ ان سوالات کے جواب کے لیے چند شہادتیں پیش ہیں۔
شبلی نے اورنگ زیب سے متعلق کتاب میں لکھا ہے:
’’جہانگیر کے آخری زمانے تک ریاست کمزور پڑچکی تھی۔ ہندو مسلمان عورتوں کو جبراً ہندو بنا کر اُن سے شادی کرلیتے تھے۔ مسجدیں شہید کرکے مسجد کے علاقے کو اپنے گھروں میں شامل کرلیتے تھے۔ اس کی تفصیل ’’شاہ جہاں نامہ‘‘ میں موجود ہے۔ شاہ جہاں نامہ شاہی تاریخ ہے۔‘‘ (صفحہ 25)
شبلی مزید لکھتے ہیں:
’’شاہ جہاں کے زمانے میں ہندوئوں نے مسلمان عورتوں سے جبراً شادیاں کیں تو شاہ جہاں نے انہیں آزاد کرایا۔ ہندوئوں نے مساجد کو گرا کر مندر بنائے تو شاہ جہاں نے مندر منہدم کرکے پھر سے مساجد تعمیر کرائیں۔ مگر جب آخری دور میں معاملات داراشکوہ کے ہاتھ میں آگئے تو دارا کھل کر ہندوئوں کی حمایت کرنے لگا۔ اس نے لکھا کہ قرآن اصل میں اپنشد ہی ہے۔‘‘ (صفحہ 26)
شبلی کہتے ہیں:
’’جو ہندو اکبر کے دور میں شریکِ سلطنت بن چکے تھے، جو جہانگیر کے زمانے میں بت خانے تعمیر کرتے تھے، جو شاہ جہاں کے دور میں مسجدیں گراکر بت خانے بناتے تھے اور مسلمان عورتوں سے جبراً شادیاں کرتے تھے، انہوں نے داراشکوہ کے طاقت ور ہونے کے بعد کیا نہ کیا ہوگا!‘‘(صفحہ 26)
اس سلسلے میں طارق جان نے لکھا ہے:
’’اورنگ زیب نے ایسے ملک میں آنکھ کھولی جس نے جلال الدین اکبر کی اسلام دشمنی بھی دیکھی، جس کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم سوسائٹی کو دینِ اسلام سے پھیر دے اور اس کے نتیجے میں (ہندوئوں کی خوش دلی اور تعاون کی شکل میں) اپنے لیے سیاسی فوائد سمیٹ لے۔ اورنگ زیب کو اپنے پردادا اکبر، اپنے دادا جہانگیر اور شیخ احمد سرہندی کے باہمی نزاع کا بھی علم ہوچکا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اکبر نے تو بچوں کے ناموں کے ساتھ ’’محمد‘‘ کا لاحقہ لگانے کی ممانعت کردی تھی، اسلامی کلینڈر منسوخ کردیا تھا اور عربی زبان، قرآن پاک اور شرعی قوانین کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ اکبر نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور حج بیت اللہ پر جانے سے روکنے کا حکم دیا، جبکہ شراب اور سور کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 205)
ان ناقابلِ تردید حقائق کو دیکھا جائے تو اقتدار اورنگ زیب کے لیے ’’شوق‘‘ نہیں بلکہ ایک دینی، تہذیبی اور تاریخی ’’ذمے داری‘‘ تھی۔ اورنگ زیب نے ہندوستان پر 50 سال حکومت کی، اس کے باوجود حضرت شاہ ولی اللہ تک آتے آتے یہ صورتِ حال ہوچکی تھی کہ برصغیر کے مسلم معاشرے سے قرآن اور حدیث کا علم اٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن کے ترجمے اور قرآن و حدیث کے دروس کے سلسلے قائم کرکے برصغیر کو قرآن و حدیث کے علم سے منور کردیا۔ اگر اورنگ زیب کے 50 سالہ اقتدار کے بعد برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کا یہ حال ہوا تو داراشکوہ کے پچاس سالہ دور کے بعد برصغیر میں اسلام، اس کے علم اور اس پر عمل کا کیا حال ہوتا؟ دارا اپنشد کو قرآن سے برتر سمجھتا تھا، چنانچہ مسلمان بھی دارا کے زیر سایہ قرآن و حدیث کے بجائے اپنشد پڑھتے اور رفتہ رفتہ ہندو ازم میں جذب ہوجاتے جیسے کہ سکھ ہندو ازم میں جذب ہوگئے ہیں۔ پھر نہ کوئی اقبال ہوتا، نہ کوئی مولانا مودودی ہوتے، نہ مولانا اشرف علی تھانوی، نہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی۔ پھر نہ کوئی خطبہ الٰہ آباد ہوتا، نہ کوئی محمد علی جناح، نہ کوئی مسلم لیگ ہوتی، نہ قراردادِ پاکستان اور نہ خود پاکستان۔ ہر طرف داراشکوہ کی ’’فتح‘‘ ہوتی اور ’’اورنگ زیب کی شکست‘‘ ۔ پھر ہر طرف ہندوازم ہی ہندوازم ہوتا۔ مگر پھر نہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ ہوتا، نہ سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود ہوتے… ہوتے، تو ان کے نام بنواری لعل اور کرشن چندر ہوتے۔ مگر خدا کا شکر کہ اورنگ زیب جیت گیا اور داراشکوہ ہار گیا۔ تاہم امریکہ ہو یا یورپ، بھارت ہو یا سہیل وڑائچ جیسے بدباطن… ان تمام کی خواہش یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی صورت میں داراشکوہ کے تجربے کو دہرایا جائے۔
تاریخ قوموں کی تقدیر ہوتی ہے، اور قوموں کی تقدیر کو مذاق میں اڑانا جہالت ہے۔ اتفاق سے ابن انشا نے بھی اس جہالت کی ایک بڑی مثال قائم کررکھی ہے۔ انہوں نے تاریخی اعتبار سے یہ فحش جملہ لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے کوئی نماز اور کوئی بھائی نہیں چھوڑا۔ اس فقرے سے ’’تاثر‘‘ ملتا ہے کہ اورنگ زیب بڑا سفاک تھا اور اُس نے باپ کو جیل میں ڈالا اور بھائیوں کو قتل کیا۔ حالانکہ یہ نوبت اورنگ زیب کی وجہ سے نہیں، خود شاہ جہاں اور داراشکوہ کی وجہ سے آئی۔
اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش میں شاہ جہاں باپ کی حیثیت سے ’’غیر جانب دار‘‘ نہ تھا۔ وہ داراشکوہ کے ساتھ تھا اور چاہتا تھا کہ اورنگ زیب کو قتل کردیا جائے۔ اس کی گواہی داراشکوہ کے حمایتی منہوچی نے بھی دی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ شاہ جہاں، اورنگ زیب کو محل میں بلا کر قوی الاعضاء تاتاری، قلمک اور ازبک خواتین کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا۔ برنیئر نے اپنے سفرنامے میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔ محل کے اندر کی بات اورنگ زیب کی چھوٹی بہن روشن آراء جان گئی اور اس نے اورنگ زیب کو شاہ جہاں کے ارادوں سے آگاہ کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاہ جہاں خود کو بیمار ظاہر کرکے اورنگ زیب کو محل میں بلارہا تھا، اور خطرات کے باوجود اورنگ زیب باپ کی تمنا پوری کرنے کے لیے محل آنا چاہتا تھا۔ وہ صرف یہ مطالبہ کررہا تھا کہ اس کے فوجیوں کو محل کے دروازے پر پہرے کی اجازت دے دی جائے۔
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ صفحہ 212،213)
اگرچہ شاہ جہاں، اورنگ زیب کے قتل کی سازش کررہا تھا مگر اورنگ زیب باپ کو لکھ رہا تھا:
’’جب تک طاقت اور اختیار آپ کے مبارک ہاتھوں میں رہا، آپ کی اطاعت مجھ پر لازم تھی۔ اللہ بزرگ و برتر گواہ ہے کہ میں نے کبھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا، لیکن جب آنجناب بیمار پڑ گئے تو شہزادے (دارا) نے اختیارات سلب کرلیے۔ اس نے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین کی جگہ ہندوئوں کا بت پرستانہ مذہب پھیلانا شروع کردیا جس سے سلطنت میں بے چینی پھیلی۔ اپنے آپ کو حقیقی جانشین سمجھ کر اس (دارا) نے آپ کو بادشاہی سے معزول کردیا… چنانچہ میں برہان پور سے چل پڑا کہ کہیں یومِ آخرت میں اللہ مجھے ذمے دار نہ ٹھیرائے کہ میں نے فساد کو کیوں نہیں دبایا۔‘‘ (صفحہ 217)
ایک اور خط اورنگ زیب نے باپ کو لکھا:
’’آپ کی علالت کے ابتدائی ایام میں جب بڑے شہزادے نے، جس میں ایک مسلمان کے شریفانہ کردار کا ذرہ برابر بھی نقش موجود نہیں، اقتدار ہاتھ میں لیا اور الحاد و بے دینی کا علَم بلند کیا تو میں نے اسے اپنی اسلامی ذمے داری سمجھا کہ اسے مسندِ اقتدار سے اتار پھینکوں۔ چونکہ آپ عالی وقار کا ایک ہی جانب جھکائو رہا اور آپ حالات کی سنگینی کا احساس نہ کرپائے، اور آپ نے بڑے شہزادے کو بے دینی پھیلانے کی آزادی دیے رکھی، (چنانچہ) میں نے تہیہ کرلیا کہ اس کے خلاف جہاد کروں۔‘‘ (صفحہ 216)
سوال یہ ہے کہ سہیل وڑائچ اور ان جیسے لوگوں کے صوفی منش اور نرم خو ’دارا‘ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کرتے ہی کیا کیا…؟ اس نے دربار سے ایسے امراء کو نکال پھینکا جن پر اورنگ زیب سے وفاداری کا شبہ تھا۔ دربار میں اورنگ زیب کے رابطہ افسر عیسیٰ بیگ کو پہلے حوالۂ زنداں کیا، پھر اس کی جائداد ضبط کرلی۔ دارا نے باپ کے جعلی دستخط کرکے جسونت سنگھ کی کمان میں متحدہ فوج کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بھیجا۔ اورنگ زیب نے اپنے دوسرے بھائی مراد کے ساتھ صلح کی ہرممکن کوشش کی۔ اس نے مراد کو 20 لاکھ روپے اور دو سو گھوڑے بھیجے اور اسے یقین دلایا کہ دارا کے معاملے کے سلجھتے ہی مراد کو اپنے موعودہ علاقوں کی طرف جانے کی اجازت ہوگی، مگر مراد مطلق بادشاہی کا خواب دیکھ رہا تھا، چنانچہ اُس نے تختِ شاہی پر اپنے دعوے کا اعلان کردیا۔ اس بات نے اورنگ زیب کو دُکھی کردیا۔ اب اس کے سامنے تین حریف تھے: اس کا باپ اور دو بھائی۔ چنانچہ اس نے مراد کو پکڑ کر گوالیار کے قلعے میں بند کردیا اور اسے فیاضیانہ عطیات سے نوازا۔ اس کا خاندان اس کے ساتھ رہا۔ اس کی خاص محبوبہ سرستی بائی بھی اس کی دسترس میں رہی۔ لیکن مراد نے فرار کی کوشش کی۔ اورنگ زیب اسے قتل کرسکتا تھا مگر اس نے اسے چار سال تک حفاظتی حراست میں رکھا۔ اورنگ زیب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے دارا کو قتل کیا۔ لیکن دارا کے عاشق اور سیکولر اور لبرل عناصر کے پسندیدہ مؤرخ برنیئر کے بقول داراشکوہ کی موت علماء کی ایک مجلس کے اجتماعی فیصلے یا فتوے کے نتیجے میں ہوئی، نہ کہ اورنگ زیب کے فرمانِ شاہی کے نتیجے میں۔ (صفحہ 222)
اورنگ زیب پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے اپنی ہندو رعایا اور خواص پر بڑے ظلم کیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اورنگ زیب نے اقتدار سنبھالتے ہی 80 ٹیکس ختم کردیے۔ مغربی مؤرخ الفنسٹن نے کہا ہے کہ اورنگ زیب نے مراٹھا جنگجو شیوا جی کے ساتھ برا سلوک کیا۔ وہ ایسا نہ کرتا تو شیواجی مطیع ہوسکتا تھا۔ مگر شبلی نے اورنگ زیب سے متعلق اپنی تصنیف میں اس الزام کی تردید کی ہے اورلکھا ہے کہ اورنگ زیب نے شیواجی سے بہت اچھا سلوک کیا۔ (صفحہ 13)
شیواجی کے بعد اس کے بیٹے سبنھاجی نے قیادت سنبھالی۔ ایک معرکے کے بعد اس کا سات سالہ بیٹا ساہو اورنگ زیب کے ہاتھ لگا۔ سبنھا کی ماں بھی قید ہوئی۔ مگر شبلی کے بقول اورنگ زیب نے ساہو کو ہفت ہزاری بنایا اور اسے راجا کا درجہ دیا۔ (صفحہ 16)
شاہ جہاں بیمار ہوا تو اورنگ زیب دکن سے باپ کے ساتھ ملاقات کے لیے روانہ ہوا مگر جودھ پور کے راجا جے سنگھ اور جسونت سنگھ نے اس کا راستہ روکا۔ جنگ ہوئی اور جسونت سنگھ فرار ہوگیا۔ اورنگ زیب بادشاہ بنا تو جسونت سنگھ نے اس سے رابطہ کیا اور معافی کا طلب گار ہوا۔ اورنگ زیب نے اسے معاف کردیا۔ کئی سال بعد جسونت سنگھ نے پھر بغاوت کی اور اورنگ زیب کی ہندو فوج کا بڑا حصہ اپنے ساتھ ملالیا، مگر جسونت سنگھ کو پھر شکست ہوئی۔ اس نے پھر اورنگ زیب سے معافی مانگی اور اورنگ زیب نے اسے معاف کردیا، بلکہ اسے احمد آباد کا صوبیدار مقرر کردیا۔ (’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 21)
شبلی نے اپنی معرکہ آراء تصنیف میں اس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ اورنگ زیب نے بت خانے توڑے۔ شبلی نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے ایسے بت خانے منہدم کیے جہاں ریاست کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں۔ اورنگ زیب 25 سال دکن میں رہا مگر چونکہ وہاں اس کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی چنانچہ 25 سال میں اس نے ایک بت کو بھی ہاتھ نہ لگایا۔ (صفحہ 32)
یہ حقائق بتاتے ہیں کہ اورنگ زیب اصل میں کون تھا اور اس کی فتح کا راز کیا تھا؟ بدقسمتی سے سہیل وڑائچ نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو عہد حاضر کا اورنگ زیب باور کرانے کی کوشش کی۔ یہ اورنگ زیب کی توہین ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ سلطنت کیا سنبھالتی، اس سے تو ملک نہیں سنبھالا گیا۔ اورنگ زیب 86 سال کی عمر میں بھی میدانِ کارزار میں دادِ شجاعت دے رہا تھا اور باغی مراٹھوں کے قلعے فتح کررہا تھا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ صرف 24 برس کی عمر میں آدھا ملک گنوا بیٹھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں داراشکوہ تو بہت ہوئے ہیں مگر اورنگ زیب صرف ایک ہوا ہے۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ عصرِ حاضر کے داراشکوہ میاں نوازشریف کا مستقبل کیا ہے؟ بظاہر ان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے مگر ابھی تک ان میں اتنی جان ہے کہ مولانا فضل الرحمن عہدِ حاضر کے داراشکوہ کے ساتھ ’’سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا ؎
مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
مایوسی ایک ایجنڈا
مشہور کہاوت ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے، دنیا میں انسان امیدوں کے سہارے زندگی گزار تاہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تومایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے ۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتاہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتاہے ۔اس کی محنت اورجدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتاہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتں لگا تاہےاور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتاہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتاہے مگر یہی وہ اُمیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتاہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تویہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتاہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہو۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پرکاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا اُمیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھےمسائل کا ایک جنگل تھا مگراس وقت اُمیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کسی جماعت پراعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔
ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا رب اللہ ہےاس کی رحمت بڑی وسیع ہےاس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔...
مسلمانوں کی حکمرانی اور زوال
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب علمی، سائنسی، ثقافتی، اور سیاسی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ ابتدائی اسلامی خلافتیں، جیسے خلافت راشدہ، اموی خلافت، عباسی خلافت، اور بعد ازاں عثمانی سلطنت، اسلامی دنیا کی طاقت اور عظمت کی علامت رہی ہیں۔ ان حکمرانوں نے نہ صرف اپنے علاقوں کو وسیع کیا بلکہ علمی اور فکری میدانوں میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ تاہم، تاریخ کے ساتھ ساتھ، یہ عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں، اور مسلمانوں کی حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ یہ زوال محض کسی ایک وجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ مختلف عوامل اس کی بنیادی وجوہات بنے۔
مسلمانوں کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے چند بنیادی عوامل کارفرما تھے۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو علم، انصاف، مساوات، اور اتحاد کی طرف راغب کیا۔ خلافت راشدہ کا دور خاص طور پر ایک مثالی دور سمجھا جاتا ہے، جہاں خلیفہ اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات تھے اور انصاف کا بول بالا تھا۔ علم و تحقیق کو فروغ دیا گیا اور بغداد، دمشق، قرطبہ اور دیگر شہروں میں علمی و سائنسی مراکز قائم کیے گئے۔
اسلام نے نہ صرف مذہبی اعتبار سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ مسلمانوں کو ایک متحد امت میں تبدیل کر دیا۔ اسی اتحاد اور ایک مضبوط قیادت کی بدولت مسلمان دنیا کے مختلف خطوں میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔مسلمانوں کی حکمرانی کا زوال مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا، جن میں اندرونی اور بیرونی عوامل دونوں شامل تھے۔
مسلمان حکمرانوں میں جب قیادت کا فقدان پیدا ہوا، اور حکومتیں بدعنوانی کا شکار ہوئیں، تو ان کے درمیان آپسی اختلافات بڑھتے گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد، اموی اور عباسی خلافتوں میں حکمرانوں کے اندرونی خلفشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔ یہ خلفشار اور سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو ٹھیس پہنچنے لگی۔
خلیفاؤں کی جگہ بادشاہت اور موروثی نظام نے لے لی، اور خاندانی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے۔ انصاف اور احتساب کی وہ روح جو خلافت راشدہ میں دیکھی گئی تھی، رفتہ رفتہ غائب ہو گئی، اور حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔
ابتدائی مسلم دور میں علم و تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں، فلسفیوں، اور ماہرینِ ریاضی نے دنیا کو نئے افکار دیے اور یورپ کو بھی علمی روشنی فراہم کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، علم کی اس جستجو میں کمی آتی گئی۔ علم و تحقیق کی جگہ قدامت پسندی اور روایت پرستی نے لے لی، اور علمی ترقی رک گئی۔
عباسی دور کے بعد، مسلمانوں میں علمی زوال تیزی سے بڑھا۔ مدارس میں صرف مذہبی علوم پر زور دیا گیا، اور دنیاوی علوم اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کیا گیا۔ اس علمی جمود نے مسلمانوں کو دنیا کی باقی قوموں سے پیچھے دھکیل دیا، اور یورپ میں ہونے والی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے برعکس، اسلامی دنیا میں کوئی بڑا علمی انقلاب نہ آ سکا۔
مسلمانوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت تھی۔ خلافتِ عباسیہ کے بعد،...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
It’s the same topic , but I was quite surprised to see the opinions I didn’t think of. My blog also has articles on these topics, so I look forward to your visit. baccaratsite
نواز شریف یا آج کے کسی بھی شخص کا موازنہ کسی شاہ یا شہزادے سے کرنا ایک بڑا مذاق ہے۔ بادشاہ کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوتے تھے۔ وہ کردار اب ختم ہوچکے۔گر بہت احترام کے ساتھ عرض یہ ہے کہ تاریخ کے ساتھ یہ سیاہ و سفید سوچ بہت موزوں نہیں۔ اورنگزیب شیطان نہیں تھا لیکن فرشتہ بھی نہیں تھا بالکل اسی طرح دارا بھی تھا۔ اورنگزیب نے سکھوں کے ساتھ جو بہیمانہ رویہ اختیار کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کالم میں اسکا ذکر بھی نہیں۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اورنگزیب نے انتہائی بہیمانہ سزائیں اپنے مخالفین کو دیں۔ جیسے زندہ انسان کی کھال اتروانا۔ سانپ سے اپنے ایک عملدار کو ڈسوایا اور اسکی لاش کئی دن تک اپنے دربار کے باہر سڑنے دی کہ سب درباری ڈر جائیں۔ ویسے شاہنواز صاحب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کا اسلام بھی وہ نہیں تھا جو کہ مودودی صاحب کا ہے۔ اورنگزیب نے اپنے بیٹے کو خط میں کہا تھا کہ اجنتا کا مندر دیکھ لینا وہ مظہر خدا ہے۔ پھر اسکی وصیت پڑھ لیجیے جس میں وہ بتاتا ہے کہ اسے امام باڑے مخں دفن کیا جائے اور اسکے کفن کہ قیمت قرآن کی کتابت سے نہ ہو کیونکہ یہ شیعی مسلک میں جائز نہیں۔ اورنگزیب زیب کو اتنا بھی وائٹ واش نہ کریں کہ تاریخ ہی نئی لکھنی پڑے۔ دارا کا ہندو مت کی طرف میلان فلسفیانہ تھا۔ وہ اگر حکومت میں بھی آتا تو یہ بالکل ضروری نہیں تھا کہ سب کو ہانک کر ہندو ہی بنادیا جاتا جیسا کہ کالم نگار کا خیال ہے۔ جب اکبر یہ نہیں کرسکا تو دارا کیسے کرتا جو کہ ہر اعتبار سے اکبر سے کمزور شخصیت کا مالک تھا؟ خب ہزار سال کا مسلم اقتدار سارے ہندوستان کو مسلمان نہ بنا سکا تو صرف دارا کا اقتدار مسلمانوں کو اتنا ہندو کیسے بنادیتا کہ پھر نہ کوئی مودودی ہوتا نا اقبال وغیرہ وغیرہ؟؟؟ اورنگزیب نے اپنی ایک بیٹی سے شادی کے خواہشمند اپنے ہی ایک سالار کو تیل میں تلوا کر مارا تھا۔ اس بارے میں کیا رائے ہے؟