سہیل وڑائچ میاں نوازشریف کے ’’صحافتی وارفتگان‘‘ میں سے ایک ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ میاں صاحب کو پاکستان کا ’’دائمی وزیراعظم‘‘ بنوا دیں۔ سہیل وڑائچ کے میاں صاحب سے عشق کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے 17 مارچ 2018ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں میاں نوازشریف کو عہدِ حاضر کا ’’داراشکوہ‘‘ قرار دیا ہے اور اس بات کا ’’ماتم‘‘ کیا ہے کہ برصغیر میں ’’داراشکوہ‘‘ بار بار کیوں ہارتا ہے، اور ’’اورنگ زیب‘‘ ہمیشہ کیوں فتح مند قرار پاتا ہے؟ ’’عہدِ حاضر کے داراشکوہ‘‘ کا مقدمہ لڑنے کے لیے سہیل وڑائچ کو ’’اصل داراشکوہ‘‘ سے ’’معانقہ‘‘ کرنا پڑا ہے اور انہوں نے اپنے کالم میں داراشکوہ کی تعریف کا دریا بہادیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ داراشکوہ کئی کتابوں کا مصنف تھا۔ حضرت میاں میر اور دوسرے درویشوں کا عقیدت مند، آرٹ اور فن کا دلدادہ، عوام دوست اور رحم دل تھا۔ سہیل وڑائچ نے ہم جیسے لوگوں پر ’’مہربانی‘‘ کرتے ہوئے اُس فرانسیسی مؤرخ کا نام بھی لکھ دیا ہے جسے تاریخ ’’برنیئر‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وہی برنیئر ہے جس نے اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کشمکش پر قلم اٹھایا ہے، اور جس کی تحریروں کے حوالے ڈاکٹر مبارک جیسے سیکولر اور سوشلسٹ دانش وروں کی تحریروں میں ’’جلوے‘‘ بکھیرتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے بھی اسی برنیئر کے ذریعے اورنگ زیب کے گلے پر کالم کی چھری پھیری ہے اور داراشکوہ کے سر پر ’’عظمت کا تاج‘‘ پہنایا ہے۔ سہیل وڑائچ نے ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نوازشریف کو عہدِ حاضر کے داراشکوہ قرار دیا ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کو عہدِ جدید کا ’’اورنگ زیب‘‘ باور کرایا ہے۔
میاں نوازشریف کے ایک اور صحافتی عاشق ’’سابق سوشلسٹ‘‘ اور موجودہ جمہوریت پرست اور آزاد منڈی کے چیمپئن وجاہت مسعود ہیں۔ انہوں نے سہیل وڑائچ کے کالم ’’داراشکوہ ہر بار کیوں ہارتا ہے‘‘ کو 20 مارچ 2018ء کے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں داد و تحسین سے نوازا، اور سہیل وڑائچ کے کالم کو ’’معجزہ‘‘ قرار دیا۔ مزید فرمایا کہ سہیل وڑائچ نے ساڑھے تین سو سال کی تاریخ کو ایک سوال میں سمو دیا۔ ظاہر ہے کہ آدمی سیکولر، لبرل اور سابق سوشلسٹ ہو اور اورنگزیب پر کیچڑ نہ اچھالے، یہ کیسے ہوسکتا ہے! چنانچہ وجاہت مسعود نے اپنے کالم میں اورنگ زیب کو ’’ظلم‘‘ اور داراشکوہ کو ’’امن و محبت‘‘ کا استعارہ بناکر پیش کیا ہے۔
محمد سعید اظہر بھی جنگ کے کالم نگار اور میاں صاحب کے ’’طرف دار‘‘ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے 21 مارچ 2018ء کے کالم میں سہیل وڑائچ کے اس خیال کی تصدیق کی ہے کہ میاں نوازشریف عصرِ حاضر کے داراشکوہ ہیں، اور فرمایا ہے کہ داراشکوہ متذبذب عوامی طرزِعمل کی وجہ سے ہارتے رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میاں صاحب کے کسی ’’دشمن‘‘ نے انہیں عہدِ حاضر کا داراشکوہ قرار نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں صاحب کے تین پرستاروں نے ان کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ تسلیم کیا ہے۔ روزنامہ جنگ میاں صاحب کا صحافتی ترجمان ہے۔ اسے میاں صاحب کے جدید داراشکوہ ہونے پر اعتراض ہوتا تو وہ سہیل وڑائچ، وجاہت مسعود اور محمد سعید اظہر کے کالم شائع نہ کرتا۔ اس طرح میاں نوازشریف کے عہدِ حاضر کا داراشکوہ ہونے کا چوتھا گواہ خود میر شکیل الرحمن کا روزنامہ جنگ ہے۔ جنگ کثیرالاشاعت اخبار ہے اور میاں صاحب کا غیر سرکاری ترجمان بھی، چنانچہ میاں صاحب کا پورا خاندان اور نوازلیگ روزنامہ جنگ پڑھتی ہے۔ چونکہ میاں صاحب، ان کی دختر، ان کے برادرِ خورد اور نواز لیگ کے کسی ترجمان نے اب تک میاں صاحب کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ قرار دینے پر اعتراض نہیں کیا چنانچہ میاں صاحب کے جدید داراشکوہ ہونے کے دعوے پر پانچویں گواہی خود میاں صاحب، ان کے خاندان اور ان کی پارٹی نے دے دی ہے۔ سہیل وڑائچ کے کالم کو دیکھا جائے تو اس میں ایک تکون یا Triangle موجود ہے۔ اس تکون کا ایک نقطہ فرانسیسی مؤرخ برنیئر ہے جو اورنگ زیب اور داراشکوہ سے متعلق واقعات کا راوی ہے۔ اس تکون کا دوسرا نقطہ داراشکوہ اور تیسرا نقطہ اورنگ زیب ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مستند تاریخی حوالے داراشکوہ اور اورنگ زیب کی تصویرکشی کرنے والے فرانسیسی مورخ برنیئر کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔
تاریخ نویسی کے لیے ہر طرح کے تعصب، نفرت، بغض اور حسد سے ماورا ہونا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی مؤرخ، غیر جانب دار مؤرخ کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ مگر برنیئر یا برنیئے کی مشکل یہ ہے کہ وہ اسلام سے شدید نفرت کرتا تھا اور اس نے اسلام کو چھے گالیاں دی ہیں یا اس پر چھے رکیک الزامات لگائے ہیں۔ اس نے اسلام کو ’’توہم پرستی‘‘ قرار دیا ہے۔ ’’مہلک اور تباہ کن قوانین‘‘ کا مجموعہ باور کرایا ہے۔ اسے ’’تلوار کے زور‘‘ پر نافذ ہونے والے دین کا نام دیا ہے۔ اسے ’’قابلِ نفرت فریب‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ اسے ’’بے معنی اور فضول ٹوٹکا‘‘ کہا ہے، اور کہا ہے کہ اسلام اب بھی ظالمانہ تشدد کے ذریعے انسانیت پر مسلط ہے۔ (’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 191)
برنیئر صرف اسلام کو گالیاں دے کر نہیں رہ گیا، اُس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’جعل ساز‘‘ اور ’’جھوٹا نبی‘‘ قرار دیا ہے۔
(’’سیکولرزم، مباحث اورمغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 192)
برنیئر کو جہانگیر سے بڑی محبت تھی، مگر اس محبت کا سبب خود برنیئر کے الفاظ میں ملاحظہ کرلیجیے:
’’بسترِ مرگ پر جہانگیر نے ایک عیسائی کی موت مرنے کی تمنا کی۔‘‘ (’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ صفحہ 192)
اتفاق سے برنیئر عیسائی تھا، اور بدقسمتی سے داراشکوہ ہندوازم کے ساتھ ساتھ عیسائیت سے بھی متاثر تھا۔ اس کی دو بہنوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ چنانچہ برنیئر محسوس کرتا تھا کہ داراشکوہ بادشاہ بن گیا تو ہندوستان کی عظیم الشان سلطنت ایک عیسائی کے ہاتھ میں آسکتی ہے۔ لیکن برنیئر صرف اسلام اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت اور عیسائیت ہی سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے باطن کی ناپاکی کی کئی اور صورتیں بھی موجود تھیں۔ ان میں سے ایک ناپاکی یہ تھی کہ جہاں آرا شاہ جہاں کی بیٹی تھی، اسے اپنے والد سے شدید محبت تھی، اور یہ ایک ’’معمول کی بات‘‘ تھی، مگر برنیئر نے شاہ جہاں اور جہاں آرا کے درمیان جنسی تعلق ’’ایجاد‘‘ کردکھایا۔ اُس نے اس ضمن میں رکاکت کی انتہا کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ شاہ جہاں کو اس تعلق کے سلسلے میں مولویوں نے فتویٰ بھی مہیا کردیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں برنیئر نے کوئی ’’ٹھوس شہادت‘‘ کیا، ٹھوس شہادت کی طرف ’’اشارہ‘‘ بھی فراہم نہیں کیا۔ یہ ہے وہ عظیم مؤرخ جو ڈاکٹر مبارک، سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود جیسے لوگوں کا ’’ہیرو‘‘ ہے، اور جسے وہ اورنگ زیب عالمگیر جیسی عظیم الشان اور تاریخ ساز شخصیت کو ’’گرانے‘‘ اور’’داراشکوہ‘‘ جیسے اسلام دشمن، ہندوازم اورعیسائیت کے پرستار کو ’’ابھارنے‘‘ کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ گفتگو ہمیں اس سوال تک لے آئی ہے کہ سہیل وڑائچ اور ان جیسے لوگوں کا ’’اصل داراشکوہ‘‘ کون تھا اور اس کے بارے میں ہماری تاریخ کیا کہتی ہے؟
علامہ شبلی نعمانی برصغیر کے بڑے علماء میں سے ایک ہیں۔ وہ ’’سیرت النبیؐ‘‘ اور ’’الفاروق‘‘ جیسی معرکہ آراء کتب کے مصنف ہیں۔ شبلی نے 1909ء میں اورنگ زیب پر ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں شبلی ’اصل داراشکوہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شاہ جہاں کے آخری دور میں جب معاملات داراشکوہ کے ہاتھ میں آگئے تو وہ (یعنی داراشکوہ) کھل کر ہندوئوں کی حمایت کرنے لگا۔ اس نے ویدوں کے مذہبی اور فلسفیانہ حصوں کا جو اپنشد کہلاتے ہیں، سیرالاسرار کے نام سے ترجمہ کیا اور کہا کہ قرآن اصل میں اپنشد ہی ہے۔‘‘
(’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 20)
یہ اسلام اور قرآن کے سلسلے میں داراشکوہ کا نسبتاً ’’نرم بیان‘‘ ہے۔ اس لیے کہ دارا نے ایک بار یہ بھی کہا کہ اپنشد قرآن سے برتر کتاب ہے۔ الٰہ آباد کے شیخ محب اللہ کے نام دارا کا ایک خط محفوظ ہے۔ اس خط میں دارا نے لکھا ہے کہ وہ اپنے وجدانی معارف و اثرات کو الہامی کتب کے مندرجات سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہے۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔صفحہ 206)
دارا کے ان خیالات سے ظاہر ہے کہ وہ ایک جگہ قرآن کو اپنشد کہتا ہے۔ یہ دارا کی روحانی اور فکری گمراہی کی پہلی منزل تھی، اور یہ منزل بتارہی تھی کہ دارا گمراہی اور ضلالت میں مزید ترقی کرے گا۔ اور اس نے مزید ترقی کی، یہاں تک کہ اس نے اپنشدوں کو ’’قرآن سے برتر‘‘ قرار دے دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ دارا یہ باتیں اُس وقت کررہا تھا جب وہ ہندوستان کا بادشاہ نہیں تھا۔ دارا ہندوستان کا بادشاہ بن جاتا تو پھر وہ کہتا کہ چونکہ اپنشد قرآن سے برتر ہیں اس لیے قرآن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآن اپنشد سے کم تر بن جاتا تو پھر احادیث، سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقہ اور اسلامی تاریخ و تہذیب کو کون پوچھتا؟ یعنی اورنگ زیب کے بجائے دارا اقتدار میں آجاتا تو وہ ہندوستان کو اسلام کا قبرستان بنادیتا، خاص طور پر اس صور ت میں جبکہ وہ اپنے خیالات کو الہامی کتب کے مندرجات یا متن سے مدیر افضل خیال کرتا تھا۔ یہ ہے داراشکوہ کی وہ ’’دانش وری‘‘، وہ ’’علمیت‘‘، وہ ’’صوفیانہ طرزِ فکر‘‘، وہ ’’ادب اور فن‘‘ سے دلچسپی جس کا سہیل وڑائچ اور اُن جیسے افراد پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن چلتے چلتے داراشکوہ کے کچھ اور ’’زریں خیالات‘‘ بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ برنیئے کا مدیر کانسٹیبل منہوچی کے حوالے سے لکھتا ہے:
’’عیسائی جذبات جن کے ذریعے مشنری پادریوں نے کوشش کرکے اسے (یعنی دارا کو) سرگرم کیا، اس کی زندگی کے آخری لمحات میں بیدار ہوگئے تھے، چنانچہ اسے موت سے قبل کہتے سنا گیا
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے موت دے رہا ہے، جبکہ ابن اللہ اور مریم مجھے نجات دلائیں گے۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 223)
سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود صاحب! یہ ہے آپ کا ’’اصل داراشکوہ‘‘… یہ ہے اس کی ’’نرمی‘‘… یہ ہے اس کی میاں میر اور درویشوں سے عقیدت… یہ ہے اس کی آرٹ اور فن سے وابستگی… یہ ہے وہ داراشکوہ جس کے ہارنے کا آپ کو ’’دکھ‘‘ ہے۔ تو کیا آپ حضرات کو عہدِ حاضر کے داراشکوہ میاں نوازشریف میں بھی ’’اصل داراشکوہ‘‘ کی ’’خوبیاں‘‘ نظر آتی ہیں، اور آپ چاہتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ’’عہدِ حاضر کا داراشکوہ‘‘ بھی وہی کچھ کہے جو اصل داراشکوہ کہہ کر جاچکا ہے؟ کیا جس طرح اصل داراشکوہ ہندوستان کو اسلام کا قبرستان بنانے کی سازش کررہا تھا آپ چاہتے ہیں کہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام کا قبرستان بنانے کی جدوجہد کرے؟ چونکہ میاں نوازشریف، ان کے ترجمان اور ان کی جماعت میاں صاحب کو اصل داراشکوہ کے برابر بٹھانے کی کوشش پر خاموش ہیں، اس لیے اہلِ پاکستان کیا برصغیر کی پوری ملتِ اسلامیہ، بلکہ پوری امتِ مسلمہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ میاں صاحب واقعتا خود کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ خیال کرتے ہیں۔ میاں صاحب کی طرف اگر کوئی شخص تنکا بھی پھینک دیتا ہے تو میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اور میاں صاحب کی پارٹی کے راہنما آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن میاں نوازشریف کے ’’ممتاز صحافتی عاشقوں‘‘ نے میاں صاحب کو داراشکوہ جیسے اسلام دشمن اور ہندوازم اور عیسائیت کے پرستار سے جاملایا لیکن میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اس بات پر مشتعل ہوئیں نہ خواجہ سعد رفیق اور طلال چودھری کو غصہ آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی واقعتا میاں صاحب کو عہدِ حاضر کا داراشکوہ سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کو ہندوستان سے عشق ہے، مودی جیسا اسلام دشمن اور پاکستان مخالف انہیں اپنے دربار میں طلب کرتا ہے تو میاں صاحب دھمال ڈالتے ہوئے مودی کے دربار میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ مودی دو ملکوں، دو قوموں، دو تہذیبوں اور دو مذاہب کے تعلقات کو ’’نواز مودی‘‘ کے مسئلے میں ڈھالتے ہوئے جاتی امرا تشریف لاتے ہیں تو میاں صاحب نہال ہوجاتے ہیں۔ میاں صاحب کو پاکستان اور بھارت کی سرحد ایک ’’لکیر‘‘ نظر آتی ہے۔ اُن کا دل چاہتا ہے کہ وہ ہولی کھیلیں۔ میاں صاحب کو دونوں ملکوں کی ثقافت ایک جیسی نظر آتی ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح داراشکوہ کو قرآن اپنشد جیسا دکھائی دیتا تھا۔ داراشکوہ کا وہ بیان ہم کوٹ کرچکے جس میں اس نے کہا ہے کہ نعوذباللہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے موت دے رہا ہے‘‘۔ میاں صاحب کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ پوری جرأت کے ساتھ ختمِ نبوت کے قانون پر حملہ کرچکے ہیں۔ شنید ہے کہ پنجاب میں جہاد سے متعلق آیات نصاب سے نکالی جاچکی ہیں۔ میاں صاحب کے گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری ہورہی تھی۔ ہم نے فرائیڈے اسپیشل کے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ نجکاری کا عمل اتنا غیر شفاف ہے کہ پاکستان کے اہم ترین قومی ادارے کو ہمارا دشمن خرید سکتا ہے۔ اتفاق سے، محض اتفاق سے سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا نوٹس لیا اور تحقیقات کرائیں تو معلوم ہوا کہ بھارت کا متّل گروپ پاکستان اسٹیل ملز خرید رہا تھا، البتہ اس کا فرنٹ مین کوئی اور تھا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ اگر ’’کمزوری کی حالت‘‘ میں یہ سب کرسکتا ہے تو وہ ’’طاقت ور‘‘ بن کر کیا نہیں کرے گا؟ تجزیہ کیا جائے تو ان تمام حقائق میں اس سوال کا جواب موجود ہے کہ داراشکوہ کو بار بار شکست کیوں ہوتی رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہوکر بھی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کرے گا، اس پر اصرار کرے گا، ہندوازم اور عیسائیت کو اسلام پر ترجیح دے گا، اسلامی تہذیب اور تاریخ کو مسخ کرے گا اور انہیں مٹانے کی سازش کرے گا تو وہ گرے پڑے سے گرے پڑے مسلم معاشرے میں بھی کیسے کامیاب ہوگا!
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ سہیل وڑائچ اور اُن جیسے ’’پاک طینت‘‘ لوگوں کے پسندیدہ مؤرخ برنیئر کی تکون کا تیسرا نقطہ یعنی اورنگ زیب کے بارے میں مسلم تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر ہم شبلی کی تصنیف ’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ یہ کتاب آج سے 109 سال قبل شائع ہوئی تھی، مگر یہ آج بھی ایک زندہ تصنیف ہے۔ اس تصنیف کے آغاز میں علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف اپنی دلی نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ اس نفرت کا ایک مظہر کسی غلیظ عیسائی رہنما کا یہ بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسکندریہ کے کتب خانے کو نذرِ آتش کردیا تھا۔ شبلی کے بقول ’’یہ ایک تاریخی جھوٹ تھا، مگر یہ جھوٹ اتنے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا کہ اچھے اچھوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ بات سچ ہی نہ ہو۔ شبلی کے بقول ایسا ہی معاملہ اورنگ زیب عالمگیر کا ہے۔ ان کے بارے میں مغربی مؤرخین نے اتنے بڑے پیمانے پر دروغ گوئی کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
(’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 1 )
اس سے قبل کہ اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے، ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ آخر برنیئر سمیت مختلف یورپی مؤرخین اور اُن کے تھوکے ہوئے نوالے چبانے والے ڈاکٹر مبارک، سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود جیسے لوگوں کو اور خود داراشکوہ اور ہندوئوں کو اورنگ زیب ’’زہر‘‘ کیوں لگتا ہے؟ تاریخ اس سوال کا ایک ہی جواب مہیا کرتی ہے، اور وہ یہ کہ اورنگ زیب اسلام کا سچا سپاہی، باعمل مسلمان اور برصغیر میں اسلام اورملتِ اسلامیہ کی بقا و سلامتی کی علامت تھا اور اسے اسلام سے ایسا عشق تھا کہ اس نے 43 برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ اس عمر میں حفظ تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اورنگ زیب تہجد گزار تھا، ’’ماثرِ عالمگیری‘‘ میں ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں بھی خشوع و خضوع کی حالت میں نماز ادا کرتا تھا۔ بلخ کی مہم کے دوران دشمن کے دستوں نے اسے گھیر لیا تھا لیکن نماز کے وقت پر وہ گھوڑے سے اترا اور امامت شروع کردی۔ امیر بلخ عبدالعزیز خان یہ منظر دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے لڑائی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ایسے شخص سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ داراشکوہ کو اورنگ زیب کی نماز اتنی ناپسند تھی کہ وہ اورنگ زیب کو ’’وہ نمازی‘‘ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ سہیل وڑائچ اور ان جیسے افراد کا ہیرو برنیئر اورنگ زیب کی مذہبیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’وہ ایسی پرہیزگاری کا ڈھونگ کرتا تھا جو اس کے دل میں تھی ہی نہیں۔‘‘
(سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 193،203،204)
سوال یہ ہے کہ برنیئر کو اورنگ زیب کے ’’دل کا حال‘‘ کس طرح معلوم ہوا؟ مگر جو شخص اورنگ زیب کے رسولؐ کی مذہبیت کو نہ مانتا ہو وہ اورنگ زیب کی مذہبیت کو کیا مانے گا؟
تاریخی شہادتوں سے ثابت ہے کہ اورنگ زیب کو اقتدار سے دلچسپی نہ تھی، بلکہ وہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنا چاہتا تھا، مگر وہ دیکھ رہا تھا کہ اللہ کا دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت برصغیر میں سنگین خطرات سے دوچار تھی۔ بدقسمتی سے کوئی شخص اورنگ زیب کے زمانے کے برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچ کر یہ نہیں بتاتا کہ اورنگ زیب کیوں اقتدار میں آیا؟ اور اس کا اقتدار میں آنا کیوں ضروری تھا؟ ان سوالات کے جواب کے لیے چند شہادتیں پیش ہیں۔
شبلی نے اورنگ زیب سے متعلق کتاب میں لکھا ہے:
’’جہانگیر کے آخری زمانے تک ریاست کمزور پڑچکی تھی۔ ہندو مسلمان عورتوں کو جبراً ہندو بنا کر اُن سے شادی کرلیتے تھے۔ مسجدیں شہید کرکے مسجد کے علاقے کو اپنے گھروں میں شامل کرلیتے تھے۔ اس کی تفصیل ’’شاہ جہاں نامہ‘‘ میں موجود ہے۔ شاہ جہاں نامہ شاہی تاریخ ہے۔‘‘ (صفحہ 25)
شبلی مزید لکھتے ہیں:
’’شاہ جہاں کے زمانے میں ہندوئوں نے مسلمان عورتوں سے جبراً شادیاں کیں تو شاہ جہاں نے انہیں آزاد کرایا۔ ہندوئوں نے مساجد کو گرا کر مندر بنائے تو شاہ جہاں نے مندر منہدم کرکے پھر سے مساجد تعمیر کرائیں۔ مگر جب آخری دور میں معاملات داراشکوہ کے ہاتھ میں آگئے تو دارا کھل کر ہندوئوں کی حمایت کرنے لگا۔ اس نے لکھا کہ قرآن اصل میں اپنشد ہی ہے۔‘‘ (صفحہ 26)
شبلی کہتے ہیں:
’’جو ہندو اکبر کے دور میں شریکِ سلطنت بن چکے تھے، جو جہانگیر کے زمانے میں بت خانے تعمیر کرتے تھے، جو شاہ جہاں کے دور میں مسجدیں گراکر بت خانے بناتے تھے اور مسلمان عورتوں سے جبراً شادیاں کرتے تھے، انہوں نے داراشکوہ کے طاقت ور ہونے کے بعد کیا نہ کیا ہوگا!‘‘(صفحہ 26)
اس سلسلے میں طارق جان نے لکھا ہے:
’’اورنگ زیب نے ایسے ملک میں آنکھ کھولی جس نے جلال الدین اکبر کی اسلام دشمنی بھی دیکھی، جس کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم سوسائٹی کو دینِ اسلام سے پھیر دے اور اس کے نتیجے میں (ہندوئوں کی خوش دلی اور تعاون کی شکل میں) اپنے لیے سیاسی فوائد سمیٹ لے۔ اورنگ زیب کو اپنے پردادا اکبر، اپنے دادا جہانگیر اور شیخ احمد سرہندی کے باہمی نزاع کا بھی علم ہوچکا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اکبر نے تو بچوں کے ناموں کے ساتھ ’’محمد‘‘ کا لاحقہ لگانے کی ممانعت کردی تھی، اسلامی کلینڈر منسوخ کردیا تھا اور عربی زبان، قرآن پاک اور شرعی قوانین کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ اکبر نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور حج بیت اللہ پر جانے سے روکنے کا حکم دیا، جبکہ شراب اور سور کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی۔‘‘
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ از طارق جان۔ صفحہ 205)
ان ناقابلِ تردید حقائق کو دیکھا جائے تو اقتدار اورنگ زیب کے لیے ’’شوق‘‘ نہیں بلکہ ایک دینی، تہذیبی اور تاریخی ’’ذمے داری‘‘ تھی۔ اورنگ زیب نے ہندوستان پر 50 سال حکومت کی، اس کے باوجود حضرت شاہ ولی اللہ تک آتے آتے یہ صورتِ حال ہوچکی تھی کہ برصغیر کے مسلم معاشرے سے قرآن اور حدیث کا علم اٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن کے ترجمے اور قرآن و حدیث کے دروس کے سلسلے قائم کرکے برصغیر کو قرآن و حدیث کے علم سے منور کردیا۔ اگر اورنگ زیب کے 50 سالہ اقتدار کے بعد برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کا یہ حال ہوا تو داراشکوہ کے پچاس سالہ دور کے بعد برصغیر میں اسلام، اس کے علم اور اس پر عمل کا کیا حال ہوتا؟ دارا اپنشد کو قرآن سے برتر سمجھتا تھا، چنانچہ مسلمان بھی دارا کے زیر سایہ قرآن و حدیث کے بجائے اپنشد پڑھتے اور رفتہ رفتہ ہندو ازم میں جذب ہوجاتے جیسے کہ سکھ ہندو ازم میں جذب ہوگئے ہیں۔ پھر نہ کوئی اقبال ہوتا، نہ کوئی مولانا مودودی ہوتے، نہ مولانا اشرف علی تھانوی، نہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی۔ پھر نہ کوئی خطبہ الٰہ آباد ہوتا، نہ کوئی محمد علی جناح، نہ کوئی مسلم لیگ ہوتی، نہ قراردادِ پاکستان اور نہ خود پاکستان۔ ہر طرف داراشکوہ کی ’’فتح‘‘ ہوتی اور ’’اورنگ زیب کی شکست‘‘ ۔ پھر ہر طرف ہندوازم ہی ہندوازم ہوتا۔ مگر پھر نہ عہدِ حاضر کا داراشکوہ ہوتا، نہ سہیل وڑائچ اور وجاہت مسعود ہوتے… ہوتے، تو ان کے نام بنواری لعل اور کرشن چندر ہوتے۔ مگر خدا کا شکر کہ اورنگ زیب جیت گیا اور داراشکوہ ہار گیا۔ تاہم امریکہ ہو یا یورپ، بھارت ہو یا سہیل وڑائچ جیسے بدباطن… ان تمام کی خواہش یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی صورت میں داراشکوہ کے تجربے کو دہرایا جائے۔
تاریخ قوموں کی تقدیر ہوتی ہے، اور قوموں کی تقدیر کو مذاق میں اڑانا جہالت ہے۔ اتفاق سے ابن انشا نے بھی اس جہالت کی ایک بڑی مثال قائم کررکھی ہے۔ انہوں نے تاریخی اعتبار سے یہ فحش جملہ لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے کوئی نماز اور کوئی بھائی نہیں چھوڑا۔ اس فقرے سے ’’تاثر‘‘ ملتا ہے کہ اورنگ زیب بڑا سفاک تھا اور اُس نے باپ کو جیل میں ڈالا اور بھائیوں کو قتل کیا۔ حالانکہ یہ نوبت اورنگ زیب کی وجہ سے نہیں، خود شاہ جہاں اور داراشکوہ کی وجہ سے آئی۔
اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش میں شاہ جہاں باپ کی حیثیت سے ’’غیر جانب دار‘‘ نہ تھا۔ وہ داراشکوہ کے ساتھ تھا اور چاہتا تھا کہ اورنگ زیب کو قتل کردیا جائے۔ اس کی گواہی داراشکوہ کے حمایتی منہوچی نے بھی دی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ شاہ جہاں، اورنگ زیب کو محل میں بلا کر قوی الاعضاء تاتاری، قلمک اور ازبک خواتین کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا۔ برنیئر نے اپنے سفرنامے میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔ محل کے اندر کی بات اورنگ زیب کی چھوٹی بہن روشن آراء جان گئی اور اس نے اورنگ زیب کو شاہ جہاں کے ارادوں سے آگاہ کردیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شاہ جہاں خود کو بیمار ظاہر کرکے اورنگ زیب کو محل میں بلارہا تھا، اور خطرات کے باوجود اورنگ زیب باپ کی تمنا پوری کرنے کے لیے محل آنا چاہتا تھا۔ وہ صرف یہ مطالبہ کررہا تھا کہ اس کے فوجیوں کو محل کے دروازے پر پہرے کی اجازت دے دی جائے۔
(’’سیکولرزم، مباحث اور مغالطے‘‘۔ صفحہ 212،213)
اگرچہ شاہ جہاں، اورنگ زیب کے قتل کی سازش کررہا تھا مگر اورنگ زیب باپ کو لکھ رہا تھا:
’’جب تک طاقت اور اختیار آپ کے مبارک ہاتھوں میں رہا، آپ کی اطاعت مجھ پر لازم تھی۔ اللہ بزرگ و برتر گواہ ہے کہ میں نے کبھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا، لیکن جب آنجناب بیمار پڑ گئے تو شہزادے (دارا) نے اختیارات سلب کرلیے۔ اس نے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین کی جگہ ہندوئوں کا بت پرستانہ مذہب پھیلانا شروع کردیا جس سے سلطنت میں بے چینی پھیلی۔ اپنے آپ کو حقیقی جانشین سمجھ کر اس (دارا) نے آپ کو بادشاہی سے معزول کردیا… چنانچہ میں برہان پور سے چل پڑا کہ کہیں یومِ آخرت میں اللہ مجھے ذمے دار نہ ٹھیرائے کہ میں نے فساد کو کیوں نہیں دبایا۔‘‘ (صفحہ 217)
ایک اور خط اورنگ زیب نے باپ کو لکھا:
’’آپ کی علالت کے ابتدائی ایام میں جب بڑے شہزادے نے، جس میں ایک مسلمان کے شریفانہ کردار کا ذرہ برابر بھی نقش موجود نہیں، اقتدار ہاتھ میں لیا اور الحاد و بے دینی کا علَم بلند کیا تو میں نے اسے اپنی اسلامی ذمے داری سمجھا کہ اسے مسندِ اقتدار سے اتار پھینکوں۔ چونکہ آپ عالی وقار کا ایک ہی جانب جھکائو رہا اور آپ حالات کی سنگینی کا احساس نہ کرپائے، اور آپ نے بڑے شہزادے کو بے دینی پھیلانے کی آزادی دیے رکھی، (چنانچہ) میں نے تہیہ کرلیا کہ اس کے خلاف جہاد کروں۔‘‘ (صفحہ 216)
سوال یہ ہے کہ سہیل وڑائچ اور ان جیسے لوگوں کے صوفی منش اور نرم خو ’دارا‘ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کرتے ہی کیا کیا…؟ اس نے دربار سے ایسے امراء کو نکال پھینکا جن پر اورنگ زیب سے وفاداری کا شبہ تھا۔ دربار میں اورنگ زیب کے رابطہ افسر عیسیٰ بیگ کو پہلے حوالۂ زنداں کیا، پھر اس کی جائداد ضبط کرلی۔ دارا نے باپ کے جعلی دستخط کرکے جسونت سنگھ کی کمان میں متحدہ فوج کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بھیجا۔ اورنگ زیب نے اپنے دوسرے بھائی مراد کے ساتھ صلح کی ہرممکن کوشش کی۔ اس نے مراد کو 20 لاکھ روپے اور دو سو گھوڑے بھیجے اور اسے یقین دلایا کہ دارا کے معاملے کے سلجھتے ہی مراد کو اپنے موعودہ علاقوں کی طرف جانے کی اجازت ہوگی، مگر مراد مطلق بادشاہی کا خواب دیکھ رہا تھا، چنانچہ اُس نے تختِ شاہی پر اپنے دعوے کا اعلان کردیا۔ اس بات نے اورنگ زیب کو دُکھی کردیا۔ اب اس کے سامنے تین حریف تھے: اس کا باپ اور دو بھائی۔ چنانچہ اس نے مراد کو پکڑ کر گوالیار کے قلعے میں بند کردیا اور اسے فیاضیانہ عطیات سے نوازا۔ اس کا خاندان اس کے ساتھ رہا۔ اس کی خاص محبوبہ سرستی بائی بھی اس کی دسترس میں رہی۔ لیکن مراد نے فرار کی کوشش کی۔ اورنگ زیب اسے قتل کرسکتا تھا مگر اس نے اسے چار سال تک حفاظتی حراست میں رکھا۔ اورنگ زیب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے دارا کو قتل کیا۔ لیکن دارا کے عاشق اور سیکولر اور لبرل عناصر کے پسندیدہ مؤرخ برنیئر کے بقول داراشکوہ کی موت علماء کی ایک مجلس کے اجتماعی فیصلے یا فتوے کے نتیجے میں ہوئی، نہ کہ اورنگ زیب کے فرمانِ شاہی کے نتیجے میں۔ (صفحہ 222)
اورنگ زیب پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے اپنی ہندو رعایا اور خواص پر بڑے ظلم کیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اورنگ زیب نے اقتدار سنبھالتے ہی 80 ٹیکس ختم کردیے۔ مغربی مؤرخ الفنسٹن نے کہا ہے کہ اورنگ زیب نے مراٹھا جنگجو شیوا جی کے ساتھ برا سلوک کیا۔ وہ ایسا نہ کرتا تو شیواجی مطیع ہوسکتا تھا۔ مگر شبلی نے اورنگ زیب سے متعلق اپنی تصنیف میں اس الزام کی تردید کی ہے اورلکھا ہے کہ اورنگ زیب نے شیواجی سے بہت اچھا سلوک کیا۔ (صفحہ 13)
شیواجی کے بعد اس کے بیٹے سبنھاجی نے قیادت سنبھالی۔ ایک معرکے کے بعد اس کا سات سالہ بیٹا ساہو اورنگ زیب کے ہاتھ لگا۔ سبنھا کی ماں بھی قید ہوئی۔ مگر شبلی کے بقول اورنگ زیب نے ساہو کو ہفت ہزاری بنایا اور اسے راجا کا درجہ دیا۔ (صفحہ 16)
شاہ جہاں بیمار ہوا تو اورنگ زیب دکن سے باپ کے ساتھ ملاقات کے لیے روانہ ہوا مگر جودھ پور کے راجا جے سنگھ اور جسونت سنگھ نے اس کا راستہ روکا۔ جنگ ہوئی اور جسونت سنگھ فرار ہوگیا۔ اورنگ زیب بادشاہ بنا تو جسونت سنگھ نے اس سے رابطہ کیا اور معافی کا طلب گار ہوا۔ اورنگ زیب نے اسے معاف کردیا۔ کئی سال بعد جسونت سنگھ نے پھر بغاوت کی اور اورنگ زیب کی ہندو فوج کا بڑا حصہ اپنے ساتھ ملالیا، مگر جسونت سنگھ کو پھر شکست ہوئی۔ اس نے پھر اورنگ زیب سے معافی مانگی اور اورنگ زیب نے اسے معاف کردیا، بلکہ اسے احمد آباد کا صوبیدار مقرر کردیا۔ (’’اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘۔ از شبلی نعمانی۔ صفحہ 21)
شبلی نے اپنی معرکہ آراء تصنیف میں اس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ اورنگ زیب نے بت خانے توڑے۔ شبلی نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے ایسے بت خانے منہدم کیے جہاں ریاست کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں۔ اورنگ زیب 25 سال دکن میں رہا مگر چونکہ وہاں اس کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی چنانچہ 25 سال میں اس نے ایک بت کو بھی ہاتھ نہ لگایا۔ (صفحہ 32)
یہ حقائق بتاتے ہیں کہ اورنگ زیب اصل میں کون تھا اور اس کی فتح کا راز کیا تھا؟ بدقسمتی سے سہیل وڑائچ نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو عہد حاضر کا اورنگ زیب باور کرانے کی کوشش کی۔ یہ اورنگ زیب کی توہین ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ سلطنت کیا سنبھالتی، اس سے تو ملک نہیں سنبھالا گیا۔ اورنگ زیب 86 سال کی عمر میں بھی میدانِ کارزار میں دادِ شجاعت دے رہا تھا اور باغی مراٹھوں کے قلعے فتح کررہا تھا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ صرف 24 برس کی عمر میں آدھا ملک گنوا بیٹھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں داراشکوہ تو بہت ہوئے ہیں مگر اورنگ زیب صرف ایک ہوا ہے۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ عصرِ حاضر کے داراشکوہ میاں نوازشریف کا مستقبل کیا ہے؟ بظاہر ان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے مگر ابھی تک ان میں اتنی جان ہے کہ مولانا فضل الرحمن عہدِ حاضر کے داراشکوہ کے ساتھ ’’سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا ؎
مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
It’s the same topic , but I was quite surprised to see the opinions I didn’t think of. My blog also has articles on these topics, so I look forward to your visit. baccaratsite
نواز شریف یا آج کے کسی بھی شخص کا موازنہ کسی شاہ یا شہزادے سے کرنا ایک بڑا مذاق ہے۔ بادشاہ کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوتے تھے۔ وہ کردار اب ختم ہوچکے۔گر بہت احترام کے ساتھ عرض یہ ہے کہ تاریخ کے ساتھ یہ سیاہ و سفید سوچ بہت موزوں نہیں۔ اورنگزیب شیطان نہیں تھا لیکن فرشتہ بھی نہیں تھا بالکل اسی طرح دارا بھی تھا۔ اورنگزیب نے سکھوں کے ساتھ جو بہیمانہ رویہ اختیار کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کالم میں اسکا ذکر بھی نہیں۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اورنگزیب نے انتہائی بہیمانہ سزائیں اپنے مخالفین کو دیں۔ جیسے زندہ انسان کی کھال اتروانا۔ سانپ سے اپنے ایک عملدار کو ڈسوایا اور اسکی لاش کئی دن تک اپنے دربار کے باہر سڑنے دی کہ سب درباری ڈر جائیں۔ ویسے شاہنواز صاحب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کا اسلام بھی وہ نہیں تھا جو کہ مودودی صاحب کا ہے۔ اورنگزیب نے اپنے بیٹے کو خط میں کہا تھا کہ اجنتا کا مندر دیکھ لینا وہ مظہر خدا ہے۔ پھر اسکی وصیت پڑھ لیجیے جس میں وہ بتاتا ہے کہ اسے امام باڑے مخں دفن کیا جائے اور اسکے کفن کہ قیمت قرآن کی کتابت سے نہ ہو کیونکہ یہ شیعی مسلک میں جائز نہیں۔ اورنگزیب زیب کو اتنا بھی وائٹ واش نہ کریں کہ تاریخ ہی نئی لکھنی پڑے۔ دارا کا ہندو مت کی طرف میلان فلسفیانہ تھا۔ وہ اگر حکومت میں بھی آتا تو یہ بالکل ضروری نہیں تھا کہ سب کو ہانک کر ہندو ہی بنادیا جاتا جیسا کہ کالم نگار کا خیال ہے۔ جب اکبر یہ نہیں کرسکا تو دارا کیسے کرتا جو کہ ہر اعتبار سے اکبر سے کمزور شخصیت کا مالک تھا؟ خب ہزار سال کا مسلم اقتدار سارے ہندوستان کو مسلمان نہ بنا سکا تو صرف دارا کا اقتدار مسلمانوں کو اتنا ہندو کیسے بنادیتا کہ پھر نہ کوئی مودودی ہوتا نا اقبال وغیرہ وغیرہ؟؟؟ اورنگزیب نے اپنی ایک بیٹی سے شادی کے خواہشمند اپنے ہی ایک سالار کو تیل میں تلوا کر مارا تھا۔ اس بارے میں کیا رائے ہے؟