پروفیسر صاحب کلاس میں داخل ہوئے اور پوری کلاس پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ۔ حسب معمول کلاس کی اگلی نشستوں پر پوری کلاس کی ” کریم ” بیٹھی تھی ۔ جن کے پاس ان کی اسٹیشنری سے لے کر استاد کے ہر سوال کا جواب تک موجود تھا ۔ جبکہ پچھلی نشستوں پر وہی نوجوان تھے جو شاید خانہ پری کے لئیے کلاس میں موجود تھے ۔ کم و بیش پیچھے بیٹھے تمام ہی طلبہ کسی نہ کسی پیپر میں سپلی کا ” فیض ” پاچکے تھے ۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اور آگے بیٹھے طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا “پیچھے مڑ کر دیکھو کون بیٹھا ہے ؟ ” ۔ اگلی نشستوں پر براجمان طلبہ و طالبات نے حیرت اور تچسس سے پیچھے دیکھا اور ہنسنے لگے ۔ پچھلی نشستوں پر موجود طلبہ کے لئیے ویسے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ ہر ٹیچر کو اپنے لیکچر کے دوران ویسے بھی ان کی عزت افزائی کرنی ہی ہوتی ہے ۔ پروفیسر صاحب کی آواز کلاس میں دوبارہ گونجی ۔ وہ پھر آگے والوں سے مخاطب تھے ۔ ” دوبارہ پیچھے والوں کو دیکھو ! “۔ آگے بیٹھے طلبہ کی حیرت اب پریشانی میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی ۔ ابھی پوری کلاس حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے جذبات اور تاثرات سے باہر بھی نہ آسکی تھی کہ پروفیسر صاحب نے تیسری دفعہ اپنی بات دہرائی ۔ اب کی بار آگے بیٹھے کلاس میں سب سے زیادہ جی – پی – اے لینے والے لڑکے نے جھنجلا کر کہا ” سر ! اس سب کا کیا مطلب ہے ؟ “۔ پروفیسر صاحب مسکرائے اپنا چشمہ اتارا اور گویا ہوئے ۔ ان پیچھے بیٹھے ” سپلی زدہ ” نالائق اور نکمے لوگوں کی شکلیں اور نام اچھی طرح یاد کرلو ، ذہن میں بٹھا لو ۔ کیونکہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد تمام جی – پی – اے ہولڈرز نے ان ہی کے پاس نوکریاں کرنی ہیں ۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے کہ آپ چاہ کر بھی جس کا انکار نہیں کرسکتے ہیں ۔ آپ سن کر حیران رہ جائینگے کہ دنیا کا 90 فیصد کاروبار اور معیشت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اور جنھوں نے اس دنیا کے 90 فیصد لوگوں کو نوکریاں دے رکھی ہیں ان کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھوں نے اپنی ڈگریاں تک مکمل نہیں کیں ۔ جو اپنے کالجز تک سے نکال دئیے گئے لیکن پھر کمال کرگئے ۔ میں ایک صاحب کے بارے میں جانتا ہوں جو اسکول کی دیوار پھلانگ کر بریک میں ہی بھاگ جایا کرتے تھے ۔ وہ اسوقت چار فیکٹریوں کے مالک ہیں اور بقول ان کے میری کلاس کے پوزیشن ہولڈرز تک میرے پاس نوکری کرتے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام فطرت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے ۔ اللہ تعالی نے سیکھنے کا کوئی عمل غلطی کے بغیر نہیں رکھا ہے ۔ اگر آپ کچھ نیا کرنا یا سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو خود سے تجربہ کرنا پڑیگا ۔ اس تجربے کے نتیجے میں دو باتیں ہونگی یا تو آپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑیگا یا آپ کچھ نیا کر جائینگے ۔ اگر تو کچھ نیا کرگئے تو آپ کی ہمت ، حوصلہ ، خود اعتمادی اور آپ کا اپنی صلاحیتوں پر یقین آسمان کو چھولے گا ۔ لیکن اگر آپ ناکام ہوئے تو پھر آپ کو اس دباؤ اور ناکامی کو برداشت کرنا آجائیگا ۔ ایڈیسن سے کسی نے پوچھا آپ کے بلب کا تجربہ دس ہزار سے زیادہ بار ناکام ہوا پھر بھی آپ نے ہمت نہیں ہاری ؟ ایڈیسن نے جواب دیا ” میں نے بلب نہ جلنے کے دس ہزار طریقے سیکھے ہیں “۔
ای – جے – گرے امریکا کے بہت بڑے محقق ہیں انھوں نے ساری زندگی کامیاب لوگوں میں موجود اس عادت کو ڈھونڈنے میں لگادی جو دنیا کے ہر کامیاب انسان میں پائی جاتی ہے ۔ان کی زندگی بھر کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کو وہ ” مشترک عادت ” جو دنیا کے ہر کامیاب انسان مٰیں پائی جاتی ہے وہ ” بے خوف ارادہ ” ہے ۔ یہ ایٹم بم سے زیادہ شدید ہے ۔ اس ارادے نے لوگوں سے وہ کچھ کروایا ہے جس کو شاید کبھی انسانی دماغ تصور بھی نہیں کر سکتا ہے ۔ 1940 میں ٹی – بی کے مرض میں مبتلا ہونے والے انسان نے محض 7 سالوں میں دنیا کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ ایک طرف آپ قائد کی صحت اور طبعیت دیکھیں اور دوسری طرف انکا ” بے خوف ارادہ ” ۔ ہمارے اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز بچوں کو غلطی پر سزا دیتے ہیں ۔ ان کو شروع سے بتا دیا جاتا ہے ۔” دیکھو ! ویسا کرنا ہے جیسا بولا گیا ہے ، اگر کچھ نیا کرنے کی کوشش کی تو سزا ملے گی “۔ اسکول کے پہلے دن سے جس طرح وہ گھبرایا ہوتا ہے ۔ یونیورسٹی تک اس میں پختہ ہوچکا ہوتا ہے ۔ وہ بچہ جب کسی چیز کو ہاتھ لگانے لگتا ہے ، جب کچھ نیا کرنے کا سوچنے لگتا ہے ۔ ٹیچر کی ڈانٹ اور سزا کا خوف اس کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس کے دماغ کو بھی روکنا شروع کردیتا ہے ۔ اس کو کچھ بھی نیا کرنے حتی کہ نیا سوچنے تک سے خوف آنے لگتا ہے ۔ہمارا گھر ، ہمارا معاشرہ پچپن سے ہی اس کو دیگر بچوں کے ساتھ کمپئیر کر کر ، اس کے پھوپی زاد اور چچا زاد کزنز کی کامیابی کی داستانیں سنا سنا کر اس سے کچھ بھی نیا کرنے یا سوچنے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں ۔ اس بچے کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مجھے ویسا ہی بننا ہے جن سے امی ، ابو مجھے کمپئیر کرتے ہیں ۔ جو بچہ گرتا نہیں ہے وہ چلنا نہیں سیکھ سکتا ہے ۔ آپ موٹر سائیکل کی مثال لے لیں جب تک آپ موٹر سائیکل پر سے گرینگے نہیں یا کسی سے ٹکرائینگے نہیں آپ کے اندر کا خوف نہیں نکل سکتا ہے ۔فطرت کا ایک سادہ سا اصول ہے جو غلطی کریگا وہ سیکھے گا ۔ ہمارا تعلیمی نظام ” غلطی کا خوف ” اس طرح بچوں کے دلوں اور دماغوں میں بٹھا دیتا ہے کہ ” کچھ کھو دینے کا خوف بہت کچھ پالینے کی خوشی پر ہمیشہ غالب آجاتا ہے “۔ وہ ساری زندگی ” اگر کچھ ہوگیا ” کا شکار رہتے ہیں۔ اور جو اس ڈر اور خوف کو شکست دینا سیکھ لیتا ہے وہی ” سکندر ” ہوتا ہے ۔ اگر آپ کو واقعی اپنے بچوں سے پیار ہے تو پھر انھیں خود سے تجربے کرنے دیں انھیں خود سے کچھ کرنے اور سیکھنے کی عادت ڈالیں ۔نصیحت ضرور کریں مگر نوالے بنا بنا کر مت کھلائیں ۔ جناح پونجا نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کی خواہش پر تین دفعہ اسکول تبدیل کروایا ۔ بزنس ایڈمنٹریشن پڑھنے کے لئیے لندن بھیجا اور بیٹا واپس آیا تو بیرسٹر تھا ۔ لیکن اس سب کے نتیجے میں باپ اپنے بیٹے کو خود اعتمادی اور اس کی صلاحیتوں پر یقین ضرور دے گیا ۔ بچہ کچھ بھی کرنے کے بعد تین لوگوں کی طرف دیکھتا ہے ماں ، باپ اور استاد لیکن اگر تینوں جگہ سے ہی محض انکار اور غلطی پر سزا کی نوید سنائی جائے تو وہ بچہ بے چارہ کیا کریگا ؟ ۔ جس بچے کے ماں ،باپ اور استاذہ کو ہی اس پر اعتماد اور اس کی صلاحیتوں پر یقین نہ ہو وہ زمانے کے سامنے پر اعتماد اور خود یقینی کیسے دکھا سکتا ہے ؟ ۔ دنیا میں آگے بڑھنے والوں میں جو چیز یکساں ہوتی ہے وہ ” خوف پر قابو ” اور غلطی سے سیکھنا ہے ۔ اپنے بچے کی صلاحیتوں پر یقین کریں ، اسے اعتماد دیں ۔ وہ دنیا کے بہترین اسکولوں کسے زیادہ بہترین نتائج دیگا ۔لیکن آزمائش شرط ہے ۔
بہت خوشی ہوئی قومی زبان میں لکھے گئے مضمون کو پڑھ کر. ساری کی ساری تحریر اپنے اندر ایک کشش لیئے ہوئے ہے کہ مجھے پڑھتے رہو. ما شاء اللّٰہ.