تمام دیواریں توڑ ڈالو تمام اینٹیں فروخت کر دو۔۔۔غزل

تمام دیواریں توڑ ڈالو تمام اینٹیں فروخت کر دو

ہمارے اس شہر کی منڈیریں سبھی فصیلیں فروخت کر دو

ہمیں ہی مجرم قرار دینا جو چاہتے ہو تو اے وکیلو

جو جا رہی ہوں ہمارے حق میں وہ سب دلیلیں فروخت کر دو

جو ایک دو خواب رہ گئے ہیں اگر خوشی کے، نہ دیکھ پائیں

جو بچ گئیں ہیں ہماری آنکھوں میں کچھ، وہ نیندیں فروخت کر دو

یہ عزم و ایثار کی چٹانیں کہیں نہ پھر شہر کو بسالیں

تو آؤ تم اس کے سارے پتھر تمام اینٹیں فروخت کر دو

ہر اک ستم ہے روا مگر ہم رواں ہیں منزل کی سمت، تم سے

جو ہو سکے تو ہمارے رستے ہماری راہیں فروخت کر دو

بگاڑ دو ساری عادتوں اور ساری اچھی روایتوں کو

ہماری اقدار، اچھے اخلاق، ساری ریتیں فروخت کر دو

جو ایسے حیلوں سے آپ کے گھر کی رونقیں بڑھ سکیں تو کیا غم

ہمارے بازار، ہمارے گھر بار سب زمینیں فروخت کر دو

کرو ستم اور چاہو ہمدردیاں سمیٹو زمانے بھر کی

تو سب ہمارے بلکتے آنسو، سسکتی آہیں فروخت کر دو

ہر اک سحر اور ہر ایک شب پر تمہارا حق ہے سو اس کی خاطر

ہمارے حصے کے سارے دن اور ساری راتیں فروخت کر دو

تمہارے دل میں ہماری یادیں جو نقش ہیں سب کی سب مٹا دو

حسین لمحے، سہانی شامیں، پرانی یادیں فرخت کر دو

ہماری لاشوں کی حرمتیں بھی تم آؤاور خاک میں ملا دو

تمام تابوت توڑو اور ان کی ساری کیلیں فروخت کر دو

ہمارے ماضی کی عظمتوں کو ہر ایک دل سے نکال پھینکو

ہمارے اسلاف و سارے اجداد کی نظیریں فروخت کر دو

ہر ایک شے چھین لی گئی ہے نہ گھر بچے ہیں نہ در بچے ہیں

بس اک سمندر ہے آواس کی مچلتی لہریں فروخت کر دو

حبیب جب تم وطن کے بیٹوں کو بیٹیوں کو بھی بیچ کھائے

بعید کیا ہے جو دھرتی ماں کو بھی کوڑیوں میں فروخت کردو

فرعون وقت اپنے چیلوں سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو اٹھ رہی ہیں تمہاری جانب ان انگلیوں کو مروڑ ڈالو

غلط روش سے جو روکتے ہوں وہ ہاتھ تم سارے توڑ ڈالو

جو کہہ دیں جرات سے کام لیکر کہ تم کوئی بھیڑیا صفت ہو

تو ایسی گستاخ حرکتوں پر اٹھو اور ان کو بھنبھوڑ ڈالو

یہ دین حق کے ہیں جتنے داعی انھیں سبق کچھ سکھاوجاکر

سناؤایسی کسیلی کڑوی دماغ ان کے جھنجوڑ ڈالو

وہ جتنے میرے قریب تر ہیں وہ سارے بو جہل و بو لہب ہیں

سوائے اس کے کوئی بتاؤ کہ ان سے پھر کس کا جوڑ ڈالو

جو اپنی دولت کی طاقتوں سے عداوتوں کو بڑھا رہے ہیں

چلو بڑھو جاؤ تم بھی اس میں ہزاروں لاکھوں کروڑ ڈالو

ہو تم ہی فرعون کے سپوتو بٹھاؤ وہ دہشتیں دلوں میں

جو تم سے جرات کریں ملانے کی آنکھ، آنکھیں وہ پھوڑ ڈالو

جو پھر بھی کچھ بولتے ملیں ہیں ہمارے ظلم و ستم کے آگے

لہو ہی کیا ان کی ہڈیوں سے تمام گودا نچوڑ ڈالو

ہے کون سچا، ہے کو چھوٹا، فسانہ کیا ہے حقیقتیں کیا

کوئی کسی کو سمجھ نہ پائے دلوں میں کچھ ایسا کھوڑ ڈالو

کہاں کا انصاف کیسے منصف عدالتیں کیا ہیں فیصلے کیا

یہ سارے دستور سارے آئین سارے قانون توڑ ڈالو

 

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں