بچپن کے علم کو پتھر کی لکیر سے تعبیر کیا جا تا ہے۔بچپن میں دینی تعلیم کی غرض سے محلے کی مسجد کو بھیجا جا تا تھا جہا ں نہ صرف ما ثورہ دعاؤں،منتخب قرآنی آیا ت و سورتوں کا حفظ کروایا جا تاتھابلکہ زندگی گزارنے کا قرینہ بھی اسا تذہ اکرام سکھایا کر تے تھے۔بچپن میں مسجد میں دینی تعلیم کے دوران مولوی صاحب نے بتا یا کہ اللہ کے حضور روز محشر جب بندوں کو پیش کیا جا ئے گا تو اللہ بندے کی زبان پر مہر ثبت کر دیں گے اور اس کے اعضاء اور جوارح اس کی گواہی دیں گے کہ اس نے کیا کیا گناہ کیئے ہیں۔ گویا جسم کے ہر روئیں کو زبان عطاکر دی جا ئے گی ۔یہ بات ذہن میں اس طرح پیوست ہو گئی کہ اللہ کا جلال و قہر اور اس کی کبریا ئی بچپن میں جیسے نقش کر دی گئی تھی اس میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ابتداَ یہ با ت سمجھ میں نہیں آ تی تھی کہ اعضاء و جوارح کس طرح سے با ت کر یں گے اللہ رب العزت تو ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شئے اس کے قبضے قدرت میں ہے ۔لیکن عمر کے سا تھ کسی قدر علم سے آگہی پیدا ہوئی اور عمرانیات و نفسیاتی علوم کے مطالعہ کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ صرف زبان ہی گفتگو نہیں کر تی ہے بلکہ انسانی جسم بھی خاموش گفتگو انجام دیتا ہے۔اور جسم کی یہ گفتگو اتنی پر اثر ہو تی ہے کہ اسی گفتگو پر زبانی گفتگو اپنی تا ثیر بر قرار رکھتی ہے یا اپنا وقار گنوا بیٹھتی ہے۔ انسانی زندگی میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جہا ں وہ ایک لفظ زبان سے ادا کیئے بغیر اپنے جسم کے رویوں اور برتاؤ سے اپنا پیغام ترسیل کر دیتا ہے ان رویوں اور بر تا ؤ سے لوگ اندازہ قائم کر لیتے ہیں کہ وہ کیا کہنا اور کر نا چا ہتا ہے۔زبان انسانوں کے باہمی رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی فکر اور تخیلات کی تر سیل کا کام انجام دیتے ہیں پیغام کی ترسیل میں زبان کے ساتھ لہجہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لہجہ دراصل الفاظ کی تشریح اور ترجمانی کا کا م انجام دیتا ہے یہ اہم نہیں ہو تا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ یہ اہم ہو تا ہے کہ آپ کا لہجہ کیا کہہ رہا ہے۔لہجہ بھی زبان کا محتاج ہو تا ہے لیکن صرف ایک ایسی زبان ہے جو الفاظ و لہجہ کی محتاج نہیں ہے اور اسے باڈی لینگویج (غیر لفظی زبان)،خاموش زبان یا جسمانی اظہار کے نام سے معنون کیا جا تا ہے۔
عالمی سطح پر بیشمار زبانیں بولی اور سمجھی جا تی ہیں جن میں سب سے زیادہ بولی جا نے والی مینڈیرن (Mandarin) زبان سرفہرست ہے اس کے بعد ہسپانوی اور پھر انگریزی کا نمبر آتا ہے۔ہمارے ملک ہندوستان میں بھی کئی بولیا ں اور زبانیں رائج ہیں۔ان تما م زبانوں کے با وجود دنیا بھر میں صرف باڈی لینگویج ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں اظہا ر کے لئے الفاظ و جملوں کی قطعی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔باڈی لینگویج یا جسمانی اظہار میں انسان کا پورا جسم زبان بن کر جذبات کی غمازی کر تا ہے۔آدمی کی خاموشی کے با وجود اس کی با ڈی لینگویج ( اس کا جسم )اس کے جذبات کی تر جمانی کر تی ہے اب اسے سمجھنے کا کام سامنے والے شخص کے فہم و فراست پر ہو تا ہے کہ وہ اس کی تعبیر و تفہیم میں کہاں تک کامیاب ہو ا ہے۔ عمرانیا ت اور علم نفسیات کے ماہرین کا اس با ت پر اجماع ہے کہ انسان اپنی با ت چیت کے اظہار کے لئے صرف تین فیصدزبان اور لہجے کو استعمال کر تا ہے جب کہ 97% اظہار کے لئے اپنے جسم جیسے ہاتھ ،پیر ،انگلیاں ،آنکھ ،چہرہ وغیرہ کو استعمال کر تا ہے۔
مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین محمد با بر ایک روز اپنے سرداروں کے ساتھ مصروف طعام تھا ۔اس نے دیکھا کہ ایک قوی الجثہ افغانی سردار شیر شاہ سوری خنجر سے دسترخوان پر رکھے ہو ئے گوشت کو نوچ نوچ کر کھا رہا ہے۔ اس بدتمیزی پر با بر جیسے عظیم المرتبت با دشا ہ کی پیشانی پر بل پڑگئے ۔ اس نے خادم کے کان میں شیر شاہ سوری کا سر قلم کر دینے کا حکم صادرکیا ۔شیر شا ہ، با بر کو خادم کے کان میں کانا پھوسی کر تے ہوئے دیکھ کر بھانپ گیا اور اپنا لباس خادم کو پہنا کر راہ فرار اختیار کی اور جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔بادشاہ کے خادموں نے شیر شاہ کے نوکر کو شیر شا ہ سمجھ کر قتل کر دیا۔بابر ایک قیافہ شناس تھا اس نے سردار کے جسمانی اظہار سے اس میں پلنے والے باغیا نہ طیور کا اندازہ قائم کر لیا تھا کہ وہ مستقبل میں سلطنت کے لئے ایک خطرہ بن جائے گااسی لئے اس نے اس کے قتل کا فوری حکم دیا ۔لیکن شیر شا ہ بھی قیافہ شناسی کا ماہر تھا وہ بادشاہ کی با ڈی لینگویج کو پڑھ چکاتھا کہ با دشاہ اس کے قتل پر آمادہ ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ شیر شاہ سوری نے با بر کی وفات کے بعد ہمایوں کو در بدر کی خاک چھاننے پر مجبور کر دیا۔یہ واقعہ علم قیافہ شناسی کی ایک ادنی مثال ہے۔موجودہ زمانے میں قیافہ شناسی کو باڈی لینگویج کے نام سے معنون کیا گیا ہے۔یہ ایک قدیم فن ہے جو صدیوں سے ہوتا ہو ا ہم تک پہنچا ہے۔
دور حاضر میں کئی افراد اس علم کو حا صل کر نے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔اور ایک کا میاب زندگی کے لئے یہ لا زمی ہے کہ ہم دوسروں کے متعلق معلومات حا صل کر نے کے بجائے خود اپنی ذات میں ڈوب کر اپنے رویوں اور بر تا ؤ کی اصلاح کر تے ہو ئے کا میابیوں کے زینوں کو طئے کرئیں۔ہم ہر با ر گھر سے با ہر نکلنے سے پہلے خو د کو آئینے میں دیکھ کر حسب ضرورت اپنے چہرے بال اور لباس کو درست کرلیتے ہیں اور اطمینان کے بعد ہی گھر سے با ہر نکلتے ہیں لیکن یہ کتنی بد قسمتی کی با ت ہے کہ ہم اپنے وضع قطع لباس اور با ل تو درست کر لیتے ہیں لیکن جسمانی اشارات و کنایات اور جسمانی اظہار رویوں کو درست کر نے یا پھر ان کو سیکھنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر کسی کو ہر کوئی پسند کر ے مقام و علاقوں کے اعتبار سے ان میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہو تی ہیں۔سیاہ فام افراد گورے رنگ والوں میں پذیرائی حا صل کر نے میں نا کام رہتے ہیں اس طرح سفید ود سرخ رنگ کو پسند کیئے جا نے والے علاقوں میں سیا ہ رنگ کو اہمیت نہیں ملے گی۔انہی امور کو پیش نظر رکھ کر ماہر علم نفسیات جوڈ جیمس(JUDE JAMES)کہتا ہے کہ جس طرح سے حسن اور خوب صورتی دنیا میں سمجھی اور دیکھی جا تی ہے با لکل اسی طرح انسانوں کی جسمانی زبان کو بھی سمجھا اور پر کھا جا تا ہے۔اپنی کتاب (BODY SPEAKS)میں جوڈ جیمس رقم طراز ہے کہ انسان کس طرح اپنے جسمانی حرکات کے ذریعہ غیر محسوس طریقے سے دوسروں تک پیغام رسانی کا کام انجام دیتا ہے جو ان پیغامات کو سمجھتا ہے وہ افراد کی شخصیت کا بخوبی اندازہ قائم کر لیتا ہے۔اسی وجہ سے ضروری ہے کہ ہم ان اشارات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان میں مناسب تبدیلیاں لائیں جیسا کہ انٹرویو دینے والا شخص کا اپنے ہا تھو ں کو باربار پکڑ لینا،نظریں نیچی رکھنا،اپنی ٹائی کی ناٹ کو درست کر نا ،باربار اپنی ناک کو کھجانا،حلق کو صاف کرنے کے لئے کھکھار ناواضح پیغام دیتا ہے کہ وہ ما یوسی کا شکار ہے۔جب کوئی اپنی جسمانی حرکا ت کے ذریعے پیغام رسائی کا کام انجام دیتا ہے تو اس زبان کو غیر لفظی زبان (باڈی لینگویج ) کہتے ہیں۔آپ کے مقابل جسمانی زبان کا ادراک نہیں رکھتے ہیں لیکن وہ با آسانی کسی بھی فرد کے بر تاؤ یا رویہ کا تجزیہ کر تے ہوئے اس کی شخصیت کا پتہ لگا لیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کسی شخص کے برتاؤ اور رویوں سے اس کی فطرت کا اندازہ قائم کر لیا جا تاہے۔
جسمانی پیغام رسائی کو ہم اکثر و بیشتر اسی لئے نہیں سمجھ پا تے ہیں کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف قسم کی جسمانی زبانیں(BODY LANGUAGES) مستعمل ہیں۔کسی تمدن میں کوئی اشارہ اگر ہا ں کا اظہار ہوتا ہے توکہیں نہ کے لئے استعمال کیا جا تا ہے،رخصتی کے وقت کیا جا نے والا اشارہ کسی اور مقام پر خیر مقدم کا کام انجام دیتا ہے۔تجارت پیشہ ،سیاستدان حضرات اور مردم شناس افراد ابتدائے افرینش سے ان پیغامات کو سمجھتے آئے ہیں۔بیرون ممالک خدمات انجام دینے سے پیشتر اس زبان کی تر بیت حاصل کر نا کامیابی کے فیصد میں اضافے کا با عث ہوتا ہے۔جس طرح ایک عام آدمی کے لئے جسمانی زبان کی ترسیل و فہم مشکل ہے اسی طرح ما ہرین تعلیم کے لئے بھی یہ ایک نیا مضمون ہے اسی لئے یہ امر ایجوکیٹرس کے لئے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اس بات کا ادراک حاصل کر یں کہ جسم کے ذریعے کس طرح پیغام رسانی کا کام انجام دیاجا سکتا ہے بلکہ یہ بھی علم حا صل کر یں کہ بغیر گفتگو کے بھی پیغام رسائی کس طرح انجام دی جا سکتی ہے۔جسمانی حرکات و سکنات سے ہم سے جب کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو نہ صرف غلط فہمی کو جگہ دے گی بلکہ زندگی کے لئے ایک سنگین مسئلہ کا بھی سبب بن سکتی ہے۔باڈی لینگو یج خیر مقدم ،نشست و بر خواست ،چہرے کے تا ثرات ،لباس ،وضع قطع،آواز کا ارتعاش و آہنگ،آنکھوں کی حرکات،سماعت ،سانس لینا،دوسروں کے پاس کھڑے ہونا،مس کر نا یا چھونا،جسم کا دباؤ خاص طور پر جذباتی موقعوں پر محسوس کیا جا سکتاہے۔جہا ں جسم زبان سے زیادہ گفتگو کر تا ہے ۔ غیر لفظی گفتگو (NON VERBAL COMMUNICATION) کی اصطلاح بھی با ڈی لینگویج کے لئے استعمال کی جا تی ہے۔معروف ما ہر عمرانیات ایڈورڈ ٹی ۔ہال(EDWARD T, HALL) کے مطابق ایک عام گفتگو میں تقریبا 65% معاشرتی مطالب کی تر سیل غیر لفظی گفتگو باڈی لینگویج کے ذریعہ انجام دی جا تی ہے۔
دنیا بھر میں بالخصوص ایشیائی ممالک کے بہ نسبت شمالی امریکہ میں شعوری طور پر غیر لفظی گفتگو پر زیادہ انحصار کیا جا تا ہے۔جسمانی اظہار سے عدم واقفیت کی بنا ء پر اس کا غلط استعمال نہ صرف نا خوش گوار بلکہ خطرناک تجربات کا با عث ہو سکتا ہے۔1992 ء میں جارج ڈبلیو بش آسٹریلیا کے سرکاری دورے پر گئے ہوئے تھے سڑک ے دونوں جانب آسٹریلیائی عوام ان کے خیرمقدم کے لئے کھڑی ہوئی تھی۔صدر نے عوام کے استقبال کے جواب میں اپنی دونوں انگلیوں سے ویV کا نشان اس طرح بنایا کہ ہتھیلی کی پشت عوام کی جانب کر دی۔دوسرے دن اخبار نے شہ سرخی لگائی کہ امریکی صدر نے وی کا نشان درست طریقہ سے نہ بتا کر آسٹریلیائی عوام کی تذلیل و تحقیر کی ہے۔ کسی خاص علاقے کی باڈی لینگویج سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہم اچھے مقاصد رکھتے ہوئے بھی پریشانی کا شکار ہو جا تے ہیں اسی طرح کا ایک اور واقعہ جو کہ با ڈی لینگویج سے واقفیت کی اہمیت سے ہم کو آگا ہ کر تاہے۔سال 1998 میں ایک نو شادی شدہ جوڑا اپنے ہنی مون کے لئے نیوزی لینڈ وارد ہو ا۔علاقائی ٹرایفک قوانین کی عدم واقفیت کی وجہ سے قانون شکنی کا مر تکب ہواپولیس عہدیداران نے بعد از وضاحت ان کو معاف کر دیا۔شکریہ کے طورپر خاوند نے پولیس عہدیدار کو انگوٹھا دکھایا۔نیوزی لینڈ میں انگوٹھا دکھانا ایک انتہائی معیوب فعل سمجھا جا تا ہے جس کی وجہ سے پولیس عہدیدار نے فی الفور اس شخص کو ہتکڑی پہنا دی اور گرفتار کر لیا۔اس واقعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کے جسمانی اظہار کے طریقے مختلف ہو تے ہیں ایک مقام پر جس اظہار کو تہذیب کی علامت سمجھا جا تاہے وہ علامت دیگر مقامات پر معیوب قرار پا تی ہے۔اسی لئے زبانی گفتگو کی طر ح جسمانی اظہار میں بھی احتیاط لازمی ہے۔
مختلف ممالک میں بولی جا نے والی زبانوں کا علم جس طرح کامیاب کے امکانات کو روشن بنا دینے ہیں اسی طرح سے جسمانی کے طریقوں سے آگاہی بھی کسی فر د کی کامیابی میں اہم کردار نبھاتی ہے۔ARGYL کے مطابق سات لاکھ سے بھی زیا دہ جسمانی اظہار کے طریقے انسانوں میں پا ئے جا تے ہیں۔تمام دینا میں سر تا پیر جسمانی اظہار کے لئے استعمال کئے جا تے ہیں۔تقریبا معاشرے میں سر کی جنبش کو رضامندی کی علامت سمجھا جا تا ہے جبکہ یونان ،یوگوسلاویہ ،بلگاریہ اور ترکی وغیرہ میں سر کی خفیف سی جنبش کو نہیں کی علامت پر محمول کیا جا تا ہے۔ایشائی ممالک میں سر پر چپت لگانے کو نہایت معیوب تصور کیا جا تا ہے اور اس کو تحقیر بھی مانا جا تا ہے۔چہر ے کے تا ثرات سے جذبات کی عکاسی ہو تی ہے مغرب میں جذبات کا آزادانہ اظہا ر ایک حقیقت ہے جبکہ یہ عمل مشرقی روایا ت کی منافی کر تا ہے۔ تبسم و مسکراہٹ مشرقی ممالک میں خوشی کے اظہار کا وسیلہ ہے جب کہ اس طرح کا کوئی مفروضہ مغرب میں رائج نہیں ہے۔مغرب میں کسی بھی مسئلہ کی عدم اطمینان بخش تفہیم اور طنزیہ اظہار کے لئے بھی خفیف مسکراہٹ و تبسم کا استعمال عام با ت ہے۔نظرکا ملانا مغربی ممالک میں قابل ستائش عمل اور خود اعتمادی کی علامت ہے جبکہ افریقی اور ایشائی ممالک میں یہ ایک غیر مہذب فعل ما نا جا تا ہے۔ایشیاء اور افریقہ میں جس قدر آنکھوں جھکا کر رکھا جا ئے یا جس قدر آنکھوں کو ملانے سے احتراز کیا جا ئے گا اتنا ہی وہ شخص مہذب اور با حیاء تصور کیا جا تا ہے۔اْنکھوں کا موند لینا بھی کہیں قابل ستائش فعل تو کہیں حقارت کا با عث مانا جا تا ہے۔1975 ء میں امریکہ کے نا ئب صدر والٹر منڈیل کو جاپانی ڈائیٹ (ایوان)سے خطاب کر نے کے لئے مدعو کیا گیا تو انھوں نے دیکھا کے ان کے خطاب کے دوران تقریبا ایوان کے ممبران کی آنکھیں بند تھیں جس پر نا ئب صدر نے اپنے سفیر سے کہا کہ انھیں یہاں کیوں بلایا گیا ہے جس پر سفیر نے دریافت کیا کہ آخر کیا معاملہ ہے نائب صدر نے بتا یا کہ ان کے خطاب کے دوران اکثر لوگ اپنے آنکھوں کو بند کیئے ہوئے تھے۔جس پر سفیر نے کہا کہ جا پانی اکثر انہماک کے حصول کے لئے اپنی آنکھوں کو بند کر لیتے ہیںآپ کی تقریر کی بہتر تفہیم کے لئے انھوں نے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا تھا۔بوسہ با زی مغرب میں محبت اور شفقت کے اظہار کے وسیلہ ہے جب کہ مشرقی میں یہ فعل انتہا ئی معیوب سمجھاجا تا ہے اور بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے۔فلپائن ،لاطینی امریکہ PUERTO RICANاور دیگر لاطینی امریکن ممالک میں لوگ انگلی کے بجائے اشارے کے لئے ہونٹوں کو ہلاتے ہیں۔ہاتھوں کی جنبش اطالوی اور بعض کلچر میں بہ کثرت استعمال کی جا تی ہے جب کہ جاپان اور مشرقی ممالک میں بازوں کی حرکت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا تا ہے۔ماہرین نفسیات نے چند ایسے اشارے دریافت کیئے ہیں جن کی بنا ء پر ہم بڑی حد تک کسی کے جھوٹ کو پہچان سکتے ہیں جن میں آنکھیں چرانا ،پہلوبدلنا،صفائی پیش کر نا (خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے۔۔۔۔۔۔اب اتنی صفائی نہ دے) ،دفاعی انداز کو اپنانا،درمیان میں چیزوں کو رکھ دینا ،سر کھجانا،بات کے موضوع کو بدلناوغیر ہ جیسی حرکات سے بخوبی کسی کے جھوٹ کو پکڑا جا سکتا ہے۔
ٹیکساس یونیورسٹی کی پر وفیسر ایلس فوسٹر نے باڈی لینگویج کو دور حاضر میں کامیاب کا ایک نسخہ قرار دیا ہے ۔انسان لاکھ کوشش کر نے کے با وجود موقع کی مناسبت سے چند سکینڈ میں ایسے جا مع مدلل اور خوب صورت الفاظ جمع نہیں کر پا تا جس کی ادائیگی سے حسب منشاء نتائج حا صل کیئے جا سکیں جب کہ چند سیکنڈ کا پر جوش مصافحہ توقعات سے بڑھ کر نتیجہ خیز ثابت ہو تا ہے۔لیکن اس کے بر خلاف گونگے چہروں کے مالک جن کے چہروں پر کو ئی تاثر نہیں ابھرتا انتہائی گہرے ہوتے ہیں ان کی منصوبہ بندی بے لچک اور سخت ہوتی ہے یہ فیصلے کر نے کے بعد واپس نہیں لیتے خواہ وہ برباد ہی کیوں نہ ہوجائیں۔جو لوگ دوسروں کو بولتے ہوئے غور سے سنتے ہیں یہ اپنی ذات میں خوفنا ک آمر ہوتے ہیں۔جو لوگ انتہائی کامیابی پر پہنچ کر بھی چھوٹے معاملوں میں ہر قسم کے لوگوں سے مشورہ کر تے ہیں یہ ہمیشہ چونکادینے والے فیصلے کر تے ہیں۔ہنس مکھ اور سنجیدہ قسم کے لوگ بڑے فیصلے لینے سے قبل اکثر اپنے روٹین تبدیل کر دیتے ہیں۔قیافہ شناسی یا باڈی لینگویج ایک طویل فن ہے جس کا ایک مضمون میں احاطہ کیا جا نا نا ممکن ہے۔آج کل یورپ اور تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں زبانی اظہا ر کی بہ نسبت جسمانی اظہار کو زیادہ موثر مانا جا رہا ہے۔کیونکہ ڈھیروں الفاظ میں سے خوب صورت اور مناسب الفاظ کا انتخاب بہت ہی مشکل ہے جب کہ یہ کام محض ایک مسکراہٹ سے پر جوش انداز میں ہا تھ ملاکر یا گلے مل کر انجا م دیا جا سکتا ہے۔
دراصل جسمانی اظہار ایک با قاعدہ فن ہے جس سے ابھی کم لوگ روشناس ہیں۔جو لوگ باڈی لینگویج کے فن سے آشنا ہیں وہ مقابل کی ایک خفیف مسکراہٹ سے اس کے دل کا حال پڑھ لیتے ہیں لیکن اس فن میں طاق افراد دوسروں کو بہ آسانی دھوکا بھی دے جا تے ہیں۔باڈی لینگویج ایک بے حد قدیم فن ہے لیکن اس کے با رے میں با قاعدہ تحقیقات بیسویں صدی کے وسط میں تب شروع ہوئی جب ’’حرکات و سکنات کا ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے رے برڈوسٹل کی ایک کتاب بازار میں آئی اس کے بعد اس موضوع پر کئی کتا بیں منصہ شہود پر آئیں جس میں نینی آر مسٹرونگ کی ’’انسانی چہروں کے تا ثرات کو
کسیے پہچانے اور دوسروں تک پہنچائیں‘‘ کتا ب کی کا فی پذیرائی ہوئی۔آج با ڈی لینگویج دنیا بھر میں اظہار رائے کا ایک مستند طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ طریقہ اظہار مستعمل نہیں تھا جب کہ آج کامیابی کی پہچان بن گیا ہے۔اس فن میں با قاعدہ مہارت کے لئے ماہرین نفسیات کی تحریر کر دہ کتا بوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔اب اس با ت میں کوئی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ خود کو منوانے اور کامیابی کے زینہ طئے کر نے میں یہ فن مددگار ثابت ہو رہا ہے۔مسکراہٹ اور گرم جوشی اس کے بنیادی ستون ہیں۔اگر ہم کو ان کے صحیح استعمال سے آشنائی ہو جائے تو کامیابی کی منازل خود بخود طئے ہوجائیں گی۔
اہم بلاگز
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔