زندگی آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے

مولانا جلال الدین رومی کی حکایت ہے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پہاڑوں کے درمیان ایک بوڑھا آدمی رہتاتھا،اس نے اپنی ساری زندگی مطالعہ اور غور فکر میں گذاری تھی۔ وہ اپنی فہم وبصیرت کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھا۔ دور دور کے شہروں سے اس کے پاس کاروباری لوگ، سیاست دان اور طالب علم آتے۔وہ بوڑھے آدمی سے اپنی مشکلات بیان کرتے تو وہ انہیں ان کے خوبصورت اور آسان حل بتادیتا۔کچھ ایسے لوگ بھی اس کے پاس آتے جو کہ اس سے علم اور فلسفیات کے سوالات پوچھتے۔بوڑھا آدمی ان کو درست اور صحیح جواب دے کر انہیں مطمئن کردیتا۔ بوڑھے آدمی سے جو کوئی بھی سوال کر تا وہ ہمیشہ اْس کے سوال کا جواب دے کے اسے نصیحت کرتا کہ اب عمل کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔اسی پہاڑ کے نزدیک غریب مزدوروں کی بستی تھی ان کے بچے بہت شرارتی اور آوارہ گرد تھے وہ شریر بچے اکثر کوئی نہ کوئی اْلٹا سیدھا سوال بوڑھے آدمی سے پوچھتے تھے جن کا بالکل صحیح اور درست جواب دیاجاتاتھا۔ایک دن صبح بچوں کے سر غنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا :
آؤ آج بوڑھے کو تنگ کرتے ہیں آج وہ ہمارے سوال کا جواب نہ دے سکے گا۔ اس لڑکے نے ایک کبوتر اپنے ہاتھوں میں چھپالیا اور سوچاکہ میں بوڑھے سے پوچھوں گا کہ میرے ہاتھوں میں جو کبوتر ہے وہ زندہ ہے یا مردہ؟ اگر بوڑھا کہے گا کبوتر زندہ ہے تو میں ہاتھوں سے مسل کر کبوتر کو جان سے ماردوں گا اور اگر اْس نے کہا کبوتر مردہ ہے تو میں زندہ کبوتر اس کو دکھادوں گا۔
جب یہ لڑکا کبوتر اپنے ہاتھوں میں چھپائے بوڑھے کے پاس پہنچااور سوال کیاکہ میرے ہاتھوں میں جو کبوتر ہے وہ زندہ ہے یا مردہ ؟ تو دانا بوڑھے نے کہا کہ
’’کبوتر تمہارے ہاتھوں میں ہے۔جیسا چاہو سلوک کرو‘‘۔
بالکل اسی طرح ہماری زندگی کا مستقبل ہمارے ہاتھوں میں ہے ، ہم اسے اپنے عمل سے مردہ بھی کرسکتے ہیں اور اپنی بصیرت سے زندہ بھی کر سکتے ہیں
آج اگر نوجوان طالب علموں کو دیکھا جائے تو بندہ پریشان ہو جائے گا کہ ان کو اپنی زندگی کی کچھ پرواہ ہی نہیں۔ صبح اپنے کو گھر سے تیار ہوکر کالج روانہ ہو تے ہیں مگر ان کے ساتھ لکھنے کیلئے نہ کوئی کاپی اور نہ پڑھنے کے لئے کوئی کتاب وجود رکھتا ہے کالج صرف وقت ضائع کر نے کیلئے جاتے ہیں۔ اور اْن کے والدین بھی صرف خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اْن کے بچے لکھیں گے پڑھیں گے بڑے بڑے آدمی بنیں گے۔ مگر انہوں نے اپنے بچوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا اور اْن کی مستقبل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ طالب علموں کو مستقبل کا کچھ پتہ نہیں جس کی وجہ سے انھیں پڑھائی سے کوئی سرو کا ر نہیں وہ تو بس اپنی قسمت کو ڈھونڈ رہے ہو تے ہیں مگر شاید اْن کو کسی نے یہ نہیں بتایاہو گا کہ اْس کبوتر کی طرح اْن کی زندگی کی قسمت ان کے ہاتھوں میں ہے۔ جیسے چاہیں ویسے سلوک کریں۔
اگر کوئی ایک بڑا آدمی بنناچاہتا ہے تو بڑا آدمی بننے سے اْس کی کیا مراد ہے ؟ بڑے آدمی کیسے بنتے ہیں ؟ بڑے آدمی بننے کیلئے کتنی محنت کی ضرورت ہے ؟ کتنا وقت پڑ ھنا ہے ؟ کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟ کو نسی یونیور سٹی میں داخلہ لینا پڑتا ہے ؟ کس طرح داخلہ لیا جاتا ہے ؟ کیا وہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے قابل بھی ہیں کہ نہیں ؟ پڑھائی کے دوران خرچہ کون دے گا؟ اگر والدین خرچہ برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو خود کیسے خرچے کے ذرائع پیدا کر سکتا ہے ؟ حالات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے ؟ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کس طرح کے اقدامات کی ضرورت پیش آتی ہے ؟ کونسامسئلہ پہلے حل کر نا ہوتاہے ؟ سو (100)میں سے ایک طالب علم شاید نظر آتا ہو جو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے لیے پلان بناتا ہے۔ باقی 99%فیصد طالب علم قسمت کے حوالے ہیں۔ جنہیں زندگی کا کچھ پتہ نہیں۔ والدین کے لاڈپیار کی وجہ سے محنت کر نے کے قابل نہ رہے۔ اْستاد وں کی کی لاپروائی کی وجہ سے مستقبل کی سے مشکلات سے بے خبر رہے۔ معاشرے کے ماحول اور حالات کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو گئے۔موبائلوں کی بغیر وجہ استعمال سے وقت ضائع کرنا اور بھی آسان ہو گیا۔
مگر اب بھی وقت ہے زندگی ہر ایک کے اپنے ہاتھ میں ہے اپنی قسمت خود اپنی محنت سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔زندگی میں آپ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ زندگی میں آپ کو وہی کچھ ملے گا جس کے آپ حقدارہیں۔ زندگی میں آپ جتنا زیادہ محنت کریں۔ اتنی زیادہ آپ زندگی سے حاصل کریں گے۔ اب بھی وقت ہے اپنے کو سنبھالیں۔ آپ کے پاس وقت بھی ہے اور صلاحیت بھی۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے وقت سے فائدہ اٹھائیں اپنے سامنے ایک مقصد رکھیں اور اس مقصد کو حاصل کر نے کیلئے پلان بنائیں۔آپ کا پلان واضع اور حقیقی ہو آپ کے اندازے کے مطابق ہو جسے آپ حاصل کر سکتے ہوں۔ خیالی پلاؤ نہ ہو۔ اس کو حاصل کر نے کے لیئے آپ کے پاس ٹائم ٹیبل ہو اور ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنا پہلا ٹارگٹ سیٹ کرو۔ کہ آپ کو سب سے پہلے کونسا کام کرنا ہے اْس کو حاصل کرنے کے لیئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاکر پورا کوشش کرو۔ جس وقت آپ نے پہلا ٹارگٹ حاصل کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اپنے مقصد کو حاصل کر نے کے لئے ایک قدم آگے بڑھایا۔آپ نے پہلی منزل طے کیا اب آگے بڑھنے کی تیاری کرو۔
اگر آپ کے سامنے کوئی مقصد ہی نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اْس جگہ پر کھڑے ہیں جہاں سے چار راستے جاتے ہیں اور آپ قسمت کے ہاتھ میں ہیں جس راستے سے چاہے آپ کو لے چلے۔ اس لیئے تو اکثر لوگ یہی کہتے ہیں بس سب قسمت کا کھیل ہے اور قسمت میں لکھاتھا۔
ڈاکٹر نپولین ہل کہتا ہے۔
’’اگر آپ نے سمجھ لیا کہ آپ منزل پر پہنچ گئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اْلٹی جانب سفر کر رہے ہیں ‘‘
اگر آپ کے سامنے مقصد ہو گا تب آپ اپنا راستہ خود چْن لیں گے اور صلاحیتیں بروئے کار لاکر قسمت کو مجبورکریں گے کہ آپ کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے آپ کا ساتھ دیں۔ اور ایک دن ضرور قسمت آپ کا ساتھ دے گی۔
عظیم دانشور جان پال گیسٹے کہتا ہے۔
’’جوشخص اپنے کام اچھے طریقے سے کرتا ہے اور دوسرں سے بہتر اور تیزی سے اپنے مستقبل کی جانب بڑھتا ہے اْس شخص کی قسمت اْس کے اپنے ہاتھ میں ہے ‘‘۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔ا سکول جاکر اپنے بچوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور اْن کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اْن کا ساتھ دیں بچوں کے دوستوں سے آشنا ہو ں کہ وہ کس طرح کے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔بْری عادتوں سے روکیں اچھے عادت اپنانے کے کیلئے راغب کریں۔ بچوں کو لاڈلا نہ بنائیں اور نہ بیکار چھوڑ یں بلکہ محنت کر نا سکھائیں۔ اْ ن کے لیئے ٹائم ٹیبل بنائیں اور ٹائم ٹیبل کے مطابق جینا سکھائیں۔
اْستادوں کو چاہیے کہ وہ محنت اور لگن سے نہ صرف پڑھائیں بلکہ زندگی میں طالب علم کو ایک مقام دلانے میں اپنا کردار اداکریں۔ طالب علموں کو مستقبل کا صحیح راستہ دکھائیں۔ تاکہ ایک طالب علم زندگی میں اپنی مقصد کاتعین کر کے اپنی منزل کی طرف رواں ہو۔ اکثر طالب علموں کی نظریں اْستاد پر لگے ہوتے ہیں کہ اْستا د ا ن کے سامنے کیا مقصد رکھتا ہے اور اس کو حاصل کرنے کیلئے اْسے کونسا راستہ دکھا تا ہے۔اْستا د کی مثال اْس موم بتی کی طرح ہے جو اپنی روشنی سے دوسروں کو روشن کر دیتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب گاڑی روانہ ہو جاتی ہے تو وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچ جاتی ہے۔ اگرایک گاڑی اسٹارٹ ہی نہ ہو تو اْس سے اپنے منزل تک پہنچنے کیلئے کس طرح کی اْمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

جواب چھوڑ دیں