گڈریا کا تجزیہ 

مصنف اشفاق احمد کا افسانہ گڈریا ایک لاجواب کہانی ہے۔ کہانی کا آغاز سوئے ہوئے لڑکے کو اٹھا کر اس سے فارسی میں جملہ بنانے کے حوالے سے ہوتا ہے، جس پر لڑکا اپنی بے بسی پر روتا ہے اور یہیں “داؤ جی” ، عرف” ماسٹر جی” ، “منشی چنت رام” کی شخصیت سے تعارف ہوتا ہے۔
ایک ایسے فرد سے تعارف ہوتا ہے، جو ایک شفیق والد، مسکین شوہر، محنتی استاد، شریف انسان اور علم دوست شخص ہے.
اس کے بعد ایک اچھے بچے کا اپنے اردگرد سے تعارف ملتا ہے،گلی، محلے کا پتہ چلتا ہے. “رانو” کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جو ایک گوالا ہے، وہ داؤ جی کے محلے میں ہی رہتا ہے اور ان کو زچ کرکے خوشی محسوس کرتا ہے ، ایک ایسا مسلمان جو ہر وہ کام کرتا ہے، جو اسلام میں جائز یا حلال نہیں ہیں۔
بڑے بھائی آفتاب سے داؤ جی کا تعارف تو نہیں ملتا البتہ جھڑکیاں ضرور مل جاتی ہیں. پھر جب مصنف پانچویں میں جاتا ہے تو وہاں اس کی دوستی داؤ جی کے بیٹے “امی چند” سے ہوجاتی ہے. اس میں داؤ جی کے گھر کے دیگر افراد “بے بے” اور” بی بی” سے بھی گاہے بگاہے واقفیت حاصل ہوتی ہے.
افسانہ دلچسپ موڑ جب لیتا ہے جب وہ غیر نصابی مطالعے کی وجہ سے فیل ہو جاتا ہے. جس پر مصنف کے والد محترم” ڈاکٹر صاحب” اس کو “ماسٹر صاحب” کے سپرد کر دیتے ہیں. اس طرح مصنف بوریا بستر سمیت ماسٹر صاحب کے گھر منتقل کر دیے جاتے ہیں.
اس وقت کے تعلیمی نصاب میں” فارسی” “انگریزی” اور “عربی” موجود تھی جن کی تیاری داؤ جی کرواتے ہیں مصنف ساتھ ہی “حساب” میں بھی بھی کافی کمزور ہوتے ہیں.ماسٹر جی دھن کے پکے! اور مصنف کی نصاب میں دلچسپی کافی کم ہوتی ہے.اس میں کہیں کہیں داؤ جی اپنے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ بتاتے رہتے ہیں، اس ذکر میں وہ اپنے اساتذہ کا ذکر نہایت عزت و احترام سے کرتے ہیں کہ انہیں ان کے اساتذہ نے گڈریا سے منشی کے مقام پر پہنچا دیا اور اس پر فخر و غرور کے بجائے عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ہیں . یہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنے کے سلسلے میں داؤ جی نے بہت مشکلات بھی سہیں۔
ایک مسلمان کا ہندو کے گھر رہنا، پڑھنا اور اس معاشرے میں کیا کچھ چل رہا تھا سب کا کچھ نہ کچھ ذکر اس افسانے میں آیا ہے.
اس میں داؤ جی جیسے ایک مختلف، مخلص استاد کا ذکر ہے جو اپنی گزر اوقات کے لئے عرضی نویسی کا کام کر رہا ہوتا ہے. ایک ایسے استاد کا ذکر(حضرت اسماعیل چشتی) جس نے ذات پات، رنگ و نسل، مذہب، قوم سب کے فرق کو مٹاکرعلم بانٹا. ایک ایسے استاد کا بھی ذکر ہے جو نابینا(حکیم ناصر علی سیستانی) تھے، مگر علم کی روشنی رکھتے تھے.اس افسانے میں احساس کے تعلق کو اس قدر مضبوط دیکھایا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہانی کار داؤ جی کی بہت سی باتوں سے اختلاف رکھتے تھے مگر کہا کبھی نہیں!
داؤ جی کس طرح ایک ایسے لڑکے کو پڑھاتے ہیں جو پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا، اس دوران وہ بار بار اسے سمجھاتے ہیں، مشق کرواتے ہیں، دن ہو یا رات سبق دھراتے ہیں، ایک ہی بات الگ الگ انداز میں پوچھتے ہیں. اس دوران مصنف قدرے چڑچڑے بھی ہو جاتے ہیں اور نامناسب الفاظ سے نوازتے ہیں،جس پر بعد میں کبھی شرمندہ بھی ہوتے ہیں. مگر داؤ جی برا مانے بغیر اپنے فرض کو ادا کرنے میں لگے رہتے ہیں.داؤ جی کو اس کی صحت کی بھی فکر ہوتی ہے، اسی بناء پر پیار سے کبھی “گولو مولو” ، اور کبھی “موٹا ہو جائے گا” کہہ کر صبح کی سیر کے لئے کہتے ہیں، اور اٹھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں. مگر ایک دفعہ کے علاوہ وہ ماسٹر جی کے ساتھ جانے سے توبہ کرلیتا ہے.
اس افسانے میں داؤ جی مسلسل محنت، اور ہمت نہ ہارنے کا کہتے ہیں، مایوسی سے منع کرتے ہیں. داؤ جی کی مسلسل مخلصانہ کوششوں کی بناء پر ایک بہت عام ذہانت رکھنے والا لڑکا آخر کامیاب ہو ہی جاتا ہے.
مصنف آگے پڑھنے کے لئے قصبے سے باہر چلا جاتا ہے، امتحانات کے بعد جب کبھی واپس اپنے قصبے میں آتے ہیں تو داؤ جی کے چنگل سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بے بے سے زیادہ باتیں کرتے ہیں بنسبت داؤ جی کے، کہ کہیں مبادا وہ پڑھانا نہ شروع کر دیں!
اسی دوران قیام پاکستان کے حوالے سے خبریں ملتی ہیں، گھر والے واپس بلاتے ہیں، اور آخر میں مصنف رانو کے ہاتھوں اپنے استاد کی بے وقعتی ہوتے دیکھتا ہے، مگر کچھ نہیں کر پاتا اور مجمع سے خوفزدہ ہو جاتا ہے. ایک ایسی تحریر جس میں کہیں بے اختیار ہنسی آتی ہے کہیں الفاظ، جملوں کے حوالے سے سیکھنے کو ملتا ہے اور کہیں آنسو بھی دکھائی دیتے ہیں. مگر قیام پاکستان کے بعد جو انجام ایک ہندو استاد کا ہوا. وہ قطعاً اس کے لائق نہیں تھا.
قیام پاکستان کے بعد رانو جیسے کردار منشی جی جیسے لوگوں پر ہاوی ہوگئے اور اب تک ہیں!

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

42 تبصرے

  1. زبردست کام کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔
    اللہ تعالی آپ کو اس کا اجر عظیم دیں

  2. ماشاءاللہ بہت اچھا کام اللہ پاک سلامت رکھے اپ کو

  3. Good day! Do you know if they make any plugins to help with SEO?
    I’m trying to get my website to rank for some targeted keywords but I’m not seeing very good results.
    If you know of any please share. Thanks! You can read similar article
    here: Eco blankets

  4. sugar defender ingredients I have actually had problem with blood sugar level variations for several
    years, and it actually affected my energy degrees throughout the day.

    Considering that starting Sugar Defender, I feel much more balanced
    and alert, and I don’t experience those mid-day drops any longer!
    I love that it’s a natural solution that works with no extreme side effects.
    It’s truly been a game-changer for me

  5. I’m impressed, I must say. Rarely do I come across a blog that’s both equally educative and entertaining, and without a doubt, you’ve hit the nail on the head. The issue is something which not enough men and women are speaking intelligently about. I am very happy I stumbled across this during my search for something concerning this.

  6. Hi there! This post couldn’t be written much better! Looking at this article reminds me of my previous roommate! He continually kept talking about this. I most certainly will forward this post to him. Pretty sure he’ll have a great read. Thank you for sharing!

  7. Everything is very open with a precise clarification of the challenges. It was definitely informative. Your website is very useful. Many thanks for sharing.

  8. Howdy, There’s no doubt that your website might be having browser compatibility issues. Whenever I look at your website in Safari, it looks fine however, if opening in IE, it’s got some overlapping issues. I just wanted to provide you with a quick heads up! Other than that, great website.

  9. I absolutely love your blog.. Pleasant colors & theme. Did you build this web site yourself? Please reply back as I’m attempting to create my own personal website and want to learn where you got this from or just what the theme is named. Thanks.

  10. Hi, I do believe this is an excellent blog. I stumbledupon it 😉 I will come back once again since i have saved as a favorite it. Money and freedom is the greatest way to change, may you be rich and continue to guide others.

  11. As a result of intervention of the French King Louis XVI, who interceded with his American allies to prevent Asgill’s execution, the British officer was finally released by the Continental Congress, where it was agreed he ought to return to England on parole.

  12. Hi there, I do think your blog may be having web browser compatibility problems. Whenever I look at your site in Safari, it looks fine but when opening in IE, it has some overlapping issues. I merely wanted to provide you with a quick heads up! Apart from that, wonderful blog.

جواب چھوڑ دیں