آج بھی جب اس نے میری بری طرح سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھا تو پھر وعظ و تلقین شروع کردی :
’’ یہ بھلا تم روتی کس بات پر رہی ہو آخر ؟ضرور اماں جان نے کچھ کہا ہوگا یا سعید بھائی نے کفایت شعاری پر لیکچر پلایا ہوگا ۔۔۔۔تو پھر کیاہوا ؟ پگلی کیوں اپنی جان کی دشمن ہوئی ہے ! اے کاش کبھی میں تمہیں یہ سمجھا سکتی کہ ان باتوں کاغم کرنا نادانی ہے ! وہ غم والی باتیں تو اور ہوتی ہیں ۔۔۔! ‘‘
آئیے آپ کو بتائیں کہ مکالمہ کن کے درمیان ہورہا ہے !
یہ عنوان دراصل بنت الاسلام صاحبہ کی کہانیوں کے مجموعے کا نام ہے جس میں یہ کہانی موجود ہے دو سہیلیوںکشور اور تزئین کے گرد گھومتی ہے جس میں کشور آپ بیتی کے انداز میں اپنی دوست تزئین کے ساتھ تعلق کی کہانی کچھ یوں بتا تی ہے :
بچپن سے ہم دونوں کے حالات حیرت انگیز طور پر ایک جیسے چلے آرہے تھے ۔عمر ، قد، رنگ ، چہرے کے نقوش یہاں تک کہ اٹھنے بیٹھنے کا انداز بھی اس حد تک ایک دوسری سے مشابہہ تھا کہ اسکول اور کالج کی ساری زندگی لوگ ہمیں حقیقی بہنیں ہی تصور کرتے رہے ۔حد یہ تھی کہ دونوں کے سروںکے بالوں کی لمبائی بھی ایک جیسی تھی۔ایک دن جب ہم نے اپنے اپنے بال ناپے تو ٹھیک ایک فٹ تین انچ لمبی چوٹی میری تھی اور اتنی ہی تزئین کی ! جن خاندانوں سے ہم تعلق رکھتے تھے ،وہ بھی عام متوسط طبقے کے شریف گھرانے تھے اور ان کے رہنے سہنے کا انداز بھی ایک دوسرے سے مشابہہ تھا ۔ایک ہی اسکول میں ، ایک جیسے مضامین لے کر ہم نے میٹرک کیا اور جب کالج پہنچے تو پہلی دفعہ الگ کلاسوں میں بیٹھے کیونکہ میرا میلان ادب کی طرف تھا اور تزئین کی والدہ کا اصرار تھا کہ وہ سائنس کے مضامین لے ۔تزئین نے ایک آدھ ہفتہ بڑی مشکل سے گزارا اور اسی دوران میں وہ پانچ مرتبہ کالج میں اور سات مرتبہ گھر اپنی ماں کے سامنے روئی کہ میں فزکس ،کیمسٹری میں بالکل نہیں چل سکتی ۔،یہاں تک کہ اس کی والدہ نے مجبور ہوکر اسے آرٹس کے مضامین لینے کی اجازت دے دی ۔
اس کے بعدچار سال اس طرح گزرے کہ کالج میں شاید ہی کسی نے کبھی ہمیں علیحدہ علیحدہ دیکھا ہو ۔ایک جیسے مضامین اور فریق میں اکٹھے ہی رہے ۔تعلیم کے بعد جب شادیوں کا مرحلہ آیا تو وہاں بھی ہماری قسمتیںحیرت انگیز طور پر یک دوسرے سے مشابہ رہیں۔ چھہ مہینے کے فرق سے ہماری شادیاں ہوئیں اور جن خاندانوں میں ہم گئے وہ ایک دوسرے سے بالکل اجنبی ہونے کے باوجود بالکل ایک دوسرے کے مانند تھے ۔شوہران نامدار کی ماہوار آمدنیاں ، اخلاق، طور طریقے بالکل ایک جیسے تھے ۔دونوں اپنے گھروں میں سب سے بڑے تھے اور دونوں کے کاندھوں پر بے پناہ ذمہ داریاں تھیں ،جن کے باعث ان کی طبائع بالکل جائز طور پر کفایت شعاری کی طرف بہت مائل تھیں ۔ دونوں گھروں میں ایک خاص انداز کی مائیں تھیں ۔جنہوں نے گھروں کی آمد و رفت اور بندوبست کے معاملے میں بہوئوں کو پورے پورے اختیارات دے رکھے تھے مگر ان کے افعال و اعمال اور گھر چلانے کے طریقوں پر کڑ ی نکتہ چینی کرتے رہنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں اور دونوں کنبے اتنے زیادہ ـ’’ لڑکا پسند ‘‘ واقع ہوئے تھے کہ ہر بچی کی آمد پر اندر باہر اداسی اور ویرانی چھا جاتی تھی ۔جہاں تک آمدنیوں کا تعلق تھاہم دونوں اچھی خوشحال قسم کی زندگیاں گزار سکتے تھے مگر ذمہ داریوں کی زیادتی کے باعث دونوں ہی کو بہت کچھ سوچ سمجھ کر چلنا پڑتا تھا ۔زندگی کے تقریباً ہر معاملے میں اتنی حیرت انگیز مشابہت کے باوجود میں از خود ’’ دکھی ‘‘ تھی اور وہ بے انتہا ’’ سکھی ‘‘ !
ایسا کیوں تھا ؟ محض اس لیے کہ ہمارا سوچنے کا انداز ایک دوسری سے بالکل مختلف تھا ! وہی صورت حال جو میرے گھر پیش آتی تو میں ہفتوں روتی کڑھتی اور اپنی جان آدھی کر لیتی جب اس کے گھرمیں پیش آتی تو وہ اسے پرکاہ بھی وقعت نہ دیتی اور ہنس کر ٹال دیتی اور یہ ہنسنا ہر گز مصنوعی نہ ہوتا ۔۔بزرگوں کے سامنے زبان چلانا نہ اس نے سیکھا تھا نہ میں نے ! وہ بھی صبر کرتی تھی اور میں بھی ۔مگر اس کا صبر ’’ صبر جمیل ‘‘ تھا جس میں شکایت کا نام زبان پر تو کیا دل میں بھی نہیں تھا اور میرا صبر شاید ’’ صبر قبیح ‘‘ تھا کہ دل کی جلن، کڑھن اور شکایات سے بھرا رہتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔‘‘
مصنفہ کی کردار نگاری اور منظر کشی قاری کو آج سے چار، پانچ عشرے قبل کی معاشرتی جھلک دکھاتی ہے اور وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے کہ انسانی نفسیات و رویے ، اس کے رشتوں سے تعلق کی نوعیت ، حتی کہ معاشی اور معاشرتی دبائو کی اشکال زمان ومکان کے فاصلے کے باوجود آج کے دور سے کس قدر ملتی ہیں ! ہر دو قسم کے کردا ر آج بھی سماج کا حصہ ہیں !
کہانی کا آغاز کشور کے گھر رمضان کی ایک رات سے ہوتا ہے جب سحری میںوہ بر وقت نہ اٹھ پائی ۔حالانکہ سوائے اس کے سب نے معمول کے مطابق سحری کھائی ۔ اس کی ساس کے فدیہ کا کھانابھی حسب معمول مسجد پہنچا دیا گیا تھا مگر ان کا غیض وغضب کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا ۔وہ کبھی بوڑھی خادمہ کو ’’ نکمی ‘‘ اور ’’ صرف روٹیاں توڑنے والی‘‘ کا خطاب عطا کرتیں ۔کبھی ملازم بچے کریم کو ’’ کام چور‘‘ اور ’’ بد نیت ‘‘ قرار دیتیں اور گھر وا لی ( بہو ) کو تو خیر کبھی ڈھنگ سے گھر کا بندوبست کرنا آیا ہی نہ تھا ۔جو عورت دو دو تین تین نوکروں کی موجودگی میں بھی گھر والوں کو وقت پر سحری نہ کھلا سکے اس کے پھوہڑ ہونے میںکیا شبہ ہو سکتا تھا ؟ اور پھر ان کی توپوں کا رخ بہوکے لکھنے پڑھنے کے شوق کی طرف ہوگیا ۔
بقول کشور ۔ ۔۔۔۔’’بڑا ہی ضبط کیا مگر آنسو تھے کہ امڈے چلے آرہے تھے ۔۔۔۔۔‘‘
ایسے میں اس کے شوہر نے اپنی ماں کو منانے کی کوشش کی تو وہ اور بھڑک اٹھیں ۔اس ساری صورت حال میں چھوٹی بچی نے اپنا راگ الاپنا شروع کیا اور ماں کے آنسو دیکھ کر اور زیادہ زور شور سے رونے لگی اورخاصی دیر میں خاموش ہوئی ۔سب تو چپ ہوگئے مگر کشور کی آنکھیں برستی رہیں ۔بغیر سحری کا روزہ رکھنے پر طبیعت بہت نڈھال تھی ۔ دونوں بڑی بچیاں اسکول روانہ ہوئیں تو وہ چھوٹی بچی کو گود میں لے کر تزئین سے ملنے چلی گئی۔ ( یہاں یہ اندازہ ہورہا ہے کہ ان کے گھر بھی قریب قریب ہوں گے !)
’’۔۔۔جونہی میں تزئین کے گھر کے دروازے پر پہنچی ۔ٹھٹھک کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جس گھر کو پیچھے چھوڑ کر غم غلط کرنے کے لیے آئی ہوں وہ مجھ سے پہلے یہاں پہنچ چکا ہے! اندر ایک واویلا مچا ہوا تھا اور ٹھیک وہی ڈرامہ ہورہا تھا جو رات کے پچھلے پہر ہمارے ہاں کھیلا جا چکا تھا ۔ تزئین کی ساس غصے سے لال بھبھوکا ہو رہی تھیں اور مسلسل اور متواتر بولے جارہی تھیں اور گھر کے سب نوکر اور اہل خانہ جگہ جگہ سر جھکائے کھڑے تھے اور تزئین اپنی ساس سے دو گز کے فاصلے پر کھڑی بڑے ہی اطمینان سے بچوں کے کپڑے استری پھیر رہی تھی اور سر اوپر کو اٹھا ہوا تھا ۔نہ تو اس کے چہرے پر کوئی غم فکر کے آثار تھے اور نہ آنکھوں میں کسی قسم کی گھبراہٹ بلکہ۔۔۔کسی کسی وقت اس کے ہونٹوں پر ایک دبی گھٹی مسکراہٹ بھی آجاتی تھی ۔‘‘
۔۔۔ان حالات میں کشور کی سمجھ نہیں آیا کہ وہ آگے بڑھے یا واپس اپنے گھر چلی جائے ! اتنے میں تزئین آگے بڑھی اور اس کاستقبال کیا ۔ اپنی ساس کوسلام کروا کر اپنے کمرے میں لے گئی ۔تزئین کو بے نیاز اور مطمئن دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ بڑی بی کا قہر اس پر نہیں بلکہ کسی اور پر ٹوٹ رہا تھا مگر معلوم ہوا کہ اس تمام بوچھاڑ کا ہدف وہی تھی !اس کی ساس کے غصے کی وجہ بڑی حد تک کشور کی ساس سے ملتی جلتی تھی ۔ہوا یہ کہ صبح صبح بڑی بی کے رشتے کے دو بھانجے اور ایک چچا زاد بھائی کم و بیش دو تین گھنٹے کے لیے وہاں رکے مگر کسی نے نہ ان کو چائے کو پو چھا نہ کھانے کا ! تزئین کا عذر یہ تھا کہ رمضان کا مہینہ ہونے کی وجہ سے وہ سمجھی کہ روزہ ہوگا !جبکہ اس کی ساس مشہور فقہی مسئلے کی آڑ لے رہی تھیں کہ مسافر کے لیے روزہ رکھنا ضروری نہیں ۔تزئین کی یہ لاعلمی کہ وہ کسی دوسرے شہر سے آئے ہیں اس کو ساس کی نظر میں حد درجہ لاپروا ہ قرار دے رہی تھی ۔وہ بار باربآ واز بلند اس بات کا ماتم کر رہی تھیں کہ جب سے انہوں نے گھر کے کاموں میں عملی حصہ لینا چھوڑا ہے گھر کا گھروا ہوچکا ہے ۔
اگر چہ کشور کو تزئین کی پر سکون طبیعت کا اندازہ تھامگر اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب دیکھ کر وہ بہت تعجب میں تھی او ر اس کی حیرت کے جواب میں تزئین نے کچھ اس طرح اس کی ذہن سازی کی کشو ر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ میری ساس بھی ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں!رات میں خواہ مخواہ بارہ ایک بجے تک بیٹھی اپنی اہل قلم سہیلیوں کی نگارشات کا مطالعہ کر رہی تھی اور سحری پر نہ اٹھ سکی ۔۔۔۔۔
عزیز قارئین ! ابتدا جس مکالمے سے ہوئی تھی یہ اسی ملاقات کا ذکر ہے جب تزئین کے سمجھا نے پر کشور بول پڑی:
’’۔۔۔تزئین ! تمہیں خدا کی قسم اتنا بتادو کہ وہ کون سی شئے ہے جس نے تمہیں اتنا غم پروف بنا دیا ہے ۔۔۔‘‘
’’ غم پروف ؟ ‘‘ تزئین نے بڑی سادگی سے کہا ’’ مجھے تو کچھ بڑے بڑے غموں نے غم پروف بنا دیا ہے ۔‘‘
’’ کون سے بڑے بڑے غم ۔؟۔۔۔۔۔‘‘
تزئین نے افسردگی سے کہا ۔’’ وہ سب کچھ تمہارے سامنے ہی تو بیتا تھا جب دسویں کلاس میں میرے ابا جان کا انتقال ہوگیا تھا ۔۔۔۔ان کے بغیر ہماری زندگی بالکل بے معنی تھی ۔۔۔۔وقت بہت بڑا مرہم ہے ۔۔۔۔۔زخم تو بھر گیا مگر ان کی جدائی میرے ذہن میں یہ بات نقش کر گئی کہ اس مادی دنیا میں سب سے بڑی قیمتی شئے انسانی جان ہے ! ۔۔‘‘
’’ تمہارا مطلب ہے غم صرف کسی کی موت کا ہی ہو ۔اس کے علاوہ کسی مصیبت کاغم درست نہیں ۔۔۔! ‘‘ کشور نے قائل ہونے کے باوجود بحث کی ۔
’’ نہیں اور غم بھی ہوتے ہیں ‘‘ تزئین نے کہا ’’ تمہیں یاد ہے کہ ۶۵ ء کی جنگ میں تین دن مجھ پر ایسی گزریں کہ میں پانچ منٹ کے لیے بھی آنکھیں بند نہ کرسکی تھی ۔۔اس خوف میں کہ کوئی لاہور کو مجھ سے چھینے لے جا رہا ہے ۔۔یہ غم ایسا جان گذار تھا کہ اس نے میرے دل سے ابا جان کا غم بھی بھلا دیا ۔۔۔۔۔‘‘
(یہاں سقوط ڈھاکہ کاذکر نہیں ہے ۔یقینا یہ اس سے پہلے کی لکھی گئی کہانی ہے ،بہر حال ۶۵ ء سے ۷۱ ء تک کے حالات کچھ کم افسوس ناک نہیں ہیں ) یہاں کشور اپنا ان دنوں کا تجزیہ کرتی ہے کہ جب زندگی میں اتنے بڑے بڑے دکھ بھی موجود ہوتے ہیں تو پھر ہم چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو کیوں اتنا بڑا سمجھ لیتے ہیں؟ مگر اس کا تاثر یقیناً اتناگہرا نہیں تھا جتنا تزئین کا لہذا وقت گزرنے کے ساتھ معمولی الجھنوں نے پھر ذہن اور دل کو گرفت میں لینا شروع کردیا ۔
اس ملاقات نے کشور کی سوچ کازاویہ بدلامگر اس کا اناڑی اور کچا پن اس بات کا متقاضی تھا کہ انہیں نیک صحبت کی رہنمائی مسلسل حاصل ہوتی رہے ۔ چنانچہ سردیوں کی آمد اور مصروفیت کے باعث تزئین سے ملاقاتیں کم ہوگئیں جس کے اثرات نظر آنے لگے ۔دل میں رچی بسی جلن ، کڑھن پھر سر اٹھا نے لگی ۔باوجود سخت کوشش کے وہ اس وقت ہمت ہار گئی جب چند ماہ بعد اللہ نے اس کو ایک اور بیٹی سے نوازا ۔بیٹی کی پیدائش پر ساس اور شوہر کے رد عمل نے کشور کو اتنا مشتعل کیا کہ ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے اور سارا وقت رونے میں گزرنے لگااور یوں پانچ چھہ مہینے کی خود تربیتی کی محنت بہت حد تک ضائع ہوگئی۔
تزئین سے کشور کی مشابہت نے ایک اور رنگ دکھا یا جب دو ماہ بعد تزئین کو بھی اللہ نے چوتھی بیٹی عطاکر دی۔ساتھ ہی تزئین کی بیماری کی اطلاع بھی ملی ۔اگرچہ اسے تزئین کی غم پروف طبیعت کا اندزاہ تھا پھر بھی وہ اسے بچی کی پیدائش اور گھر والوں کا ناخوشگوار ردعمل سمجھی مگر جب وہ اس سے ملنے گئی تو اس کو بہت خوش وخرم، تندرست و توانا پایا۔ وہ فیروزی رنگ کا خوبصورت سوٹ پہنے پیازی رنگ کے فراک پر موتی ٹانک رہی تھی ۔اور ویسا ہی فراک اس نے کشور کی بیٹی کو بھی تحفے میں دیا ۔تز ئین کی ساس اور جٹھا نی نے اس کا مذاق اڑانے لگیں
’’ کوئی ان سے پوچھو ! اتنا چائو کس بات کا ہے ؟ چوتھی بیٹی کے ایسے چونچلے ہورہے ہیں گویا اللہ آمین کا بیٹا ملا ہو ! ‘‘ ان جملے بازیوں پر کشور کا دل جل کرراکھ ہو گیا مگر تزئین ایسی بے ساختہ ہو کر ہنسی کہ وہ دونوں جھینپ گئیں ۔
یہاں پر کشور اپناجائزہ لیتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی زود رنجی کی وجہ سے اسے اپنے گھر والوں کے اعتراض زیادہ محسوس ہورہے تھے یا بیٹانہ ہو نے کا غم اس نے خود پر طاری کیا ۔۔۔۔اتنے میں ایک مہمان خاتون استفسار کرتی ہیں کہ دلہن نے چوتھی بیٹی کا غم تو نہیں کھا یا ۔۔۔! اس کے جواب میں تزئین نے پھر وہ جملہ دہرایا :
’’ غم ! کس بات کا غم ؟ ‘‘ اپنی بچی کا فراک درست کرتے ہوئے بولی
’’ یہ بھلا کوئی غم کی بات ہے خالہ جان ! وہ غم کی باتیں تو اور ہوتی ہیں ۔۔۔! ‘‘
تقریباً سات ہزار الفاظ پر مشتمل یہ کہانی جہاں الفاظ و تراکیب کاخوبصورت امتزاج قاری کو محظوظ کرتی ہے اور وہ اسے اپنی ہی کہانی سمجھتا ہے وہیں بلاشبہ بہت سے بے جا غموں سے نجات حاصل کرنے کا سبق دیتی ہے ۔ ذاتی اور مادی غموں کے گرداب میں پھنسے معاشرے کو حقیقی غموں اور دکھوں سے متعارف ہونا ضروری ہے ! اس وقت امت کا غم تمام غموں پر بھاری ہے جو ہمیں ذاتی آرام اور سکون میں بھی بے چین رکھتا ہے ۔بلا وجہ رونے کو کوئی اپنے آنسو پیاز کا شاخسانہ کہتا ہے اور کوئی شمپو آنکھ میں جانے کا عذر تراشتا ہے لیکن دراصل یہ وہی غم ہے جس کاہم ادراک ہی نہیں کر تے !
اہم بلاگز
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...