وہ غم اور ہوتے ہیں

آج بھی جب اس نے میری بری طرح سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھا تو پھر وعظ و تلقین شروع کردی :
’’ یہ بھلا تم روتی کس بات پر رہی ہو آخر ؟ضرور اماں جان نے کچھ کہا ہوگا یا سعید بھائی نے کفایت شعاری پر لیکچر پلایا ہوگا ۔۔۔۔تو پھر کیاہوا ؟ پگلی کیوں اپنی جان کی دشمن ہوئی ہے ! اے کاش کبھی میں تمہیں یہ سمجھا سکتی کہ ان باتوں کاغم کرنا نادانی ہے ! وہ غم والی باتیں تو اور ہوتی ہیں ۔۔۔! ‘‘
آئیے آپ کو بتائیں کہ مکالمہ کن کے درمیان ہورہا ہے !
یہ عنوان دراصل بنت الاسلام صاحبہ کی کہانیوں کے مجموعے کا نام ہے جس میں یہ کہانی موجود ہے دو سہیلیوںکشور اور تزئین کے گرد گھومتی ہے جس میں کشور آپ بیتی کے انداز میں اپنی دوست تزئین کے ساتھ تعلق کی کہانی کچھ یوں بتا تی ہے :
بچپن سے ہم دونوں کے حالات حیرت انگیز طور پر ایک جیسے چلے آرہے تھے ۔عمر ، قد، رنگ ، چہرے کے نقوش یہاں تک کہ اٹھنے بیٹھنے کا انداز بھی اس حد تک ایک دوسری سے مشابہہ تھا کہ اسکول اور کالج کی ساری زندگی لوگ ہمیں حقیقی بہنیں ہی تصور کرتے رہے ۔حد یہ تھی کہ دونوں کے سروںکے بالوں کی لمبائی بھی ایک جیسی تھی۔ایک دن جب ہم نے اپنے اپنے بال ناپے تو ٹھیک ایک فٹ تین انچ لمبی چوٹی میری تھی اور اتنی ہی تزئین کی ! جن خاندانوں سے ہم تعلق رکھتے تھے ،وہ بھی عام متوسط طبقے کے شریف گھرانے تھے اور ان کے رہنے سہنے کا انداز بھی ایک دوسرے سے مشابہہ تھا ۔ایک ہی اسکول میں ، ایک جیسے مضامین لے کر ہم نے میٹرک کیا اور جب کالج پہنچے تو پہلی دفعہ الگ کلاسوں میں بیٹھے کیونکہ میرا میلان ادب کی طرف تھا اور تزئین کی والدہ کا اصرار تھا کہ وہ سائنس کے مضامین لے ۔تزئین نے ایک آدھ ہفتہ بڑی مشکل سے گزارا اور اسی دوران میں وہ پانچ مرتبہ کالج میں اور سات مرتبہ گھر اپنی ماں کے سامنے روئی کہ میں فزکس ،کیمسٹری میں بالکل نہیں چل سکتی ۔،یہاں تک کہ اس کی والدہ نے مجبور ہوکر اسے آرٹس کے مضامین لینے کی اجازت دے دی ۔
اس کے بعدچار سال اس طرح گزرے کہ کالج میں شاید ہی کسی نے کبھی ہمیں علیحدہ علیحدہ دیکھا ہو ۔ایک جیسے مضامین اور فریق میں اکٹھے ہی رہے ۔تعلیم کے بعد جب شادیوں کا مرحلہ آیا تو وہاں بھی ہماری قسمتیںحیرت انگیز طور پر یک دوسرے سے مشابہ رہیں۔ چھہ مہینے کے فرق سے ہماری شادیاں ہوئیں اور جن خاندانوں میں ہم گئے وہ ایک دوسرے سے بالکل اجنبی ہونے کے باوجود بالکل ایک دوسرے کے مانند تھے ۔شوہران نامدار کی ماہوار آمدنیاں ، اخلاق، طور طریقے بالکل ایک جیسے تھے ۔دونوں اپنے گھروں میں سب سے بڑے تھے اور دونوں کے کاندھوں پر بے پناہ ذمہ داریاں تھیں ،جن کے باعث ان کی طبائع بالکل جائز طور پر کفایت شعاری کی طرف بہت مائل تھیں ۔ دونوں گھروں میں ایک خاص انداز کی مائیں تھیں ۔جنہوں نے گھروں کی آمد و رفت اور بندوبست کے معاملے میں بہوئوں کو پورے پورے اختیارات دے رکھے تھے مگر ان کے افعال و اعمال اور گھر چلانے کے طریقوں پر کڑ ی نکتہ چینی کرتے رہنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں اور دونوں کنبے اتنے زیادہ ـ’’ لڑکا پسند ‘‘ واقع ہوئے تھے کہ ہر بچی کی آمد پر اندر باہر اداسی اور ویرانی چھا جاتی تھی ۔جہاں تک آمدنیوں کا تعلق تھاہم دونوں اچھی خوشحال قسم کی زندگیاں گزار سکتے تھے مگر ذمہ داریوں کی زیادتی کے باعث دونوں ہی کو بہت کچھ سوچ سمجھ کر چلنا پڑتا تھا ۔زندگی کے تقریباً ہر معاملے میں اتنی حیرت انگیز مشابہت کے باوجود میں از خود ’’ دکھی ‘‘ تھی اور وہ بے انتہا ’’ سکھی ‘‘ !
ایسا کیوں تھا ؟ محض اس لیے کہ ہمارا سوچنے کا انداز ایک دوسری سے بالکل مختلف تھا ! وہی صورت حال جو میرے گھر پیش آتی تو میں ہفتوں روتی کڑھتی اور اپنی جان آدھی کر لیتی جب اس کے گھرمیں پیش آتی تو وہ اسے پرکاہ بھی وقعت نہ دیتی اور ہنس کر ٹال دیتی اور یہ ہنسنا ہر گز مصنوعی نہ ہوتا ۔۔بزرگوں کے سامنے زبان چلانا نہ اس نے سیکھا تھا نہ میں نے ! وہ بھی صبر کرتی تھی اور میں بھی ۔مگر اس کا صبر ’’ صبر جمیل ‘‘ تھا جس میں شکایت کا نام زبان پر تو کیا دل میں بھی نہیں تھا اور میرا صبر شاید ’’ صبر قبیح ‘‘ تھا کہ دل کی جلن، کڑھن اور شکایات سے بھرا رہتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔‘‘
مصنفہ کی کردار نگاری اور منظر کشی قاری کو آج سے چار، پانچ عشرے قبل کی معاشرتی جھلک دکھاتی ہے اور وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے کہ انسانی نفسیات و رویے ، اس کے رشتوں سے تعلق کی نوعیت ، حتی کہ معاشی اور معاشرتی دبائو کی اشکال زمان ومکان کے فاصلے کے باوجود آج کے دور سے کس قدر ملتی ہیں ! ہر دو قسم کے کردا ر آج بھی سماج کا حصہ ہیں !
کہانی کا آغاز کشور کے گھر رمضان کی ایک رات سے ہوتا ہے جب سحری میںوہ بر وقت نہ اٹھ پائی ۔حالانکہ سوائے اس کے سب نے معمول کے مطابق سحری کھائی ۔ اس کی ساس کے فدیہ کا کھانابھی حسب معمول مسجد پہنچا دیا گیا تھا مگر ان کا غیض وغضب کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا ۔وہ کبھی بوڑھی خادمہ کو ’’ نکمی ‘‘ اور ’’ صرف روٹیاں توڑنے والی‘‘ کا خطاب عطا کرتیں ۔کبھی ملازم بچے کریم کو ’’ کام چور‘‘ اور ’’ بد نیت ‘‘ قرار دیتیں اور گھر وا لی ( بہو ) کو تو خیر کبھی ڈھنگ سے گھر کا بندوبست کرنا آیا ہی نہ تھا ۔جو عورت دو دو تین تین نوکروں کی موجودگی میں بھی گھر والوں کو وقت پر سحری نہ کھلا سکے اس کے پھوہڑ ہونے میںکیا شبہ ہو سکتا تھا ؟ اور پھر ان کی توپوں کا رخ بہوکے لکھنے پڑھنے کے شوق کی طرف ہوگیا ۔
بقول کشور ۔ ۔۔۔۔’’بڑا ہی ضبط کیا مگر آنسو تھے کہ امڈے چلے آرہے تھے ۔۔۔۔۔‘‘
ایسے میں اس کے شوہر نے اپنی ماں کو منانے کی کوشش کی تو وہ اور بھڑک اٹھیں ۔اس ساری صورت حال میں چھوٹی بچی نے اپنا راگ الاپنا شروع کیا اور ماں کے آنسو دیکھ کر اور زیادہ زور شور سے رونے لگی اورخاصی دیر میں خاموش ہوئی ۔سب تو چپ ہوگئے مگر کشور کی آنکھیں برستی رہیں ۔بغیر سحری کا روزہ رکھنے پر طبیعت بہت نڈھال تھی ۔ دونوں بڑی بچیاں اسکول روانہ ہوئیں تو وہ چھوٹی بچی کو گود میں لے کر تزئین سے ملنے چلی گئی۔ ( یہاں یہ اندازہ ہورہا ہے کہ ان کے گھر بھی قریب قریب ہوں گے !)
’’۔۔۔جونہی میں تزئین کے گھر کے دروازے پر پہنچی ۔ٹھٹھک کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جس گھر کو پیچھے چھوڑ کر غم غلط کرنے کے لیے آئی ہوں وہ مجھ سے پہلے یہاں پہنچ چکا ہے! اندر ایک واویلا مچا ہوا تھا اور ٹھیک وہی ڈرامہ ہورہا تھا جو رات کے پچھلے پہر ہمارے ہاں کھیلا جا چکا تھا ۔ تزئین کی ساس غصے سے لال بھبھوکا ہو رہی تھیں اور مسلسل اور متواتر بولے جارہی تھیں اور گھر کے سب نوکر اور اہل خانہ جگہ جگہ سر جھکائے کھڑے تھے اور تزئین اپنی ساس سے دو گز کے فاصلے پر کھڑی بڑے ہی اطمینان سے بچوں کے کپڑے استری پھیر رہی تھی اور سر اوپر کو اٹھا ہوا تھا ۔نہ تو اس کے چہرے پر کوئی غم فکر کے آثار تھے اور نہ آنکھوں میں کسی قسم کی گھبراہٹ بلکہ۔۔۔کسی کسی وقت اس کے ہونٹوں پر ایک دبی گھٹی مسکراہٹ بھی آجاتی تھی ۔‘‘
۔۔۔ان حالات میں کشور کی سمجھ نہیں آیا کہ وہ آگے بڑھے یا واپس اپنے گھر چلی جائے ! اتنے میں تزئین آگے بڑھی اور اس کاستقبال کیا ۔ اپنی ساس کوسلام کروا کر اپنے کمرے میں لے گئی ۔تزئین کو بے نیاز اور مطمئن دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ بڑی بی کا قہر اس پر نہیں بلکہ کسی اور پر ٹوٹ رہا تھا مگر معلوم ہوا کہ اس تمام بوچھاڑ کا ہدف وہی تھی !اس کی ساس کے غصے کی وجہ بڑی حد تک کشور کی ساس سے ملتی جلتی تھی ۔ہوا یہ کہ صبح صبح بڑی بی کے رشتے کے دو بھانجے اور ایک چچا زاد بھائی کم و بیش دو تین گھنٹے کے لیے وہاں رکے مگر کسی نے نہ ان کو چائے کو پو چھا نہ کھانے کا ! تزئین کا عذر یہ تھا کہ رمضان کا مہینہ ہونے کی وجہ سے وہ سمجھی کہ روزہ ہوگا !جبکہ اس کی ساس مشہور فقہی مسئلے کی آڑ لے رہی تھیں کہ مسافر کے لیے روزہ رکھنا ضروری نہیں ۔تزئین کی یہ لاعلمی کہ وہ کسی دوسرے شہر سے آئے ہیں اس کو ساس کی نظر میں حد درجہ لاپروا ہ قرار دے رہی تھی ۔وہ بار باربآ واز بلند اس بات کا ماتم کر رہی تھیں کہ جب سے انہوں نے گھر کے کاموں میں عملی حصہ لینا چھوڑا ہے گھر کا گھروا ہوچکا ہے ۔
اگر چہ کشور کو تزئین کی پر سکون طبیعت کا اندازہ تھامگر اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب دیکھ کر وہ بہت تعجب میں تھی او ر اس کی حیرت کے جواب میں تزئین نے کچھ اس طرح اس کی ذہن سازی کی کشو ر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ میری ساس بھی ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں!رات میں خواہ مخواہ بارہ ایک بجے تک بیٹھی اپنی اہل قلم سہیلیوں کی نگارشات کا مطالعہ کر رہی تھی اور سحری پر نہ اٹھ سکی ۔۔۔۔۔
عزیز قارئین ! ابتدا جس مکالمے سے ہوئی تھی یہ اسی ملاقات کا ذکر ہے جب تزئین کے سمجھا نے پر کشور بول پڑی:
’’۔۔۔تزئین ! تمہیں خدا کی قسم اتنا بتادو کہ وہ کون سی شئے ہے جس نے تمہیں اتنا غم پروف بنا دیا ہے ۔۔۔‘‘
’’ غم پروف ؟ ‘‘ تزئین نے بڑی سادگی سے کہا ’’ مجھے تو کچھ بڑے بڑے غموں نے غم پروف بنا دیا ہے ۔‘‘
’’ کون سے بڑے بڑے غم ۔؟۔۔۔۔۔‘‘
تزئین نے افسردگی سے کہا ۔’’ وہ سب کچھ تمہارے سامنے ہی تو بیتا تھا جب دسویں کلاس میں میرے ابا جان کا انتقال ہوگیا تھا ۔۔۔۔ان کے بغیر ہماری زندگی بالکل بے معنی تھی ۔۔۔۔وقت بہت بڑا مرہم ہے ۔۔۔۔۔زخم تو بھر گیا مگر ان کی جدائی میرے ذہن میں یہ بات نقش کر گئی کہ اس مادی دنیا میں سب سے بڑی قیمتی شئے انسانی جان ہے ! ۔۔‘‘
’’ تمہارا مطلب ہے غم صرف کسی کی موت کا ہی ہو ۔اس کے علاوہ کسی مصیبت کاغم درست نہیں ۔۔۔! ‘‘ کشور نے قائل ہونے کے باوجود بحث کی ۔
’’ نہیں اور غم بھی ہوتے ہیں ‘‘ تزئین نے کہا ’’ تمہیں یاد ہے کہ ۶۵ ء کی جنگ میں تین دن مجھ پر ایسی گزریں کہ میں پانچ منٹ کے لیے بھی آنکھیں بند نہ کرسکی تھی ۔۔اس خوف میں کہ کوئی لاہور کو مجھ سے چھینے لے جا رہا ہے ۔۔یہ غم ایسا جان گذار تھا کہ اس نے میرے دل سے ابا جان کا غم بھی بھلا دیا ۔۔۔۔۔‘‘
(یہاں سقوط ڈھاکہ کاذکر نہیں ہے ۔یقینا یہ اس سے پہلے کی لکھی گئی کہانی ہے ،بہر حال ۶۵ ء سے ۷۱ ء تک کے حالات کچھ کم افسوس ناک نہیں ہیں ) یہاں کشور اپنا ان دنوں کا تجزیہ کرتی ہے کہ جب زندگی میں اتنے بڑے بڑے دکھ بھی موجود ہوتے ہیں تو پھر ہم چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو کیوں اتنا بڑا سمجھ لیتے ہیں؟ مگر اس کا تاثر یقیناً اتناگہرا نہیں تھا جتنا تزئین کا لہذا وقت گزرنے کے ساتھ معمولی الجھنوں نے پھر ذہن اور دل کو گرفت میں لینا شروع کردیا ۔
اس ملاقات نے کشور کی سوچ کازاویہ بدلامگر اس کا اناڑی اور کچا پن اس بات کا متقاضی تھا کہ انہیں نیک صحبت کی رہنمائی مسلسل حاصل ہوتی رہے ۔ چنانچہ سردیوں کی آمد اور مصروفیت کے باعث تزئین سے ملاقاتیں کم ہوگئیں جس کے اثرات نظر آنے لگے ۔دل میں رچی بسی جلن ، کڑھن پھر سر اٹھا نے لگی ۔باوجود سخت کوشش کے وہ اس وقت ہمت ہار گئی جب چند ماہ بعد اللہ نے اس کو ایک اور بیٹی سے نوازا ۔بیٹی کی پیدائش پر ساس اور شوہر کے رد عمل نے کشور کو اتنا مشتعل کیا کہ ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے اور سارا وقت رونے میں گزرنے لگااور یوں پانچ چھہ مہینے کی خود تربیتی کی محنت بہت حد تک ضائع ہوگئی۔
تزئین سے کشور کی مشابہت نے ایک اور رنگ دکھا یا جب دو ماہ بعد تزئین کو بھی اللہ نے چوتھی بیٹی عطاکر دی۔ساتھ ہی تزئین کی بیماری کی اطلاع بھی ملی ۔اگرچہ اسے تزئین کی غم پروف طبیعت کا اندزاہ تھا پھر بھی وہ اسے بچی کی پیدائش اور گھر والوں کا ناخوشگوار ردعمل سمجھی مگر جب وہ اس سے ملنے گئی تو اس کو بہت خوش وخرم، تندرست و توانا پایا۔ وہ فیروزی رنگ کا خوبصورت سوٹ پہنے پیازی رنگ کے فراک پر موتی ٹانک رہی تھی ۔اور ویسا ہی فراک اس نے کشور کی بیٹی کو بھی تحفے میں دیا ۔تز ئین کی ساس اور جٹھا نی نے اس کا مذاق اڑانے لگیں
’’ کوئی ان سے پوچھو ! اتنا چائو کس بات کا ہے ؟ چوتھی بیٹی کے ایسے چونچلے ہورہے ہیں گویا اللہ آمین کا بیٹا ملا ہو ! ‘‘ ان جملے بازیوں پر کشور کا دل جل کرراکھ ہو گیا مگر تزئین ایسی بے ساختہ ہو کر ہنسی کہ وہ دونوں جھینپ گئیں ۔
یہاں پر کشور اپناجائزہ لیتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی زود رنجی کی وجہ سے اسے اپنے گھر والوں کے اعتراض زیادہ محسوس ہورہے تھے یا بیٹانہ ہو نے کا غم اس نے خود پر طاری کیا ۔۔۔۔اتنے میں ایک مہمان خاتون استفسار کرتی ہیں کہ دلہن نے چوتھی بیٹی کا غم تو نہیں کھا یا ۔۔۔! اس کے جواب میں تزئین نے پھر وہ جملہ دہرایا :
’’ غم ! کس بات کا غم ؟ ‘‘ اپنی بچی کا فراک درست کرتے ہوئے بولی
’’ یہ بھلا کوئی غم کی بات ہے خالہ جان ! وہ غم کی باتیں تو اور ہوتی ہیں ۔۔۔! ‘‘
تقریباً سات ہزار الفاظ پر مشتمل یہ کہانی جہاں الفاظ و تراکیب کاخوبصورت امتزاج قاری کو محظوظ کرتی ہے اور وہ اسے اپنی ہی کہانی سمجھتا ہے وہیں بلاشبہ بہت سے بے جا غموں سے نجات حاصل کرنے کا سبق دیتی ہے ۔ ذاتی اور مادی غموں کے گرداب میں پھنسے معاشرے کو حقیقی غموں اور دکھوں سے متعارف ہونا ضروری ہے ! اس وقت امت کا غم تمام غموں پر بھاری ہے جو ہمیں ذاتی آرام اور سکون میں بھی بے چین رکھتا ہے ۔بلا وجہ رونے کو کوئی اپنے آنسو پیاز کا شاخسانہ کہتا ہے اور کوئی شمپو آنکھ میں جانے کا عذر تراشتا ہے لیکن دراصل یہ وہی غم ہے جس کاہم ادراک ہی نہیں کر تے !

جواب چھوڑ دیں