۔78سال قبل منظور ہونے والی قرارداد “لاہور” اور ہم۔۔۔

پاکستان کی تاریخ میں 23 مارچ 1940ء کے دن کو جو اہمیت حاصل ہے وہ اہمیت شاید کسی اور دن کو حاصل نہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ دن تحریک پاکستان کی تاریخ میں یوم الفرقان یعنی فیصلے کا دن کہلاتا ہے اور اسی اہمیت کے پیش نظر اب اسے یوم پاکستان کہا جاتا ہے۔ آج سے78 سال پہلے 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منعقد ہوا تھا جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی اور شیر بنگال مولوی فضل حق نے جو قرار داد پڑھی اسے قرار داد لاہور کا نام دیا گیا،جس میں ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ 23 مارچ 1940ء کو مسلمانوں کے لئے ایک لگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا اس پر برصغیر کے مسلمان ایک آواز تھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ 7سال کے مختصر عرصے میں یہ مطالبہ اتنی شدت سے ابھرا کہ 14 اگست 1947ء کو قرار داد لاہور حقیقت کا روپ دھار گئی اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کا نام ابھرا۔ ان سات سالوں میں یعنی 23 مارچ 1940ء سے لے کر 1947ء تک کانگریس اور ہندوؤں نے قرار داد لاہور کے خلاف بڑا شور مچایا لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے علیحدہ مسلم ریاست یعنی مطالبہ پاکستان کو ہی اپنا نصب العین بنایا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مطالبے میں شدت آتی چلی گئی اور پھر بچے بچے کی زبان پر صرف ایک ہی نعرہ تھا۔
بن کے رہے گا پاکستان
لے کے رہیں گے پاکستان
23 مارچ 1940ء کا دن وہ تاریخ ساز دن تھا جب لاہور کے منٹو پارک میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے سامنے برصغیر کے مسلمانوں کا جم غفیر تھا اور یہاں آنے والوں کے جذبے جواں تھے وہ پر عزم تھے کہ ان کی قیادت قائداعظم جیسی شخصیت کر رہی ہے۔ جنہیں اصولوں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا اور پھر تمام تر مصائب کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں نے ایک آزاد وطن حاصل کرلیا، آج اسی منٹو پارک میں مینار پاکستان اس دن کی یاد دلاتا ہے۔ آج ہم آزا د وطن پاکستان میں رہ رہے ہیں اور اس وقت سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے جس کے خلاف ہماری پاک افواج نبرد آزما ہے، آپریشن ضرب عضب کے بعد اب آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ہماری افواج کے بہادر جوانوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
اسی قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان کے دن ہر سال 23 مارچ کو ’’یوم پاکستان‘‘ منایا جاتا ہے۔23مارچ کا دن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اور اسی لئے اس دن کی تاریخی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان منانے کا اعلان سرکاری طور پر کیا گیا، اس تاریخی دن کو منانے کیلئے پورے پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، 23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظم کی زیر صدارت منظور کی گئی قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونک دی تھی جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے ’’قرار داد لاہور‘‘ کو دشمنان اسلام و پاکستان نے طنزیہ طور پر ’’قرار داد پاکستان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا اسی دن سے قرار داد لاہور ، قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہو گئی اور مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی ’’قرار داد پاکستان‘‘ کو بخوشی قبول کر لیا۔
قرار داد کی پیشی اور منظوری کے بعد مسلمان ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ ایک روشن صبح کی جانب اپنا سفر شروع کرنے جا رہے تھے جس کی سربراہی تاریخ کے عظیم ترین لیڈر حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کر رہے تھے، یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت و حالات کو دیکھتے ہوئے بہترین حکمت عملی اور خدائے بزرگ و برتر کا فضل و کرم تھا جس نے مسلمانوں کیلئے بروقت ایک آزاد ، خود مختار مملکت خدادا پاکستان قائم کرنے میں حقیقی کردار ادا کیا تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی مصلحتوں اور آپس کی رنجشوں کو بھلا کر پھر سے متحد ہو جائیں،آج 78 سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور قائد اعظم اور دیگر قومی رہنماؤں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا، دو قومی نظریہ جو موجودہ حالات میں دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے اسے بچانا ہوگا۔ دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا، ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریے کو سچ ثابت کرکے دکھایا تھا، ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں مملکت خدادا پاکستان کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر سر ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کا شاہین بننا ہوگا۔اللہ تعالیٰ پاکستان اور پاکستانی قوم کا حامی و ناصر ہو، پاکستان زندہ باد۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

جواب چھوڑ دیں