1998 میں کاربن پیپر لگا لگا کر اور محض 200 روپے فیس لینے والے سیکنڈ ائیر کے طالبعلم کے پاس دیکھتے ہی دیکھتے ایک سے چار ، چار سے چالیس اور چالیس سے چار سو تک طلبہ کی تعداد پہنچ گئی ۔ 1998 سے لے کر 2003 تک اس نوجوان کے گھر کے باہر کسی بھی قسم کا کوئی ٹیوشن سینٹر کا بورڈ تک آویزاں نہیں تھا ۔ باہر لائن سے کھڑی سائیکلیں اور ان میں دن بہ دن ہونے والا اضافہ واحد ” مارکیٹنگ” تھی ۔ اس نوجوان نے انجینئیرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن علم بانٹنے کا شوق اس کو واپس اسی جگہ لے آیا جہاں یونیورسٹی جانے اور انجینئیر بننے سے پہلے موجود تھا ۔بالآخر 6 سال بعد پہلی دفعہ اس ٹیوشن سینٹر کے باہر ” اکیڈمی ” کا بورڈ لگا ۔ یونیورسٹی کے تیسرے ہی سال اس کی ماہانہ آمدن ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی ۔ یہ اکیڈمی اپنی نوعیت کی واحد اکیڈمی تھی جہاں طلبہ و طالبات کو ان کے نصاب کے ساتھ ساتھ ” کیر ئیر کاؤنسلنگ ” ، پرسنل ڈیولپمنٹ اور ٹائم مینجمنٹ پر باقاعدہ لیکچرز دئیے جاتے تھے ۔ اسی دوران اس نوجوان نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ وہ مقابلے کا امتحان پاس کریگا اور کسی سرکاری ادارے میں ” بیوروکریسی ” کے مزے لوٹتے وقت گذر جائیگا ۔ لیکن :
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
جب امتحان پاس ہوگیا اور بقول شاعر :
دو چار قدم جب کہ لب بام رہ گئے
اس نوجوان نے بیوروکریسی میں جانے سے پہلے ہی اس کو خیر باد کہ دیا۔اس دفعہ بھی لوگ اسی طرح حیران و پریشان تھے ۔جس طرح انجینئیرنگ کرنے کے بعد اس کی ٹیچنگ پر تھے ۔ کہتے ہیں کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمھاری کامیابی شور مچادے ۔ اس نے اپنے آپ کو اپنی اکیڈمی تک محدود کرنے کے بجائے پورے ملک کے نوجوانوں اور انسانوں کی سوچ کو بدلنے کا فیصلہ کیا ۔ اقبال نے کہا تھا :
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اس نوجوان کا عقیدہ تھا کہ ” بدلے گی سوچ تو بدلے گا پاکستان “۔ اس دوران وہ ملک کی تین یونیورسٹیز میں پڑھا کر خود کو خاصا پولش کر چکا تھا ۔ بچپن میں ایک ایک روپے کرائے پر کتابیں لے لے کر پڑھنے اور پیسے بچانے کی خاطر موٹی سے موٹی کتاب بھی ایک سے دو دن میں پڑھ لینے کے اس کے شوق کی سرمایہ کاری نے اب اس کو پھل دینا شروع کردیا تھا ۔
ایک سیشن کے دوران جب اس نے وہاں موجود ٹرینر کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو اس ٹرینر نے اس کو زور سے ڈانٹا اور انتظامیہ کو کہا ” یا تو یہ ویڈیو بن کرواؤ یا پھر اس لڑکے ہو باہر نکالو ، میں مفت میں نہیں کرواتا ہوں یہ سیشنز “۔ اور پھر اس نوجوان نے فیصلہ کیا کہ میں جو کچھ بھی اپنے طالبعلموں سے کہونگا اس کی ویڈیو ضرور بنواؤنگا ۔ یہ ویڈیوز دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بلکہ ساری دنیا میں موجود اردو بولنے اور سمجھنے والوں تک جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئیں ۔لاکھوں کی تعداد میں یہ ویڈیوز دیکھی جانے لگیں ، ہزاروں کی تعداد میں شئیر ہونے لگیں ۔ سینکڑوں نوجوانوں نے ان ویڈیوز کے ذریعے اپنی زندگیاں بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔
200 روپے لے کر ریاضی پڑھانے والا یہ نوجوان سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سرچ کیا جانے والا ” موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر ” بن چکا تھا ۔ ادھر کوئی ویڈیو اپ لوڈ ہوئی اور ادھر اس کے ” نظارے ” ہزاروں میں چلے گئے ۔ فیس بک پر اس کے چاہنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ یوٹیوب پر اس کو مستقل دیکھنے والے پانچ لاکھ سے زیادہ ہیں ۔ ملک کے تقریبا تمام ہی چینلز ان کو اپنے پروگرامات میں بلانا اور کاپوریٹ ادارے اپنے اداروں میں ورکشاپس کروانا اعزاز سمجھتے ہیں ۔ خود شناسی اور سیلف ڈیولپمنٹ کے موضوعات پر انھوں نے اب تک سات کتابیں لکھیں اور چھپنے کے فورا بعد ہی وہ کتابیں لوگوں کی لائبریریوں کا حصہ بن گئیں ۔ نہ صرف یہ کہ وہ کارپوریٹ اداروں کے مقبول ترین ٹرینر بن گئے بلکہ ملک سے باہر بھی امریکا ، برطانیہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کے 28 ممالک میں وہ اب تک مختلف سیشنز کرواچکے ہیں ۔ مہنگا کرنے کے بعد انھوں نے اب خود کو ” مفت ” کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ” بدل دو ” کے عنوان سے پنجاب کے 36 اضلاع میں جانے کا ارادہ ہے ۔ بڑی تعداد میں اساتذہ ، طلبہ و طالبات بلکہ پولیس اور ججز تک کے ساتھ ان کی ورکشاپس منعقد ہورہی ہیں ۔ترقی کا یہ سفر 2017 میں باقاعدہ ” فاؤنڈیشن ” کی شکل اختیار کرگیا اور اب اس فاؤنڈیشن سے بڑی تعداد میں ایسے لڑکے اور لڑکیاں پاس آؤٹ ہورہے ہیں جو تبدیلی کے اس عمل کو اپنے ” شوق ” کے ساتھ اپنا پروفیشن بھی بنارہے ہیں ۔ جی ہاں یہ قاسم علی شاہ صاحب ان کی اکیڈمی اور ان ہی کی فاؤنڈیشن کی سوانح عمری ہے جو تاحال جاری ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ اس میں برکت دے اور کامیابی کا یہ سفر یونہی جاری و ساری رہے ۔ میں قاسم علی شاہ صاحب سے درخواست کرونگا کہ وہ ” بدل دو ” کہ اس عنوان کو پنجاب کے بعد پورے پاکستان تک وسیع کریں ۔ ان شاء اللہ پورا پاکستان دل سے انکا استقبال کریگا ۔
ماشااللّہ آپ نے بڑے کمال کے ساتھ شاہ جی کی زندگی پہ تبصرہ کی ہے یقیناً شاہ جی ہمارے قوم و ملت کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے اللہ پاک اُتار جی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے