ایک ایسی بستی کا غم۔۔۔ جہاں کے معصوم بچے مجھے پُْکارتے رہ گئے۔۔۔ وہ چیختے چلاتے رہے۔۔۔ اس امید پر کہ کوئی انسان دنیا بھر کو ان کی آواز سنا دے گا۔۔۔کوئی ان کے چہروں پر ابھرتی درد بھری داستان پڑھ لے گا۔ کوئی ان کا غم گسار بن جائے گا۔
یہ دنیا کے اْس حصے کا علاقہ ہے، جس کے بارے میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’ جب وہاں سے خیر اْٹھ جائے تو گویا کہ پوری اْمتِ مسلمہ سے خیر اْٹھا لی جائے گی‘‘۔
یہی علاقہ قیامت کے قریب مسلمانوں کا مرکز ہوگا۔ جہاں امام مہدی مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے اور جہاں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا۔ وہی علاقہ، وہی غوطہ کی بستی، جسے یہود تباہ و برباد کرنے پر تْلا ہوا ہے اور اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان یہاں جمع نہ ہونے پائیں۔ مسلمان قوت نہ بن سکیں اور مغلوب ہی رہیں۔ ’’عالمی قوتوں‘‘ کا لفظ استعمال کر کے ہمیں بہلایا جاتا ہے، اطمینان دلایا جاتا ہے، کہ نہتے عوام سے تو کسی کو دشمنی نہیں، ہاں بس کچھ دہشت گردوں کی تلاش ہے جو موجودہ حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ وہاں کے مظلوم عوام کو انہی عالمی قوتوں کی طرف سے امداد جان کے بدلے ملتی ہے۔ وہاں کچھ لوگ اگر زندہ سلامت رہ گئے ہیں تو محض اس لیے کہ ان کے دن کا بیشتر حصہ تہہ خانوں اور سرنگوں میں گزرتا ہے۔ جہاں لوگ بمباری کے رکنے کے منتظر ہوتے ہیں کہ ان کو کہیں پناہ لینے کا وقت مل جائے۔
آج مجھ سے کسی نے درخواست کی کہ کوئی تیار شدہ تقریر ڈھونڈ دیں، غوطہ پر چند منٹ بولنا ہے۔
ذرا سوچیں، آخر چند منٹ میں کیا بولا جاسکتا ہے؟ لہو کی اس داستان، اور یہود کے مقاصد بیان کرنے کے لیے تو بہت سا وقت درکار ہے۔ چند لمحوں میں اْمت کی بے حسی پر رویا جائے یا اسلامی حکومتوں کی نااہلی بیان کی جائے؟ یا محض ظلم و جبر پر چند بول کہہ دینا کافی ہے؟
ہم خود بھی تو ظالموں کی صفِ اوّل میں شمار ہوتے ہیں کہ درد بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی درد جھیلنے والوں سے مانگ رہے ہیں۔ اپنی ذات سے ہٹ کر درد محسوس کرنے کا وقت کہاں ہے ہمارے پاس۔
خیر بات بہت دور چلی گئی۔ فی الحال مجھے تقریر کے لیے کچھ مواد چاہیے۔ جو کہ درد بھرا ہو، لیکن بس اتنا کہ آنسو آنکھوں ہی میں رہیں۔ بات بھی صرف غوطہ تک محدود ہو۔ اب بیس سال کے نوجوان اقوامِ عالم اور اْمتِ مسلمہ کے مسائل جیسے موضوعات کہاں سمجھ پائیں گے۔
میں ذرا مصروف ہوں
مجھے الفاظ بتا دو
کہ کچھ جانے بغیر ہی
مجھے غوطہ پر تقریر کرنی ہے
میرے حضور دیکھیے پھر آگیا مقام غم
بہ سایۂ صلیب پھر بھرے ہیں ہم نے جامِ غم