ولکن رّسول اﷲ وخاتم النبیین

قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب میں آپﷺ کے لئے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ خاتم النبیین کی حیثیت کو بیان کیا گیا:
ما کان محمد ابآ احد مّن رّجالکم ولکن رّسول اﷲ وخاتم النّبیّین۔ (محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اﷲ کے رسول اور خاتم النّبیّین ہیں)
یعنی ’’ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے‘‘۔ (دیکھئے تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص۱۰۳)
یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ ایک گروہ (مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں) نے اس آیت کی غلط تاویل کر کے ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔انہوں نے ’’خاتم ‘‘ کے لفظ کی غلط تعبیر کی ہے، اور اس سے مراد ’’نبیوں کی مہر‘‘ لیا ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ آئندہ آنے والے نبی آپؐ کی مہر لگنے سے نبی بنیں گے، حالانکہ سیاقِ کلام میں اس کی ہرگز کنجائش موجود نہیں ہے، بلکہ یہ معنی مراد لینے سے پورا کلام ہی بے محل ہوجاتا ہے۔اسی گروہ نے اس لفظ کی دوسری تاویل ’’افضل النبیین‘‘ کی ہے، یعنی نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے، البتہ کمالاتِ نبوت حضورؐ پر ختم ہو گئے ہیں، اور یہ معنی بھی سیاقِ کلام میں اتنا ہی ان فٹ ہے جتنا پہلا، کیونکہ سیاق کے مطابق جاہلیت کی رسمِ تبنیت اس لئے مٹائی جا رہی ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (اور اگر اور نبی آنے تھے تو ان میں سے کوئی اس جاہلی رسم کو مٹا سکتا تھا)۔
سیاق وسباق قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبیین کے معنی سلسلہء نبوت کو ختم کر دینے والے کے ہی لئے جائیں، امام فخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں:
’’حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں، کیونکہ اگر ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آنا ہوتاتو پہلا تبلیغِ اسلام اور توضیحِ احکام کا مشن کسی حد تک نا مکمل چھوڑ جاتا اور پھر بعد میں آنے والا اسے مکمل کرتا‘‘۔ (تفسیر کبیر)
ابنِ جریر طبری رقم طراز ہیں:
’’اور آپؐ اﷲ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں، جنہوں نے تشریف لا کر سلسلہء نبوت ختم فرما دیا ہے اور اس پر مہر ثبت کر دی ہے، اب یہ قیامت تک کسی اور کے لئے نہیں کھولی جائے گی‘‘۔
’’آنحضرت ﷺ کے لئے دو باتوں کا تصور ضروری ہے، یہ کہ آپ رسول اﷲ ہیں، اور یہ کہ آپؐ خاتم النبیین ہیں، اور ان دونوں تصورات میں آپؐ کا امتیازی تصور خاتم النبیین ہی ہے‘‘۔ (دیکھئے ترجمان السنۃ، مولانا بدر عالم میرٹھی)
صرف سیاق ہی نہیں لغت بھی اسی معنی کی مقتضی ہے، عربی لغت اور محاورے کی رو سے ’’ختم ‘‘کرنے کے معنی مہر لگانے، بند کرنے، آخر تک پہنچ جانے اور کسی کام کو کر کے فارغ ہو جانے کے ہیں۔ (تفہیم القرآن، جلد پنجم، ۱۳۹)
اسی بنا پر تمام اہلِ لغت اور اہلِ تفسیر نے بالاتفاق ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی آخر النّبیّین کے لئے ہیں۔
قرآن کی آیۃ کی تفسیر خود قرآن سے کی جاتی ہے اورسورۃ المائدۃ کی آیۃ نمبر ۳ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ بھی اسی آیت کی تفسیر ہے۔اور دین کو مکمل کر دینے سے مراد ایسا مستقل نظامِ فکرو عمل اور ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدن ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہواور ہدایت اور رہنمائی حاصل کرنے کے لئے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ (تفہیم القرآن، جلد اوّل، ص۴۴۴)۔
احادیث مبارکہ بھی ختمِ نبوت کے اسی معنی کی تشریح کرتی ہیں، جیسے:
نبی ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء ؑ کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی مر جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، بلکہ خلفاء ہوں گے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب ما ذکر عن بنی اسرایل)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں، اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمارت مکمل ہو چکی، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پر کرنے کے لئے کوئی آئے) (دیکھئے، صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین) مسند ابو داود میں اس کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’ختم بی الانبیاء‘‘ میرے ذریعے انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا۔
آپؐ نے فرمایا کہ: ’’ مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے،
۱۔ مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی
۲۔ مجھے رعب کے ذریعے نصرت دی گئی
۳۔ میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے
۴۔ میرے لئے زمین کو مسجد بھی بنایا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی
۵۔ مجھے تمام دنیا کے لئے رسول بنایا گیا
۶۔ اور میرے اوپر انبیاءؑ کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ (مسلم، ترمذی، ابنِ ماجہ)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے نہ نبی‘‘۔ (ترمذی، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے، صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں‘‘۔ عرض کیا گیا، وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں یا رسول اﷲ؟ فرمایا: ’’اچھا خواب، یا فرمایا، صالح خواب‘‘۔ (مسند احمد، مرویات ابو الطفیل، نسائی، ابو داود)
نبی ﷺ نے فرمایا:
’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ بن الخطاب ہوتے‘‘۔ (ترمذی، کتاب المناقب)
امتِ مسلمہ میں آنے والے جھوٹوں سے بھی آپ ﷺ نے قبل از وقت خبر دار کر دیا:
ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’ ۔۔۔ میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، جن میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعوی کرے گا، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ (ابو داود، کتاب الفتن)
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں‘‘۔ (بہیقی، کتاب الرؤیا۔ طبرانی)
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ آخری نبی ہیں، آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپؐ پر ختم ہو چکا ہے اور آپؐ کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعوی کریں وہ دجال و کذاب ہیں۔ قرآن کے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ خود اس معاملے میں حجت ہیں اور نص صریح ہیں، سوچنے کی بات ہے کہ قرآن اور سنت خود ایک لفظ کی تشریح کر رہے ہیں، تو کوئی دوسرا معنی قبول کرنا تو درکنار اس کی جانب توجہ بھی نہیں کی جا سکتی۔
نبی اکرم ﷺ کی حیات کے آخری عرصے میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کیا، اور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد حضرت ابوبکرؓ نے اس کے خلاف فوج کشی کی، اور جن لوگوں نے اس کی نبوت تسلیم کی ان کے خلاف صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق جنگ کی۔یہ شخص (مسیلمہ کذّاب) رسول اﷲ ﷺ کی نبوت کا منکر نہ تھا، بلکہ اس کا دعوی تھا کہ اسے حضور ؐ کے ساتھ شریکِ نبوت بنایا گیا ہے، رسول اﷲ ﷺ کو اس نے جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’مسیلمہ رسول اﷲ کی جانب سے محمد رسول اﷲ کی طرف، آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں‘‘۔
مورخ طبری کے مطابق مسیلمہ کے ہاں جو اذان دی جاتی تھی اس میں ’’اشہد انّ محمدا رسول اﷲ‘‘ کے الفاظ بھی تھے، اس صریح اقرارِ رسالتِ محمدیؐ کے باوجود اسے کافر اور خارج از ملّت قرار دیا گیااور اس سے جنگ کی گئی۔ یہ اجماعِ صحابہ کی بہترین مثال ہے۔
دورِ صحابہؓ سے لیکر آج تک ہر زمانے کے، اور پوری دنیائے اسلام کے ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا، اور یہ کہ جو بھی آپؐ کے بعد اس منصب کا دعوی کرے، یا اس کو مانے، وہ کافر خارج از ملّتِ اسلام ہے۔
یہ معاملہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے:
امام ابو حنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا، اور کہا کہ’’ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘، اس پر امام اعظم نے فرمایا کہ:
’’جو شخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا، کیونکہ رسول اﷲ ﷺ فرما چکے ہیں کہ : لا نبی بعدی‘‘۔ (مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ لابن احمد المکی، ج۱، ص۱۶۱، طبع حیدر آباد ۱۳۲۱ ھ)
تفسیر کشاف میں علامہ زمخشری لکھتے ہیں:
’’اگر تم کہو کہ نبی آخری نبی کیسے ہوئے جبکہ عیسیؑ آخری زمانے میں نازل ہوں گے؟ تو میں کہوں گا کہ آپؐ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی شخص نبی نہ بنایا جائے گا، اور عیسیؑ ان لوگوں میں سے ہیں جو آپ ؐ سے پہلے نبی بنائے جا چکے تھے، اور جب وہ نازل ہوں گے تو شریعتِ محمدیہ کے پیرو اور آپؐ کے قبلے کی طرف نماز پڑھنے والے کی حیثیت سے نازل ہوں گے، گویا کہ وہ آپ ﷺ ہی کی امت کے ایک فرد ہیں‘‘۔ (تفسیر کشاف، ج۲، ص۲۱۵)
امام بیضاویؒ بھی خاتم النبیین کی یہی تشریح کرتے ہیں :
’’آپؐ انبیاء میں سے آخری ہیں، جس سے انبیاء ؑ کے سلسلے پر مہر لگ گئی ہے، اور عیسیؑ کا آپؐ کے بعد نازل ہونا اس ختمِ نبوت میں قادح نہیں ہے، کیونکہ جب وہ نازل ہوں گے تو آپؐ ہی کے دین پر ہوں گے‘‘۔ (انوار التنزیل، ج۴، ص۱۶۴)
دنیائے اسلام کا جائزہ لیں توہندوستان سے لیکر مراکش اور اندلس اور ترکی سے لیکر یمن تک ہر صدی میں ہر مسلمان ملک کے اکابر علماء فقہاء اور محدثین و مفسرین متفقہ طور پر ’’خاتم النبیین ‘‘ کے معنی آخری نبی ہی سمجھتے رہے ہیں، حضور ﷺ کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے، اور اس امر میں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا ہے کہ جو شخص محمد ﷺ کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعوی کرے اور جو اس کے دعوے کو مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔(دیکھئے: تفہیم القرآن، ج۴، ص۱۵۱)
سوچنے کا مقام ہے کہ نبوت ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس میں ذرا سی کوتاہی کفر تک پہنچا دیتی ہے، اسی لئے اﷲ تعالی نے اس معاملے کو نہ اپنی کتاب میں مبہم چھوڑا ہے نہ اپنے نبی کی احادیث میں۔ صحابہ اکرام رضوان اﷲعلیہم اجمعین کا اجماع بھی امت کے سامنے ہے، اور اس کے بعد کی پوری تاریخ بھی، جب کہیں بھی کسی جھوٹے مدعی نبوت کو جڑ پکڑنے نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ کفر اور ایمان کا معاملہ ہے۔
ختمِ نبوت امتِ مسلمہ کے لئے بہت بڑی رحمت ہے، اس کی موجودگی میں امت میں ایک عالمگیر وجود اور عالمی برادری بنی ہے۔اگر نبوت کا دروازہ حتمی طور پر بند نہ ہوتا تو امت کو یہ وحدت حاصل نہ ہو سکتی تھی۔
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں