اپنے وقت کا نیوٹن اور ہمارے زمانےکا آئن اسٹائن،نوبیل انعام یافتہ سائنسداں اور ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم ‘ جیسی کروڑوں کی تعداد میں شایع اور فروخت ہونی والی کتاب کا مصنف ۔۔اسٹیفن ہاکنگ۔۔ جو انسان کے لیے کائنات کو مسخر کیے جانے کا زندہ ثبوت تھا ۔۔نہیں رہا ۔۷۶ سال کی عمر میں،عین ، آئن اسٹائن کی سالگرہ کے روز۱۴ مارچ ۲۰۱۸ کو اِس دار ِفانی سے کوچ کر گیا ۔لیکن اِس ستم ظریفی کو ضبط تحریر میں لانے کے لیےہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ آخر ،سِرِّ کائنات کو پا لینے کے باوجود، وہ خالق کائنات کے وجود کے اقرار میں کیوں ناکام رہا؟
اسٹیفن ہاکنگ کے دنیا سے گزر جانے کی اطلاع ہمیں اسی روزسب سے پہلے سوشل میڈیا پر صفی سرحدی کی پوسٹ سے ملی ۔وقت کے اس زندہ معجزے نے اپنی زندگی کے پچاس سے زیادہ قیمتی ماہ و سال اس طرح گزارے کہ دماغ اور پلکوں کے سِوا، اُس کے تمام اعضائے جسمانی مفلوج اور ناقابل حرکت تھے ۔طبی ماہرین تو ۱۹۷۴ ہی میں ہاکنگ کو الوداع کہہ چکے تھے لیکن اس نے اپنی ہمت ،اور بلا شبہ اللہ کی حکمت کے بل پر ،جس کا اسٹیفن نے کبھی اعتراف نہیں کیا ، وہ کر دکھایا جس کی توقع بھی فی زمانہ مفقود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسٹیفن کی محض پلکوں کی جنبش کے ذریعے تفہیم کائنات کا عظیم کام خود وہ خالق لے رہا تھا جو تخلیق کائنات کے وقت ہی اسے اپنی ’اَحسنِ تخلیق ‘ انسان کے لیے مسخر کر چکا تھا ۔
اسٹیفن ہاکنگ نے’ تاریخ زمان و مکان ‘(اے بریف ہسٹری آف ٹائم) جیسی مقبول ترین سائنسی کتاب لکھی جو پوری دنیا میں ناولوں اور افسانوں سے زیادہ فروخت ہوئی ۔شاید ہی کوئی بڑی ، قابل ذکر اور زندہ زبان ایسی ہو جس میں اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو !
کیمبرج یونیورسٹی کے سائبر ماہرین نے پہلے تو ایک ایسا کمپیوٹر ایجاد کیا جو نہ صرف ہاکنگ کے دماغ کو پڑھ سکتا تھا بلکہ اس کی پلکوں اور رخساروں کی حرکت کولفظوں میں ڈھال کر دنیا کو اس کے خیالات سے واقف بھی کرا سکتا تھا ۔یہ ٹاکنگ کمپیوٹر اس کی وہیل چئیر سے مستقل طور پر منسلک کر دیا گیا ۔ اس طرح ہاکنگ اپنے خیالات کمپیوٹر پر منتقل کرتے اور اسکرین پر نہ صرف یہ الفاظ ٹائپ ہو تے بلکہ آواز میں نشر بھی ہوتے جاتے ۔یعنی وہ اپنی پلکوں سے ’بولتے‘ اور پوری دنیا انہیں سُنتی اور سر دھنتی ۔
۱۹۹۰ کی دہائی میں دنیا کی بعض بڑی کمپنیوں کی مدد سے انہوں نے دنیائے انسانیت کی ایک اور خدمت شروع کی ۔ انہیں ان کی مخصوص ’کمپیوٹر وہیل چئیر ‘سمیت اسٹیج پر رکھ دیا جاتا اور وہ کچھ اس طرح لوگوں کو خطاب کرتے :
’’۔۔اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں ،اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں ،اگر میں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضا سلامت ہیں ،جو چل سکتے ہیں ،جو اپنے دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے ہیں ،جو کھا پی سکتے ہیں ،جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے ہر طرح کے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں ؟ ۔۔‘‘
ایک بار ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ علم کا سب سے بڑا دشمن جہل نہیں ،علم ہونے کا وہم ہونا ہے !انہوں نے پیشین گوئی کی تھی کہ یہ گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج دنیا کو با لآخر تباہ کر کے چھوڑیں گے ۔لیکن جب ایک صحافیہ نے اُن سے سوال کیا کہ کیا وہ اللہ کے وجود میں یقین رکھتے ہیں؟تو اُنہوں نے دو ٹوک جواب دیا تھا : ’نہیں ‘!ًآخرت کی جوابدہی ،جنت ، دوزخ اور تقدیر سب اُنکے نزدیک خود انسانوں کے گڑھے ہوئے فرضی قصے تھے ۔!
ہماری یہ دلی خواہش تھی کہ اِس نابغہ روزگار کا خاتمہ بہ خیر ہی نہیں ’’با لخیر ‘‘ بھی ہو لیکن ۔۔ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔۔!
محترمہ بازغہ دھرو کے اِس سوال کا جواب تو ہمارے پاس بھی نہیں کہ اُس کی زندگی میں کتنے علما اور اہل ِ معرفت نے اُسے’’الحق ‘‘کی دعوت دی؟ کیا ہمارا یہ فریضہ نہیں تھا کہ ہمارے وہ عبقری اہل علم و حکمت جو اسٹیفن ہاکنگ کے سائنسی اکتشافات و تحقیق کو سمجھنے appreciateکر سکنے کی صلاحیت رکھتے تھے اُسے حق کی طرف بلاتے اور اُسے بتاتے کہ آپ جہاںتک پہنچ کے رُک گئے ہیں اُس سے اگلا قدم ہی اُس منزل تک پہنچانے والا ہے جہاں انسان ۔۔ربنا ما خلقت ھذا با طلا ۔۔کا نعرہ مستانہ بلند کرنے اور مشاہدہ حق کے بعد ۔۔فقنا عذاب ا لنار ۔۔ کی دعا کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے ! اسٹیفن کے ہم عصر ’’اللہ والوں ‘‘ کو جن پر اِتمام ِحُجَّت کی شرعی ذمہ داری تھی ،بارگاہ ِخداوندی میں اَپنی اِس کوتاہی کے لیے جواب دِہ تو ہونا ہی پڑے گا ۔اللہ ہمیں معاف کرے اور رحم کا معاملہ فرمائے!