مریم ایوون ریڈلے کا پاکستانی قوم پر یہ احسان تاقیامت رہے گا کہ اس نے عافیہ کی بگرام کے امریکی عقوبت خانے میں موجودگی کے بارے میں سب سے پہلے پاکستانی قوم کو آگاہ کیا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب دہشت گردی کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی وہ جنگ جس کے کوئی اصول و ضوابط نہیں تھے، عروج پر تھی۔ اس وقت امریکہ کا پاکستان کے حکمرانوں پر اثرورسوخ اور دباؤ بھی نقطہ عروج پر تھا۔ پاکستان میں امریکی جاسوس اور بلیک واٹر کے ایجنٹ دندناتے پھرتے تھے۔ ایسے وقت میں مریم ریڈلے کو پاکستانی سیاسی قیادت میں کوئی قابل اعتماد لیڈر نظر آیا تو وہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تھے جن کے ہمراہ انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کرکے انکشاف کیا تھا کہ بگرام، افغانستان کے خفیہ امریکی ٹارچر سیل میں قیدی نمبر 650 آپ کی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی ہے۔گذشتہ دنوں سوشل میڈیاکے توسط سے معروف ٹی وی اینکر معید پیرزادہ کی عمران خان اورمریم ریڈلے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس سے متعلق 8 سال قبل کے ایک انٹرویو کی وڈیو دیکھنے کا موقع ملا جو کہ اس کالم کے لکھنے کا محرک بنا۔
میں پہلے عمران خان اور مریم ریڈلے کے اس انٹرویو کا لفظ بہ لفظ متن پیش کررہا ہوں پھر اس کے بعد پاکستان کی سیاسی قیادت کی خدمت میں اپنی عرضی پیش کروں گا۔ معید پیرزادہ نے انٹرویو کی ابتداء اس سوال سے کیا کہ : پاکستان میں کچھ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ عافیہ کی ساری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے… تو مریم ریڈلے نے معید پیرزادہ سے سوال کیا کہ : وہ کون سے ذرائع ہیں۔ ان لوگوں کا نام بتائیں؟… تو اس موقع پر عمران خان نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ … کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ایک عورت جو اپنے 3 بچوں کے ساتھ لاپتہ ہوگئی ہے …جبکہ اس کی ماں اور بہن یہ کہہ رہی ہے کہ ’’ان کی بہن 3 بچوں کے ساتھ اغواء کرلی گئی ہے…کیا حکومت کو اس کی باقاعدہ تحقیقات نہیں کرنی چاہئے بجائے اس کے وہ اس کو جھوٹ قرار دے۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے … یہ انتہائی زیادتی ہے ایک MIT گریجویٹ عورت اور اس کے 3 بچوں کے ساتھ ۔اس پر سینیٹ میں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی بحث ہوئی ہے۔(معید پیرزادہ) حکومت نے اس عافیہ کے مقدمے کے لئے 2 ملین ڈالر بھی خرچ کئے ہیں اور امریکہ میں پاکستانی سفیر نے وہاں سب سے ملاقاتیں کیں اور پھر وہ پاکستان بھی آئے کراچی میں عافیہ کی ماں سے ملاقات کی تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا؟سب جانتے ہیں کہ عافیہ کی ماں اور اسکی بہن حکومت کے کردار کے بارے میں کیا کہہ رہی ہیں اور پاکستانی سفیر کو تو امریکہ کا سفیر کہنا چاہئے وہ تو امریکی مفادات کی نگرانی کررہے ہیں…اور شاہ سے بڑھ کے شاہ کے وفادار کا کردار ادا کررہے ہیں …اس لئے ان سے ہمیں کوئی توقع نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کے متاثرہ خاندان یعنی عافیہ کی ماں اور بہن کو عدالت میں جانے کی اجازت دی جائے …تاکہ وہ اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کرسکیں اور اس کی مکمل تحقیقات کی جائے …اصل مجرم وہ ہیں جنہوں نے اسے اغواء کیا اور پھر امریکہ کے حوالے کیا۔ (معید پیرزادہ) کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اگر پاکستان میں تحقیقات کی جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی ایجنسیوں نے اغواء کیا اور امریکہ کے حوالے کیا …تو کیا امریکہ کا عدالت میں کیس بہت کمزور ہوجائے گا۔ (مریم ایوون ریڈلے) امریکی کیس کی کوئی بنیاد نہیں ہے …ایک پاکستانی عورت پر افغانستان میں ہونے والے … جرم پر امریکی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بے بنیاد مقدمہ ہے۔ ہمیں یہاں بیٹھ کر یہ سوال پوچھنے کے بجائے ہمیں چاہئے کہ حکومت سے کہیں کہ وہ امریکی حکومت سے عافیہ صدیقی کو…پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرے۔ (معید پیرزادہ) اب جب کہ امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ چاہے کیس کچھ بھی ہو …تو اب حکومت پاکستان امریکی حکومت سے عافیہ کی واپسی کا مطالبہ کیسے کرسکتی ہے۔ (عمران خان) حقیقت یہ ہے کہ جیوری کے سامنے تمام حقائق نہیں رکھے گئے … بنیادی سوال یہ کہ وہ پاکستان سے کیسے اغواء ہوئی … اور افغانستان 3 بچوں کے ساتھ کیسے پہنچی جب تک اس کی باقاعدہ تحقیقات نہیں ہوتی سچ … سامنے نہیں آئے گا آپ کو سچ تک پہنچنے کے لئے اس کی تحقیقات کرنی ہوں گی … اور یہاں ی صورتحال ہے کہ حکومت نے اب تک اس کی کوئی تحقیقات نہیں کیں۔ اس حکومت (زرداری) کو مشرف کی پالیسیوں پر نہیں چلنا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ سارے معاملے کی تحقیقات کریں کم ازکم عافیہ کی ماں اور بہن سے جاننا چاہئے … (معید پیرزادہ) کیا آپ چاہتے ہیں کہ اعلیٰ سطح پر اس کی عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں کہ مارچ 2003 میں کیا ہوا تھا؟ (عمران خان) بالکل اگر آپ کو حقیقت پتہ چل جاتی ہے کہ عافیہ پاکستان سے کس طرح لاپتہ ہوئی تو نیویارک میں چلنے والا سارا کیس ختم ہوجائے گا …کیوں کہ سارا کیس اسی جھوٹ پر کھڑا کیا گیا ہے کہ یہ عورت 3 بچوں کے ساتھ جن میں ایک 6 ماہ کا (بچہ ) ہے پاکستان سے افغانستان پہنچتی ہے … امریکیوں پر حملہ کرنے کے لئے اوریہ ساڑھے 4 فٹ کی کمزور سی عورت گن اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملہ کرتی ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے اور یہ جو ہم کہہ رہے ہیں یہ سچ ہے اور اس کے گواہ موجود ہیں … اس کی ماں اور انکل نے مجھے 2003 میں فون کیا تھا… اور مجھے ساری صورتحال یاد ہے کہ کیاہوا تھا۔ اس کا نام FBI کی لسٹ میں شامل ہوا تھا اس لئے وہ اسلام آباد آنا چاہتی تھی۔ (معید پیرزادہ) یہ تو پہلا قدم ہوا مگر اس کے علاوہ اور کیا کرنا چاہئے اس سلسلے میں۔(عمران خان) میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو ایک اعلیٰ سرکاری وفد بنانا چاہئے جو امریکہ جائے اور نہ صرف امریکہ …کے کانگریس کے اراکین سے ملیں بلکہ میڈیاسے بھی ملیں … اور انہیں بتائیں کہ اس سے امریکہ کے تشخص کو نقصان پہنچ رہا ہے … اور اس سے امریکہ کے خلاف انتہا پسندی اور دہشتگردی کو فروغ مل رہا ہے کیوں کہ …جس طرح سے عافیہ اور اس کے بچوں کے ساتھ سلوک کیا گیا …اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ امریکی شہریوں کے لئے قانون اور ہے اور مسلمانوں کے لئے اور ہے …اس سے امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچ رہا ہے… آپ اسی صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں … جب آپ لوگوں کے دل جیتیں گے۔اس طرح سے تو دہشت گردوں کو فائدہ ہورہا ہے۔ امریکی میڈیاکو اس پاکستانی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے قائل کیا جائے اور … امریکی قانون سازوں کو بھی۔ (معید پیرزادہ) ایوون، عمران کے خیال میں ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہئے اور ایک سرکاری وفد … امریکہ بھیجنا چاہئے۔ آپ کے خیال میں اب عافیہ پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد کیاکیا جاسکتا ہے؟ (مریم ایوون ریڈلے) اسے امریکہ میں انصاف نہیں ملے گا اور پاکستانی حکومت بھی اسے انصاف دلانے کے لئے کچھ … نہیں کررہی ہے۔ اس لئے یہ پاکستانی عوام کو ہی کرنا ہوگا جیسے لانگ مارچ اور احتجاجی ریلیاں وغیرہ … جب تک سیاستدان اس پر توجہ نہ دیں کیوں کہ جو لوگ حکومت میں ہیں … وہ میڈیا کے سامنے آکر تو کہہ دیتے … مگر اصل میں وہ کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس معاملے… میں اپنی جان چھڑالیں گے۔ اور ہم نے دیکھا کہ برطانیہ کے لارڈ نذیر احمد نے … واشنگٹن جا کر وہاں سے لوگوں س اس معاملے پر بات کی …اور انہیں وہاں جاکر معلوم ہوا کہ پاکستانی حکومت نے اس معاملے پر کچھ کیاہی نہیں اور نہ ہی سرکاری … طور پر عافیہ صدیقی کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست کی ہے۔ پاکستانی حکومت جو کہ عوام کے ٹیکسوں سے 2 ملین ڈالر کی رقم عافیہ کے کیس پر خرچ کررہی ہے اس نے عافیہ کو پاکستان کے حوالے …کرنے کی درخواست ہی نہیں کی ہے۔ (معید پیرزادہ) آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی حکومت صرف عوام کو مطمئن کرنے کے لئے یہ سب کر رہی ہے؟ (مریم ایوون ریڈلے) ہاں مگر میں یہ ضرور جاننا چاہتی ہوں کہ آخر عافیہ صدیقی ایسا کیا جانتی ہے … جو پاکستانی حکومت عافیہ کو واپس نہیں بلانا چاہتی ؟(معید پیرزادہ) عمران صرف عافیہ صدیقی ہی نہیں جیسا کہ مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے سینکڑوں کی تعداد …میں پاکستانی امریکہ کے حوالے کئے گئے۔ تو ایسا کیا کرنا چاہئے کہ یہ سب دوبارہ نہ ہوکہ پاکستانی گرفتار … کئے جائیں اور بغیر کسی قانونی کاروائی کے غیرملکیوں کے حوالے کئے جائیں … (عمران خان) ہمارے پاس اتنا مضبوط عدالتی نظام ہونا چاہئے جو کہ پاکستانی شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے … جو کچھ ہوا ہے وہ غیرآئینی ہے غیرقانونی اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مختلف الزامات کی بنیاد پر یہاں لوگوں کو اٹھایا گیا ۔ کچھ امریکہ کو بیچ دیئے گئے۔ اور بہت سے مار دیئے گئے۔ ماورائے عدالت قتل پاکستان میں اب بھی جاری ہیں۔ ڈرون حملے بھی ماورائے عدالت قتل ہیں۔ کوئی قانونی جواز نہیں ہے کہ آپ خود ہی جج ہوں اور خود ہی سزا دیں۔ کچھ لوگ امریکی CIA بیس پر بیٹھے فیصلہ کررہے ہیں کہ فلاں جگہ بمباری کرنی ہے۔ کوئی پرواہ نہیں کہ کتنی معصوم جانیں ضائع ہور ہی ہیں … اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 44 ڈرون حملوں میں مرنے والے 708 افراد میں سے 700 عام شہری تھے اور صرف 8 دہشت گرد۔ لہٰذا اس طرح ماورائے عدالت اقدامات پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ ہماری اپنی فوج کو رہائشی علاقوں میں بمباری نہیں کرنی چاہئے۔ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھیں۔ اور امریکہ اسی بات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ایک آمر کے جانے کے بعد دوسرا NRO آمر ہم پر مسلط ہے۔ اور چونکہ یہ کٹھ پتلی حکمران ہیں اس لئے … پاکستانی قانون کی توہین کرتے ہیں۔
اس انٹرویو کا لنک https://www.youtube.com/watch?v=Y6cW_zHNBvI یوٹیوب پر آج بھی موجودہے۔2 مارچ،2010 کو یہ انٹرویو عافیہ کی 38ویں سالگرہ کے موقع پر ایک نیوز چینل سے نشر کیا گیا تھا۔ اس وقت امریکی عدالت نے عافیہ کی 86 سالہ سزا کا فیصلہ محفوظ کرلیاتھا۔اب عافیہ کی قیدناحق کو 15 سال مکمل چکے ہیں اس دوران وہ اپنے تین کمسن بچوں سمیت 5 سال تک لاپتہ بھی رہی تھی۔ان 15 طویل سالوں کے دوران پاکستان کی تین قومی اسمبلیوں نے اپنی مدت معیاد مکمل کرلی ہے۔ اب چوتھے عام انتخابات کے دن نزدیک آتے جارہے ہیں۔مشرف کے ماتحت حکومت اور اسمبلی دونوں ہی آزاد نہ تھی اسی لئے اس دورکی جمہوری حیثیت کو تسلیم نہیں کی جاتا ہے اس لئے اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے مگراس کے بعد زرداری اور نوازشریف کا دوربھی کچھ کم آمرانہ نہیں گذرا۔ اس پورے دس سالہ دور میں حکمرانوں، اس کے اتحادیوں اور سرکاری حکام نے مالی بدعنوانی اوراختیارات کے ناجائز استعمال کے بدترین ریکارڈ قائم کئے ۔ انہوں نے ملک سے غیرقانونی طور پر اربوں ڈالر کی بدترین منی لانڈرنگ کے ذریعے مختلف ممالک میں ناجائز دولت کے انبار لگا دیئے گئے ، اربوں روپے کی جائیدادیں اور کاروبار بنائے ۔ حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی یہ مالی اور اختیاراتی کرپشن جب ملک کی سلامتی اور بقاء کیلئے خطرہ بن گئی تو ریاست کو حرکت میں آنا پڑا۔پانامہ لیکس اسکینڈل نے برسراقتدار سیاسی قیادت کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنے کی بنیاد فراہم کی جس کا سہرا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سر جاتا ہے جو عرصہ دراز سے ملک میں انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے اور کرپشن کے خاتمہ کیلئے جدوجہد کررہی تھیں۔ اس معاملے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی قیادت کے کردار کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔
ڈاکٹر عافیہ بھی حکمرانوں اور سرکاری حکام کی کرپشن کی متاثرہ ہے جسے انصاف فراہم کرنے کا فریضہ ریاست اور ریاستی حکام کو ادا کرنا باقی ہے۔ یہ فرض اور قرض پاکستانی قوم پر ہی نہیں پوری امت مسلمہ پر واجب الاداہے۔جماعت اسلامی کے موجودہ و سابق امیر اور دیگر اکابرین عافیہ کے معاملے کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اب جبکہ دینی جماعتوں نے ’’ متحدہ مجلس عمل ‘‘کو ایک مرتبہ پھر فعال کردیا ہے تواس خالص دینی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کو ڈاکٹر عافیہ کی باعزت وطن واپسی کو اپنے دستوراور جدوجہد میں اولین ترجیح دینی چاہئے۔جماعت اسلامی کے امیر جناب سرج الحق کو اپنی سابقہ روایت کے مطابق فوری کردار ادا کرنا چاہئے۔ جہاں تک بات ہے تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کی تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ عافیہ کی وطن واپسی کیلئے عملی جدوجہد کا آغاز آپ نے ہی کیا تھا اب وقت آگیا ہے کہ عافیہ کو واپس لا کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں۔میرے یہ الفاظ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ عافیہ کی وطن واپسی کیلئے تمام سیاسی قیادت کو ایک پیج پر آجانا چاہئے ۔ یہ کسی ایک دینی یا سیاسی جماعت کا ایشو نہیں ہے۔ یہ اقوام عالم میں پاکستان کی عزت اور وقار کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے عوام تو اسی طرح سوچتے ہیں اب یہ سوچ سیاسی قائدین کو بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ عمران خان صاحب، خدارا اس نیک مقصد کیلئے پاور میں آنے کا انتظار نہ کریں ، اس کی ابتداء ابھی سے کردیں کیونکہ اقتدار میں آکر آپ کو یہ کام سرکاری حکام سے لینا ہے۔ان کو ابھی سے آئین اور قانون کا پابند بنائیں۔
اہم بلاگز
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔