پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اہل مذہب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرکے دراصل مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ’’دلیل‘‘ کے طور پر کہی جاتی ہے مگر اس بات کو دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سوشلزم، کمیونزم، سیکولر ازم، لبرل ازم، صوبائیت، لسانیت، سرمایہ داری، طبقاتی کشمکش، وڈیرہ شاہی، غربت اور امارت کی بنیاد پر سیاست ہوسکتی ہے تو مذہب کے نام پر سیاست کیوں نہیں ہوسکتی؟ اسلام کا معاملہ تو ویسے بھی یہ ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق ہی نہیں۔ دین دنیا میں نعرے بازی کے لیے نہیں آیا دنیا کو بدلنے کے لیے آیا ہے اور دنیا کی ایک اہم چیز سیاست بھی ہے۔ چناں چہ سیاست اگر خرابی کا شکار ہے تو دین سیاست کو بھی بدلے گا۔ چوں کہ دین سیاست کو بدلنے کا پابند ہے اس لیے مذہب کے نام پر سیاست نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ پسندیدہ یعنی ’’Recmended‘‘ ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کے ان اشعار کا مفہوم عیاں ہے۔ مسلم معاشرے میں اگر سیاست دین سے منسلک نہیں تو وہ چنگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ مسلم معاشرے میں قوم کو حقیقی معنوں میں قوم بنانے کے لیے بھی ہم دین کے محتاج ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل افراد اہل مذہب پر تو الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو سیکولر اور لبرل عناصر ان کے ترجمان اور پاسبان خود مذہب کو اپنے سیاسی و سماجی یہاں تک کہ صحافتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے سامنے آئی۔ ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے عاصمہ جہانگیر کو ’’ہیرو‘‘ بلکہ ’’Icon‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست ردِعمل ہوا۔ لوگوں نے عاصمہ جہانگیر کے سیکولر اور لبرل تشخص کو نمایاں اور ان کی اسلام بیزاری پر تبصرے کیے۔ چوں کہ ان کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ انہوں نے ایک قادیانی سے شادی کی ہوئی تھی اس لیے کہیں کہیں اس بات کا بھی ذکر ہوا۔ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھیں اور اسے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتی تھیں۔ اس لیے ان کا بھارت سے تعلق زیر بحث آیا۔ امریکا کے محکمہ خارجہ نے ان کے انتقال پر ’’افسوس‘‘ کا اظہار ضروری سمجھا۔ اس تناظر میں مغرب کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی خیال آرائی ہوئی۔ یہ تمام تبصرے اور تجزیے ’’آزادی اظہار‘‘ کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان تبصروں اور تجزیوں میں کوئی بات بھی ’’بے بنیاد‘‘ یا ’’خلاف واقعہ‘‘ نہیں۔ مگر روزنامہ جنگ کو تبصروں اور تجزیوں پر کافی تکلیف محسوس ہوئی اور اسے ’’اچانک‘‘ یاد آیا کہ ایک ’’چیز‘‘ اسلام بھی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں جو کچھ سوشل میڈیا پر کہا گیا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے۔ روزنامہ جنگ کی اس دہائی سے ہمیں یاد آیا کہ ابھی چند ماہ قبل جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں حسن نثار اور ریٹائرڈ ائر وائس مارشل شہزاد چودھری نے پردے کا مذاق اُڑایا تھا۔ حسن نثار نے کہا کہ پردہ امہات المومنین اور عہد رسالتؐ کے لیے تھا۔ شہزاد چودھری نے مزید جرأت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ لاہور یا پنجاب کی لڑکیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ پردے کو ہرگز قبول نہ کریں گی۔ پردہ مولویوں اور ملاؤں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ پردہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے اور نص صریح سے ثابت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ حسن نثار اور شہزاد چودھری نے اللہ اور رسولؐ کے حکم کا مذاق اُڑایا۔ جیو نے چوں کہ اس کا نوٹس لیا اور اس پر معذرت کی، اس لیے معلوم ہوا کہ میر شکیل اور جیو کی رائے بھی پردے کے بارے میں یہی ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں خواتین ایسی ہیں جو شرعی پردہ نہیں کرتیں۔ مگر پردہ نہ کرنا ایک بات ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اور اسے ازکار رفتہ قرار دینا دوسری بات۔ پردہ نہ کرنا کمزوری اور انحراف ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ادارے کو عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کے بعد جو کچھ ہوا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے‘‘۔ ہمیں روزنامہ جنگ کی اس ’’اسلام پسندی‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسلام جس کو جب یاد آجائے اچھا ہے۔ لیکن اس ضمن میں جنگ نے کہا کیا ہے؟ 16 جنوری 2017ء کے جنگ میں شائع ہونے والی خبر کی چند سرخیاں یہ تھیں۔
عاصمہ جہانگیر کے خلاف مہم، مسلم معاشرے میں کبھی ایسی مثال نہ رہی۔
آنحضرتؐ نے یہودی کے جنازے کا احترام کیا۔
وفات پر خوشی جیسے عمل کو قرآن و حدیث کی تائید حاصل نہیں۔
حدیث ہے مرنے والے کے بارے میں خیر کی بات کرو۔
رسول اکرمؐ اقدار کا احترام کرتے تھے۔
آپ نے دیکھا مذکورہ نکات میں ہر طرف اسلام اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ نظر آرہا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی ہر بات اور اپنے ہر عمل کے سلسلے میں قرآن و سنت سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ روزنامہ جنگ نے مذکورہ تمام باتیں ’’جید علما‘‘ سے کہلوائی ہیں۔ بہترین۔ اس لیے کہ قرآن و سنت کا علم علما ہی کے پاس ہے، چناں چہ ’’جید علما‘‘ سے رجوع کرنا بھی بہترین بات ہے۔ جنگ نے جن جید علما سے رجوع کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق، مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مفتی محمد زاہد، مفتی محمد نعیم، علامہ محمد امین شہیدی، مفتی عبدالرحمن، گلزار احمد نعیمی، علامہ ثاقب اکبر، مولانا قاری سید اکبر اور سمیعہ راحیل قاضی۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ روزنامہ جنگ کو سوشل میڈیا پر عاصمہ جہانگیر کی فکر و شخصیت کے تجزیے کے حوالے سے اسلام، قرآن و سنت اور ’’جید علمائے کرام‘‘ شدت سے یاد آئے۔ دوسری جانب روزنامہ جنگ اور جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز اور جیو نے عمران خان کی تیسری شادی کو ’’شرمناک اسکینڈل‘‘ کی طرح رپورٹ کیا ہے۔ اس سلسلے کی تفصیلات رونگٹے کھڑی کردینے والی ہیں۔ روزنامہ جنگ نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق خبر 16 فروری 2018ء کو رپورٹ کی اور عمران خان کی شادی سے متعلق خبر 19 فروری 2018ء کو رپورٹ کی۔ جنگ نے عمران خان کی شادی کی پہلی خبر صفحہ اوّل پر 6 کالمی سرخی کے ساتھ رپورٹ کی، خبر کی سرخی یہ تھی۔
’’66 سالہ عمران خان نے اپنی پیرنی بشریٰ سے تیسری شادی کی تصدیق کردی‘‘۔
بلاشبہ عمران خان کی ’’تیسری شادی‘‘ کی خبر اہم تھی مگر اتنی اہم نہیں کہ اسے صفحہ اوّل پر چھ کالم کی سرخی کے ساتھ رپورٹ کیا جائے۔ روزنامہ جسارت میں یہ خبر ایک کالمی سرخی کے ساتھ صفحہ اوّل پر رپورٹ ہوئی۔ یہ خبر اپنی ’’خبریت‘‘ کے اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ خبر صفحہ اوّل پر دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوسکتی تھی۔ مگر روزنامہ جنگ نے اسے صفحہ اوّل پر چھ کالمی سرخی مہیا کرکے خبر کو ’’Scandalous‘‘ بنانے کی شعوری کوشش کی۔ پاکستان کے ہر اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے والے کو معلوم ہے کہ عمران خان کی عمر 66 سال ہے۔ چناں چہ عمران خان کی خبر میں تیسری شادی کو رپورٹ کرتے ہوئے ان کی عمر ’’بتانے‘‘ کی ضرورت نہ تھی۔ اگر عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں اسلام کو یاد کرنے والے روزنامہ جنگ کو عمران کی تیسری شادی کے حوالے سے بھی اسلام یاد آجاتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اسلام کسی کو بھی 66 سال کی عمر میں شادی سے نہیں روکتا۔ یعنی 66 سال کی عمر میں شادی کرنے میں مذہبی، روحانی، اخلاقی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ چناں چہ عمران کی عمر کو دھماکا خیز انداز میں پیش کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیسری شادی میں ’’عیاشی‘‘ کا وہ رنگ پیدا کیا جائے جو کہیں موجود ہی نہیں۔ خبر کی سرخی میں قارئین کو چیختی چنگھاڑتی سرخی کے ذریعے یہ بھی بتانا ’’ضروری‘‘ سمجھا گیا کہ عمران نے اپنی ’’پیرنی‘‘ سے شادی کی ہے۔ اسلام، اخلاق اور تہذیب کسی کو پیر، پیرنی، مرید یا مریدنی سے شریعت کے مطابق شادی کرنے سے نہیں روکتے۔ لیکن روزنامہ جنگ نے ’’پیرنی‘‘ کے لفظ کے ذریعے نکاح کے تجربے کو ’’اسکینڈل‘‘ اور ’’عیاشی کا مظہر‘‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔ چھ کالمی خبر اور 19 جنوری کے جنگ میں موجود ایک اور خبر میں کچھ ذیلی سرخیاں بھی موجود ہیں۔ ذرا ان ’’ذیلیوں‘‘ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
(شادی کی) تقریب میں عمران کا کوئی فیملی ممبر شریک نہیں تھا۔
نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا۔
بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے۔ عارف نظامی
کسی کی قسمت میں وزارت عظمیٰ کی تین شیروانی اور کسی کی قسمت میں صرف شادی تھی، طلال چودھری
عمران نے بہنوں کو میسج کیا شادی کرنے جارہا ہوں، دعا کریں، مگر جواب نہیں ملا، رئیس انصاری
اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ شادی میں پورا خاندان شریک ہو۔ مگر یہ کوئی شرعی یا اخلاقی اصول نہیں، چناں چہ اگر عمران خان کی شادی میں ان کی بہنوں نے شرکت نہیں کی تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر شادی کو ’’اسکینڈل‘‘ بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت کہیں موجود نہیں اور اگر بچے شادی کو قبول نہ کررہے ہوں تو یہ عمران کا مسئلہ ہے جنگ یا معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ لیکن اس بات سے بھی شادی کو اسکینڈل بنانے میں مدد ملتی ہے۔ نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا کی ذیلی سرخی شادی کو شادی سے زیادہ ڈراما ثابت کررہی ہے اور اس سے شادی کی خبر کو اسکینڈل بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ طلال چودھری کے یہ فرمانے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ میاں نواز شریف نے تین بار وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہنی اور عمران کے حصے میں تین بار شادی کی شیروانی آئی۔ لیکن اس بیان کو رپورٹ کرنے سے معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے۔ اس لیے شادی اور نکاح کے عمل کو ’’اسکینڈل‘‘ بنایا گیا۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح معلوم بھی ہے اور یاد بھی کہ محبت کی جو شادیاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر کرتے رہے ہیں وہ اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر کس ’’اہتمام‘‘ اور کس ’’تکریم‘‘ کے ساتھ رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز نے عمران کی شادی کی خبروں کو شہہ سرخیوں میں رپورٹ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان خبروں کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی ہے۔ اس تصویر میں جمائما اور ریحام ہی نہیں سیتا وہائٹ اور ان کی بیٹی ٹیرن کی تصویر بھی موجود ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جمائما اور ریحام خان عمران کی سابقہ بیویاں ہیں مگر سیتا وہائٹ عمران کی بیوی نہیں تھی۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ اس کی تصویر شائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ میر شکیل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ سیتا وہائٹ عمران خان کی سابقہ ’’گرل فرینڈ‘‘ تھی اور ٹیرن عمران کی مبینہ بیٹی ہے لیکن عمران اپنی ’’پرانی زندگی‘‘ پر کئی بار ’’پشیمانی‘‘ کا اظہار کرچکے ہیں مگر جو جنگ عاصمہ جہانگیر کے مسلمہ ’’نظریات‘‘ اور ’’نظریاتی تعلقات‘‘ کو زیر بحث لانے پر ناراض ہے اور اسے بہت زور سے اسلام یاد آیا ہے وہ عمران کی ’’تیسری شادی‘‘ کے حوالے سے ’’سیتا وہائٹ‘‘ کا ’’گڑا مردہ‘‘ اکھاڑ کر لایا اور اسے ’’نمائش‘‘ کے لیے پیش کیا۔ حالاں کہ اسلام اس عمل کو پسند نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والا جنگ 21 فروری 2018ء کی اشاعت میں عمران خان کی تیسری شادی کے حوالے سے ایک ہولناک ترین مقام پر کھڑا نظر آیا۔ اس روز جنگ نے صفحہ اوّل پر ریحام خان کا ایک انٹرویو رپورٹ کیا۔ انٹرویو میں ریحام نے جو بات کہی اسے جنگ نے دو کالمی سرخی اور دو کالمی ذیلی سرخی میں رپورٹ کیا۔ ملاحظہ کیجیے۔
عمران نے بحیثیت شوہر مجھ سے بے وفائی کی، سہی آدمی نہیں، ریحام
بشریٰ کے ساتھ عمران کے برسوں سے ناجائز تعلقات تھے۔
بلاشبہ اس خبر میں جو کچھ کہا ہے ریحام نے کہا ہے مگر رپورٹ روزنامہ جنگ نے کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگ کے پاس عمران کے بشریٰ کے ساتھ ناجائز تعلقات کے ’’ناقابل تردید شواہد‘‘ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ شواہد پیش کیے جانے چاہئیں کیوں کہ یہ اتنا بڑا الزام نہیں، اتنا بڑا ’’بہتان‘‘ ہے کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قندیل بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر دی نیوز میں ایسا مضمون شائع ہوا جس میں قندیل بلوچ کی ’’جسمانی نمائش‘‘ کو قومی فریضہ قرار دیا گیا تھا۔ طارق جان نے اپنی تصنیف سیکولرزم مباحثے اور مقالمے میں 13 اگست 2010ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس سروے کا ذکر کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرار داد مقاصد قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے متصادم ہے اور ایک سروے میں 60 افراد نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سروے ملک گیر بنیاد پر نہیں صرف ’’29 افراد‘‘ کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا اور ان میں سے بھی 18 افراد یعنی 62 فی صد نے قرار داد مقاصد کی حمایت میں رائے دی تھی۔ طارق جان نے اپنی تصنیف میں صفحہ 259 پر میر شکیل الرحمن کے اخبار میں شائع ہونے والے دو اور حوالے پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک حوالہ یہ ہے۔
’’وہ سوال جو پاکستان کی نئی نسلوں کو پلٹ پلٹ کر آنے والے بھوت کی طرح پریشان کرتا ہے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ملک باقی رہے گا یا نہیں بلکہ یہ کہ اس کے وجود میں آنے کا کوئی جواز بنتا تھا؟‘‘
دوسرا حوالہ یہ ہے۔
’’ہندو مسلم لادینی یکجہتی کی بنیاد پر ایک خود مختار کشمیر وجود میں آئے‘‘۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنگ کو ان امور کے بارے میں نہ اسلام یاد آتا ہے نہ رسول اکرمؐ کی احادیث اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ، نہ ’’جید علمائے کرام‘‘ اور ان کی ’آرا‘‘۔ بدقسمتی سے ’’جید علمائے کرام‘‘ کو بھی نہ ازخود کچھ ’’نظر‘‘ آتا ہے، نہ سمجھ آتا ہے۔ آپ نے دیکھا مذہب کے سیاسی استعمال پر ناراض ہونے والے خود مذہب کو کس طرح سیاسی اور صحافتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والوں کا یہ حال ہے تو خود عاصمہ جہانگیر کا کیا حال ہوگا؟۔ یہ بات تو ’’جید علمائے کرام‘‘ سے بھی پوچھی جانی چاہیے۔بدقسمتی سے ان تمام باتوں کا میاں نواز شریف سے بھی گہرا تعلق ہے۔
اہم بلاگز
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
فیملی ولاگنگ کے معاشرے پر اثرات
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیوں میں سے ایک برائی فیملی ولاگنگ جس کو آپ عرف عام اپنی نجی زندگی کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا ہے جس میں آج کل ولاگر شرم و حیا کا پاس رکھے بغیر خوشی خوشی اپنے گھر والوں کو جس میں خاص طور پر خواتین کو شامل کیا جانے لگا ہے شو کرتے ہیں اور پھر ایسی ویڈیوز بنا کر عوام میں پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا کا کردار جہاں ہماری زندگیوں میں مثبت اثرات پیدا کر رہا ہے وہیں پر منفی اثرات بھی جنم لے رہے ہیں۔
تفریح کے نام پر سوشل میڈیا کے ذریعے بے حیائی و فحاشی پھیلائی جارہی ہے جس کا ایک ذریعہ ولاگنگ ہے۔
پہلے پہل ولاگنگ کا آغاز صرف اور صرف اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے ہوا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان تبدیل ہوا اور پھر ذاتی زندگی کو عوام کے سامنے لانا اور اپنے خاندان کے ساتھ پوری زندگی کا یہاں تک کے میاں بیوی کے نجی معاملت بھی منظر عام پر لائے جانے لگے۔
اپنے پورے دن کی روٹین کو، اپنے ذاتی معاملات کو اپنے ازداوجی زندگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جانے لگا اور دھیرے دھیرے حیا کا لبادہ اترتے اترتے نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ اپنے بند کمروں کے پیچھے ہونے والی روٹین کو بھی شوق کے ساتھ شیئر کرنے لگے جس کا مقصد صرف اور صرف چند لائیکس اور پیسہ کمانا ہے۔۔
اس فیملی ولاگنگ نے جہاں سوشل میڈیا کے مثبت کردار کو دھندلا دیا ہے وہیں معاشرے پر اور خاص طور پر نوجوان نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس میں سب سے زیادہ ان کے اندر سے شرم و حیا کی تمیز ختم ہونا ہے۔
اپنے گھر کی عورتوں کو دنیا کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرنا اور پھر ان کے ساتھ نازیبا حرکتیں کرکے تفریح کے نام پر نواجونوں کی منفی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
نوجوانوں کے اندر دنیا پرستی کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائیشوں کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا اور اپنے کیئریر بنانے کے بجائے منفی عادتوں کو اپنانا اور پھر دھیرے دھیرے مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر ذہنی مریض بن جانا اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کے بجائے ناسور بن جانا اس فیملی ولاگنگ کا سب سے بڑا برا اثر ہے۔۔
حکومت اور ملحقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تفریحات کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر فی الفور پابندی عائد کرے اور سوشل میڈیا کے مثبت استمعال کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے تاکہ نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو اپنی ذات کی بہتری کے لیے کارآمد بنا سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشوونما کیجئے
بچوں کے ذہن میں کثرت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ ان کے معصوم و نامعقول سوالات کے جوابات بہت ہی عقل مندی اور تحمل سے دینے چاہیے۔ہم سے بچے چھوٹے چھوٹے سوالات پوچھتے ہیں۔یہ ان کے سوالات ہمیں بے معنیٰ و بے مقصد نظر آتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ ہمیں ان کے سوالوں کا مقصد ہی سمجھ میں نہیں آتا، اسی لیے ہم انہیں خاموش رہنے کو کہتے ہیں اس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں ’’ تمہیں توکچھ نہیں آتا‘‘ ،’’تم تو کچھ نہیں جانتے ‘‘،’’تم کواتنی سے بات بھی نہیں معلوم‘‘،ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ان کے سوالات کو ایک رخ اور سمت دینا چاہیے۔اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے توہمیں خود اس سے سوال پوچھنے چاہیے۔ اگر بچہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یاتو بچہ بات سمجھ گیا ہے یا پھر بچہ کا ذہن تشکیک کا شکار ہے۔ بچے سوال کیوں نہیں کرتے؟ ہمیں نہ صرف اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی دینے ہوں گے۔
ایک بچہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے کہ’’ اسے امتحان میں کم نمبر کیوں ملے ؟
باپ نے کہا ’’تم نے پڑھائی کم کی ہے اسی لیے نمبر بھی کم ملے ہیں۔ آئندہ زیادہ محنت سے پڑھوگے تو ان شاء اللہ نمبر بھی اچھے ملیں گے‘‘۔ بچے نے اگلی بار زیادہ محنت کی اور اچھے نمبر حاصل کیے۔ پھراگلی بار اس نے اور زیادہ محنت سے پڑھائی کی لیکن کم نمبر حاصل ہوئے۔ بچے نے والد سے پوچھا کہ میں نے بہت زیادہ محنت سے پڑھائی کی، پھر بھی مجھے مطلوبہ نمبر نہیں ملے، ایسا کیوں ہوا؟ باپ نے جھنجھلاکر کہا،’’یہ تمہاری قسمت ہے، اور کیا؟‘‘
بچے سے تمہاری قسمت کہنا یہ اس کے سوال کا درست جواب نہیں ہے۔اس کا درست جواب ہونا چاہیے کہ ’’بیٹے یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ آئو ہم دونوں مل کر اس کی وجہ تلاش کر تے ہیں‘‘۔جب بچے کو معلوم ہوتاہے کہ اسے جواب تلاش کرنا ہے اسی وقت اس کی فکری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس میں فکری عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔
بچوں میں ذہانت کے فروغ کے لیے ان کے فکر ی سوتوں کو مہمیز کیاجائے! بچوں میں ذہانت کے فروغ سے مراد ان میں سوچنے کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔جب ہم بچوں میں تفکر و تدبر کی حوصلہ افزائی کا کام انجام دیتے ہیں اسی لمحے ان میں ذہانت کے فروغ کا عمل شروع ہوجاتا ہے اوران کی ذہانت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔فکر و تدبر اور سوچنے کے عمل کو مہمیز کرنے کے کئی طریقے ہیں جو بچوں کے بائیں دماغ کو اور بعض اوقات دائیں دماغ کو فعال ومتحرک بناتے ہیں۔
دماغ و ذہانت کا فروغ اختیار کردہ فکر و تدبر کے انداز و طریقہ کار پر منحصر ہوتا ہے۔جن میں سب سے آسان طریقہ بچوں سے سوالات کرنا ہے۔جب بچے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے لگتے ہیں تو پھر یہ کوشش ان کے ذہن اور ذہانت کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔بچوں میں فکر...
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔