پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اہل مذہب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرکے دراصل مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ’’دلیل‘‘ کے طور پر کہی جاتی ہے مگر اس بات کو دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سوشلزم، کمیونزم، سیکولر ازم، لبرل ازم، صوبائیت، لسانیت، سرمایہ داری، طبقاتی کشمکش، وڈیرہ شاہی، غربت اور امارت کی بنیاد پر سیاست ہوسکتی ہے تو مذہب کے نام پر سیاست کیوں نہیں ہوسکتی؟ اسلام کا معاملہ تو ویسے بھی یہ ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق ہی نہیں۔ دین دنیا میں نعرے بازی کے لیے نہیں آیا دنیا کو بدلنے کے لیے آیا ہے اور دنیا کی ایک اہم چیز سیاست بھی ہے۔ چناں چہ سیاست اگر خرابی کا شکار ہے تو دین سیاست کو بھی بدلے گا۔ چوں کہ دین سیاست کو بدلنے کا پابند ہے اس لیے مذہب کے نام پر سیاست نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ پسندیدہ یعنی ’’Recmended‘‘ ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کے ان اشعار کا مفہوم عیاں ہے۔ مسلم معاشرے میں اگر سیاست دین سے منسلک نہیں تو وہ چنگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ مسلم معاشرے میں قوم کو حقیقی معنوں میں قوم بنانے کے لیے بھی ہم دین کے محتاج ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل افراد اہل مذہب پر تو الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو سیکولر اور لبرل عناصر ان کے ترجمان اور پاسبان خود مذہب کو اپنے سیاسی و سماجی یہاں تک کہ صحافتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے سامنے آئی۔ ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے عاصمہ جہانگیر کو ’’ہیرو‘‘ بلکہ ’’Icon‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست ردِعمل ہوا۔ لوگوں نے عاصمہ جہانگیر کے سیکولر اور لبرل تشخص کو نمایاں اور ان کی اسلام بیزاری پر تبصرے کیے۔ چوں کہ ان کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ انہوں نے ایک قادیانی سے شادی کی ہوئی تھی اس لیے کہیں کہیں اس بات کا بھی ذکر ہوا۔ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھیں اور اسے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتی تھیں۔ اس لیے ان کا بھارت سے تعلق زیر بحث آیا۔ امریکا کے محکمہ خارجہ نے ان کے انتقال پر ’’افسوس‘‘ کا اظہار ضروری سمجھا۔ اس تناظر میں مغرب کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی خیال آرائی ہوئی۔ یہ تمام تبصرے اور تجزیے ’’آزادی اظہار‘‘ کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان تبصروں اور تجزیوں میں کوئی بات بھی ’’بے بنیاد‘‘ یا ’’خلاف واقعہ‘‘ نہیں۔ مگر روزنامہ جنگ کو تبصروں اور تجزیوں پر کافی تکلیف محسوس ہوئی اور اسے ’’اچانک‘‘ یاد آیا کہ ایک ’’چیز‘‘ اسلام بھی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں جو کچھ سوشل میڈیا پر کہا گیا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے۔ روزنامہ جنگ کی اس دہائی سے ہمیں یاد آیا کہ ابھی چند ماہ قبل جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں حسن نثار اور ریٹائرڈ ائر وائس مارشل شہزاد چودھری نے پردے کا مذاق اُڑایا تھا۔ حسن نثار نے کہا کہ پردہ امہات المومنین اور عہد رسالتؐ کے لیے تھا۔ شہزاد چودھری نے مزید جرأت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ لاہور یا پنجاب کی لڑکیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ پردے کو ہرگز قبول نہ کریں گی۔ پردہ مولویوں اور ملاؤں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ پردہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے اور نص صریح سے ثابت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ حسن نثار اور شہزاد چودھری نے اللہ اور رسولؐ کے حکم کا مذاق اُڑایا۔ جیو نے چوں کہ اس کا نوٹس لیا اور اس پر معذرت کی، اس لیے معلوم ہوا کہ میر شکیل اور جیو کی رائے بھی پردے کے بارے میں یہی ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں خواتین ایسی ہیں جو شرعی پردہ نہیں کرتیں۔ مگر پردہ نہ کرنا ایک بات ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اور اسے ازکار رفتہ قرار دینا دوسری بات۔ پردہ نہ کرنا کمزوری اور انحراف ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ادارے کو عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کے بعد جو کچھ ہوا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے‘‘۔ ہمیں روزنامہ جنگ کی اس ’’اسلام پسندی‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسلام جس کو جب یاد آجائے اچھا ہے۔ لیکن اس ضمن میں جنگ نے کہا کیا ہے؟ 16 جنوری 2017ء کے جنگ میں شائع ہونے والی خبر کی چند سرخیاں یہ تھیں۔
عاصمہ جہانگیر کے خلاف مہم، مسلم معاشرے میں کبھی ایسی مثال نہ رہی۔
آنحضرتؐ نے یہودی کے جنازے کا احترام کیا۔
وفات پر خوشی جیسے عمل کو قرآن و حدیث کی تائید حاصل نہیں۔
حدیث ہے مرنے والے کے بارے میں خیر کی بات کرو۔
رسول اکرمؐ اقدار کا احترام کرتے تھے۔
آپ نے دیکھا مذکورہ نکات میں ہر طرف اسلام اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ نظر آرہا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی ہر بات اور اپنے ہر عمل کے سلسلے میں قرآن و سنت سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ روزنامہ جنگ نے مذکورہ تمام باتیں ’’جید علما‘‘ سے کہلوائی ہیں۔ بہترین۔ اس لیے کہ قرآن و سنت کا علم علما ہی کے پاس ہے، چناں چہ ’’جید علما‘‘ سے رجوع کرنا بھی بہترین بات ہے۔ جنگ نے جن جید علما سے رجوع کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق، مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مفتی محمد زاہد، مفتی محمد نعیم، علامہ محمد امین شہیدی، مفتی عبدالرحمن، گلزار احمد نعیمی، علامہ ثاقب اکبر، مولانا قاری سید اکبر اور سمیعہ راحیل قاضی۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ روزنامہ جنگ کو سوشل میڈیا پر عاصمہ جہانگیر کی فکر و شخصیت کے تجزیے کے حوالے سے اسلام، قرآن و سنت اور ’’جید علمائے کرام‘‘ شدت سے یاد آئے۔ دوسری جانب روزنامہ جنگ اور جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز اور جیو نے عمران خان کی تیسری شادی کو ’’شرمناک اسکینڈل‘‘ کی طرح رپورٹ کیا ہے۔ اس سلسلے کی تفصیلات رونگٹے کھڑی کردینے والی ہیں۔ روزنامہ جنگ نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق خبر 16 فروری 2018ء کو رپورٹ کی اور عمران خان کی شادی سے متعلق خبر 19 فروری 2018ء کو رپورٹ کی۔ جنگ نے عمران خان کی شادی کی پہلی خبر صفحہ اوّل پر 6 کالمی سرخی کے ساتھ رپورٹ کی، خبر کی سرخی یہ تھی۔
’’66 سالہ عمران خان نے اپنی پیرنی بشریٰ سے تیسری شادی کی تصدیق کردی‘‘۔
بلاشبہ عمران خان کی ’’تیسری شادی‘‘ کی خبر اہم تھی مگر اتنی اہم نہیں کہ اسے صفحہ اوّل پر چھ کالم کی سرخی کے ساتھ رپورٹ کیا جائے۔ روزنامہ جسارت میں یہ خبر ایک کالمی سرخی کے ساتھ صفحہ اوّل پر رپورٹ ہوئی۔ یہ خبر اپنی ’’خبریت‘‘ کے اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ خبر صفحہ اوّل پر دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوسکتی تھی۔ مگر روزنامہ جنگ نے اسے صفحہ اوّل پر چھ کالمی سرخی مہیا کرکے خبر کو ’’Scandalous‘‘ بنانے کی شعوری کوشش کی۔ پاکستان کے ہر اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے والے کو معلوم ہے کہ عمران خان کی عمر 66 سال ہے۔ چناں چہ عمران خان کی خبر میں تیسری شادی کو رپورٹ کرتے ہوئے ان کی عمر ’’بتانے‘‘ کی ضرورت نہ تھی۔ اگر عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں اسلام کو یاد کرنے والے روزنامہ جنگ کو عمران کی تیسری شادی کے حوالے سے بھی اسلام یاد آجاتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اسلام کسی کو بھی 66 سال کی عمر میں شادی سے نہیں روکتا۔ یعنی 66 سال کی عمر میں شادی کرنے میں مذہبی، روحانی، اخلاقی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ چناں چہ عمران کی عمر کو دھماکا خیز انداز میں پیش کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیسری شادی میں ’’عیاشی‘‘ کا وہ رنگ پیدا کیا جائے جو کہیں موجود ہی نہیں۔ خبر کی سرخی میں قارئین کو چیختی چنگھاڑتی سرخی کے ذریعے یہ بھی بتانا ’’ضروری‘‘ سمجھا گیا کہ عمران نے اپنی ’’پیرنی‘‘ سے شادی کی ہے۔ اسلام، اخلاق اور تہذیب کسی کو پیر، پیرنی، مرید یا مریدنی سے شریعت کے مطابق شادی کرنے سے نہیں روکتے۔ لیکن روزنامہ جنگ نے ’’پیرنی‘‘ کے لفظ کے ذریعے نکاح کے تجربے کو ’’اسکینڈل‘‘ اور ’’عیاشی کا مظہر‘‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔ چھ کالمی خبر اور 19 جنوری کے جنگ میں موجود ایک اور خبر میں کچھ ذیلی سرخیاں بھی موجود ہیں۔ ذرا ان ’’ذیلیوں‘‘ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
(شادی کی) تقریب میں عمران کا کوئی فیملی ممبر شریک نہیں تھا۔
نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا۔
بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے۔ عارف نظامی
کسی کی قسمت میں وزارت عظمیٰ کی تین شیروانی اور کسی کی قسمت میں صرف شادی تھی، طلال چودھری
عمران نے بہنوں کو میسج کیا شادی کرنے جارہا ہوں، دعا کریں، مگر جواب نہیں ملا، رئیس انصاری
اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ شادی میں پورا خاندان شریک ہو۔ مگر یہ کوئی شرعی یا اخلاقی اصول نہیں، چناں چہ اگر عمران خان کی شادی میں ان کی بہنوں نے شرکت نہیں کی تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر شادی کو ’’اسکینڈل‘‘ بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت کہیں موجود نہیں اور اگر بچے شادی کو قبول نہ کررہے ہوں تو یہ عمران کا مسئلہ ہے جنگ یا معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ لیکن اس بات سے بھی شادی کو اسکینڈل بنانے میں مدد ملتی ہے۔ نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا کی ذیلی سرخی شادی کو شادی سے زیادہ ڈراما ثابت کررہی ہے اور اس سے شادی کی خبر کو اسکینڈل بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ طلال چودھری کے یہ فرمانے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ میاں نواز شریف نے تین بار وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہنی اور عمران کے حصے میں تین بار شادی کی شیروانی آئی۔ لیکن اس بیان کو رپورٹ کرنے سے معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے۔ اس لیے شادی اور نکاح کے عمل کو ’’اسکینڈل‘‘ بنایا گیا۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح معلوم بھی ہے اور یاد بھی کہ محبت کی جو شادیاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر کرتے رہے ہیں وہ اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر کس ’’اہتمام‘‘ اور کس ’’تکریم‘‘ کے ساتھ رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز نے عمران کی شادی کی خبروں کو شہہ سرخیوں میں رپورٹ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان خبروں کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی ہے۔ اس تصویر میں جمائما اور ریحام ہی نہیں سیتا وہائٹ اور ان کی بیٹی ٹیرن کی تصویر بھی موجود ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جمائما اور ریحام خان عمران کی سابقہ بیویاں ہیں مگر سیتا وہائٹ عمران کی بیوی نہیں تھی۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ اس کی تصویر شائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ میر شکیل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ سیتا وہائٹ عمران خان کی سابقہ ’’گرل فرینڈ‘‘ تھی اور ٹیرن عمران کی مبینہ بیٹی ہے لیکن عمران اپنی ’’پرانی زندگی‘‘ پر کئی بار ’’پشیمانی‘‘ کا اظہار کرچکے ہیں مگر جو جنگ عاصمہ جہانگیر کے مسلمہ ’’نظریات‘‘ اور ’’نظریاتی تعلقات‘‘ کو زیر بحث لانے پر ناراض ہے اور اسے بہت زور سے اسلام یاد آیا ہے وہ عمران کی ’’تیسری شادی‘‘ کے حوالے سے ’’سیتا وہائٹ‘‘ کا ’’گڑا مردہ‘‘ اکھاڑ کر لایا اور اسے ’’نمائش‘‘ کے لیے پیش کیا۔ حالاں کہ اسلام اس عمل کو پسند نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والا جنگ 21 فروری 2018ء کی اشاعت میں عمران خان کی تیسری شادی کے حوالے سے ایک ہولناک ترین مقام پر کھڑا نظر آیا۔ اس روز جنگ نے صفحہ اوّل پر ریحام خان کا ایک انٹرویو رپورٹ کیا۔ انٹرویو میں ریحام نے جو بات کہی اسے جنگ نے دو کالمی سرخی اور دو کالمی ذیلی سرخی میں رپورٹ کیا۔ ملاحظہ کیجیے۔
عمران نے بحیثیت شوہر مجھ سے بے وفائی کی، سہی آدمی نہیں، ریحام
بشریٰ کے ساتھ عمران کے برسوں سے ناجائز تعلقات تھے۔
بلاشبہ اس خبر میں جو کچھ کہا ہے ریحام نے کہا ہے مگر رپورٹ روزنامہ جنگ نے کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگ کے پاس عمران کے بشریٰ کے ساتھ ناجائز تعلقات کے ’’ناقابل تردید شواہد‘‘ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ شواہد پیش کیے جانے چاہئیں کیوں کہ یہ اتنا بڑا الزام نہیں، اتنا بڑا ’’بہتان‘‘ ہے کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قندیل بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر دی نیوز میں ایسا مضمون شائع ہوا جس میں قندیل بلوچ کی ’’جسمانی نمائش‘‘ کو قومی فریضہ قرار دیا گیا تھا۔ طارق جان نے اپنی تصنیف سیکولرزم مباحثے اور مقالمے میں 13 اگست 2010ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس سروے کا ذکر کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرار داد مقاصد قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے متصادم ہے اور ایک سروے میں 60 افراد نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سروے ملک گیر بنیاد پر نہیں صرف ’’29 افراد‘‘ کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا اور ان میں سے بھی 18 افراد یعنی 62 فی صد نے قرار داد مقاصد کی حمایت میں رائے دی تھی۔ طارق جان نے اپنی تصنیف میں صفحہ 259 پر میر شکیل الرحمن کے اخبار میں شائع ہونے والے دو اور حوالے پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک حوالہ یہ ہے۔
’’وہ سوال جو پاکستان کی نئی نسلوں کو پلٹ پلٹ کر آنے والے بھوت کی طرح پریشان کرتا ہے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ملک باقی رہے گا یا نہیں بلکہ یہ کہ اس کے وجود میں آنے کا کوئی جواز بنتا تھا؟‘‘
دوسرا حوالہ یہ ہے۔
’’ہندو مسلم لادینی یکجہتی کی بنیاد پر ایک خود مختار کشمیر وجود میں آئے‘‘۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنگ کو ان امور کے بارے میں نہ اسلام یاد آتا ہے نہ رسول اکرمؐ کی احادیث اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ، نہ ’’جید علمائے کرام‘‘ اور ان کی ’آرا‘‘۔ بدقسمتی سے ’’جید علمائے کرام‘‘ کو بھی نہ ازخود کچھ ’’نظر‘‘ آتا ہے، نہ سمجھ آتا ہے۔ آپ نے دیکھا مذہب کے سیاسی استعمال پر ناراض ہونے والے خود مذہب کو کس طرح سیاسی اور صحافتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والوں کا یہ حال ہے تو خود عاصمہ جہانگیر کا کیا حال ہوگا؟۔ یہ بات تو ’’جید علمائے کرام‘‘ سے بھی پوچھی جانی چاہیے۔بدقسمتی سے ان تمام باتوں کا میاں نواز شریف سے بھی گہرا تعلق ہے۔
اہم بلاگز
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
مایوسی ایک ایجنڈا
مشہور کہاوت ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے، دنیا میں انسان امیدوں کے سہارے زندگی گزار تاہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تومایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے ۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتاہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتاہے ۔اس کی محنت اورجدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتاہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتں لگا تاہےاور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتاہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتاہے مگر یہی وہ اُمیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتاہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تویہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتاہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہو۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پرکاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا اُمیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھےمسائل کا ایک جنگل تھا مگراس وقت اُمیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کسی جماعت پراعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔
ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا رب اللہ ہےاس کی رحمت بڑی وسیع ہےاس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔...
مسلمانوں کی حکمرانی اور زوال
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب علمی، سائنسی، ثقافتی، اور سیاسی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ ابتدائی اسلامی خلافتیں، جیسے خلافت راشدہ، اموی خلافت، عباسی خلافت، اور بعد ازاں عثمانی سلطنت، اسلامی دنیا کی طاقت اور عظمت کی علامت رہی ہیں۔ ان حکمرانوں نے نہ صرف اپنے علاقوں کو وسیع کیا بلکہ علمی اور فکری میدانوں میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ تاہم، تاریخ کے ساتھ ساتھ، یہ عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں، اور مسلمانوں کی حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ یہ زوال محض کسی ایک وجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ مختلف عوامل اس کی بنیادی وجوہات بنے۔
مسلمانوں کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے چند بنیادی عوامل کارفرما تھے۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو علم، انصاف، مساوات، اور اتحاد کی طرف راغب کیا۔ خلافت راشدہ کا دور خاص طور پر ایک مثالی دور سمجھا جاتا ہے، جہاں خلیفہ اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات تھے اور انصاف کا بول بالا تھا۔ علم و تحقیق کو فروغ دیا گیا اور بغداد، دمشق، قرطبہ اور دیگر شہروں میں علمی و سائنسی مراکز قائم کیے گئے۔
اسلام نے نہ صرف مذہبی اعتبار سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ مسلمانوں کو ایک متحد امت میں تبدیل کر دیا۔ اسی اتحاد اور ایک مضبوط قیادت کی بدولت مسلمان دنیا کے مختلف خطوں میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔مسلمانوں کی حکمرانی کا زوال مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا، جن میں اندرونی اور بیرونی عوامل دونوں شامل تھے۔
مسلمان حکمرانوں میں جب قیادت کا فقدان پیدا ہوا، اور حکومتیں بدعنوانی کا شکار ہوئیں، تو ان کے درمیان آپسی اختلافات بڑھتے گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد، اموی اور عباسی خلافتوں میں حکمرانوں کے اندرونی خلفشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔ یہ خلفشار اور سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو ٹھیس پہنچنے لگی۔
خلیفاؤں کی جگہ بادشاہت اور موروثی نظام نے لے لی، اور خاندانی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے۔ انصاف اور احتساب کی وہ روح جو خلافت راشدہ میں دیکھی گئی تھی، رفتہ رفتہ غائب ہو گئی، اور حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔
ابتدائی مسلم دور میں علم و تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں، فلسفیوں، اور ماہرینِ ریاضی نے دنیا کو نئے افکار دیے اور یورپ کو بھی علمی روشنی فراہم کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، علم کی اس جستجو میں کمی آتی گئی۔ علم و تحقیق کی جگہ قدامت پسندی اور روایت پرستی نے لے لی، اور علمی ترقی رک گئی۔
عباسی دور کے بعد، مسلمانوں میں علمی زوال تیزی سے بڑھا۔ مدارس میں صرف مذہبی علوم پر زور دیا گیا، اور دنیاوی علوم اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کیا گیا۔ اس علمی جمود نے مسلمانوں کو دنیا کی باقی قوموں سے پیچھے دھکیل دیا، اور یورپ میں ہونے والی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے برعکس، اسلامی دنیا میں کوئی بڑا علمی انقلاب نہ آ سکا۔
مسلمانوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت تھی۔ خلافتِ عباسیہ کے بعد،...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...