پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اہل مذہب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرکے دراصل مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ’’دلیل‘‘ کے طور پر کہی جاتی ہے مگر اس بات کو دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سوشلزم، کمیونزم، سیکولر ازم، لبرل ازم، صوبائیت، لسانیت، سرمایہ داری، طبقاتی کشمکش، وڈیرہ شاہی، غربت اور امارت کی بنیاد پر سیاست ہوسکتی ہے تو مذہب کے نام پر سیاست کیوں نہیں ہوسکتی؟ اسلام کا معاملہ تو ویسے بھی یہ ہے کہ اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق ہی نہیں۔ دین دنیا میں نعرے بازی کے لیے نہیں آیا دنیا کو بدلنے کے لیے آیا ہے اور دنیا کی ایک اہم چیز سیاست بھی ہے۔ چناں چہ سیاست اگر خرابی کا شکار ہے تو دین سیاست کو بھی بدلے گا۔ چوں کہ دین سیاست کو بدلنے کا پابند ہے اس لیے مذہب کے نام پر سیاست نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ پسندیدہ یعنی ’’Recmended‘‘ ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبال کے ان اشعار کا مفہوم عیاں ہے۔ مسلم معاشرے میں اگر سیاست دین سے منسلک نہیں تو وہ چنگیزی کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ مسلم معاشرے میں قوم کو حقیقی معنوں میں قوم بنانے کے لیے بھی ہم دین کے محتاج ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سیکولر اور لبرل افراد اہل مذہب پر تو الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو سیکولر اور لبرل عناصر ان کے ترجمان اور پاسبان خود مذہب کو اپنے سیاسی و سماجی یہاں تک کہ صحافتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے سامنے آئی۔ ذرائع ابلاغ کی اکثریت نے عاصمہ جہانگیر کو ’’ہیرو‘‘ بلکہ ’’Icon‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر زبردست ردِعمل ہوا۔ لوگوں نے عاصمہ جہانگیر کے سیکولر اور لبرل تشخص کو نمایاں اور ان کی اسلام بیزاری پر تبصرے کیے۔ چوں کہ ان کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ انہوں نے ایک قادیانی سے شادی کی ہوئی تھی اس لیے کہیں کہیں اس بات کا بھی ذکر ہوا۔ وہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھیں اور اسے چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتی تھیں۔ اس لیے ان کا بھارت سے تعلق زیر بحث آیا۔ امریکا کے محکمہ خارجہ نے ان کے انتقال پر ’’افسوس‘‘ کا اظہار ضروری سمجھا۔ اس تناظر میں مغرب کے ساتھ ان کے تعلقات پر بھی خیال آرائی ہوئی۔ یہ تمام تبصرے اور تجزیے ’’آزادی اظہار‘‘ کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے کہ ان تبصروں اور تجزیوں میں کوئی بات بھی ’’بے بنیاد‘‘ یا ’’خلاف واقعہ‘‘ نہیں۔ مگر روزنامہ جنگ کو تبصروں اور تجزیوں پر کافی تکلیف محسوس ہوئی اور اسے ’’اچانک‘‘ یاد آیا کہ ایک ’’چیز‘‘ اسلام بھی ہے اور عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں جو کچھ سوشل میڈیا پر کہا گیا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے۔ روزنامہ جنگ کی اس دہائی سے ہمیں یاد آیا کہ ابھی چند ماہ قبل جیو کے پروگرام ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں حسن نثار اور ریٹائرڈ ائر وائس مارشل شہزاد چودھری نے پردے کا مذاق اُڑایا تھا۔ حسن نثار نے کہا کہ پردہ امہات المومنین اور عہد رسالتؐ کے لیے تھا۔ شہزاد چودھری نے مزید جرأت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ لاہور یا پنجاب کی لڑکیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ پردے کو ہرگز قبول نہ کریں گی۔ پردہ مولویوں اور ملاؤں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ پردہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے اور نص صریح سے ثابت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ حسن نثار اور شہزاد چودھری نے اللہ اور رسولؐ کے حکم کا مذاق اُڑایا۔ جیو نے چوں کہ اس کا نوٹس لیا اور اس پر معذرت کی، اس لیے معلوم ہوا کہ میر شکیل اور جیو کی رائے بھی پردے کے بارے میں یہی ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں خواتین ایسی ہیں جو شرعی پردہ نہیں کرتیں۔ مگر پردہ نہ کرنا ایک بات ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اور اسے ازکار رفتہ قرار دینا دوسری بات۔ پردہ نہ کرنا کمزوری اور انحراف ہے اور پردے کا مذاق اڑانا اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ادارے کو عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے یاد آیا کہ سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کے بعد جو کچھ ہوا وہ ’’خلاف اسلام‘‘ ہے‘‘۔ ہمیں روزنامہ جنگ کی اس ’’اسلام پسندی‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسلام جس کو جب یاد آجائے اچھا ہے۔ لیکن اس ضمن میں جنگ نے کہا کیا ہے؟ 16 جنوری 2017ء کے جنگ میں شائع ہونے والی خبر کی چند سرخیاں یہ تھیں۔
عاصمہ جہانگیر کے خلاف مہم، مسلم معاشرے میں کبھی ایسی مثال نہ رہی۔
آنحضرتؐ نے یہودی کے جنازے کا احترام کیا۔
وفات پر خوشی جیسے عمل کو قرآن و حدیث کی تائید حاصل نہیں۔
حدیث ہے مرنے والے کے بارے میں خیر کی بات کرو۔
رسول اکرمؐ اقدار کا احترام کرتے تھے۔
آپ نے دیکھا مذکورہ نکات میں ہر طرف اسلام اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ نظر آرہا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنی ہر بات اور اپنے ہر عمل کے سلسلے میں قرآن و سنت سے رجوع کرنا چاہیے۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ روزنامہ جنگ نے مذکورہ تمام باتیں ’’جید علما‘‘ سے کہلوائی ہیں۔ بہترین۔ اس لیے کہ قرآن و سنت کا علم علما ہی کے پاس ہے، چناں چہ ’’جید علما‘‘ سے رجوع کرنا بھی بہترین بات ہے۔ جنگ نے جن جید علما سے رجوع کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق، مفتی ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مفتی محمد زاہد، مفتی محمد نعیم، علامہ محمد امین شہیدی، مفتی عبدالرحمن، گلزار احمد نعیمی، علامہ ثاقب اکبر، مولانا قاری سید اکبر اور سمیعہ راحیل قاضی۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے کہ روزنامہ جنگ کو سوشل میڈیا پر عاصمہ جہانگیر کی فکر و شخصیت کے تجزیے کے حوالے سے اسلام، قرآن و سنت اور ’’جید علمائے کرام‘‘ شدت سے یاد آئے۔ دوسری جانب روزنامہ جنگ اور جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز اور جیو نے عمران خان کی تیسری شادی کو ’’شرمناک اسکینڈل‘‘ کی طرح رپورٹ کیا ہے۔ اس سلسلے کی تفصیلات رونگٹے کھڑی کردینے والی ہیں۔ روزنامہ جنگ نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق خبر 16 فروری 2018ء کو رپورٹ کی اور عمران خان کی شادی سے متعلق خبر 19 فروری 2018ء کو رپورٹ کی۔ جنگ نے عمران خان کی شادی کی پہلی خبر صفحہ اوّل پر 6 کالمی سرخی کے ساتھ رپورٹ کی، خبر کی سرخی یہ تھی۔
’’66 سالہ عمران خان نے اپنی پیرنی بشریٰ سے تیسری شادی کی تصدیق کردی‘‘۔
بلاشبہ عمران خان کی ’’تیسری شادی‘‘ کی خبر اہم تھی مگر اتنی اہم نہیں کہ اسے صفحہ اوّل پر چھ کالم کی سرخی کے ساتھ رپورٹ کیا جائے۔ روزنامہ جسارت میں یہ خبر ایک کالمی سرخی کے ساتھ صفحہ اوّل پر رپورٹ ہوئی۔ یہ خبر اپنی ’’خبریت‘‘ کے اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ خبر صفحہ اوّل پر دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوسکتی تھی۔ مگر روزنامہ جنگ نے اسے صفحہ اوّل پر چھ کالمی سرخی مہیا کرکے خبر کو ’’Scandalous‘‘ بنانے کی شعوری کوشش کی۔ پاکستان کے ہر اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے والے کو معلوم ہے کہ عمران خان کی عمر 66 سال ہے۔ چناں چہ عمران خان کی خبر میں تیسری شادی کو رپورٹ کرتے ہوئے ان کی عمر ’’بتانے‘‘ کی ضرورت نہ تھی۔ اگر عاصمہ جہانگیر کے سلسلے میں اسلام کو یاد کرنے والے روزنامہ جنگ کو عمران کی تیسری شادی کے حوالے سے بھی اسلام یاد آجاتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اسلام کسی کو بھی 66 سال کی عمر میں شادی سے نہیں روکتا۔ یعنی 66 سال کی عمر میں شادی کرنے میں مذہبی، روحانی، اخلاقی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ چناں چہ عمران کی عمر کو دھماکا خیز انداز میں پیش کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ تیسری شادی میں ’’عیاشی‘‘ کا وہ رنگ پیدا کیا جائے جو کہیں موجود ہی نہیں۔ خبر کی سرخی میں قارئین کو چیختی چنگھاڑتی سرخی کے ذریعے یہ بھی بتانا ’’ضروری‘‘ سمجھا گیا کہ عمران نے اپنی ’’پیرنی‘‘ سے شادی کی ہے۔ اسلام، اخلاق اور تہذیب کسی کو پیر، پیرنی، مرید یا مریدنی سے شریعت کے مطابق شادی کرنے سے نہیں روکتے۔ لیکن روزنامہ جنگ نے ’’پیرنی‘‘ کے لفظ کے ذریعے نکاح کے تجربے کو ’’اسکینڈل‘‘ اور ’’عیاشی کا مظہر‘‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔ چھ کالمی خبر اور 19 جنوری کے جنگ میں موجود ایک اور خبر میں کچھ ذیلی سرخیاں بھی موجود ہیں۔ ذرا ان ’’ذیلیوں‘‘ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
(شادی کی) تقریب میں عمران کا کوئی فیملی ممبر شریک نہیں تھا۔
نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا۔
بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے۔ عارف نظامی
کسی کی قسمت میں وزارت عظمیٰ کی تین شیروانی اور کسی کی قسمت میں صرف شادی تھی، طلال چودھری
عمران نے بہنوں کو میسج کیا شادی کرنے جارہا ہوں، دعا کریں، مگر جواب نہیں ملا، رئیس انصاری
اسلام اس بات کو پسند کرتا ہے کہ شادی میں پورا خاندان شریک ہو۔ مگر یہ کوئی شرعی یا اخلاقی اصول نہیں، چناں چہ اگر عمران خان کی شادی میں ان کی بہنوں نے شرکت نہیں کی تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر شادی کو ’’اسکینڈل‘‘ بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ بچے نکاح کو قبول نہیں کررہے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت کہیں موجود نہیں اور اگر بچے شادی کو قبول نہ کررہے ہوں تو یہ عمران کا مسئلہ ہے جنگ یا معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ لیکن اس بات سے بھی شادی کو اسکینڈل بنانے میں مدد ملتی ہے۔ نکاح کا ڈراپ سین کرنا تھا کی ذیلی سرخی شادی کو شادی سے زیادہ ڈراما ثابت کررہی ہے اور اس سے شادی کی خبر کو اسکینڈل بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ طلال چودھری کے یہ فرمانے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ میاں نواز شریف نے تین بار وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہنی اور عمران کے حصے میں تین بار شادی کی شیروانی آئی۔ لیکن اس بیان کو رپورٹ کرنے سے معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے۔ اس لیے شادی اور نکاح کے عمل کو ’’اسکینڈل‘‘ بنایا گیا۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح معلوم بھی ہے اور یاد بھی کہ محبت کی جو شادیاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر کرتے رہے ہیں وہ اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں پر کس ’’اہتمام‘‘ اور کس ’’تکریم‘‘ کے ساتھ رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز نے عمران کی شادی کی خبروں کو شہہ سرخیوں میں رپورٹ کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان خبروں کے ساتھ ایک تصویر بھی شائع کی ہے۔ اس تصویر میں جمائما اور ریحام ہی نہیں سیتا وہائٹ اور ان کی بیٹی ٹیرن کی تصویر بھی موجود ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جمائما اور ریحام خان عمران کی سابقہ بیویاں ہیں مگر سیتا وہائٹ عمران کی بیوی نہیں تھی۔ چناں چہ سوال یہ ہے کہ اس کی تصویر شائع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ میر شکیل الرحمن کہہ سکتے ہیں کہ سیتا وہائٹ عمران خان کی سابقہ ’’گرل فرینڈ‘‘ تھی اور ٹیرن عمران کی مبینہ بیٹی ہے لیکن عمران اپنی ’’پرانی زندگی‘‘ پر کئی بار ’’پشیمانی‘‘ کا اظہار کرچکے ہیں مگر جو جنگ عاصمہ جہانگیر کے مسلمہ ’’نظریات‘‘ اور ’’نظریاتی تعلقات‘‘ کو زیر بحث لانے پر ناراض ہے اور اسے بہت زور سے اسلام یاد آیا ہے وہ عمران کی ’’تیسری شادی‘‘ کے حوالے سے ’’سیتا وہائٹ‘‘ کا ’’گڑا مردہ‘‘ اکھاڑ کر لایا اور اسے ’’نمائش‘‘ کے لیے پیش کیا۔ حالاں کہ اسلام اس عمل کو پسند نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والا جنگ 21 فروری 2018ء کی اشاعت میں عمران خان کی تیسری شادی کے حوالے سے ایک ہولناک ترین مقام پر کھڑا نظر آیا۔ اس روز جنگ نے صفحہ اوّل پر ریحام خان کا ایک انٹرویو رپورٹ کیا۔ انٹرویو میں ریحام نے جو بات کہی اسے جنگ نے دو کالمی سرخی اور دو کالمی ذیلی سرخی میں رپورٹ کیا۔ ملاحظہ کیجیے۔
عمران نے بحیثیت شوہر مجھ سے بے وفائی کی، سہی آدمی نہیں، ریحام
بشریٰ کے ساتھ عمران کے برسوں سے ناجائز تعلقات تھے۔
بلاشبہ اس خبر میں جو کچھ کہا ہے ریحام نے کہا ہے مگر رپورٹ روزنامہ جنگ نے کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگ کے پاس عمران کے بشریٰ کے ساتھ ناجائز تعلقات کے ’’ناقابل تردید شواہد‘‘ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ شواہد پیش کیے جانے چاہئیں کیوں کہ یہ اتنا بڑا الزام نہیں، اتنا بڑا ’’بہتان‘‘ ہے کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قندیل بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر دی نیوز میں ایسا مضمون شائع ہوا جس میں قندیل بلوچ کی ’’جسمانی نمائش‘‘ کو قومی فریضہ قرار دیا گیا تھا۔ طارق جان نے اپنی تصنیف سیکولرزم مباحثے اور مقالمے میں 13 اگست 2010ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس سروے کا ذکر کیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قرار داد مقاصد قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر سے متصادم ہے اور ایک سروے میں 60 افراد نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سروے ملک گیر بنیاد پر نہیں صرف ’’29 افراد‘‘ کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا اور ان میں سے بھی 18 افراد یعنی 62 فی صد نے قرار داد مقاصد کی حمایت میں رائے دی تھی۔ طارق جان نے اپنی تصنیف میں صفحہ 259 پر میر شکیل الرحمن کے اخبار میں شائع ہونے والے دو اور حوالے پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک حوالہ یہ ہے۔
’’وہ سوال جو پاکستان کی نئی نسلوں کو پلٹ پلٹ کر آنے والے بھوت کی طرح پریشان کرتا ہے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ ملک باقی رہے گا یا نہیں بلکہ یہ کہ اس کے وجود میں آنے کا کوئی جواز بنتا تھا؟‘‘
دوسرا حوالہ یہ ہے۔
’’ہندو مسلم لادینی یکجہتی کی بنیاد پر ایک خود مختار کشمیر وجود میں آئے‘‘۔
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنگ کو ان امور کے بارے میں نہ اسلام یاد آتا ہے نہ رسول اکرمؐ کی احادیث اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ، نہ ’’جید علمائے کرام‘‘ اور ان کی ’آرا‘‘۔ بدقسمتی سے ’’جید علمائے کرام‘‘ کو بھی نہ ازخود کچھ ’’نظر‘‘ آتا ہے، نہ سمجھ آتا ہے۔ آپ نے دیکھا مذہب کے سیاسی استعمال پر ناراض ہونے والے خود مذہب کو کس طرح سیاسی اور صحافتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کا دفاع کرنے والوں کا یہ حال ہے تو خود عاصمہ جہانگیر کا کیا حال ہوگا؟۔ یہ بات تو ’’جید علمائے کرام‘‘ سے بھی پوچھی جانی چاہیے۔بدقسمتی سے ان تمام باتوں کا میاں نواز شریف سے بھی گہرا تعلق ہے۔
اہم بلاگز
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
فلسطین میں جنگ بندی
فلسطینی مجاہدین کی استقامت رنگ لائی اس کا نتیجہ جنگ بندی کی صورت میں سامنے ہے۔ اسرائیلی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے فلسطینیوں کوختم کرنے کے دعوے کر رہی تھی اب اپنے قیدی چھڑوانے کے لئے حماس کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہے،یہ خدا کی مدد کی ایک جھلک ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے عزم ہمت اور حوصلوں کی داستانیں ہر شخص کی زبان پر عام ہیں وہ جس بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں وہ اللہ کو پسند ہے وہ اپنے وطن کی آزادی مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے برسر پیکار ہیں انہوں نے اپنے گھر بار، عزیز ، رشتہ دار ، مال ، دولت حتی کہ اپنی جانیں بھی اس مقصد کے لیے قربان کر دیں۔ حماس کے رہنماؤں کی شجاعت زبان زد عام ہے ان کی زندگی ، ان کی ترجیحات کے بارے میں ایک دنیا جانتی ہے کہ وہ ظلم اور تشدد کے خاتمے کے لیے بد نیت اور بد اصل صیہونی افواج کے خلاف لڑتے رہے۔
اسرائیل ایک عالمی دہشت گرد ہے اس کے وزیراعظم کو عالمی عدالت نے جنگی مجرم قرار دیا ہے جسے اپنے مذموم انتہا پسند عزائم کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس نے جنگ کے عالمی اصولوں کو بھی توڑا بچوں، عورتوں اور زخمیوں کا قتل عام کیا مگر آخر کار مجاہدین کی یلغار کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور جنگ بندی پر مجبور ہو گیا۔
ہر چند کہ یہودیوں نے اسرائیل کی جنگ میں پیسہ پانی کی طرح بہا دیا نشریاتی اداروں کو خریدا سوشل میڈیا پر مہم چلائی تاکہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کر سکے لیکن شہیدوں کا خون رنگ لایا ، جذبہ جہاد کی بدولت مجاہدین کی مٹھی بھر فوج نے جدید ہتھیار رکھنے والی اسرائیلی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی حکومت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے جنگ بندی کے ساتھ حماس کی شرائط پر قیدیوں کے تبادلے کو قبول کر لیا۔
اسرائیل اپنے حواری امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی کی بدولت جنگ کو مسلسل پھیلا رہا تھا جس میں بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع اس کی انسانیت دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ سول آبادی پر بمباری اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنا دینے کے ساتھ کھلے عام فلسطینیوں اور ان کے بچوں تک کو ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کر کے اسرائیل نے ثابت کر دیا کہ اس کی نظر میں انسانیت کا کوئی احترام نہیں اس کے برعکس حماس کی مٹھی بھر فوج نے یہ ثابت کر دیا کہ حق بات کے لئے آواز اٹھانے اور مظلوم کی مدد کے لیے لڑنے والوں کا مددگار اللہ ہے وہ ان کا رعب دشمنوں کے دلوں پر طاری کر دیتا ہے جس کی بدولت دنیا کی کوئی قوت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
دنیا بھر کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے لیے آواز اٹھائی اور دعائیں کی۔ ان شاءاللہ فتح مجاہدین کا مقدر ہے مگر فلسطین میں اس وقت جنگ بندی میں مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ سبق ہے کہ جب حماس کی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔