امتحانات کی آمد سے ہی طلبہ ،اساتذہ اور منتظمین مدارس کی پریشانیاں نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہیں۔امتحانات کا سامنا تو طلبہ کرتے ہیں لیکن امتحانات کی وجہ سے پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا طلبہ کے علاوہ، اساتذہ اکرام اور منتظمین مدرسہ کو بھی کرنا پڑتا ہے ۔ طلبہ کے ذہنوں میں اکثر ایک سوال گردش کرتا ہے کہ آخر امتحان کی کیا ضرورت ہے۔ امتحان طلبہ کے علمی صلاحیتوں کی جانچ، علمی پختگی،گہرائی و گیرائی کے علاوہ تعلیم کے مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کامیابی کے تناسب کی جانچ کے لئے ضروری ہوتا ہے۔امتحانات علمی بیداری و ،چستی کے ساتھ ساتھ طلبہ میں نظم و ضبط پیدا کرتے ہیں۔امتحان کے ذریعے سماج کے لئے مطلوب افراد کی تیاری کا کام بھی انجام پاتا ہے ۔ خوشگوار زندگی اور تابناک مستقبل کے لئے امتحان کا سامنا ضروری ہوتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کے خواہش مندطلبہ امتحان کو ایک بوجھ کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو ،بہتر بنانے اور ثابت کرنے کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں۔ جو طلبہ طالب علمی کے زمانے میں ہر سبق کے بعد امتحان کی تیار ی کو خود پر لازم کر لیتے ہیں وہ زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی کا خود کو اہل پاتے ہیں۔ امتحان طلبہ کے لئے ایک مشکل آزمائش ضرور ہے لیکن جب وہ امتحان کا خوش دلی سے سامنا کرتے ہیں تو یہ آزمائش ایک گوناگوں سکون و انبساط میں تبدیل ہوجاتی ہے۔امتحان کی تیاری و تحریر کے مناسب طریقہ کار سے عدم آگہی کے سبب طلبہ امتحان کا خوف،اضطراب ، بے چینی،عدم اعتماد اور احساس کمتری جیسے متعدد مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ ناکامی و رسوائی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔سال بھر سخت محنت و تیاری کے باوجود طلبہ امتحان کی آمد سے خوف و پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔دسویں جماعت کے بورڈ امتحانات ہر طالب علم کی زندگی میں نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔کم عمری و نا تجربہ کار ی کی بناء پر بورڈ امتحان طلبہ کے لئے ایک تلخ اور اذیت ناک تجربہ ہوتا ہے۔طلبہ مثبت سوچ اورسخت محنت کے ذریعہ امتحانی خوف پر نہ صرف قابو پانے میں کامیابی حا صل کر سکتے ہیں بلکہ نمایا ں کامیابی کو بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔طلبہ کی ذہنی سطح چاہے کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو وہ امتحانات کے خوف کا شکار ہوسکتے ہیں۔امتحانات کے خوف سے نجات کے لئے طلبہ ماہرین تعلیم کے مشوروں اور تجاویز پر عمل کر یں۔امتحان کی شب جلد سونا طبی اور نفسیاتی نکتہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔مکمل نیند لینے سے آپ امتحان کی صبح اپنے آپ کو تر و تازہ چاق و چوبند پائیں گے برخلاف اس کے اگر رات دیر تک مطالعہ یا کسی اور وجہ سے بیدار رہیں گے تو اگلی صبح آپ خو د کو تھکا ہوا اور تناؤ کا شکار محسوس کریں گے۔ تناؤ اور تھکاوٹ کی وجہ سے امتحا نی مظاہرے پر خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔امتحان کے دباؤ کی وجہ سے اکثر طلبہ غذا سے لاپروائی برتے ہیں جس کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوجاتی ہے جس سے کارگردگی متاثر ہونے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ہلکی پھلکی غذا کارکردگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔بسیار خوری(زیادہ کھانے سے)سے پرہیز کریں جس سے غنودگی پیدا ہوتی ہے اور ہاضمہ کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔امتحان سے قبلمذکورہ امور پر توجہ دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ذیل میں امتحان لکھنے کے چند کارگر طریقوں کو پیش کیا جارہا ہے جو طلبہ کی کامیابی میں کلیدی کردار کے حامل ہیں۔
(1)امتحان کے لئے درکار اشیاء کا انتظام؛۔امتحان سے ایک یوم قبل امتحان کے لئے درکار ضروری اشیاء و سامان کو تیار کرلیں۔امتحان گاہ کو لے جانے والی اشیاء کی ایک فہرست مرتب کر لیں مثلا ہال ٹکٹ،پین،پنسل ،امتحانی پیڈ ،ربڑ،پٹری،جیو میٹری بکس وغیرہ امتحان گاہ روانہ ہونے سے قبل اپنے ساتھ رکھ لیں۔وقت سے پہلے کم از کم آدھا گھنٹہ قبل امتحان گاہ پہنچ جائیں۔امتحان گاہ میں فراہم کردہ اپنی نشست و کمرہ کی صحیح جانچ کر لیں تاکہ امکانی افراتفری سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے۔کسی بھی قسم کی افرا تفری امتحان سے قبل ذہنی سکون کو درہم برہم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
(2)تنظیم اوقات؛۔امتحان کے دوران وقت کے بہتر استعمال کے لئے اپنے ہاتھ پر گھڑی باندھیں ۔وقت کے زیاں سے بچیں اورقت کی تنظیم کو ملحوظ رکھیں۔سوال کے لئے مختص نشانات کے حساب سے جواب پر وقت صرف کریں۔طویل جوابات اور مختصر جوابات کو تحریر کرنے سے پہلے ان پر کتنا وقت صرف کرنا ضروری ہے طئے کرلیں ۔
(3) امتحانی پرچے میں دی گئی ہدایات کا غور سے مطالعہ کریں اور ہدایات کے مطابق عمل درآمد کریں۔سوالات کے پرچے کو اچھی طرح سے پڑھیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ سے کیا پوچھا جارہاہے۔سوال کے عین مطابق اپنے جواب کو تحریر کریں غیر متعلق تفصیلات بیان کرنے سے مکمل احتراز کریں۔
(4)بہترین سے بہتر کی سمت پیش قدمی؛۔ جوابی بیاض میں پہلے تحریر کیئے جانے والے سوال کا جواب ممتحن(Examiner) پر آپ کی قابلیت اور ذہانت کی چھاپ ڈالتا ہے۔آپ کے پہلے جواب کا تاثر ممتحن کی توجہ آپ کی جانبمبذول کرنے میں کار گر ثابت ہوتا ہے۔آپ کے جواب کی گہرائی و گیرائی کے باعث ممتحن آپ کی مضمون پر گرفت کا اندازہ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر آپ اپنے پہلے ہی جواب کے ذریعہ ایک بہتر تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بعد کے دیگر سوالات کے جوابات تحریر کرنے میں آپ سے سرزد ہونے والی معمولی غلطیوں کو وہ نظر انداز کر سکتا ہے۔اسی لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے پہلے جواب کو تحریر کرنے میں گوناگوں توجہ سے کام لیں اور دھیان رہے کہ معمولی سی معمولی غلطی آپ سے سرزد نہ ہونے پائے۔کانٹ چھانٹ اور کتر بیونت سے آپ ممتحن کو غلط تا ثر دیں گے۔سوالات کے جوابات تحریر کرتے وقت سلسلہ وار جوابات تحریر کرنے کو ترجیح دیں۔لیکن سلسلہ وار جوابات کوتحریر کرنا ضروری نہیں ہے۔جن سوالات کے جوابات آپ بہتر جانتے ہیں پہلے شروعات ان سوالات سے ہی کریں ۔ایسے سوالات کے جوابات کوپہلے تحریر کرنے سے اجتناب کریں جن کے متعلق آپ کا اعتماد متزلزل ہے۔پہلے آسان سوالات کی طرف توجہ کریں پھر مشکل سوالات کو حل کریں۔ایک بھی سوال کو ہر گز نہ چھوڑیں۔
(5)ممتحن(Examiner) کی توجہ کو مہمیز کریں؛۔ممتحن ہی وہ واحد شخص ہوتا ہے جس کو علم ہوتا ہے کہ آپ نفس مضمون کو بہتر جانتے ہیں کہ نہیں۔اگر آپ ممتحن کو اپنے پہلے جواب کے ذریعہ ہی قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ آپ نفس مضمون سے کما حقہ واقف ہیں تب یقیناًوہ آپ سے بعد میں سرزد ہونے والی دیگر جوابات کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کر دے گا۔امتحانات میں اعلی پوزیشن حا صل کرنے والے طلبہ اکثر پہلے ان سوالات کے جوابات تحریر کرتے ہیں جن پر ان کی بہترین دسترس ہوتی ہے۔اگر ممتحن صرف سرسری جائزہ لینے کا عادی ہوتو آپ کے بعد والے جوابات پر بھی وہ سرسری نظر ہی ڈالے گا۔اگر آپ اپنے جوابات کی تنقیح و جانچ سے ممتحن کو باز رکھنا چاہتے ہیں تب ضروری ہے کہ پہلے آپ وہ جوابات تحریر کریں جن پر آپ کو مکمل عبور ہو بعد ازاں ان جوابات کی جانب توجہ دیں جن پر پہلے تحریر کردہ جواب سے کم عبور ہو اور اسی طرح جوابات کی تحریر کو ممکن بنائیں۔اردو،انگریزی،ہندی،تلگو،ریاضی،سائنس،اور سماجی علم تمام مضامین میں یہ طریقہ کار سود مند ثابت ہوتا ہے۔
(6)پرچے کو عمدہ طریقہ سے پیش کریں؛۔ممتحن آپ کے کسی اہم اصطلاح کو خط کشیدہ نہ کرنے پر یا عدم خوش خطی کی بنا ء پر آپ کو نشانات سے محروم نہیں کر سکتا ہے۔لیکن آپ کے اہم اصطلاحوں کو خط کشیدہ کرنے اورجوابات کوبہتر اور خوش خط تحریر کرنے سے ممتحن کو نشانات دینے میں سہولت و آسانی ہوتی ہے۔ بعض طلبہ غیر ضروری طور پر اپنے پرچے کو رنگین قلموں سے سجانے سنوارنے میں اپنا وقت ضائع کر تے ہیں جس کی قطعی ضرور ت نہیں ہوتی ہے۔ تحریرکردہ جواب کے نفس مضمون سے بخوبی واقف ہونے کا ممتحن کو تاثر دینے میں اگر آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تب آپ نشانات کو حاصل کرنے میں بھی یقیناًکامیا ب ہوجائیں گے۔ہر جواب کے بعد چند سطر لکھنے کی جگہ چھوڑدیں خاص طور پر تفصیل طلب جوابات کے لئے چند سطر لکھنے کی جگہ چھوڑنا سود مند ہوتا ہے۔اس طریقے سے نہ صرف آپ کی پیش کش واضح نظر آئے گی بلکہ بعد میں اگر آپ اپنے جواب میں مزید اضافے کے متمنی ہیں تو آپ کو جگہ کی قلت کا اندیشہ نہیں ر ہے گا۔دو سطروں (لائینوں) کے درمیان مزید ایک سطر لکھنے کی گنجائش ہمیشہ رکھیں۔اس طریقہ کار کے ذریعہ جوابی بیاض کی دوبارہ جانچ کے وقت آپ جواب میں ضرورت کے مطابق تبدیلیا ں لاسکتے ہیں بھولے یا چھٹے ہوئے الفاظ و جملے بھی تحریر کر سکتے ہیں اور اس عمل سے جوابی بیاض کی خو ب صورتی پر کوئی اثر بھی نہیں پڑے گا اور وہ پہلے ہی کی طرح صاف اور اچھی نظر آ ئے گی۔
(7)نفس مضمون پر خصوصی توجہ دیں؛۔ریاضی ، سائنس اور سماجی علم کے پرچوں میں جوابات کو مناسب اکائیوں میں تقسیم کرتے ہوئے نکات کی شکل میں جواب تحریر کریں۔منظم سلسلہ وار درجہ بہ درجہ ہر سوال کے حل کو تحریر کریں۔جہاں بھی ضابطوں کے استعمال کی ضرورت درپیش ہو استعمال سے گریز نہ کریں۔گراف کو اتارتے وقت پیمائش کا خاص خیال رکھیں ۔آخر میں جواب کو نمایاں کرنے سے نہ چوکیں۔توضیح و تشریح کے لئے متوازن مساوات تحریر کرنا ضروری ہوتا ہے۔رے (Ray)اور سرکٹ(Circuit) کے خاکوں میں تیروں کا صحیح استعمال کریں۔سوالات جیسے وجوہات بیان کر و،مختصر جوابات ،نمایاں خصوصیات اور استعمالات میں جوابی نکات مختص کردہ نشانات کے مطابق ہی تحریر کریں زیادہ نکات تحریر کرتے ہوئے وقت ضائع نہ کر یں۔
(8)جامع و مفصل جوابات تحریر کریں؛۔موضوعاتی (نفسیSubjective) پرجہ میں ممتحن کو بہت زیادہ متن کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے ۔بہت سارے جوابی بیاضات جو کہ طویل متن پر مشتمل ہوتے ہیں ممتحن کے لئے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔جہاں کہیں بھی ممکن ہو اپنے جوابات کو اہم نکات کے ذریعہ درجہ بہ درجہ سلسلہ وار پیش کریں۔ہمیشہ موزوں توضیح و تشریح مختصر پیراگراف کی شکل میں انجام دیں۔بالکل ہی اختصار سے کام نہ لیں اور نہ ہی حد سے زیادہ طوالت کو اختیار کریں۔ممتحن کے فرائض انجام دینے والے اکثر اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس طر ح کی ایک غلطی کی وجہ سے طلبہ کو پرچے میں (4-5)نشانا ت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔آپ خود کو ایسی غلطی سے محفوظ رکھیں۔
(8)سیدھا سادھا صاف خاکہ اناریں؛۔ امتحان میں خا کہ اتارنے کا مقصد ممتحن پر خاکے کے مختلف اعضاء کے محل وقوع اور ان کے ناموں سے آپ کی واقفیت کو واضح کر نا ہوتا ہے ۔اکثر طلبہ اپنے خاکوں کو پیچیدہ طریقے سے اتارنے کی وجہ سے نشانات سے محروم ہوجاتے ہیں۔انتہائی تفصیل کے ساتھ آرٹس کی طر ح اتارے گئے خاکے سے آپ کا سیدھا سادھا صاف ایک منٹ میں اتا را گیاخا کہ بہتر ہوتا ہے۔اعضاء کی نامزدگی کو جلی حروف میں انجام دینے کے ساتھ خا کے کا عنوان تحریر کرنے سے نہ چوکیں۔
(10)پرچہ کی دوبارہ جانچ کرلیں؛۔ممتحن آپ کے سو(۱۰۰)فیصدی پر چے کو لفظ بہ لفظ نہیں پڑھتے ہیں وہ کلیدی الفاظ کو تلاش کر تے ہیں۔ اکثر اوقات امتحانی دباؤ کی بناء پر دوران امتحان ہم چند کلیدی الفاظ کو جانتے ہوئے بھی نہیں لکھتے ہیں ۔آپ ایسے اغلاط کو صرف اپنے پرچے کی دوبارہ جانچ کے ذریعہ ہی درست کر سکتے ہیں۔
(11)اضافی سوالات کے جوابات بھی تحریر کریں؛۔ہر سال طلبہ امتحان ہال سے مقررہ وقت سے پہلے نکل جاتے ہیں جبکہ امتحان ہال سے وقت سے پہلے نکلنے پر کو ئی نشانات نہیں دیئے جاتے ہیں۔وقت سے پہلے امتحان ہال سے نکلنے سے بہتر ہے کہ اضافی سوالات کے جوابات تحریر کیئے جائیں۔اگر آپ کے کسی جواب میں کوئی نقص یا کوتا ہی واقع ہوگئی ہے تو آپ اس کا ازالہ اضافی سوال کے جواب تحریر کرتے ہوئے انجام دے سکتے ہیں۔ہر سال اعلیٰ نشانات حاصل کرنے والے طلبہ کی جانب سے اضافی سوالات کے جوابات تحریر کرنے کی حکمت عملی نہایت ہی سود مند ثابت ہوئی ہے۔لیکن یہ کام آپ کو تبھی انجام دینا چاہئے جب آپ اپنے جوابی بیاض کی مکمل طریقے سے دوبارہ جانچ کرچکے ہوں۔
(12)جوابی بیاض کی حوالگی؛۔اپنے جوابی بیاضات کو ٹھیک طریقے سے ترتیب وار باندھنے کے بعد پرچے کی دوبارہ جانچ کرتے ہوئے جوابات کے درمیان لکیر کھینچتے ہوئے اہم جملوں کو خط کشیدہ کرتے ہوئے آپ اپنے پرچے کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔اس طر ح کے اختتامی اضافے آپ کو تبھی انجام دینے چاہئے جب آ پ نے اپنے پرچے کی مکمل ددوبارہ جانچ کر لی ہو اور اس طرح کے کام کے لئے آپ کے پاس فاضل وقت بچا ہوا ہو۔اس طریقہ کار سے آپ اپنے پرچے کو بہتر اور قابل توجہ بنا سکتے ہیں۔مذکورہ بالا امور پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہر طالب علم وہ کامیاب حا صل کرسکتا ہے جس کی اس نے تمنا کی ہویا جس کا وہ مستحق ہے۔
اگر امتحان میں کم نشانات حا صل ہوں تو مایوس نہ ہو ں اور اپنے کسی بھی استاد سے بدگمان نہ ہوں۔اچھی پوزیشن حاصل کرنے والے ساتھیوں سے حسد کے بجائے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر غور کریں اور اللہ سے دست بدعا ہوجائیں۔ خدانخوستہ نا کامی کا سامنا کرنا پڑے تو بھی مایوس ہونے کی قطعی ضردرت نہیں ہے۔اللہ جسے چاہتا ہے کامیاب و کامران کرتا ہے صرف تیاری اور اسباب پر نظر رکھنے سے کامیابی ہاتھ نہیں آتی ہے بلکہ کامیابی کے لئے پڑھائی کے ساتھ ساتھ اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگنا بھی ضروری ہے۔اللہ کے فیصلے پر راضی ہوجائیے اور عزم مصمم،بلند ہمتی او ر بلند حوصلگی سے مستقل محنت جاری رکھیئے۔
3 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
من کی توانائی کیلیے’’ص‘‘۔
کسی اسکالر کا بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ روح اور نفس کے لئےــ’’ ص‘‘ سے شروع ہونے والی پانچ چیزوں کو اپنی ذات میں شامل کریں جو آپکے لئے’’ وٹامن ‘‘ ثابت ہونگی۔وہ پانچ چیزیں صوم، صلوات، صدقہ، صلح رحمی، صبر ہیں۔
غور کیا تو واقعی بندہ ان پانچوں باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرلے تو اسکی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی، اسکے تن اور من دونوں کو سکون اور تقویت بھی مل جائے گی۔
1_۔ صلواۃ جو قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ، ہمارا اللہ رب العزت ہی تو ہمارا مالک و خالق ہے وہی ہماری سنتا ہے اس کا قرب ہی بندگی کی علامت ہے دن میں پانچ مرتبہ اسکے دربار میں حاضری دینے سے قلب کو صرف سکون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم سرگوشیوں میں اس سے مانگتے ہیں اسکی بے شمار نعمتوں پر اشکبار شکریہ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور ہمارا رب اپنی رحمتوں سے ہماری جھولیاں بھرتا جاتا ہے ،سبحان اللہ !
2۔ روح اور نفس کی پاکیزگی اور طاقت کے لئے دوسرا وٹامن صوم یعنی روزہ ہے جس میں بندہ صرف رب کی رضا اور خوشنودی کے لئے گرمی ہو یا سردی، دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور روزے کی حالت میں وہ اپنے نفس کو کسی بھی بدی کی طرف جانے سے سختی سے روکتا ہے یعنی روزہ ڈھال بن جاتا ہے برائیوں کے وار سے بچنے کے لئے بلکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس بھی شدت سے ہوتا ہے اور پھر یہی کوشش اسکے لئے اجر ثواب کا ذریعہ بن جاتی ہے سبحان اللہ !
3۔ مومن حقوق العباد کے بعد حقوق العباد کی پاسداری سے ہی رب کی رضا کا مستحق بنتا ہے جو حقوق العباد کی پاسداری کا پابند ہوجائے تو وہ آس پاس کے تمام رشتوں کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتا ہے انکے حقوق ادا کرنے کو وہ اپنے لئے لازم بنا لیتا ہے ماں باپ کا رشتہ تو سب سے افضل و اعلی ہے جس سے غافل ہوکر وہ اپنی آخرت بھی گنواسکتا ہے لیکن باقی رشتوں کا بھی خیال رکھنا اسکے فرائض میں شامل ہے جس سے غافل رہ کر وہ رب کی رضا سے محروم ہوجاتا ہے یہ غفلت اسے اس دنیا میں بھی سکون نہیں دے سکتی نہ ہی اسکے رزق میں برکت ہوسکتی ہے اور نہ آخرت کی بھلائی حاصل ہوپائے گی جبکہ صلح رحمی کرنے والے کے لئے( یہ وٹامن) اسے دنیا کے ساتھ اخرت کی خوشیاں بھی عطاکرے گی ان شاءاللہ لہزا اس وٹامن کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا بے حد فائدہ مند ہے سبحان اللہ !
4۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ صدقہ بلاوں کو روکتا ہے بیشک اس کا تجربہ سیکڑوں مرتبہ دیکھ بھی چکے ہیں اللہ رب العزت کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے اور اسکے بندوں کے لئے دنیا وآخرت کے فائدے ہی فائدے ہیں ،مشکلات اور تکالیف میں یہ صدقہ رب کی طرف سے بندے کا مددگار بن جاتا ہے اور سامنے والے مستحق کی مدد کا ذریعہ بھی، سبحان اللہ !
5۔ زندگی...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
مصنف نے بہت اچھی گاوش کی ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اللہ رحمن انکے زور قلم میں میں اضافہ فرماۓ، آمین۔
شکریہ
عمدہ تحریر ۔۔ معلوماتی مواد ۔۔اللہ کریم آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے آمین