(ترکی ڈرامے پاکستان میں (دوسرا حصہ

پاکستانی ڈراموں میں بھی جو بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں ہیں وہ کہیں سے بھی معاشرے میں پوری طرح سے نہیں آئی ہیں.ترکی ڈراموں میں سلام، اللہ اللہ، ماشاء اللہ، سبحان اللہ، ان شاء اللہ کا استعمال یہ ضرور باور کرواتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں.2015 میں پاکستان اور ترکی کے اشتراک سے ایک ٹی وی چینل متعارف کروایا گیا جس کے بعض پروگراموں نے کافی پزیرائی حاصل کی.
ان کے ذریعے ترکی کی تاریخ سے جہاں کچھ آگاہی ملی، وہاں کچھ ان کے فیملی سسٹم کے بارے میں معلوم ہوا ساتھ ہی وہاں کے کھانوں کو جانا. ہندی اور جاپانی کارٹونز سے تنگ آئے ہوئے والدین میں بچوں کا پروگرام “جان” بھی بہت مقبول ہوا.
جہاں کچھ درست ہوا وہاں بہت کچھ مناسب بھی نہیں ہوا. سنسرشپ کے پیمانے بھی ان نا مناسب ڈراموں کے لئے ناکافی ثابت ہوئے. پاکستانی ڈراموں میں جو کچھ نہیں دیکھا سکتے تھے، ان ڈراموں میں وہ سب کچھ ناصرف من و عن دیکھایا گیا بلکہ ان کے آنے کے بعد ان تمام باتوں، کاموں کے لئے مقابلہ بازی کے نام پر دروازے کھل گئے جن کو دیکھانے میں ہچکچاہٹ اورسنسر شپ حائل تھی.
ان پاکستانی ڈراموں کو ماضی اور حال دونوں ہی میں ہر طبقے میں سراہا گیا ہے جو معاشرے کی ضرورت کو پورا کرنے والے تھے.مگر ڈراموں کے ذریعے ہر دن کو ویلنٹائن ڈے میں تبدیل کرنے کی کوشش اورمہم صرف تباہی کا سبب بنے گی. فیملی سسٹم پوری دنیا میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، مگر مسلمان کسی نہ کسی طرح اس کو سنبھالے ہوئے ہیں.
ترکی میں یورپ کا حصہ بننے کی خواہش ماضی قریب میں شدید تھی اس کے اثرات ان کے لباس، فیملی سسٹم سب میں دیکھے جا سکتے ہیں.ترکی ڈرامے، پروگرام دیکھانے ہیں تو اس سلسلے میں اگر کچھ اقدامات کیے جائیں تو مثبت نتائج برآمد ہوں گے.موضوعات بے راہ روی کا شکار کرنے کے بجائے فیملی سسٹم کو مضبوط کرنے والے ہوں اور جوترکی کیمسلمانوں کے شاندار ماضی کی عکاسی کرتے ہوں۔

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں