اگر آپ استاد ہیں

آپ مانیں یا نہ مانیں اسکولوں میں موجود 90 فیصد خواتین اساتذہ شادی نہ ہونے اور مرد اساتذہ ” نوکری ” نہ ہونے کے سبب اس ” کار خیر ” کو انجام دے رہے ہیں ۔ اساتذہ اکرام کی اکثریت ” دلی ” طور پر نہیں بلکہ ” حادثاتی ” طور پر ٹیچنگ کر رہی ہے ۔ کسی اور نے تو خیر شعبہ ء تدریس کو کیا خراب کرنا ہے ۔ اساتذہ نے خود ہی اپنے آپ کو ” ڈی ویلیو ” کیا ہے ۔ ہمارے پاس اب تک لوگ خود کو ٹیچر بولتے ہوئے شرماتے ہیں ۔ خاص طور پر مرد اساتذہ کو یہ بات کہنے میں خاصی ” شرم ” محسوس ہوتی ہے  کہ وہ استاد ہیں ۔ کہتے ہیں دنیا اسی کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت خود کرواتا ہے ۔ جب تک ہمارے اساتذہ اکرام خود اپنی عزت محسوس نہیں کرینگے معاشرہ ان کو عزت دینے میں ناکام رہے گا ۔ اساتذہ اکرام کی اصل ناقدری اس ” کارپوریٹ نظام تعلیم ” نے کی ہے ۔ اسکولز ہوں ، کوچنگ سینٹرز ہوں  یا یونیورسٹیز  سب نے ہی اپنے آپ کو کارپوریٹ بنایا ہے ۔ سب کی نظر میں آنے والا بچہ ایک ” گاہک ” ہے  اور ماں باپ بھی اساتذہ کو بطور ” دوکاندار ” ہی دیکھتے ہیں ۔ آپ کبھی جائزہ لے لیں اور اساتذہ اکرام سے پوچھیں کہ انھوں نے نے آخری کتاب کب اور کونسی پڑھی تھی ؟ میں جب تک اسکول میں رہا ، پھر کالج ، کوچنگ اور مزید چار سال یونیورسٹی میں رہا مجھے کبھی کسی استاد نے نہیں کہا کہ ” بیٹا یہ کتاب ضرور پڑھنا ” ۔ میں نے کبھی کسی استاد کے ہاتھ میں کوئی کتاب ہی نہیں دیکھی ۔ جو اساتد خود کتاب نہ پڑھتا ہو نہ کچھ نیا سیکھتا ہو سوائے ” فیس بک ” اور ” یوٹیوب ” کے  وہ آنے والی نسل کو کیا سکھائے گا ؟مطالعہ وہ واحد ذریعہ ہے جو آپ کی شعوری عمر میں اضافہ کرتا ہے ۔ آپ کی ذہنی نشو نما کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ” کتب بینی ” ۔ اگر آپ استاد ہیں اور روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ آپ مطالعے کے لئیے نہیں نکالتے تو پھر آپ اپنے ساتھ اور اپنے شاگردوں کے ساتھ بھی ظلم کرتے ہیں ، اور پھر آپکا غصہ ہی ان پر نکلے گا ۔کیونکہ جو آپ کے اندر ہوتا ہے وہی آپ اپنے طالبعلموں کے ذہنوں میں انڈیلتے ہیں ۔ اگر آپ کو بات بات پر غصہ آتا ہے گھر ، بازارا ، رشتے دار اور پڑوسیوں کا غصہ بھی آپ اپنی کلاس میں ہی نکالتے ہیں تو پھر آپ کو دو میں سے ایک کام ضرور کرنا چاہئیے ۔ یا تو آپ پڑھانا چھوڑ دیں یا پھر ” معلم اعظمﷺ” کی طرف رجوع کریں ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں حضرت انس ؓ آپ کی خدمت میں 9 سال رہے لیکن مجال ہے کہ ان کی کسی بات پر آپ کے ماتھے پر شکن تک آگئی ہو ۔ غصہ ضرورو ہونا چاہیئے لیکن ایسا کہ آپکا غصہ بھی بچوں کو بہت کچھ سکھا جائے ۔ ان کو معلوم ہو کہ واقعی ایک استاد کا غصہ ” ایسا” ہوتا ہے ۔ قاسم علی شاہ  کہتے ہیں کہ ہر چیز کے لئیے لائسنس ہے ، ٹیچنگ کا بھی لائسنس ہونا چاہیئے ۔ پڑھائے گا وہ جس کو پڑھانا آتا ہے ۔ ہر قابل آدمی قابل استاد نہیں بن سکتا ہے ۔ اگر آپ ” لینگویج ” پڑھاتے ہیں اور پھر بھی آپکا شاگرد بد زبان اور بدگو ہے تو پھر آپ کو زبان پڑھانے کے بجائے زبان ” سکھانے ” کی فکر کرنی چاہیئے ۔ آپ نے بچے کو ریاضی کا ہر سوال حل کرنے میں ماہر بنا دیا لیکن اگر وہ اپنی زندگی کے معمولی مسائل تک حل نہیں کرسکتا تو پھر آپ کو سوچنا ضرور چاہئیے کہ آپ نے ریاضی تو اس کے لئیے آسان کردی ہے لیکن زندگی مشکل کرگئے ہیں ۔ میرا ٹیچنگ میں جتنا بھی تجربہ ہے میں نے یہ سیکھا ہے کہ بچہ کتاب سے کچھ بھی نہیں سیکھتا ۔ کتاب تو ایک بے جان چیز ہے وہ بھی نصاب کی کتاب ۔سکھاتا تو استاد ہے ۔ آپ قرآن کی مثال لے لیں بھلا اس سے زیادہ اور کوئی کتاب کیا پر اثر ہوگی ؟ لیکن مجال ہے کہ وہ ہمارے لئیے کچھ اثر کرجائے ۔ وجہ ” رول ماڈل ” کا سامنے نہ ہونا ہے ۔ آپ بچے کو جو کچھ سکھانا چاہتے ہیں وہ بن کر دکھا دیں  بچہ خود سب کچھ سیکھ جائیگا ۔ یاد رکھیں اگر استاد کی زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہے تو وہ طالبعلموں کو کوئی مقصدیت نہیں دے سکتا ہے ۔ اگر آپ کی اپنی ہی زندگی بے منزل کی راہی ہے تو بھلا آپ کے طالبعلموں کی نیا کہاں سے پار لگے گی ؟ ۔ سب سے اہم مسئلہ سننے اور سنانے کا ہے ۔ اساتذہ کے اندر سنانے کی لگن ہوتی ہے ۔ وہ کھری کھری بھی سناتے ہیں اور بعض دفعہ اتنا سناتے ہیں کہ بھری کلاس میں بچے کی ” عزت نفس  ” تک مجروح ہوجائے  لیکن سننے کی تڑپ اور جستجو ان میں نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ وہ بچوں کو سنتے بھی سنانے کے ہی لئیے ہیں ۔ جو اساتذہ بچوں کو سمجھنے کے لئیے سنتے ہیں ۔ کانوں سے نہیں دل کے کانوں سے سنتے ہیں وہ بچوں کے دل میں اتر جاتے ہیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے آپ کے ہاتھ چومیں ” فارمیلٹی ” کے لئیے نہیں دل سے اٹھ کر آپکا استقبال کریں تو پھر آپ کو انھیں دل سے سننا پڑیگا ۔ بچوں کے لئیے عام طور پر وہ مضمون خود بخود دلچسپ بن جاتا ہے جس مضمون کا استاد ان کے لئیے دلچسپ بن جاتا ہے ۔ آپ کی ٹیچنگ کی انتہا اور معراج یہ ہے کہ بچے ” فری پیریڈ ” میں آپ کو خود بلانے آجائیں  اور جب آپ کلاس سے جانے لگیں تو ان کو تشنگی محسوس ہو ۔ آپ جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی شعاعیں اور ” وائبز ” آپ میں سے نکلنے لگتی ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ” مومن وہ ہے جس کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے “۔سورج کو بتانا نہیں پڑتا ہے کہ میں نکل گیا ہوں صبح ہوگئی ہے ۔ پھول اعلان نہیں کرتا ہے کہ میں کھل گیا ہوں اس کی خوشبو پورے باغ کو بتا دیتی ہے کہ کوئی پھول آج کھل گیا ہے ۔بلکل اسی طرح اگر آپ واقعی قابل استاد ہیں تو پھر طالبعلوں کو آپ میں سے وہ شعاعیں ہر لمحہ پھوٹتی محسوس ہونے لگیں گی ۔اگر آپ استاد ہیں اور حادثاتی طور پر ٹیچنگ میں آ گئے ہیں تو کوشش کریں کہ اس کو اپنا شوق بھی بنالیں ۔ غالب فرماتے ہیں کہ ” بندہ کام سے تھک جاتا ہے محبت سے نہیں تھکتا۔” اسلئیے کام سے محبت کرلیں ۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں ۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو ” اطمینان قلب ” نصیب ہوجائیگا ۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو دنیا میں کسی کسی کو ہی ملتی ہے ۔ دوسرا آپ کی سیکھنے کی لگن بڑھ جائیگی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ آپ کو اتنی عزت دیگا کہ شاید آپ نے سوچا بھی نہ ہو ۔ استاد کو سب سے بڑا فائدہ جو اللہ دیتا ہے وہ یہ کہ اس کے رزق میں برکت ہوجاتی ہے ۔ حدیث کا مفہوم ہے ” جو فجر کے بعد نہیں سوتا ہے اور روزگار کی تلاش میں نکلتا ہے ، اللہ اس کے رزق میں برکت دے دیتا ہے ۔ آپ استاد ہیں تو پھر لوگوں کے دل اور خدا کی رضا دونوں آپ کے منتظر ہیں ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

2 تبصرے

  1. بہت اہم تحریر، اس موضوع پہ مسقل بات کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب چھوڑ دیں