اللہ تعالیٰ کی ایک نہ تبدیل ہونے والی سنت امتحان ہے۔جسے وہ ہر انسان سے لیتا ہے۔ ”کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا”۔(سورۃ عنکبوت آیت نمبر 2)۔امتحان اور آزمائش انسان کو اوج کمال تک پہنچاتے ہیں۔ خالق کائنات نے سورہ ملک کی پہلی اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا ہے ’’بابرکت ہے وہ (خدا) جس کے ہاتھ (قبضہ قدرت) میں (کائنات کی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے”۔اللہ تبارک و تعالی نے انسان میں مختلف طاقتیں رکھی ہیں، امتحان اور آزمائش کے ذریعہ وہ چھپی ہوئی طاقتیں نکھرتی ہیں، لہذا امتحان کی روشنی میں ان طاقتوں کا نکھرنا، انسان کی ترقی و کمال کا باعث بنتا ہے۔امتحان اورآزمائش انسان کو ذہنی طور پر مضبوط بناتی ہے۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ امتحان اور آزمائش کی وجہ سے انسان مضبوط اور مستحکم ہوتاہے۔ ”یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور تروتازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے”۔جو آدمی مصائب ،امتحان ،آزمائش اور شدائد سے نہیں گھبراتا ہے وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران رہتا ہے۔تعلیمی عمل میں استاد ایک معتبر اور قابل اعتماد فرد ہوتا ہے ۔استاد کی فراہم کردہ معلومات و تعلیم پر بھروسہ کرتے ہوئے شاگرداپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل انجام دیتا ہے۔ ایک استاد کے لئے طلبہ کی صلاحیتوں اور لیاقت سے واقفیت کے لئے امتحان و آزمائش کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ استاد طلبہ کی تعلیمی لیاقت اور صلاحیتوں سے ہر دم واقف رہتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ دوران تدریس طلبہ نے کیا اور کتنا سیکھا جانے بغیر تعلیم و تعلم اور درس وتدریس کا لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے جانچ پرکھ اور تعین قدر کو نظام تعلیم کا ایک لازمی جزو بنایا گیا ہے۔طلبہ کی شرح آموزش و اکتساب کی جانچ کا طریقہ صدیوں سے رائج ہے۔ اساتذہ اپنے تمام تعلیمی نظریات و تصورات کو کمرۂ جماعت میں بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ کے ادراک و اکتساب کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔دوران تدریس طلبہ کے تعلیمی معیار کا جائزہ، تعین و جانچ کے لئے سہ ماہی،شش ماہی اور سالانہ رسمی امتحانات کے علاوہ مختلف یومیہ،ہفتہ روزہ،ماہانہ وغیرہ جیسے ٹسٹوں کا انعقاد کارآمد ثابت ہوتا ہے۔کمرۂ جماعت میں طلبہ کی آزمائش ،تعین قدر اور محاسبے کا مقصد طلبہ میں ترغیب و تحریک پیدا کرنے کے علاوہ ان کو ان کی خامیوں اور کوتاہیوں سے واقف کرتے ہوئے اسے دور کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ بلا کسی رکاوٹ اور الجھن کے اپنے تعلیمی سفر کو جاری وساری رکھ سکیں۔
طلبہ کی جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کا جب تک کام انجام نہیں دیا جاتا تب تک طلبہ کو یکسوئی و دلچسپی سے اکتساب کی جانب راغب و گامز ن کرنا مشکل ہوتا ہے۔جانچ و تعین قدرکے ذریعہ طلبہ کو بہتر مظاہر ہ پیش کرنے پر مائل کیا جاسکتا ہے۔کمرۂ جماعت میں اساتذہ کی جانب سیلیاجانے والا امتحان ،آزمائش برائے تعین قدر طلبہ کو ان کی تعلیمی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور سیکھنے پر مائل رکھنے میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتاہے۔کمرۂ جماعت کی آزمائش طلبہ کو سنجیدہ آموزش کی جانب گامز ن رکھتی ہے۔بیشتر اساتذہ جانچ ،جائزہ اور تعین قدر کو ایک مشکل اور صبر آزما کام تصور کرتے ہیں۔اساتذہ کے لئے یہ علم ضروری ہے کہ جانچ ، پرکھ اورتعین قدرکے بغیر ایک معیاری اور موثر تدریس کی راہ ہر گز ہموار نہیں ہوسکتی ۔جانچ اور تعین قدر سے طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتیں جلا پاتی ہیں ۔طلبہ میں اعتماد کی فضا جنم لیتی ہے۔ طلبہ کے مزاج سے سہل پسندی اور آرام پسندی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔طلبہ کی امتحانی جانچ یا آزمائش میں سب سے تکلیف دہ پہلو وہ طریقہ کار ہے جس کی وجہ سے طلبہ ذہنی اور جسمانی دباؤ وتناؤ کا شکار ہورہے ہیں۔طلبہ کی جانچ اور ٹسٹنگ کا ایک اور منفی پہلو یہ بھی ہے کہ جانچ کی شکل میں صرف تعلیمی ترقی کا ہی احاطہ کیا جارہاہے اور طلبہ کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں سے یک لخت رو گردانی برتی جارہی ہے۔
کمرۂ جماعت میں طلبہ کی تعلیمی صلاحیتوں کی تشخیص و جانچ استاد کا ایک اہم فریضہ ہوتا ہے۔ہر استا د کو سبق کی شروعات سے قبل ، دوران سبق اور سبق کے اختتام پر طلبہ کے ادراک سمجھ بوجھ اورمعیار کی جانچ کے لئے مخصوص تشخیصی طریقہ کار اپنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ سیکھنے کی مقدار اور معیار کا علم ہونے کے بعد اساتذہ طلبہ کی تعلیمی ترقی ، رفتار اور معیار کی سطح کا کامیاب اندازہ قائم کرسکتے ہیں۔ اکتساب کی رفتار ،معیار اور مقدار سے باخبر ہوکر استاد طلبہ کی تعلیمی بہبود کے لئے جامع منصوبہ بندی اور مناسب حکمت عملیاں وضع کرسکتا ہے۔دوران تدریس اساتذہ کی جانب سے انجام دی جانے والی تشخصی جانچ نہ صرف طلبہ کے سیکھنے کی سمت و رفتار متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے بلکہ طلبہ کی تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل میں بھی اہم کردار انجام دیتی ہے۔کمرۂ جماعت میں طلبہ کو پڑھے ہوئے مواد کی تفہیم و تشریح کے لئے وافر مواقع فراہم کیئے جانے چاہئے تاکہطلبہ کے شرح اکتساب کا اندازہ قائم کیا جاسکے ۔ طلبہ جس مضمون و موضوع میں الجھن اور مشکل کا شکارہوں انھیں دور کرنے میں استاد ایک مربی رہبر اور رہنماکا فعال کردار انجام دیں۔کمرۂ جماعت میں انجام پائے اکتساب کی منظم جانچ ،پرکھ اور تعین قدر میں درجہ ذیل امور مددگارہوتے ہیں۔
(1)تعین قدر اور جانچ کے ذریعے طلبہ کے سیکھنے کی رفتاراورمعیار کا اندازہ ہوتا ہے۔طلبہ کی خرابیوں اور کوتاہیوں سے واقف ہوکر استاد انھیں درست کرنے کے لئے اپنی تجاویز اور رائے پیش کرتا ہے۔
(2)اکتساب کی مقدار اور معیار سے آگہی کے بعد استاد طلبہ کی بہتر رہبری و رہنمائی کے فرائض انجام دیتے ہوئے اکتسابی طور پر پچھڑے ہوئے طلبہ کو خصوصی درس وتدریس کے ذریعے عام دھارے میں شامل کرنے میں اپنا گراں قدر تعاون پیش کرتا ہے۔استاد طلبہ کو سیکھنے میں درپیش مشکلات اور معذوریوں پر قابو پانے میں ایک مربی کے فرائض انجام دیتا ہے۔طلبہ کی بہتری کے لئے ا پنے دیرینہ تجربات کی روشنی میں مناسب تجاویز پیش کرتا ہے۔زیرک اور خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے لئے ان کی صلاحیتوں کے مطابق مواقع اور اکتسابی سرگرمیوں کی فراہمی کو یقینی بنا تا ہے۔
(3)کمرۂ جماعت کی جانچ، طلبہ کی ذہنی اور تعلیمی صلاحیتوں کی شناخت میں معاون ہوتی ہے۔طلبہ کی ذہنی استعداد اور صلا حیتوں کے مطابق ان کی گروہی درجہ بندی بھی کمرۂ جماعت کی جانچ ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔جانچ و تعین قدر کی وجہ سے تعلیمی طور پر سست ،ذہین اور پسماندہ طلبہ کو درکار توجہ دی جاسکتی ہے اور ان کی بھلائی کے لئے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکتا ہے۔
(4) کمرۂ جماعت کی جانچ نہ صرف طلبہ میں سیکھنے کی سمت ،رفتار اور معیار کے تعین میں مددگار ہوتی ہے بلکہ استا د کے تدریسی اثرات،بے سمتی اور جھول کو بھی عیاں کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔اس پیمانہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اساتذہ اپنی تدریسی خامیوں کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
(5)جانچ اور تعین قدرکے ذریعے اولیائے طلبہ اور اسکول انتظامیہ کو بچوں کی تعلیمی ترقی سے واقف کیا جاتا ہے تاکہ طلبہ کی ترقی کے لئے وہ مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دے سکیں۔
(6) طلبہ کے تعلیمی تقاضوں اور ان کے تعلیمی تجربات کی روشنی میں اہداف کو مقررکرنے اور ان کے حصول میں مددگار افعال کی نشاندہی میں مدد ملتی ہے۔
(7) تعین قدر و جانچ کا عمل طلبہ کو ان کی ادراکی سطح اور مہارتوں کو پیش کرنے کے مناسب مواقع فراہم کرنے کے ساتھ بہتر تعلیمی مظاہر ہ پیش کرنے میں ایک محرکہ کا کام انجام دیتا ہے۔
طلبہ کے علم اور کامیابیوں کی جانچ و تعین قدر کے مختلف پیمانیہوتے ہیں۔ بصری و تحریری شکل میں جانچ و تعین قدر کے ایسے کئی روایتی پیمانے موجود ہیں جن سے صر ف درس و تدریس ا ور اکتساب کے نتائج کی پیمائش ہی ممکن ہے۔کمرۂ جماعت میں جانچ اور تعین قدر کے لئے عام طور پرزبانی،تحریری،عملی امتحانات،انسانوں کے باہمی تعلقات کے مطالعے کا فن(Sociometric Techniques)وغیرہ کو معیاری پیمانے تصور کیا گیا ہے۔ طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کی پیمائش کے لئے تاہم آج تک کوئی ایسا واحد طریقہ کار وجود میں نہیں آیا جسے مستند اور معتبر کہا جاسکے۔ماہر تعلیم و نفسیات ویگنس کے مطابق ’’ہر طریقہ کار کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ میں خوبی اور خامی دونوں پہلوؤں کو لئے ہوتا ہے۔‘‘(Every method has its strength and weakness and its place.-Wiggins) اس قول کی روشنی میں استاد چاہے کوئی بھی آزمائش، جانچ و تعین قدر کا طریقہ کار منتخب یا وضع کرئے وہ قابل بھروسہ،مستند اور قابل استعمال ہوناچاہئے۔جانچ و تعین قدر کے درجہ ذیل طریقہ کار پر عمل پیرائی کے ذریعے طلبہ کے علم،معلومات،ادراک ،مہارتوں ،استعداد،استطاعت،دلچسپی،اور معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(1)ہر گھنٹے کے اختتام پر بہتر طریقے سے تیارکردہ سوالات کے ذریعے طلبہ کی اکتسابی سطح اور معیار کا اندازہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
(2)ہر سبق و یونٹ کے اختتام پر زبانی ،تحریری ،عملی و مظاہراتی امتحانات (ٹسٹ) کے انعقاد سے بھی جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کا کام بخوبی انجام دیا جاسکتا ہے۔
(3)ایسے ٹسٹ و امتحان کا انعقاد جانچ ،پرکھ اور تعین قدر میں معاون ہوتاہے جس میں طلبہ دلچسپی لیتے ہوں اور جو طلبہ کی خاص صلاحیتوں کو سمجھنے میں مددگار بھی ہوں۔
(4)طلبہ کو ان کی تعلیمی روئیداد (عمل،ردعمل) وغیرہ کوضبط تحریر میں لانے پر مائل کیا جائے۔طلبہ کو ان کے تحریری مواد کو تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی دعوت دی جائے۔
(5)کارکردگی کی جانچ والے ٹسٹ(امتحان)،عملی تجزیے،تجربات ،تخلیقی وسائل کی تیاری وغیرہ طلبہ کی صلاحیتوں کی جانچ و تعین قدر میں کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔
اساتذہ کمرۂ جماعت میں اپنے ہر امتحان اور جانچ کے بعد طلبہ کو ان کی خوبیوں اور خامیوں سے مطلع کریں۔اساتذہ کی جانب سے فراہم کردہ تبصرے ،تجزیے اور آراء طلبہ کی تعلیمی صلاحیتوں کو استحکام فراہم کرتے ہیں اور ان کی کمزوریاں خوبیوں میں بدلنے لگتی ہیں۔طلبہ کی ہمت افزائی کرئیں کہ اور بتائیں کہ وہ جو کچھ سیکھے ہیں اس سے کیاکچھ کرسکتے ہیں اورمزید سیکھنے کے لئے انہیں اور کیا کچھ کرنا ہوگا۔طلبہ کو اپنے کام کی جانچ پرکھ کرنے کے وصف سے آراستہ کریں۔اس ضمن پھر ایک بار ماہر تعلیم ویگنس کا قول نقل کرنا مناسب لگتا ہے۔ویگنس کہتا ہے کہ جو طلبہ اپنی ترقی پر نظر اور کام کے معیار پر نگاہ رکھنا سیکھ لیتے ہیں ان کے کام میں خود بخود بہتری پیدا ہونے لگتی ہے۔(Children who learns to monitor their own progress and quality of work will automatically strive to improve.-Wiggins)
ذیل میں چند ایسی معقول تجاویز پیش کی جارہی ہیں جو جانچ و تعین قدر میں اساتذہ کے لئے معاون و مددگار ثابت ہوئی ہیں۔
(1)استاد جب بھی طلبہ کی جانچ پرکھ اور تعین قدر کے کام کو عملی جامہ پہنانے سے قبل طلبہ کو نشانات اور گریڈ س (درجات) کے بارے میں واضح طور پر سمجھادیں ۔ نشانات اور گریڈس کے حصول میں معاون و مددگار طریقوں سے بھی انہیں آگاہ کردیں۔طلبہ کے جانچ پرکھ اور تعین قدر کے طریقوں سے آگاہ ہونے سے ان کے کام اور معیار میں خود بخود بہتری پیدا ہوجاتی ہے۔
(2) اساتذہ کی جانب سے جوابی بیاض(answer paper) کی جانچ کے وقت صفحیکے نیچے ریمارکس(Foot Notes) (تبصرہ ،تجزیہ اور تجویز)تحریر کردینے سے طلبہ کو نہ صرف اپنی اغلاط درست کرنے میں سہولت ہوگی بلکہ اغلاط کی تصیح کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں نکھرنے لگیں گی اور ان کے کام می مزید بہتری پیدا ہوگی۔
(3)طلبہ کے کام کی جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کے فوری بعد اساتذہطلبہ کے جذبات و احساسات کاخاص خیال رکھیں۔طلبہ کی جانچ پرکھ اور تعین قدر کے فوری بعد کسی بھی طرح کی رائے زنی ،فقرے بازی ،تجزیے اور تبصرہ کرنے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیں۔اساتذہ کے رائے تبصرے اور فقرے بازی سے طلبہ کے جذبات و احساسات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
(4)جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کی انجام دہی کے بعد اساتذہ طلبہ کو عمومی اور انفرادی طور پر اپنی رائے سے بہرور کریں۔عام طور پر تمام طلبہ سے جب ایک ہی غلطی سرزدہ ہوجائے ایسے میں عمومی رائے زنی سے کام لیں۔انفرادی غلطیوں کے لئے طلبہ کو شخصی طور پر( روبرو) اپنی آرا اور تجاویز سے مستفیض کریں۔
(5)طلبہ کو ہمیشہ جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کے نظام اور اس کی کارکردگی سے آگاہ کریں تاکہ وہ ذہنی طور پر وہ جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کے نظام سے ہم آہنگ ہوکر بہتر سے بہتر کارکردگی پیش کرنے کے لائق ہوجائیں۔
(6)جب کبھی طلبہ کو ان کے انجام کردہ کام پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنے کا موقع حاصل ہوتب اساتذہ طلبہ کو خود سے جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کا موقع فراہم کرئیں تاکہ وہ نہ صرف اپنے کام اور افکار کی غلطیوں کی پہچان کرسکیں بلکہ ازخود اپنی غلطیوں کو درست کرنے اور کارکردگی کو عمدہ طریقہ سے پیش کرنے کے قابل ہوجائیں۔
مختلف مقاصد کے لئے مختلف امتحان منعقد کیئے جاتے ہیں۔ہر جانچ ،پرکھ اور تعین قدر میں سوالات کی نوعیت اور طریقہ کار میں بھی مختلف ہوتا ہے۔جانچ ،پرکھ تعین قدر جیسی اہم سرگرمی کی انجام دہی میں اساتذہ کو غایت درجہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کے لئے وضع کردہ سوالات وسرگرمیاں جب طلبہ کی اجتماعی اور انفرادی اکتسابی تفاوت کو ملحوظ رکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تب امتحان بامعنیٰ اور نتائج شاندار اور روشن ہوجاتے ہیں۔ اپنے معیار اور دلچسپی کے مطابق ہونے والے امتحانوں سے طلبہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوتے ہیں۔ آج معیار اور مسابقت کے نا م پر معصوم طلبہ سے بھیڑ بکریوں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہاہے۔والدین اور اساتذہ کی جانب سے بہتر مظاہر ے اور کارکردگی کے مطالبے کی بنا طلبہ دباؤ اورتناؤ کا شکار ہوچکے ہیں۔ طلبہ امتحان میں ناکامی پر خود کشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سیبھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔بعض مرتبہ امکانی ناکامی کے خوف سے بھی اپنی قیمتی جانیں تباہ کررہے ہیں۔ اپنی اولاد کی ترقی کے خواہاں والدین دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بچوں کو غیر صحت مند مسابقت کی نذر کر تے ہوئے انہیں زندہ درگور کر رہیہیں۔ اولاد کے بہتر مستقبل کے متمنی والدین بچوں کی صلاحیت اور استعداد سے زیادہ ان پر دباؤ ہرگز نہ ڈالیں ورنہ بچوں کی قیمتی جانیں تلف ہوجائیں گی۔
بچوں کے گزرجانے کا رنج و غم اور تاسف والدین کو تاحیات بے چین رکھے گا۔ درس و تدریس بھی شیشہ سازی کی طرح نازک کام ہے۔ جس طرح شیشہ گر کی ذرا سی غفلت سے شیشہ چورچور ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح اساتذہ کی لاپروائی سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔درس و تدریس پیٹ بھرنے والا ایک پیشہ نہیں بلکہ ذمہ داری کے احساس سے مزین ایک ایسا فریضہ ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی اور لاپروائی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کا کام ڈاکٹری کی طرح اہم و نازک ہے جہاں ڈاکٹر سے ذراسی غفلت ہوئی آدمی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بالکل اسی طرح جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کے عمل میں استاد کی لاپروائی کا خمیازہ استاد نہیں بلکہ طالب علم بھگتا ہے۔جانچ ،پرکھ اور تعین قدر کے اصول و ضوابط وضع کرنے والے تعلیمی نظام کو جوابدہی کے کٹہرے میں لانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ معصوم بچوں کی قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے۔جانچ اور پرکھ کے عمل کو طلبہ کی ذہنی اور تعلیمی قابلیتکے مطابق انجام دینے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی طالب علم امتحان سے خوفزدہ نہ ہو بلکہ امتحان کا خوش دلی سے سامنا کرے اورامتحان میں ناکامی یا امکانی ناکامی کے اندیشے کے تحت موت کو گلے نہ لگائے۔
خیال خاطراحباب چاہئے ہردم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو