وزارت داخلہ کاعجیب حکم نامہ

وزارت داخلہ حکومت سندھ نے گزشتہ روزایک عجیب وغریب حکم نامہ جاری کیاہے جس کے مطابق شہری کچرااورفضلہ گھروں سے باہر صرف مقررہ مقامات ہی پر پھینکنے کے پابندہوں گے خلاف ورزی کی صورت میں دفعہ 144کے تحت پولیس مقدمہ قائم ہوگا۔بظاہر یہ فیصلہ خوش آئندہے محکمہ داخلہ نے اپنی دانست میں ایک اچھاقدم اٹھایاہے درحقیقت یہ ایک غیرمنطقی اورغیرمنصفانہ فیصلہ ہے بلدیہ نے کچرااورفضلہ پھینکنے کے لیے کون سے مقامات مختص کیے ہیں شہریوں کامعلوم ہے نہ ہی بلدیہ کی جانب سے کوئی آگاہی ہے ۔مشاہدے میں ہے کہ جن مقامات پر کچراپھینکاجاتاہے ان مقامات پر پہلے بڑے اورچھوٹے آ ہنی کچرے دان رکھے ہوئے تھے وقتاًفوقتاًیہاں سے کچرے کوکچرے دان سمیت گاڑیاں اٹھاکرٹھکانے لگاتی آئی ہیں اب صورت حال یہ ہے چندایک مقامات کے سواکچرے دان سرے سے ہی غائب ہیں جس کی وجہ سے کچرے زمین پر پھینک دیاجاتاہے اورکام چوری اورسستی کی وجہ سے کچرے کے ڈھیرپہاڑی کی صورت آدھی آدھی سڑک گھیرلیتے ہیں جس سے ایک طرف تعفن پھیلتاہے تودوسری جانب ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اورشہریوں کو آمدورفت میں تکلیف کاسامناکرنا پڑتاہے ۔مقررہ مقامات کاتعین نہ ہونے کی وجہ سے مساجد،اسپتال اورتعلیمی اداروں کے اردگردکچرے اورغلاظت کے ڈھیر لگاہونامعمول ہے حالاں ان مقامات پر صفائی کی زیادہ ضرورت ہے اسپتالوں سے خارج شدہ اشیاء درست طریقے سے تلف ہونے سے صحت کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں ۔نکاسی آب بھی نظام پر ناقص ہے نالی اورنالے ابلنامعمول ہیں شہرکامرکزی نالہ سابقہ اوڈین سینماسے کالی موری میں پھلیلی نہر تک ہے کچرے سے جام ہے ۔پرویزمشرف کے دورمیں خاص اس کی صفائی کے لیے پانچ کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی تھی جس فائدہ توکچھ نہیں ہواالبتہ دوتین مقامات پر نالے سے غلاظت سڑک پر ڈال دی گئی تھی جسے شہریوں نے اپنی مددآپ کے تحت صاف کرایا۔شہرمیں سڑکوں پر مین ہول غائب ہیں وارڈ جی میں متعددعلاقے ایسے ہیں جہاں سال کے بیشتردنوں میں سیوریج کاپانی کھڑاانتظامیہ کامنہ چڑاتاہے۔ واساانتظامیہ کے مطابق حیدرآبادکانکاسی آب کانظام ہی ناکارہ ہے اور اس سلسلے میں واساانتظامیہ نے کوئی پرپوزل دیاہے نہ ہی اس ضمن میں کوئی دلچسپی نظرآتی ہے ۔حیدرآبادمیں صحت کی ابترصورت حال کے پیچھے بنیادی وجہ کرپشن اور غیرقانونی بھرتیاں ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بلدیہ عظمیٰ میں غیرمسلم خاکروبوں کی اکثریت ریٹائرڈ ہوچکی ہے یاریٹائرڈمنٹ کی عمر کوپہنچ چکی ہے غیرمسلم خاکروبوں کی جگہ 950مسلم خاکروب غیرقانونی بھرتی کیے ہوئے ہیں جن کاتعلق ایک تنظیم سے ہے جبکہ سابق صوبائی وزیرفشریز کے مطابق یہ تعداد14 سوہے تمام ملازمین کی عدالت نے فہرست بھی طلب کی ہے۔غیرمسلم خاکروب کی جگہ مسلم خاکروب ہوں گے توکیاوہ جھاڑودیں گے ؟ایسے میں صفائی کے مسائل پیداہونایقینی امرہے۔ محکمہ داخلہ کاحکمنامہ کہ شہری مقررہ مقامات کے علاوہ کہیں کچرااورغلاظت نہ پھینکیں خلاف ورزی کی صورت میں دفعہ 144کے تحت مقدمہ قائم ہوگا۔ وزارت داخلہ نے پابندی لگادی ہے تویہ بھی بتائے کہ شہری کچراکہاں پھینکیں ؟ کچراپھینکنے سے متعلق وزارت داخلہ کانوٹی فکیشن ناقابل فہم ہے ۔ نوٹی فکیشن شہریوں کے خلاف بدعنوان بلدیہ کی حمایت میں کودپڑنے کے مترادف ہے ۔گویاپولیس کے لیے امن وامان سمیت وزارت کے ذمے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں اس لیے وہ شہریوں کوسدھارنے کے لیے میدان میں کود پڑی ہے اورکچرے پھینکنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے لیے پولیس کواختیارات دے دیے ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ کچراجگہ جگہ پھینکنااور گندگی پھیلاناغلط ہے اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن اس کا زیادہ ذمہ دارمتعلقہ ادارہ ہے اس نے اپنی ذمہ داری ابتک ادانہیں کی ہے۔محکمہ داخلہ کانوٹی فکیشن انتظامیہ کوکلین چیٹ دینے کے مترادف ہے اس کی ذمہ داری پر شہریوں پر عائدکی ہے۔یہ ایک غیرمنطقی اورغیرمنصفانہ فیصلہ ہے جس سے پولیس کورشوت خوری کاایک اورراستہ مل جائے گاہوناتویہ چاہیے کہ کچراکنڈیوں کے لیے بلدیہ ہرآبادی میں مقام کاتعین کرے ،کچرے دان کاانتظام کرے اور کچرے،فضلے اور سڑکوں کی صفائی کامناسب انتظام کرے ۔یونین کونسل / یونین کمیٹی کی بنیادپر سینیٹری ورکروں کی فہرست شہریوں کی دسترس کے لیے عام کی جائے کوئی بعیدنہیں کہ عوام متعینہ مقامات استعمال نہیں کریں گے ۔مشاہدے میں ہے کہ کسی صاف ستھری جگہ پر کوئی بھی شخص تھوکتنے سے بھی اجتناب کرتاہے کوئی وجہ نہیں کہ گھرصاف ستھرے ہوسکتے ہیں تو شہرصاف نہ ہوں ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے متعلقہ اداروں کوپابندکیاجائے عدم تکمیل کی صورت میں ا ن کے خلاف کارروائی جائے بہتری اسی وقت آئے گی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں