امت کی بے حسی اور مشرقی غوطہ

آج صبح جب میں مرغیوں کو دانہ ڈالنے، کوٹھڑی کی طرف بڑا۔ سرد ہواؤں کے تھپیڑوں کے ساتھ زبردست قسم کا طمانچہ میرے گال پر تڑاق کر کے پڑا۔ ہوا یوں کہ وہیں ڈربے کے قریب کسی پرندے کے بچے کو بلی نے دبوچا ہوا تھا۔ اور فضا کائیں کائیں کی پرجوش صداؤں، اور کالے پروں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ میں نے جو سر اٹھایا، یقین کیجیے اردگرد کی عمارتوں کی بالکونیاں، درختوں کی ٹہنیاں، کوٹھوں کی منڈیریں کوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ پرندہ جسے میں مصروف ترین پرندہ سمجھتا ہوں کہ جس کے پاس لمحہ بھر کی فرصت نہیں ہوتی۔ وہ چھینا چھپٹی کرے، بالکونیوں، منڈھیروں پر بیٹھ کر عورتوں کی باتیں سنے یا اپنی قبیل کے کسی پرندے کے دکھ میں شریک ہو۔ مگر آج اس کی کائیں کائیں میرے دل و دماغ پر اس قدر چھا گئی کہ وہ مجھے خود سے افضل نظر آنے لگا ہے۔ اگرچہ انسان اشرف المخلوقات ہے مگر وہ پرندہ اس سے ہزار درجے بہتر نظر آرہا ہے۔ ایک پرندے کو بلی نے کیا دبوچا، یہ اپنی پوری قوم سمیت وہاں پہنچ چکا اور صدائے احتجاج بلند کیا۔ میں خاصی دیر تماش بین بنا رہا۔ مسلسل کوشش سے انہوں نے بلی کو نہ صرف ٹھونگیں مار کر بھگایا بلکہ اس کے چنگل سے دوسرے پرندے کے بچے کو آزادی بھی دلائی۔
مگر دوسری طرف یہ انسان ہے جو خود کو اشرف المخلوقات سمجھتا ہے۔ جو اس نبی کا امتی ہے جو دکھیاروں کے دکھوں کا مداوا کرتے تھے۔ جنہوں نے اپنی امت کے بارے ارشاد فرمایا: میری امت جسد واحد کی طرح ہے۔ ایک عضو میں بھی تکلیف ہوگی تو پورا جسم درد محسوس کرے گا۔ مگر ان کے فرمان مبارک پر اوس پڑھی تب دیکھی جب خون مسلم ارزاں ہوگیا۔ مسلمانوں کا خون بہنے لگا مگر ان کا درد نہ محسوس ہوا نہ ہی محسوس کیا۔ عالم اسلام کو طاغوتی طاقتوں نے آزمائشی تھیٹر کے طور استعمال کیااور عالم اسلام کے زعما اپنی مستی میں مگن تھے، مگن رہے۔ نہ انہیں کوئی فکر ہے کہ وہ طاقتیں، جن کی دہلیز پر سر ٹکایا ہوا ہے یہی ان کے ملک و ملت، دین و مذہب اور خونِ مسلم کے سوداگر ہیں۔ یہی ان سرزمینوں کو تھیٹر کے طور پر استعمال کرنے والے ہیں۔ کشمیر ہو یا افغانستان، روہنگیا ہو یا ملک شام، نت نئے ہتھیاروں سے اپنی پیاسی زبانوں کو سیراب کرتے ہیں۔ اور عالم اسلام کے حکمران ان کی خدمت گزاری پھر بھی فرض عین سمجھتے ہیں۔
آپ نے کبھی کسی ماں یا باپ کے سامنے بچے کو مرتے دیکھا؟ نہیں تو خدا نہ کرے کہ آپ دیکھو….اگر کبھی دیکھاہو تو اس درد کا، اندازہ بھی نہ کر سکو۔ مگر وہاں شام میں دیکھو نا…!! وہاں تو روز ہوتا ہے۔ کیسے تڑپا تڑپا کر مارا جاتا ہے اور میں اور تم پی ایس ایل میچ پر مرے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا نمائندہ اقرار کرتا ہے کہ جب حملہ ہوا لوگوں میں بھاگنے کی ہمت مفقود تھی۔ غذائی قلت کی وجہ سے وہ لوگ اتنے کمزور و لاچار، نحیف و نزار ہوگئے کہ بھاگنے کی ہمت نہیں تھی۔ بھاگ کر جان بچانے کی آخری کوشش تو کرتے۔ گزشتہ سال نومبر میں آخری فوڈ سپلائی کی گئی ،اس کے بعد شام کی حکومت نے اجازت دی نہ خود انتظام کیا۔ آج سننے میں آیا کہ سعودیہ نے 6 ماہ کی امداد بھیج دی۔ ساتھ ہی یہ بھی سنا کہ جنگ بندی کا اعلان بھی ہوا۔ ترکی کا کہنا تھا شامی حکومت شام کے مشرقی شہر غوطہ میں قتل عام کر رہی ہے۔ ایس او جی کے مطابق 121 بچوں سمیت ساڑھے پانچ سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔حقیقی تعداد اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ایک طرف امریکا، ترکی، سعودیہ ہے دوسری طرف روس، چین، ایران، خود ملک شام ہے۔ شام کے اتحادی روس نے تو غوطہ کو تختہ مشق بنا کر عالم اسلام کے زعما کے منہ پر زور دار طمانچہ بھی رکھ مارا ہے۔ یہ نہ صرف اعتراف ہے بلکہ شرمناک چیلنج بھی ہے۔ وہ مسلمان ممالک جو اپنے آقاوں کے سامنے بچھے جاتے ہیں وہ پاکستان ایران سے لے کر مصر و سعودیہ تک کے تمام حکمرانوں پر تمام مظلوموں کا خون قرض ہے۔ انہیں اس سوال کا جواب تلاشنا چاہیے کہ ان کے مغربی آقا عالم اسلام کو ہی آزمائشی تھیٹر کیوں کر بناتی ہیں؟اگر اس خونی دریا کو عبور کرنا ہے تو۔ ذرا بھی حس مسلمانی باقی ہے تو سوچنا چاہیے کہ کیسے اس دکھ کا مداوا ہوگا؟ سوشل میڈیا پر پھیلی معصوم بچوں کی تصویریں دیکھیں تو ان کی آ نکھوں میں وہی سوال ہیں ،جو بڑے حروف میں ہمارے چہروں بشروں پر لٹکے ہوئے ہیں۔ وہ منتظر ہیں کہ شاہ سلمان سعودی اصلاحات کو ایک روز کے لیے معطل کر کے ہمیں سہارا دیں۔ وہ منتظر ہیں رجب اردگان کے ،کہ وہ دو گز کی قبر ہی کی جگہ عنایت کر دے۔ وہ منتظر ہیں جنرل راحیل کے، عالمی اسلامی فوج کا کوئی دستہ ہی، داد رسی کو بھیج دیں۔ وہ منتظر ہیں جنرل باجوہ کے ،کہ وہ جو ریاست کا حق ان کے پاس ہے اس کا استعمال کریں اس سے پہلے کہ وہ بھی مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں۔
میں بھی کہاں رونا رو رہا ہوں؟ وہاں جہاں کے لوگ، الفاظ پروف ہو چکے۔ جن پر ہمارے دل کی آہوں کا اثر نہیں ہوتا۔ شاید اس بات کا ادراک یونیسکو کو بھی ہو چکا تھا جو اس نے دو چارروز قبل، احتجاجا خالی اسٹیٹمنٹ جاری کیا اور لکھنے والے نے لکھا کہ ” کوئی الفاظ ان مرنے والے بچوں، ان کے والدین اور چاہنے والوں کو انصاف نہیں دلا سکتے” انہیں معلوم پڑھ گیا تھا شاید کہ اب یہ لوگ ظلم پروف ہوچکے، الفاظ پروف ہو چکے۔ یہ اب کسی کے دکھ کو محسوس نہیں کر سکتے۔ یا پھر خود جان بوجھ کر خالی چھوڑ دیا کہ جو چاہو لکھو، یا پھر وہ کسی کو مجرم ٹھہرانے سے باز رہے کہ یہاں تو ہر دوسرا ٹھیکدار ہے، جس کا نام لے گا وہی نمبردار نکلے گا۔ اپنا پیٹ بھی تو پالنا ہے۔ بہرحال دلی کیفیت یہ ہے کہ آج اپنا آپ، مہیب گہرائیوں میں محسوس ہورہا ہے۔ افضلیت کا سارا بھوت اتر چکا ہے اور وہ کوا،جو صبح کائیں کائیں کر کے ماتم کر رہا تھا خود سے افضل و اکمل محسوس ہو رہا ہے۔ جوبے زبان ہو کر بھی اپنی قوم کے دکھ کو تو سمجھتا ہے نا…! اور میں؟؟؟

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں