شام لہو لہو

شام سے بڑی تشویش ناک خبریں آرہی ہیں _ حلب ، حماۃ اور دیگر بڑے شہر راکھ کا ڈھیر بن گئے ،اب غوطہ کی باری ہے _اس پر گولہ و بارود کی بارش ہو رہی ہے _ انسانوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر روح لرز اٹھتی ہے اور بدن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے _ معصوم بچے ایسے لگتے ہیں جیسے پھول ہوں ، جو مرجھا گیے ہوں _ ان پر بموں کی بارش کرنے والے وہ ہیں جو تہذیب و تمدّن، آزادی، مساوات اور نیی روشنی کے دعوے دار ہیں _ یا اللہ! یہ کیسی روشنی ہے جسے یہ لوگ پھیلا رہے ہیں _ ان کے کرتوت تو ایسے ہیں کہ انھیں دیکھ کر جانور بھی شرما جائیں اور شیطان کو بھی پسینہ آجائے _ اور ان کا ساتھ دینے والے وہ لوگ ہیں جو خود کے مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں اور عالمی اسلامی اتحاد کا عَلَم بلند کیے ہوئے ہیں _
عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں شام کی آبادی عیسائیوں پر مشتمل تھی _ ان سے مسلمانوں کی جنگ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کے عہد میں شروع ہوگیی تھی _حضرت ابوبکر نے شام کی طرف فوجیں روانہ کرتے وقت انھیں جو ہدایات دی تھیں ان کو تمام مؤرخین و محدثین نے نقل کیا ہے _ان میں سے چند اہم ہدایات درج ذیل ہیں :
1_عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں _
2_مُثلہ نہ کیا جایے _
3_عبادت خانے نہ مسمار کیے جائیں اور راہبوں کو قتل نہ کیا جایے _
4_کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جایے اور کھیتیاں نہ جلایی جائیں _
5_آبادیاں نہ ویران کی جائیں _
6_جانوروں کو نہ ہلاک کیا جایے _
(الجہاد فی الاسلام، 204)
ان ہدایات پر عموماً عمل کیا گیا اور ان کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ، اگر کسی نے کی تو اس کاسختی سے احتساب کیا گیا _
کتنی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں نے جنگ کے ان قیمتی اور زرّیں اصولوں کی ہمیشہ پاس داری کی انہی کے معاملے میں ان کی زبردست پامالی کی جا رہی ہے اور ہر طرح کی حیوانیت، درندگی اور شیطنت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے _
افسوس کہ عالمی سطح پر مسلم اُمّت اس کے مقابلے میں کچھ نہیں کر پارہی ہے _ مسلم حکم راں آپس ہی میں دست و گریباں ہیں _اہل ایمان کا وصف قرآن مجید نے یہ بیان کیا تھا : أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح :29)”وہ کافروں پر سخت اور اپنوں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنے والے ہیں _” لیکن اس وقت کی صورت حال تو یہ ہے کہ وہ اپنوں پر سخت اور کافروں کے معاملے میں رحیم و شفیق بنے ہوئے ہیں _
اس وقت اپنی بے بسی پر رونا آتا ہے اور زبان پر وہی دعا جاری ہوجاتی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سفرِ طائف سے واپسی پر مانگی تھی، جب تمام دنیاوی سہارے ٹوٹ گئے تھے اور صرف ایک سہارا بچا تھا:
” اللہم الَیکَ اَشکُو ضُعفَ قُوَّتِی و قِلَّۃَ حِیلَتِی و ھَوانِی علی النَّاس ، یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ ، انتَ رَبَّ المُستَضعَفِینَ ”
” اے اللہ ! میں اپنی کم زوری ، بے سرو سامانی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری پر تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں _ اے سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ! جن لوگوں کو کم زور بنالیا گیا ہے ان کا تو ہی رب ہے _”
اے اللہ! شام کے مسلمانوں کی غیب سے مدد فرما _
ان کی حفاظت کے اسباب مہیا فرما _
ان کے دشمنوں کو ہلاک کردے اور ان کی سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنادے _
اے اللہ! تیرے لیے یہ کچھ مشکل نہیں ہے _
تو نے نمرودوں، فرعونوں، شدّادوں کو خاک میں ملا دیا ہے، تو انہیں بھی تباہ و برباد کردے _
اے اللہ!……..
اے اللہ!……..
اے اللہ!……..

حصہ
mm
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحبِ طرز قلم کار ،مصنف اور دانش ور ہیں۔ وہ تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیربھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں