ڈبہ پیک اسلام

کھلونوں کی ہول سیل مارکیٹ میں داخل ہوا تو سامنے بورڈ پر نظر پڑی، ’’باربی ٹوائز‘‘۔ مجھے اپنے بیٹے کے لیے رموٹ کنٹرول کی مدد سے اڑنے والا ایک ہیلی کاپٹر چاہیے تھا۔ دوکان میں داخل ہونے کے بعد میں اپنی مطلوبہ چیز کی تلاش میں شوکیس کے اندر رکھے ہیلی کاپٹرز کی طرف دیکھنے لگا۔ اسی اثنا میں دوکان کے ماحول پر بھی ایک اچٹتی نظر ڈال لی۔ دوکان ایک ایرانی سیٹھ کی لگ رہی تھی، جہاں دو تین سیلزمین بھی تھے۔ مگر ان میں ایک انڈین لگ رہا تھا جس نے آگے بڑھ کر مجھ سے بات چیت کی اور متعدد ڈبے شوکیس سے نکال کر میرے سامنے رکھ دیے۔ ہر ڈبہ کے اوپر، اندر رکھے ہیلی کاپٹر کی خوبصورت رنگین تصویر چھپی تھی اور ساتھ ہی تفصیلات بھی لکھی تھیں کہ اندر رکھا ہوا ہیلی کاپٹر کس طرح کی پرواز کرتا ہے۔ ٹو ڈائمینشن، تھری ڈائمینش یا پھر فور ڈائمینشن۔ میں نے انڈین سیلزمین کی طرف ایک ڈبہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسے کھول کر چیک کروا دو۔ اتنے میں دوکان کا ایرانی سیٹھ دور ہی سے چلایا: ’’بابا، کھولنے کا نہیں ہو رہا۔ ہم یہاں دن میں پچاس دانہ بیچتا ہے، کوئی کمپلین نہیں آیا۔ سب اچھا مال ہے۔ کھولیں گا، تم کو پسند نئیں آئیں گا، تم چلا جائیں گا، پھر ہم سے یہ کون خریدیں گا‘‘۔ میں نے کہا، آغا جان، اگر آپ چیز کا ڈیمو نہیں دے گا تو ہم کیسے خریدے گا۔ ہم کو کیا معلوم کہ یہ کیسا اڑتا ہے؟ کہنے لگا، ’’بابا مافی۔ جاؤ دوسرا دوکان دیکھو‘‘۔
ایرانی کی ’’ڈبہ پیک‘‘ پالیسی کی وجہ سے اس کی دوکان سے اتر آیا اور دو تین دوکانیں چھوڑ کر ایک اور دوکان میں داخل ہوگیا، جو ایک انڈین مالباری کی لگ رہی تھی۔ اس دوکان پر بڑا رش تھا۔ بہت سے لوگ مختلف اقسام کے کھلونے کھول کھول کر دیکھ رہے تھے اور ٹیسٹ کر رہے تھے۔ دوکاندار نے بھی ہر کھلونے کا ایک ایک سیمپل ڈبے سے باہر نکال کر رکھا ہوا تھا اور کسٹمرز کو باری باری چلا کر دکھا رہا تھا۔ اگر کسی کسٹمر کو ایک چیز پسند نہیں آتی تو دوسری، دوسری کے بعد تیسری اور اس طرح اس کے چاروں طرف کھلے ہوئے کھلونے جو کہ ٹیسٹ کرروانے کے لیے رکھے تھے، بکھرے پڑے تھے۔ میں نے بھی کہا کہ وہ فلاں ہیلی کاپٹر دکھاؤ۔ اس نے بغیر کسی جھجھک کے، ڈبہ اٹھایا، اسے کھولا اور اس میں بیٹری ڈال کر دوکان کے اندر اڑا کر دکھایا۔ سرخ رنگ کا کوبرا ٹائپ ہلی کاپٹر مجھے بہت پسند آیا، دوکاندار سے قیمت معلوم کی جو کہ مناسب لگی لہٰذا خرید کر دوکان سے باہر نکل آیا۔
ایک ہی بازار میں موجود یہ دو دوکانوں کی کہانی تھی۔ دو دوکانداروں کا رویہ تھا۔ پہلی دوکان کے مالک کے پاس کوئی گاہک نہیں تھا اور جب میں اس میں داخل ہوا تو دوکاندار نے ڈیمو دکھانے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے میں باہر آ گیا۔ دوسری دوکان میں کئی کسٹمرز تھے، وجہ بظاہر یہ نظر آ رہی تھی کہ اس کا مالک ہر کھلونے کو چلا کر، ڈیمو کروا کر اور ٹیسٹ کر کے دے رہا تھا۔ میں یکایک اس سوچ میں پڑ گیا کہ دین اسلام کا معاملہ بھی بس کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے پاس (اسلام کی صورت میں) ایک بہترین پروڈکٹ موجود ہے اور ہماری خواہش بھی ہے کہ دنیا بھر کے انسان اس پروڈکٹ کو خریدیں اور اس کو برتیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود ہی اس کو ڈبہ پیک رکھا ہوا ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پروڈکٹ کی مارکیٹ میں بڑی ڈیمانڈ ہے اور ایک بار ہم نے ’’کسٹمرز‘‘ کے سامنے اس کا ڈیمو کروا دیا تو ہاتھوں ہاتھ بک جائے گی۔ مگر ہم ڈیمو کروانے کے لیے تیار نہیں۔ ہم بغیر ڈبہ کھولے، قسمیں کھا کھا کر کسٹمرز کو بتا رہے ہیں کہ یہ بڑا بہترین نظام ہے، آپ ایک بار آزما کر تو دیکھیں مگر ’’کسٹمرز‘‘ بضد ہیں کہ پہلے اس کا ڈیمو دیکھیں گے۔ ان کا اصرار ہے کہ پہلے انہیں بتایا جائے کہ کون سے معاشرے اور ملک میں یہ ’’پروڈکٹ‘‘ استعمال ہو رہی ہے اور کس معاشرے میں اس کو مکمل طور پر برتا جا رہا ہے۔۔۔انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک، گھریلو معاملات سے لے کر معاشرتی رسوم و رواج تک۔ بازار سے لے کر کاروبارحکومت تک، درسگاہوں سے لے کر عدالتوں تک، کھیل کے میدانوں سے لے کر فوجی چھاؤنیوں تک، کہاں کہاں یہ پروڈکٹ استعمال کی جا رہی ہے اور کیا نتائج نکلے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ کسٹمر کو اپنے اسلاف کے قصے اور پرانے وقتوں کے واقعات اور معجزات بتا کر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہم ڈبہ نہ کھولنے اور ڈیمو نہ دینے پر بضد ہیں اور کسٹمر ڈبہ کھولنے اور چیز دیکھنے پر۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں