مخلص دوست اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ غم کا ساتھی بھی ہے اور خوشی کا ساجھی ہے۔ مصائب و آلام میں ملجا و ماویٰ بھی اور ہر مشکل میں ساتھ نبھانے والا ہمسفر بھی۔ دوستی کی ناتواں سی رسی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جہاں منافقت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ تبھی تو اعتماد کی دنیا کوہ ہمالیہ سے بلند تو سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔مال و دولت تو ادنی چیز ہے، اس راہ میں انسان اپنی جان تک کی کوئی پروا تک نہیں کرتا چہ جائے کہ یارمن کے لیے کوئی جملہ نازیبا کہے۔
پاک امریکا تعلقات کئی عشروں پر محیط ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دو طرفہ تعاون میں مضبوطی کے بجائے کمزوریوں نے بسیرا کیا ہے۔ جہاں پاکستان نے اپنے دل کے دروازے وا کئے تو آنکھیں فرش راہ کی لیکن پاکستان سمجھا ہی نہیں کے دوسری طرف خلوص کے بجائے مفادات کے تانے بانے ہیں۔ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ امریکی وزیر ومشیر کی آمد ہوتو پاکستانی وزیراعظم کیا سارے وزیروں ومشیروں کی دوڑے لگ جاتی ہیں۔ ہر دو چار مہینے بعد وزرا کی امریکا آنیاں جانیاں لگی ہوتی ہیں، یوں گماں ہوتا ہے شاید ان کا سیاسی قبلہ وہیں ہے۔ ہر بار وہی لمبی لمبی فہرستیں حافظ سعید کو نظر بند کرو، ایف آئی ایف کے اثاثے منجمد کرو تو حقانی نیٹ ورک کو صفحہ ہستی سے مٹاو۔
وزیر خارجہ نے خوب کہا ”امریکا نے ہر مشکل میں دھوکا دیا ہے“۔ خواجہ آصف کی بات مبنی بر حقائق ہے جس سے ذی عقل و شعور نظریں نہیں چراسکتا۔ ہم نے 1959ءمیں بڈبیر (پشاور) کا ہوائی اڈا دیا، جہاں سے امریکی ہوائی جہاز روس کی جاسوسی کے لئے جاتے تھے لیکن بدلے میں کیا ملا؟ 1965ءمیں فوجی امداد بندش یہاں تک کہ پرزہ جات تک دینے سے انکار کردیا گیا یہ صلہ ہے تعاون باہمی کا؟
چلیے چھوڑیئے! اتنی نازک حالت میں ساتھ چھوڑ جانے کے باوجود پاکستان کا وزن امریکی پلڑے میں رہا۔ 1979ءتا 1989ءمیں توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر نہتے افغانوں پر حملہ آور ہوا۔ امریکا نے روس سے ویتنام کا بدلہ لینے کے لیے افغانیوں کی مدد کی جو اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ دوسری طرف پاکستان 30لاکھ افغانی بھائیوں کی پناہ گاہیں بنانے میں مصروف عمل تھا۔ روس منہ کی کھانے کے بعد شکست خوردہ حالت میں زخم چاٹتے ہوئے راہ فرار اختیار کی۔ افغانستان سرخ ریچھ کا قبرستان بنا۔ پاکستان جب اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد میں مصروف تھا تو امریکا نے پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیکر ایف 16 طیارے دینے سے انکار کردیا جبکہ پاکستان 66کروڑ ڈالر امریکا کو ادا کرچکا تھا۔
نائن الیون کے بعد امریکا براعظم ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانستان میں آن دھمکا۔ پاکستان نے بھرپور تعاون کیا۔ زمینی و فضائی راستے، ہوائی اڈے، فوجی و انٹیلی جنس مدد فراہم کی۔ بالآخر امریکا نے شکست کھائی اور اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی مذموم کوشش کی۔ ایک بار پھر ایف 16طیارے دینے سے انکار کردیا گیا۔ الزامات و بہتان طرازیوں کے طومار باندھ دیے گئے، ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مصداق اپنی شکست کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرایا جانے لگا۔ پاکستان اپنے جوانوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ، 23 ارب ڈالر اس جنگ کی نظر کردیے۔ الزام تراشیوں کا سیلاب ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ 2018ءکی صبح ایک صبح خبطی بوڑھا، فاترالعقل جسے عالمی آداب کو سفارتی اخلاقیات دے نابلد ہے۔ اٹھتے ہی ٹوئٹ کرتا ہے ”ہمیں بے وقوف بنایا گیا مزید بے وقوف نہیں بنیں گے“۔ ٹرمپ جو کہ انتہائی لالچی، خوش فہم اور شیطانی طبیعت کا مالک ہے۔
جس کے بارے میں نیویارک ٹائمز لکھتا ہے: ”صدر ٹرمپ ذہنی مریض ہیں اور اب ان کے قریبی ساتھیوں نے بھی مان لیا ہے کہ انکی حالت عام انسانوں والی نہیں ہے“۔
وہ لوگ پاکستان کو امداد کی بحالی کے لیے دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاو ¿ن کا درس دے رہے ہیں جو گریٹر اسرائیل اور داعش جیسی بدنام زمانہ تنظیموں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یاللعجب
بقول شاعر
کتاب سادہ رہے گی کب تک
کبھی تو آغاز باب ہوگا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی
کبھی تو انکا حساب ہوگا