ڈگری بولڈرز

سری لنکا کے شہر کینڈی میں ہاتھیوں کا سب سے بڑا یتیم خانہ ہے ۔ یہاں بچپن میں ہی یتیم ہوجانے والے ہاتھیوں کی پرورش کی جاتی ہے  اور ان کو سدھایا جاتا ہے تاکہ وہ بعد میں اپنے مالکوں کے کام آسکیں ۔ ان کو سدھانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاؤں میں بچپن سے ہی بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں  ۔ وہ جیسے ہی کہیں بھاگنے یا آنے جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بیڑیاں ان کے لئیے رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔  پھر جب وہ لحیم شحیم زور دار ہاتھی بن جاتے ہیں تب ان کی بیڑیاں کھول دی جاتی ہیں  لیکن بچپن میں ڈالی گئیں وہ بیڑیاں اب ان کے دماغوں کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں ان کو لگتا ہے کہ اب بھی ہمارے پیروں میں بیڑیاں ہیں اور ہم چاہ کر بھی انھیں نہیں کھول سکتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہاتھی کے بچے کے پیروں میں پڑی بیڑیوں سے کم نہیں ہے  اور یہ بیڑیاں پہلے ہی دن سے ہمارے پاؤں میں نہیں دماغوں میں ڈالی جاتی ہیں ۔ ان بیڑیوں کا نام ہوتا ہے  ” اچھا پڑھوگے تو اچھا کماؤ گے ”  ۔ جب ہم ہوش سنبھالتے ہیں تو ایک دوڑ لگی ہوتی ہے ۔ہر کوئی اس دوڑ کا شریک ہوتا ہے اور سب کی زبان پر ایک ہی ” ورد ” ہوتا ہے ” اچھا پڑھوگے تو اچھا کماؤ گے ” ۔ بچے اپنا تن ، من ، دھن سب کچھ اسکول میں اچھے گریڈز کے لئیے داؤ پر لگادیتے ہیں ۔ جب وہ کالج میں پہنچتے ہیں تو پھر ہر طرف سے ان کی بیڑیاں کھینچی جاتی ہیں کہ ” اچھا پڑھوگے تو اچھا کماؤ گے ” ۔ وہ یونیورسٹی میں جاتے ہیں اور چار ، پانچ سالوں تک پھر وہی کرتے ہیں جو پچھلے بارہ ، تیرہ سالوں سے کرتے آئے تھے ۔ اور یہ دوڑ پچھلی دوڑ سے زیادہ شدید ہوتی ہے  لیکن اب  اس دوڑ کا نام تبدیل ہوجاتا ہے ۔ “ابھی  پڑھ لوگے تو لائف سیٹ ہوجائے گی ” ۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے ہم اپنی ” لائف سیٹ ” کرنے کے لئیے دن رات ایک کردیتے ہیں ۔ جس دن ڈگری ملتی ہے لگتا ہے چاند پر قدم رکھ دیا ہے ۔ اور اس کے بعد ایک ” معصوم ” سی نوکری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں مقدر بنتا ہے ۔ اس وقت ہم پچھلی بیڑیوں کو بھول کر مزید دو بیڑیاں اپنے دماغوں پر خود سے ڈالتے ہیں ۔ پہلی بیڑی کا نام ہوتا ہے                 ” خوٖ ف ”  اور دوسری کا نام ہوتا ہے ” خواہشات ” ۔ ہمارا ہر آنے والا لمحہ ہمیں “خوف زدہ” کرتا ہے کہ ہماری ” خواہشات ” کیسے پوری ہونگیں ۔ اور پھر ہم زندگی بھر  جہاں کہیں بھی دو ہزار اور چار ہزار روپے  اوپر کی نوکری ہمیں  ملتی ہے ہم کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ ہر آنے والا روپیہ میری “خواہشات ” اور ” لالچ ” کے پہاڑ کو مزید بلند کرنے کا کام کرنے لگتا ہے ۔  ہم اس کو ” جاب سیکیورٹی ” کا نام دیتے ہیں ۔ کیونکہ اب ہم آسائشوں ، عیاشیوں اور عیش کوشی کی بیڑیوں میں اتنی بری طرح پھنس چکے ہوتے ہیں کہ ہمیں سوچ کر ہی خوف آںے لگتا ہے کہ اب میری ” لگژریز ” کا کیا ہوگا ؟ آپ کمال دیکھیں ہم اشرف المخلوقات ہیں ہمارے پاس دماغ جیسی عظیم الشان نعمت ہے اور ہم ساری زندگی اپنے جذبات ( خوف اور لالچ ) کو دماغ سے کنٹرول کرنے کے بجائے  دماغ کو ہی جذبات کے ہاتھوں یرغمال بنائے رکھتے ہیں ۔ اس کی مثال گدھے کی سی ہے ۔ گدھے سے زیادہ کام لینے کے لئیے اسکا مالک گدھے کے آگے ایک گاجر لٹکا دیتا ہے ۔ گدھا اس گاجر کے چکر میں مالک کے سارے کام کرتا رہتا ہے ۔ دن بھر مالک اپنی مرضی کے کام لیتا ہے اور گدھا صرف اس گاجر کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ۔ روزانہ صرف ایک ” گاجر ” گدھے سے سب کچھ کروالیتی ہے بلکہ اس کو لگنے لگتا ہے کہ میری زندگی کا ” مقصد ” ہی یہ گاجر ہے ۔ ہم صبح 9 بجے سے لے کر 6 بجے تک ، کبھی شفٹوں میں اور کبھی صبح سے لے کر رات تک روز وہ وہ کام کرتے ہیں کہ جس کو کرنے کو ہمارا دل تو کیا ہوگا  ، ہم نے کبھی شاید سوچا بھی نہیں ہوتا ۔ ہم اپنی عزت ، اپنی خوشی ، اپنا سکون اور اطمینان ” گاجر ” کی خاطر گروی رکھوادیتے ہیں ۔ ساری زندگی ، دن کے چوبیس گھنٹے آپ کو اپنی مرضی کا سوچنے پر پابندی ہے اور اگر سوچ لو تو کرنے پر پابندی۔ نہ آپ کی سوچیں آزاد اور نہ ہی آپ کا جسم آزاد نہ ہی دل اور نہ دماغ آزاد بس ہر وقت کی غلامی ۔ لیکن  لائف ” سیٹ ” ہوتی ہے ۔ یہ اندھا کنواں ہے اس میں بظاہر جو جتنا اوپر نظر آتا ہے وہ اتنا ہی نیچے جا چکا ہے ۔اور مرتے وقت ایک ٹھنڈی ” آہ ” اور ” کاش ” کا لفظ اس کا مقدر ہوتا ہے ۔ آپ کبھی جائزہ لے لیں لوگ تڑپ تڑپ کر جس نوکری کو حاصل کرتے ہیں اس سے زیادہ عزیز ان کو اپنی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہارٹ اٹیکس پیر کے دن صبح 8 سے 12 بجے کے درمیان ہوتے ہیں ۔ کیونکہ اب پورا ہفتہ لوگوں نے وہ کام کرنے ہوتے ہیں جن کے لئیے نہ انکا دماغ تیار ہوتا ہے اور نہ ہی دل ۔ اقبال نے کہا تھا ،

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

اب انڈسٹری  اور فیکٹری کا زمانہ لد چکا ہے جب ” سیٹھ ” کو اپنی مشینیں چلانے کے لئیے دو ہاتھ اور دو پاؤں والے خاموش غلام چاہئیے ہوتے تھے ۔ جو ” چپ چاپ ” بس کام کئیے جائیں ۔ جہاں کامیابی کی واحد ضمانت ” تجربہ ” ہوا کرتا تھا ۔ یہ دنیا اب ” شوق ” کی دنیا ہے ۔ کیونکہ جو آپکا شوق ہوگا اسی میں آپ کی تخلیق ، تحقیق اور جستجو کی صلاحیتیں بڑھینگی ۔ پھر آپ 9 سال کی عمر میں ارفع کریم رندھاوا بن سکتے ہیں ، آپ 6 سال کی عمر میں محمد عیان کی طرح مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ہوسکتے ہیں ۔ آپ راولپنڈی کے محمد حارث کی طرح 9سال کی عمر میں کیمبرج کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ سکتے ہیں اور 11 سال کی عمر میں پشاور کے حماد صافی کی طرح موٹیویشنل اسپیکر بن سکتے ہیں ۔ اور دوسری طرف ہمارے نوجوان ابھی تک ایک کے بعد ایک کورس اور ایک کے بعد ایک ڈگری اس ” گاجر ” کے چکر میں حاصل کئیے جارہے ہیں ۔  کوئی انھیں سمجھائے کہ اگر  ڈگری سے رزق ملتا تو جانور اور ان پڑھ بھوکے  مرجاتے ۔ جو  کام آپ بغیر رکے ، بغیر تھکے اور بغیر بور ہوئے پیسوں سے بے پرواہ ہو کر روزانہ 12 گھنٹے کر سکتے ہیں بس وہی آپ کا شوق ہے ۔ اور جب آپ اپنے شوق سے سے کام کرتے ہیں تو ہر دن آپ کو چھٹی لگتی ہے  اور چھٹی کا دن بھی کام کا لگنے لگتا ہے ۔ پھر آ پ کو کام میں مزہ آںے لگتا ہے ، اپنا ہر ہر لمحہ قیمتی محسوس ہوتا ہے ۔ تحقیق ، تخلیق اور جستجو کے سارے دروازے ایک ایک کر کے آپ پر کھلنے لگتے ہیں ۔ انسان بڑا تب بنتا ہے جب اس کی سوچ بڑی ہوجاتی ۔ ورنہ آپ کو  اس دنیا میں بہت ” بڑے بڑے ” بونے بھی نظر آیئنگے ۔ آپ ڈگری ضرور حاصل کریں ، کورسسز بھی کریں لیکن پہلے خود سے تین سوال ضرور پوچھ لیں ۔

1-  آپ دنیا میں کیوں آئے ہیں ؟

2- جس مقصد کے لئیے آئے ہیں کیا وہ پورا ہوگیا ؟

3- آپ کی ذات کی اس دنیا میں قیمت یا اہمیت کیا ہے ؟

 اگر تو ان سوالات کے جوابات آپ کو مل گئے ہیں تو ڈگری پر ڈگری اور کورس پر کورس ضرور کئیے جائیں ۔ امام مالک نے فرمایا تھا ” انسان کی پیدائش کے دو دن ہوتے ہیں ایک دن وہ جب وہ دنیا میں آتا ہے اور دوسرا وہ جب وہ جان لیتا ہے کہ میں دنیا میں کیوں آیا ہوں ؟ ” اگر آپ کی ” دوسری پیدائش ” ابھی تک نہیں ہوئی ہے اور آپ کے پاس ڈگری بھی ہے تو پھر آپ ڈگری ہولڈر نہیں ” ڈگری بولڈر ” ہیں ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں