گارڈ کی حکومت

اس ملک پر درحقیقت نہ تو نواز شریف کی حکومت ہے نہ کسی امریکی پٹھو کی،اصل حکومت گارڈ کی ہے، سیکورٹی گارڈ کی۔

عام قاعدے کے مطابق ،حاکم اسی کو سمجھا جاتا ہے جس کا حکم ہر ایک کو ماننا پڑے، جس کے حکم سے انحراف ممکن نہ ہو، اس قاعدے کی رُو سے ہمارا روزمرہ کا حاکم سیکورٹی گارڈ ہے، جس کی مرضی کے خلاف آپ نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔

آپ کسی بھی جگہ  چلے جائیں: اپنے دفتر، کسی اور کے دفتر، سرکاری دفاتر ، رہائشی پلازا، بینک، پارکنگ ایریا، ہوٹل، بازار، اسکول، کالج، یونیورسٹی، اسپتال، شادی ہال، اسٹیڈیم وغیرہ، آپ چاہیں یا نہ چاہیں، سب سے پہلے سامنا جس شخصیت سے ہوگا وہ سیکورٹی گارڈ ہی کی ہوگی۔اب یہ اُس کے مُوڈ اور مزاج پر منحصر ہے کہ آپ کی بے عزتی آج کرے، یا کسی اور دن کے لیے ملتوی کر دے۔  بے عزتی کے لیول کا انحصار بھی آپ کی غلطی پر نہیں ہوتا بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ سیکورٹی گارڈ کے گھریلو حالات، مالی حالات اور ملازمتی حالات کس طرح کے  چل رہے ہیں۔

بہت سے لوگ سیکورٹی گارڈوں کی حمایت میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی جان پر کھیل کر ہماری حفاظت کرتے ہیں، ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ یقیناً بعض سیکورٹی گارڈ  ہماری اور ہماری املاک کی حفاظت کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی جان بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں، لیکن اُنہیں یہ حق تو کسی نے نہیں دیا کہ وہ (اس شعبے میں نہ آنے والوں کی) عظیم اکثریت کو اپنی وردی اور بندوق کے زور پر کنٹرول کرنے لگیں، اور سیکورٹی کے نام پر من مانی کریں، عام اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کریں، لوگوں کو حقوق سے محروم کریں۔ جن جگہوں پر عام لوگ قطار کے اصول پر عمل کر رہے ہوں وہاں سیکورٹی گارڈ کا یہ کام تو نہیں کہ قطار توڑ کر خود لگ جائے یا اپنے دوست کو باری دلائے، اور قطار میں لگے عام لوگ اس پر اعتراض کریں تو یہی گارڈ انہیں ڈرائے، دھمکائے۔

نائن الیون کے بعد پاکستان میں (اور بقیہ دنیا میں بھی) سب سے زیادہ ترقی سیکورٹی ہی کے شعبے میں ہوئی ہے۔ ایک معمولی شعبہ دیکھتے ہی دیکھتے اربوں کھربوں روپے کے شعبے میں بدل گیا جو تیز رفتار ترقی کرتا جا رہا ہے۔یہ دراصل خوف کی تجارت ہے جس کا بادشاہ امریکہ بہادر اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے چیلے ہیں۔ نائن الیون کی دہشت کی برکت سے ہمارے یہاں بھی بے روزگاروں کو خوب روزگار ملا، سیکورٹی آلات بنانے، بیچنے، مرمت کرنےوالوں کی خوب چاندی ہوئی، نت نئی سیکورٹی مصنوعات کی طلب بڑھی اور یہ صنعت دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ سیکورٹی انتظامات کے نام پر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا گیا۔ ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی۔ یوں سمجھے ایک غیر اعلانیہ ’مارشل لا آرڈر‘ہر سیکورٹی گارڈ کی جیب میں ہر وقت موجود رہتا ہے، وہ جب چاہے، جس طرح چاہے، جس پر چاہے، اس آرڈر کا اطلاق کر سکتا ہے، اسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، وہ بھی نہیں کرسکتا جس نے اس گارڈ کو نوکری پر رکھا ہے۔

آپ جس مکان کو دیکھیں، لوہے کی جالیوں سے گھرا ہے، اور پنجرہ معلوم ہوتا ہے۔یہ افسوس ناک ہے کہ جس فولاد کا تعمیری اور تعمیراتی استعمال ہونا تھا تاکہ اس سے طرح طرح کی مشینیں، اوزار، آلات، گاڑیاں، مکان، دکان وغیرہ بنیں اور لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنیں وہ فولاد کہیں گِرل بن کر گھروں کی حفاظت پر لگ گیا، کہیں اس سے بڑے بڑے گیٹ بنا لیے گئے اور گلی محلّوں کے راستوں پر لگا کر انہیں بند کر دیا گیا، کہیں بنگلوں کو فولادی قلعوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ سب سیکورٹی کی ضروریات کے نام پر ہوا ہے۔

انسانی طبیعت کے نقطۂ نظر سے سوچیں تو سیکورٹی گارڈز کی حالت بھی قابلِ رحم ہے۔ تصور کریں کہ گارڈ کسی الگ تھلگ جگہ پر گھنٹوں ڈیوٹی دے رہا ہے، اسے کسی انسان سے ہم کلامی کا موقع نہیں مل رہا، ڈیوٹی جو دراصل فرصت ہے، اُس فرصت کے طویل لمحات مزاج میں اکتاہٹ لے آتے ہیں، یہ اکتاہٹ جلد ہی جھنجھلاہٹ میں بدل جاتی ہے، جھنجھلاہٹ مٹانے کے لیے ایڈونچر کو دل چاہنے لگتا ہے۔ اکثر و بیشتر اس ایڈونچر کا نشانہ وہ عام آدمی بن جاتا ہے جو بے چارہ کہیں جانے کے لیے نکلا ہے، کہیں اسے فارم جمع کرانا ہے، کہیں اسے کسی سےملاقات کرنی ہے، کہیں اسے اپنا علاج کرانا ہے۔ اب یہ سیکورٹی گارڈ صاحب اپنی اکتاہٹ مٹانے کے لیے اسے طرح طرح سے تنگ کر رہے ہیں، شناخت کرانے کو کہہ رہے ہیں، فلاں کارڈ یا دستاویز طلب کر رہے ہیں جو گارڈ کا استحقاق نہیں، اور یہیں سے تلخی کا آغاز ہوتا ہے۔

1980ء کے عشرے میں کراچی میں لسانی عصبیت پھیلنے کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ ٹرانسپورٹروں کا وہ رویہ بھی تھا جو وہ عام لوگوں خصوصاً مقامی لوگوں کے ساتھ رکھتے تھے۔ اُن کی بدتمیزیوں کو مسافر مرد اور خواتین نظرانداز یا برداشت کر لیتے تھے، لیکن یہ بدتمیزیاں لوگوں کے دل میں لاوا پکا رہی تھیں اور ایک دن یہ لاوا بغیر کوئی اطلاع دیے اچانک پھٹ پڑا، اُن لاکھوں بدتمیزیوں کے بدلے میں ہزاروں انسان ہلاک ہوگئے اور اس کے نتیجے میں آج تک کراچی زخم زخم ہے۔

سیکورٹی گارڈوں کے عام رویے سے لوگ تنگ ہیں اور تلخی محسوس کرتے ہیں، لیکن کچھ کر نہیں سکتے، بس تلملا کر رہ جاتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کسی روز یہ تلخیاں بڑھتے بڑھتے کسی اور دھماکے کا سبب نہ بن جائیں۔  بقول شاہنوار فاروقی کے،

بکھرنے سے بہت پہلے جسے کچھ بھی نہیں کہتے

بکھرنے سے ذرا پہلے اُسے شیرازہ کہتے ہیں

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں