روئے زمین پر ہوا،پانی اور غذا کی طرح تعلیم بھی انسانی زندگی کے لئے بے حد اہم ہے۔تعلیم کے ذریعے انسان معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے لائق ہوتا ہے۔اکتساب اور آموزش میں ماحول کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔تعلیمی اداروں(اسکولس) کا طلبہ کی نفسیات پر بہت گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔طلبہ کی شخصیت کی تعمیر میٖں اسکول کا ماحول،اساتذہ کا رویہ اور نصاب تعلیم اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ طلبہ میں اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اسکول اور بالخصوص کمرۂ جماعت کا اکتسابی ماحول کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔بڑی حد تک طلبہ کی اکتسابی کامیابی کا دارومدار کمرۂ جماعت کے تعلیمی ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔درس و تدریس کے جذبے سے سرشاراساتذہ،موثر اکتساب کے فروغ کے لئے کمرۂ جماعت کے اکتسابی ماحول کو اپنے تبحر علمی،تدریسی تجربات اور مہارتوں کے ذریعے پرکیف اور زندہ بنادیتے ہیں۔ اکثر اساتذہ اور ،ذمہ داران مدارس تعلیمی نصاب کی تکمیل کے تعاقب میں کمرۂ جماعت کے اکتسابی ماحول کو زندہ،دلچسپ اور تخلیقیت سے بھر پور بنانے میں بہت کم وقت صرف کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے ایک کارآمد اور کامیاب اکتساب پروان چڑھنے سے قاصر رہتا ہے۔کمرۂ جماعت میں بہتر اور مثالی اکتسابی ماحول کی عدم موجودگی کے باعث طلبہ بے چینی ، اضطراب اور عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اکتسابی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں۔کمرۂ جماعت کے غیر آرام دہ، غیر فطر ی اور غیر اکتسابی ماحول کی وجہ سے طلبہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ان میں اکتساب کی نمو و شرح گرنے لگتی ہے۔کمرۂ جماعت کا غیر اکتسابی ماحول طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھنے نہیں دیتا ۔کمرۂ جماعت کا غیر فطری ماحول طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کی نمومیں تحدیدی کردار ادا کرتا ہے۔جب طلبہ کمرۂ جماعت کے ماحول کو غیر آرام دہ اور غیر دلچسپ محسوس کرنے لگتے ہیں تب انھیں اکتساب کی جانب گامزن رکھنے والا ان کا فطری تجسس ختم ہوجاتا ہے اور تحریک و رغبت کا جذبہ بھی سرد پڑجاتا ہے۔اپنے پیشے سے لگاؤ رکھنے والا استادسازگار اکتسابی ماحول کے زیر اثربہتر تدریسی مواد اور طلبہ کے درمیان ربط باہم پیدا کرتے ہوئے زندگی بھر جاری رہنے والے اکتساب کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔
تعلیمی شعبے کے سب سے بڑے شراکت دار (Stake Holder) طلبہ ہوتے ہیں۔لیکن تعلیمی شعبے میں سب سے زیادہ نظرانداز کئے جانے والے بھی طلبہ ہی ہیں۔ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ کے میلانات ،رجحانات ،مزاج اور تعلیمی و اکتسابی ضرورتوں کا کوئی خاص خیال نہیں رکھاجاتا۔شرارتی اور سست روطلبہ کے لئے ہمارے اسکولوں کا دامن نہایت ہی تنگ ہے بلکہ ہماراتعلیمی نظام ایسے طلبہ کو قبول کرنے تک کا متحمل نہیں ہے۔ہمارے اسکولوں کا ذہانت اور پھسڈی پن پر مبنی طلبہ کی تقسیم کا کلیہ نہایت ہی ظالمانہ معلوم ہوتا ہے۔پڑھنے لکھنے میں خاص طور پر ریاضی میں مہارت کے حامل طالب علم کو ذہین قرار دیا جاتا ہے جب کہ ریاضی کے برخلاف دیگر مضامین میں قابلیت کے حامل ،لکھنے پڑھنے میں کسی قدر کمزور طالب علم کو کند ذہن کہاجاتا ہے۔ذہانت کی تعریف کا یہ کلیہ اپنی تنگ نظری کے باعث ماہرین تعلیم کے نزدیک آج تکقبولیت کادرجہ حاصل نہیں کر سکا۔ہمارے اسکول اور کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب ایسی ہوتی ہے جہاں دل کش و پرکیف اکتساب اور موثر درس و تدریس بہت ہی مشکل ہے۔ موثر اکتساب کی فراہمی آج اساتذہ کی ترجیح اس لئے بھی نہیں رہی کہ طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کا پیمانہ نمبر اور گریڈبن گئے ہیں۔اسکول اور کمرۂ جماعت کا ماحول موثر اکتساب اور تخلیقی جذبے کو پروان چڑھانے میں مانع ہے۔کمرۂ جماعت کا بھدا،بھونڈا اور بے رونق پیڑن (ترتیب ) پراثر و پر کیف تعلیمی ماحولپیدا کرنے میں یکسر ناکام ہوگیا ہے۔
اسکولز تعلیم و تربیت اور درس واکتساب کی فراہمی کے دعویدار ادارے ہیں اسی لئے ان پر بچوں کی ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت ، ترسیل علم و اکتساب میں اسکول خاص طور پر کمرۂ جماعت کا بڑا عمل دخل ہوتاہے۔ا سکول کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون اکتسابی ماحول کو اپنے ادار ے اور ہر کمرۂ جماعت کا لازمی حصہ بنائیں۔ذمہ داران و منتظمین مدارس اسکول اور کمرۂ جماعت کے ماحول کو طلبہ کی فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے اقدامات کریں۔اکتساب کی شرح ہر طالب علم میں کم اور زیادہ پائی جاتی ہے اور اکتساب کا راست تعلق ماحول ،اساتذہ اور تدریسی مواد سے جڑا ہوتا ہے۔غیرتعلیمی ماحول میں طلبہ اپنے اکتساب کو برقرار نہیں رکھ پاتے ۔طلبہ میں اکتساب کی برقراری کے لئے سب سے پہلے اسکول اور کمرۂ جماعت کے ماحول کو دلچسپ اور تخلیقی نوعیت کا بنانا ضروری ہوتا ہے۔ موثر کارآمد اور نتیجہ خیز اکتساب کے لئے کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ دوست ہونا چاہئے جہاں طلبہ بلا خوف و خطراپنے اکتساب کو پروان چڑھا سکیں۔ طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت کی چند خصوصیات کو ذیل میں پیش کیا گیا ہے جو موثر اکتساب کے فروغ میں نہایت کارگرثابت ہوئی ہیں۔
(1 کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ میں اکتساب سے رغبت و تحریک پیدا کرنے کے ساتھ اکتساب کو دلچسپ اور پرکیف بنادیتا ہے۔طلبہ اکتسا ب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(2)کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ میں ایسی اکتسابی مہارتوں کے فروغ کا باعث بنتا ہے جس کے زیر اثر اکتساب (سیکھنا ) ان کے لئے آسان اور نہایت ہی مسرت انگیز عملبن جاتا ہے۔
(3) طلبہ مرکوزکمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کو اکتسابی (سیکھنے)وقت کی قدردانی کا خوگر بناتا ہے۔کمرۂ جماعت کا صحت مند تدریسی ماحول طلبہ کو اکستابی اوقات کونفع بخش اور کارآمد بنانے پر مائل کرتا ہے۔
(4)طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت طلبہ میں اکتساب( سیکھنے) کا احساس پیدا کرتے ہوئے انھیں سخت محنت اور اطمینان بخش تجربات کی روشنی میں اکتساب کو جاری رکھنے کی ترغیب فراہم کرتا ہے۔
(5)طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت طلبہ کو اپنے تدریسی مواد کو ایک دوسرے سے شیئرکر تے ہوئے اجتماعی اکتساب( مل جھل کر سیکھنے)کا جذبہ و تحریک پیدا کرتا ہے۔
(6) مرۂ جماعت کا ماحول کنٹرول نظم و ضبط کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں احساس تحفظ و طمانیت کی کیفیت پروان چڑھتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوران اکتساب آزادانہ طور پر سوال و جواب اور گفت و شنید کی روش اختیار کرنے لگتے ہیں۔
(7)کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کو درس و اکتساب میں فعال شمولیت کا موقع فراہم کرنے علاوہ مقرر کردہ اہداف کی سمت پیش قدمی اور ان کے حصول کو یقینی بناتا ہے۔
طلبہ میں اکتساب و ان کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اساتذہ اپنا قیمتی وقت نکالیں ، منصوبہ بندی اور حکمت عملیاں وضع کریں تاکہ ایک جامع موثر اور جاندار کمرۂ جماعت کو وجود میں لاسکیں۔ذیل میں چند ایسی تدابیر بیان کی جارہی ہیں جنھیں اپنا کر اساتذ ہ کمرۂ جماعت میں درس و تدریس کے لئے ساز گار اور کمرۂ جماعت میں اکتساب کے لئے مددگار ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔
(1)اساتذ ہ طلبہ سے ایسا تعلق رکھیں جو ان میں اعتماد کی فضا پیدا کرے اور ان کے حوصلوں کو جلادے۔اساتذہ کا یہ عمل طلبہ میں نہ صرف ان کی توقیر و عزت افزائی کا باعث بنے گا بلکہ وہ استاد کے درس اور پند
و نصائح کو کان لگاکر سنیں گے اور عمل کرنے پر مائل ہوں گے۔
(2)منصوبہ بندی، فیصلہ سازی اور پروگرامس پر عمل آوری میں تمام طلبہ کی فعال شرکت کو اساتذہ یقینی بنائیں۔طلبہ کی آرا و تجاویز کی قدردانی سے نہ صرف وہ گرم جوشی سے تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے بلکہ ان کے برتاؤ اور اخلاق میں خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوں گی اور کمرۂ جماعت میں وہ تخلیقی اور اختراعی آرا کی پیش کش میں تذبذ ب کا شکار نہیں ہوں گے۔
(3)طلبہ کو ان کے بہتر اکتساب کے لئے شعوری طور پر غور و فکر کرنے اور اکتسابی صلاحیتوں کو مہمیزکرنے والی مہارتوں کو سیکھنے کا گر سکھائیں تاکہ طلبہ کمرۂ جماعت میں بہترین اکتسا ب و تعلیم کو حاصل کرسکیں۔
(4)دوران تدریس طلبہ کو ان کی تعلیمی ترقی کے مظاہرہ کا موقع فراہم کریں۔اساتذہ کی جانب سے دوران تدریس طلبہ کی تعلیمی و اکتسابی ترقی کے اظہار کے لئے فراہم کردہ موقعوں سے طلبہ نہ صرف اپنی ترقی اور تعلیمی حالت سے واقف رہتے ہیں بلکہ اعلیٰ اہداف کے تعین میں انھیں مدد بھی ملتی ہے۔
(5)طلبہ میں پائے جانے والے انفرادی اکتسابی تفاوت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اساتذہ ایسے تدابیر اختیار کریں جو طلبہ کی اکتسابی ضرورتو ں کی تکمیل میں معاون ہونے کہ ساتھ لچکدار ہو ں اور مختلف النوع تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کو ممکنبنا سکیں۔ طلبہ میں پائے جانے والے انفرادی تفاوت و تعلیمی صلاحیتوں کے حساب سے ان کی اکتسابی ضرروتوں کی تکمیل کی جاسکے۔
(6)طلبہ کو ذہنی طور پر نظم و ضبط کا عادی بنائیں تاکہ ان کے برتاؤ اور رویوں سے شائشتہ اور مہذب پن ظاہر ہو۔سماجی اقدار کے فروغ کے باعث طلبہ دوسروں کی قدر اور فکرمندی کے عادی ہوجاتے ہیں۔طلبہ میں تفریق پیدا کرنے والے عوامل و عناصر سے پرہیز کریں۔صرف مسابقتی جذبے کے فروغ کے لئے بچوں میں صحت مند مسابقت کو رواج دیں تاکہ ان کے مظاہروں میں بہتری پیدا کی جاسکے۔
(7)طلبہ کے اکتسابی جذبے کو فروغ دینے کے لئے ان کو مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں شریک ہونے پر ابھاریں۔طلبہ کو کمرۂ جماعت میں تدریسی سرگرمیوں کی انجا م دہی کے دوران ان کو اپنا تعاون تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی ترغیب و تحریک کے ساتھ مناسب مواقع بھی فراہم کریں۔
(8)طلبہ کی نشستوں کو اس طرح ترتیب دیں کہ انھیں سیکھنے ،دیکھنے اور اپنا جواب و ردعمل پیش کرنے میں کوئی دقت نہ پیش آئے۔نشستوں کی ترتیب نہ صرف طلبہ کو آرام فراہم کرتی ہے بلکہ اکتساب کی نمو میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
(9)اساتذہ اپنے درس و تدریس اور منصوبہ سبق کو موثر اور دلچسپ بنائیں۔اساتذہ کی جانب سے استعمال کردہ طریقے تدریس اور تخلیقی و اختراعی تکنیک طلبہ میں اکتساب کے فروغ اور دلچسپی کی برقراری میں نہایت مددگار ثابت ہوتی ہے۔خشک اور طلبہ کو افتادگی کی جانب مائل کرنے والے طریقے تدریس سے اجتناب کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
(10)اساتذہ طلبہ کی ہر مثبت سرگرمی کی ستائش کرتے ہوئے ان میں تحریک و رغبت کو پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔طلبہ کی تعریف ستائش سے ان میں احساس طمانیت پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی اکتسابی سرگرمیوں کو اور تیز کردیتے ہیں۔ استاد کاطلبہ کے بارے میں اپنی فکر مندی کا اظہار بھی ان میں تحریک و جذبہ پیدا کرتا ہے۔
(11)ہر طالب علم کو مخصوص تعلیمی سرگرمیاں تفویض کرتے ہوئے ان کے تعلیمی و اکتسابی مظاہرے کو مہمیز کیا جاسکتا ہے۔طلبہ کی تعلیمی و اکتسابی سرگرمیوں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی سے وہ اپنے نقائص پر قابو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اکتساب کے بہتر طریقے اختیارکرنے لگتے ہیں۔
(12)استاد کی جانب سے کسی بھی قسم کی جانب داری اور طرفداری کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ اساتذہ اپنے برتاؤ اور رویوں سے طلبہ میں مساوات اور برابری کے جذبے کو فروغ دیں۔
(13) طلبہ میں ایک دوسری کی مدد اور اشتراک سے جذبہ اکتساب کو فروغ دینے کی اساتذہ کوشش کریں۔خود غرضی اور مفاد پرستی کی خرابیوں کو اجاگر کریں۔جذبہ اتحاد باہمی اور تعاون کے فروغ کے لیئے طلبہ کو راغب کریں۔اساتذہ طلبہ میں گروہی سرگرمیوں کے ذریعہ اجتماعی اور مشترکہ اکتسابی ماحول کو فروغ دیں۔
اساتذہ ہر پل یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے۔اگر نئی نسل تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہوگی تب دنیا اسے روند کر گزر جائے گئی۔زمانے میں عزت و وقار کے لئے طلبہ کو علم و ہنر سے آراستہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر طالب علم کے اکتساب کی شرح دوسرے طالب علم سے مختلف اور جداگانہ ہوتی ہے۔طلبہ میں پائے جانے والے تفاوت و تفریق کا لحاظ کرتے ہوئے اساتذہ اور منتظمین مدارس تدریسی سرگرمیوں کی انجام دہی کو ممکن بنائیں۔ اساتذہ معاشرے کے فریم کو گزند پہنچائے بغیر طلبہ کو زندگی بسر کرنے کے گر سکھائیں۔ دنیا کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی اپنی سرگرمیوں اور زندگی گزارنے کی تعلیم و تربیت نہ صرف طلبہ بلکہ معاشرے کے لئے سود مند ہوتی ہے۔ طلبہ کی شخصیت کی تعمیر اورمعاشرے کی تعمیر و ترقی میں یہ حکمت عملی و اصول نہایت کارگر تصور کیا جاتا ہے۔دنیا کے فریم ورک کے احترام سے معاشرہ بھی صحت مند خطوط پر گامزن رہتا ہے۔اساتذہ مروجہ نظام تعلیم کی قباحتوں اور خرابیوں پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔وسائل کی کمی اور تنگی کا گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بچوں کی نفسیات اس بات کی غماز ہے کہ بچے ماحول سے بہت جلد مانوس ہوجاتے ہیں۔ذمہ داران مدارس اور اساتذہ طلبہ کو کمرۂ جماعت میں ایسا ماحول فراہم کریں جو انھیں خود کار اکتساب پر ابھارے سوال کرنے کی جسارت و جذبہ پیدا کرے۔کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کے جذبہ تجسس اور اکتساب کو مہمیز کرتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ پر بندش لگاتے ہیں،روکنے ٹوکنے لگ جاتے ہیں،سوالات کرنے سے باز رکھتے ہیں تب طلبہ کی تخلیقی صلاحیتں ماند پڑنے لگتی ہے اور سیکھنے کا جذبہ بھی کمرۂ جماعت کے غیر موافق ماحول کی وجہ سے دم توڑنے لگتا ہے۔طلبہ کی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے انھیں موافق ماحول فراہم کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔طلبہ کو ایسا اکتسابی و تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے جس کے زیر اثر ان کی اکتسابی اور تخلیقی صلاحیتں جلا پا سکے۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں طلبہ کو ایسی سرگرمیوں میں مصروف کریں جس کے ذریعہ نہ صرف خود کار اکتساب کی راہ ہموار ہو بلکہ ان کا تخلیقی ذہن بھی ترقی کرپائے۔والدین اور اساتذہ بچوں میں مطالعہ اور کام سے لگن پیدا کرنے کی سعی و جستجو کریں۔اسکول کے علاوہ گھر کاعمدہ ماحول بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردارانجام دیتا ہے۔ اسکول اور گھر بچوں کے منفی رویوں کو مثبت رویوں میں تبدیل کرنے والا صحت مند ماحول فراہم کریں۔اساتذہ والدین اور ذمہ داران مدارس و محکمہ تعلیم کے ارباب مجاز پر تعلیمی ماحول کی تبدیلی پر انحصار کرنے کے بجائے طلبہ کی اکتسابی وتخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اپنے سے جو کچھ ہوسکتا ہے کریں۔کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں ۔ کمرۂ جماعت میں نصاب ،درسی کتب اور امتحانات کو طلبہ کی تعلیمی تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ بنائیں اور اس میں لچک و ندرت پیدا کریں۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں ایسا اکتسابی ماحول پیدا کریں جوطلبہ کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہو۔ان کی اکستابی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتا ہوں ۔ طلبہ کی مختلف ذہنی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون ہو اورطلبہ کی تعلیمی ضرویات کی تکمیل کا متحمل ہو۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں اکتساب کے فروغ اور طلبہ کی شخصیت سازی کے لئے موافق ماحول کی تخلیق کو ممکن بنائیں۔کمرۂ جماعت کو بچوں کی خیالی دنیا کی طرح رنگین اور جاذب و دل کش ہونا چاہئے۔کمرۂ جماعت کا ماحول روکھا،پھیکا،ساکن و جامد اور بے کیف نہ ہو۔اساتذہ روایتی طریقے تدریس کے بجائے ایسے غیر روایتی تدریسی طریقوں کو اپنائے جو طلبہ کی فطرت سے مطابقت رکھتے ہوں اور ان میں اکتسابی دلچسپی پیدا کرتے ہوں۔اسکولز اور اساتذہ بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں اسی لئے ان پر زائد ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ وہ بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کمرۂ جماعت کا ماحول اور اکتسابی
حکمت عملیا ں وضع و اختیار کریں۔
اہم بلاگز
یومِ خواتین
ہم عورتوں کے غم میں گھلی جارہی ہیں ، کیا انہیں اس بات کا احساس ہے ؟ کوئی ہے جو انہیں احساس دلائے ؟ انہیں ان کی ذات کا شعور دے ؟۔
رویے ، معاملات، طریقے
حل کیا ہے ؟حل کہاں ہے؟
"اے اولاد آدم ہم نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا،وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری ہی عبادت کرنا ، یہی سیدھا رستہ ہے ۔تم سے پہلے وہ کئ نسلوں کو گمراہ کر چکا ہے ،کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟"(سورہ یٰسین )۔
ہمیں جن رشتوں میں بھی مرد سے اختلاف ہےوہ ہمارے اپنے رشتے ہیں ۔ ہم مرد عورت نے مل کر اپنے دشمن کے خلاف ایک ہونا ہے۔ اس کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ ماننے کا علم اور عمل چاہیے۔ ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا سلیبس لے کر صراط مستقیم پر چلنا چاہ رہے ہیں لہذا یہ فتنہ گھیرے رکھے گا ان رشتوں کو۔
ام سلمیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے عورتوں کی طرف سے سوال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ" مرد تو سارا اجر لے جاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان کے گھر ،بچے پالتی ہیں ،ہمیں کیا ملا؟ "جواب دینے والی ہستی (جس پہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ہروقت درود بھیجتے ہیں) نے فرمایا "اجر میں کوئی کمی نہیں ۔ اللہ کے ہاں تقویٰ کی اہمیت ہے۔ تم گھر رہتے ہوئے جہاد کا اجر پاؤ گی"۔
ہے کوئی دنیا میں ایسی تہذیب جو عورت کو گھر بٹھا کر عزت دے؟
سورہ نحل آیت 97 میں اللہ تعالی نے فرمایا خواہ مرد ہویا عورت ،اور ہو وہ مومن،اجر کا مستحق ہوگا۔"
لیکن ہمارا ذہن تو لڑائی جھگڑوں میں الجھا رہتا ہے۔ ہم اپنی ذات سے بے گانہ رہتی ہیں ۔ ہم غیر حاضر دماغی کے ساتھ عمل کر رہی ہیں۔ ہمارا اپنے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد نہیں ہے۔کاش میں لوگوں کو اتنا ہی سمجھا سکوں کہ وہ کتنا "رحیم" ہے۔ اس نے مجھ ابھی بھی رکھا ہوا ہے ۔
گھر کے کام پر اجر و ثواب۔ نیت کے باعث
ہم نیت کے بغیر ضائع ہو رہی ہیں
اپنے رویے اور اپنی نیت سے خود کو بے وقعت ہونے سے بچائیں۔ ہم ضرورت مند ہیں تو ہمیں مزاج کو اہمیت دینی ہے یا ضرورت کو؟ کیا ہمیں اپنی آخرت کی اتنی فکر ہے جتنی ان صحابیہ کو تھی؟
آئیں اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) کے گھر چلتے ہیں
ان کا گھر کیسا تھا ؟
کیا سامان تھا؟
شوہر کتنا وقت دیتے تھے ؟
کتنا خرچہ دیتے تھے؟
ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے خوش نہیں جب کہ اماں ہاجرہ(رضی اللہ عنہا) نے شوہر (مرد )کی اطاعت اور بیٹے (مرد) کی پرورش کی خاطر شہر آباد کر دیا۔ کیونکہ ان کے پاس ماننے کا علم اور تعلق میں مضبوطی تھی۔
اماں خدیجہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنی جان مال سب اپنے شوہر مرد کے مشن پہ قربان کر دیا کیونکہ ان کے دل و دماغ صاف تھے تو ایمان نے ان میں گھر کر لیا۔
کیسی بے مثل اولادیں پروان چڑھائیں انہوں نے
قیامت تک کے لیے...
حیا ! اسلامی شعار
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر ایک پھول ہے تو حیا اس کی خوشبو ہے ۔اور ہر انسان اپنی اسی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ہم جب بھی حیا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد صرف لباس میں حیا نہیں ہے بلکہ بصری، سمعی اور قلبی حیا بھی ہے۔ جہاں لباس میں حیا سے انکار ممکن نہیں وہیں بصری، سمعی اور قلبی حیا کے بنا حیا مکمل نہیں ۔
بصری حیا کا تعلق ہماری آنکھوں سے ہے،یعنی اپنی آنکھوں کا درست استعمال یا نظروں کی پاکیزگی۔ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ اس کی سوچوں کو متاثر کرتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان فحش اور بے حیائی پر مبنی مناظر یا تصاویر دیکھے اور پھر بھی اس کا دل و دماغ پاک اور تقویٰ سے بھر پور ہو،اسی طرح سمعی حیا کو اختیار نہ کیا جائے اور اللہ کو ناراض کر نے والی موسیقی یا ڈراموں کے ڈائیلاگ سنیں جائیں اور ہمارا دل ایمان کی حلاوت سے بھرا ہوا ہو، یہی کیفیت قلبی حیا سے متعلق ہے، ہمارا قلب غیر اللہ کے ذکر سے پر ہو یا فحش سے بھرا ہوا ہو اور ہمارا ظاہر حیادار ہو؟
حیا کا تصور آتے ہی حجابی خواتین کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ بے شک چادر، اسکارف اور گاؤن پردے کی علامت ہیں لیکن ان کا تعلق حیا کے ظاہری پہلو سے ہے جبکہ دل کی حیا ہمارے تقویٰ سے تعلق رکھتی ہے جب ہم اپنی آنکھوں، کانوں پر پابندی لگاتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم فحش نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے تو یہی بات ہماری باطنی حیا ہے۔
مکمل حیا کے حصول کے لیے جہاں خواتین و حضرات کا لباس اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وہیں اپنی آنکھ ،کان اور دل کو حیا دار بنانا ضروری ہے۔
آج کے دور میں کہ جہاں مغربی تہذیب کی یلغار ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہر خاص و عام کو حاصل ہے۔ انٹرنیٹ جہاں ہماری ضرورت بن چکا ہے وہیں یہ بد نظری کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔بچے، بڑے، مرد اور خواتین سبھی اس بات سے بے پرواہ اپنا ایمان اور وقت اس کے ساتھ برباد کر رہے ہیں۔بجائے یہ کہ اس کااستعمال بہترین اسلامی روایات کے پھیلاؤ میں کیا جاتا الٹا چند ٹکوں کے لئے مسلمان اپنا اسلامی وقار داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔ٹک ٹاک،فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر اسلام کی ترویج کی بجائے حیا باختہ مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ حیا باختگی کے نتیجے میں گھر اور رشتے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مرد اور عورت کا باہم اعتماد ناپید ہوتا جا رہا ہے۔طلاق کی شرح میں ہو شربا اضافہ ہو چکا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو"۔ واقعی جب ہمارا معاشرہ حیا سے خالی ہوا تو جس کے جو من میں آیا اس نے کرنا شروع کر دیا ۔قطع نظر اس کے کہ ان کاموں کے کیا نتائج نکلیں...
آسان نہیں مسلماں ہونا !
ایک تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے، کہنے کو تو یہ تصویر ہے اہل غزہ کی گھروں کی جانب روانگی کی، لیکن یہ دراصل داستان ہے ان مجاہدین اسلام کی جو حق کے لیے ڈیڑھ سال تنہا کمر بستہ کھڑے رہے ہیں، یہ راہ حق کے مسافران ، مجاہدین صدق وفا، پیکر صبر و استقامت اور علمبردار شجاعت ان میں کچھ چھوٹے ہیں کچھ بڑے بچے بوڑھے جوان عورتیں ان سب کی ایک منزل ہے یہ ایک ہی راہ کے راہی اور اللہ رب العزت کے سپاہی ہیں۔لٹے پٹے بے سروسامان گھروں کی جانب رواں جانتے ہیں وہ گھر اب کیا ہیں ؟ ملبوں کا ڈھیر،جہاں تعلیمی ادارے باقی ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی،ان کےاپنے ان سے چھن گئے ہیں معذور ہوگئے زخمی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کے چہروں پر امید اور رونق و بشاشت ہے ایسا آہنی حوصلہ نظر آرہا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے ۔ یہ اہل غزہ درحقیقت فداک امی و ابی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ایک شعر ترمیم کے ساتھ انکی نظر ہے،،
اسی تے گلاں ای کردے رہ گئے
تے غزہ دے مجاہد بازی لیہہ گئے
انکی ایمانی طاقت کو، مقصد سے لگن کی قوت کو آفرین ہے سلام ہے ان کو ،ہم تو انکے لیے فقط دعا کرتے رہے۔ اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔
شاید ایسے ہی ہمت اور حوصلے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ان اہل غزہ میں کوئی ماں سے محروم ہے توکوئی باپ سے کوئی اولاد سے کوئی شوہر سے کوئی بیوی سے کوئی بھائی بہنوں سے جدا ہے لیکن انکے حوصلے پر ہمارا دل فدا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سےعرض کیا تھا! فداک امی و ابی سے نبی کریم ﷺ میرے ماں باپ آپﷺ پرقربان۔ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے لیے ہمارا سب کچھ قربان اور حاضر ہے ۔ اسی کے مصداق اہل فلسطین نے فداک امی و ابی کی وہ اعلیٰ جیتی جاگتی زندہ و جاوید مثال قائم کی ہے جو ہمارے لیےمشعل راہ ہے۔ اب ان اہل فلسطین کے سامنے ایک اور سخت مشکل مرحلہ ہے
’’ری بلڈ فلسطین‘‘ یعنی فلسطین کی ازسرنو تعمیر
آج کل میڈیا پر لوگوں کی زبانوں پر اسی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ری بلڈ یعنی از سر نو تعمیر فلسطین۔
کہنے کو تو یہ جملہ منہ سے ادا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہو تو سب کام آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اس فلسفے کی موجودہ حقیقت ہمارے سامنے آج اس شکل میں موجود ہے کہ امریکہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہوتے ہوئے بھی لاس اینجلس اور اطراف کے جنگلات میں بھڑکتی آگ اور ہوا تھپیڑوں سے اسے پھیلنے سے روکنےبمیں بازی ہار گیا، اب اعتراف شکست کرتے ہوئے پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’ری بلڈ لاس اینجلس‘‘ میں تیزی سے مصروف ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب اپنے مشن سے...
مسئلہ کشمیر
مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کو بھارت میں شامل کر دیا، جسے کشمیری عوام اور پاکستان نے مسترد کر دیا۔ پہلی جنگِ کشمیر (1947-48) کے بعد اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی قرارداد پاس کی، جو آج تک نافذ نہیں ہو سکی۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھائے، جن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گن حملے، اجتماعی قبریں، اور میڈیا و انٹرنیٹ کی بندش شامل ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لی۔
پاکستانی حکومت سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتی رہی ہے، لیکن عملی طور پر زیادہ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر بھارت پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں کامیابی محدود رہی ہے
جماعت اسلامی کشمیر کی آزادی کے لیے مستقل سرگرم رہی ہے، جلسے، مظاہرے، اور سفارتی کوششوں کے ذریعے کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ جماعت نے مجاہدینِ کشمیر کی اخلاقی و سفارتی حمایت بھی کی
1990 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کی اپیل پر منایا جانے لگا۔ اس کا مقصد کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور دنیا کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان بھر میں اس دن مظاہرے، ریلیاں اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
1۔ اقوامِ متحدہ، OIC اور عالمی طاقتوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے متحرک کیا جائے۔
2۔دوطرفہ مذاکرات : بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کر کے کشمیری عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔
3۔اعتماد سازی کے اقدامات : تجارتی تعلقات اور ثقافتی روابط کو بحال کر کے تعلقات بہتر بنائے جائیں تاکہ مسئلہ حل کی طرف بڑھے۔
4۔کشمیری عوام کی حمایت: کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے میڈیا اور سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔
- مقامی و بین الاقوامی مظاہروں میں شرکت کی جائے۔
- حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ زیادہ مؤثر اقدامات کرے۔
- کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی جائے۔
اگر یہ تمام اقدامات مؤثر طریقے سے کیے جائیں تو مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔
معلوم تاریخ کے پہلے ماحولیاتی ماہر
گلوبل وارمنگ، ماحولیات، آلودگی، صنعتی فضلہ یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر محفل میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر نکل ہی آتا ہے۔ جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں تو یہ موضوع نہ چاہتے ہوئے بھی گفتگو میں شامل ہوہی جاتا ہے۔ پھر وہاں موجود افراد کسی ماہر ماحولیات کی طرح سنے سنائے حل بتانے لگتے ہیں اور اپنی باتوں میں وزن ڈالنے کے لیے اس بات کو کسی حقیقی ماہر سے جوڑ دیتے ہیں۔ یعنی ماحولیات کی اہمیت آج کے دور کا اہم ترین موضوع ہے، لیکن معلم اعظم محسن انسانیت نبی مکرمﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلیمات اس مسئلے پر انسانی تاریخ کی پہلی اور جامع رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نادانستہ ہم اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کے ایسے بے شمار پہلو موجود ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، وسائل کے اعتدال کے ساتھ استعمال اور قدرتی توازن کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی معلوم تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں واضح پتا چلتا ہے کہ جدید ماحولیاتی ماہرین کی رہنمائی، ان کے سائنسی اصول اور عملی تدابیر نبی کریمﷺ کے بیان کردہ اصولوں ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ جب دین اسلام رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہے تو پیغمبر اسلام کی تعلیمات بھی زندگی کے ہر شعبے میں قیامت تک رہنمائی کے لیے ہیں۔ ماحولیات کی جب بات کی جائے تو اس میں ہمارے اطراف میں موجود سب کچھ شامل ہے، یعنی انسان، ہوا، پانی، پہاڑ، درخت، چرند پرند، غرض کہ سب کچھ۔ بہ حیثیت انسان یہ ہماری بنیادی ذمے داری ہی نہیں بلکہ لازم (فرض) ہے کہ ہم ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی خرابی میں بھی اپنا حصہ نہ ڈالیں۔ بلاوجہ درختوں کو نہ کاٹیں، جانوروں کو تنگ نہ کریں، پانی کے ذخائر کی حفاظت کریں یا پھر پانی کو احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ اگر یہ سب یا ان میں کچھ بھی ہماری ملکیت میں ہے تو بھی اس کو ضائع کرنے کا حق ہمیں کسی صورت نہیں۔
جدید دنیا میں تحفظ ماحولیات کی باتیں بہت ہیں لیکن پیغمبر اسلامﷺ نے اپنی تعلیمات میں ان سب کی تلقین و نشان دہی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے شجرکاری کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا یا ٹہنی ہو تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے‘‘(مسند احمد :حدیث نمبر 12902) (یہ حدیث قیامت کے قریب ترین حالات میں بھی ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے)۔ نبی کریمﷺکے دور میں زراعت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور زمین کو بنجر رہنے سے بچانے کے لیے اصول مقرر کیے گئے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:’’جو شخص زمین کو زندہ کرے (قابلِ کاشت بنائے)، وہ اس کا حق دار ہے‘‘(سنن ترمذی :حدیث نمبر1378) پھل دار اور سایہ...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔