روئے زمین پر ہوا،پانی اور غذا کی طرح تعلیم بھی انسانی زندگی کے لئے بے حد اہم ہے۔تعلیم کے ذریعے انسان معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے لائق ہوتا ہے۔اکتساب اور آموزش میں ماحول کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔تعلیمی اداروں(اسکولس) کا طلبہ کی نفسیات پر بہت گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔طلبہ کی شخصیت کی تعمیر میٖں اسکول کا ماحول،اساتذہ کا رویہ اور نصاب تعلیم اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ طلبہ میں اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اسکول اور بالخصوص کمرۂ جماعت کا اکتسابی ماحول کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔بڑی حد تک طلبہ کی اکتسابی کامیابی کا دارومدار کمرۂ جماعت کے تعلیمی ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔درس و تدریس کے جذبے سے سرشاراساتذہ،موثر اکتساب کے فروغ کے لئے کمرۂ جماعت کے اکتسابی ماحول کو اپنے تبحر علمی،تدریسی تجربات اور مہارتوں کے ذریعے پرکیف اور زندہ بنادیتے ہیں۔ اکثر اساتذہ اور ،ذمہ داران مدارس تعلیمی نصاب کی تکمیل کے تعاقب میں کمرۂ جماعت کے اکتسابی ماحول کو زندہ،دلچسپ اور تخلیقیت سے بھر پور بنانے میں بہت کم وقت صرف کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے ایک کارآمد اور کامیاب اکتساب پروان چڑھنے سے قاصر رہتا ہے۔کمرۂ جماعت میں بہتر اور مثالی اکتسابی ماحول کی عدم موجودگی کے باعث طلبہ بے چینی ، اضطراب اور عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اکتسابی صلاحیتیں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہیں۔کمرۂ جماعت کے غیر آرام دہ، غیر فطر ی اور غیر اکتسابی ماحول کی وجہ سے طلبہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ان میں اکتساب کی نمو و شرح گرنے لگتی ہے۔کمرۂ جماعت کا غیر اکتسابی ماحول طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھنے نہیں دیتا ۔کمرۂ جماعت کا غیر فطری ماحول طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کی نمومیں تحدیدی کردار ادا کرتا ہے۔جب طلبہ کمرۂ جماعت کے ماحول کو غیر آرام دہ اور غیر دلچسپ محسوس کرنے لگتے ہیں تب انھیں اکتساب کی جانب گامزن رکھنے والا ان کا فطری تجسس ختم ہوجاتا ہے اور تحریک و رغبت کا جذبہ بھی سرد پڑجاتا ہے۔اپنے پیشے سے لگاؤ رکھنے والا استادسازگار اکتسابی ماحول کے زیر اثربہتر تدریسی مواد اور طلبہ کے درمیان ربط باہم پیدا کرتے ہوئے زندگی بھر جاری رہنے والے اکتساب کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔
تعلیمی شعبے کے سب سے بڑے شراکت دار (Stake Holder) طلبہ ہوتے ہیں۔لیکن تعلیمی شعبے میں سب سے زیادہ نظرانداز کئے جانے والے بھی طلبہ ہی ہیں۔ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ کے میلانات ،رجحانات ،مزاج اور تعلیمی و اکتسابی ضرورتوں کا کوئی خاص خیال نہیں رکھاجاتا۔شرارتی اور سست روطلبہ کے لئے ہمارے اسکولوں کا دامن نہایت ہی تنگ ہے بلکہ ہماراتعلیمی نظام ایسے طلبہ کو قبول کرنے تک کا متحمل نہیں ہے۔ہمارے اسکولوں کا ذہانت اور پھسڈی پن پر مبنی طلبہ کی تقسیم کا کلیہ نہایت ہی ظالمانہ معلوم ہوتا ہے۔پڑھنے لکھنے میں خاص طور پر ریاضی میں مہارت کے حامل طالب علم کو ذہین قرار دیا جاتا ہے جب کہ ریاضی کے برخلاف دیگر مضامین میں قابلیت کے حامل ،لکھنے پڑھنے میں کسی قدر کمزور طالب علم کو کند ذہن کہاجاتا ہے۔ذہانت کی تعریف کا یہ کلیہ اپنی تنگ نظری کے باعث ماہرین تعلیم کے نزدیک آج تکقبولیت کادرجہ حاصل نہیں کر سکا۔ہمارے اسکول اور کمرۂ جماعت کی تنظیم و ترتیب ایسی ہوتی ہے جہاں دل کش و پرکیف اکتساب اور موثر درس و تدریس بہت ہی مشکل ہے۔ موثر اکتساب کی فراہمی آج اساتذہ کی ترجیح اس لئے بھی نہیں رہی کہ طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کا پیمانہ نمبر اور گریڈبن گئے ہیں۔اسکول اور کمرۂ جماعت کا ماحول موثر اکتساب اور تخلیقی جذبے کو پروان چڑھانے میں مانع ہے۔کمرۂ جماعت کا بھدا،بھونڈا اور بے رونق پیڑن (ترتیب ) پراثر و پر کیف تعلیمی ماحولپیدا کرنے میں یکسر ناکام ہوگیا ہے۔
اسکولز تعلیم و تربیت اور درس واکتساب کی فراہمی کے دعویدار ادارے ہیں اسی لئے ان پر بچوں کی ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت ، ترسیل علم و اکتساب میں اسکول خاص طور پر کمرۂ جماعت کا بڑا عمل دخل ہوتاہے۔ا سکول کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون اکتسابی ماحول کو اپنے ادار ے اور ہر کمرۂ جماعت کا لازمی حصہ بنائیں۔ذمہ داران و منتظمین مدارس اسکول اور کمرۂ جماعت کے ماحول کو طلبہ کی فطرت سے ہم آہنگ کرنے کے اقدامات کریں۔اکتساب کی شرح ہر طالب علم میں کم اور زیادہ پائی جاتی ہے اور اکتساب کا راست تعلق ماحول ،اساتذہ اور تدریسی مواد سے جڑا ہوتا ہے۔غیرتعلیمی ماحول میں طلبہ اپنے اکتساب کو برقرار نہیں رکھ پاتے ۔طلبہ میں اکتساب کی برقراری کے لئے سب سے پہلے اسکول اور کمرۂ جماعت کے ماحول کو دلچسپ اور تخلیقی نوعیت کا بنانا ضروری ہوتا ہے۔ موثر کارآمد اور نتیجہ خیز اکتساب کے لئے کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ دوست ہونا چاہئے جہاں طلبہ بلا خوف و خطراپنے اکتساب کو پروان چڑھا سکیں۔ طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت کی چند خصوصیات کو ذیل میں پیش کیا گیا ہے جو موثر اکتساب کے فروغ میں نہایت کارگرثابت ہوئی ہیں۔
(1 کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ میں اکتساب سے رغبت و تحریک پیدا کرنے کے ساتھ اکتساب کو دلچسپ اور پرکیف بنادیتا ہے۔طلبہ اکتسا ب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(2)کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ میں ایسی اکتسابی مہارتوں کے فروغ کا باعث بنتا ہے جس کے زیر اثر اکتساب (سیکھنا ) ان کے لئے آسان اور نہایت ہی مسرت انگیز عملبن جاتا ہے۔
(3) طلبہ مرکوزکمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کو اکتسابی (سیکھنے)وقت کی قدردانی کا خوگر بناتا ہے۔کمرۂ جماعت کا صحت مند تدریسی ماحول طلبہ کو اکستابی اوقات کونفع بخش اور کارآمد بنانے پر مائل کرتا ہے۔
(4)طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت طلبہ میں اکتساب( سیکھنے) کا احساس پیدا کرتے ہوئے انھیں سخت محنت اور اطمینان بخش تجربات کی روشنی میں اکتساب کو جاری رکھنے کی ترغیب فراہم کرتا ہے۔
(5)طلبہ مرکوز کمرۂ جماعت طلبہ کو اپنے تدریسی مواد کو ایک دوسرے سے شیئرکر تے ہوئے اجتماعی اکتساب( مل جھل کر سیکھنے)کا جذبہ و تحریک پیدا کرتا ہے۔
(6) مرۂ جماعت کا ماحول کنٹرول نظم و ضبط کو فروغ دیتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں احساس تحفظ و طمانیت کی کیفیت پروان چڑھتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوران اکتساب آزادانہ طور پر سوال و جواب اور گفت و شنید کی روش اختیار کرنے لگتے ہیں۔
(7)کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کو درس و اکتساب میں فعال شمولیت کا موقع فراہم کرنے علاوہ مقرر کردہ اہداف کی سمت پیش قدمی اور ان کے حصول کو یقینی بناتا ہے۔
طلبہ میں اکتساب و ان کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اساتذہ اپنا قیمتی وقت نکالیں ، منصوبہ بندی اور حکمت عملیاں وضع کریں تاکہ ایک جامع موثر اور جاندار کمرۂ جماعت کو وجود میں لاسکیں۔ذیل میں چند ایسی تدابیر بیان کی جارہی ہیں جنھیں اپنا کر اساتذ ہ کمرۂ جماعت میں درس و تدریس کے لئے ساز گار اور کمرۂ جماعت میں اکتساب کے لئے مددگار ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔
(1)اساتذ ہ طلبہ سے ایسا تعلق رکھیں جو ان میں اعتماد کی فضا پیدا کرے اور ان کے حوصلوں کو جلادے۔اساتذہ کا یہ عمل طلبہ میں نہ صرف ان کی توقیر و عزت افزائی کا باعث بنے گا بلکہ وہ استاد کے درس اور پند
و نصائح کو کان لگاکر سنیں گے اور عمل کرنے پر مائل ہوں گے۔
(2)منصوبہ بندی، فیصلہ سازی اور پروگرامس پر عمل آوری میں تمام طلبہ کی فعال شرکت کو اساتذہ یقینی بنائیں۔طلبہ کی آرا و تجاویز کی قدردانی سے نہ صرف وہ گرم جوشی سے تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے بلکہ ان کے برتاؤ اور اخلاق میں خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوں گی اور کمرۂ جماعت میں وہ تخلیقی اور اختراعی آرا کی پیش کش میں تذبذ ب کا شکار نہیں ہوں گے۔
(3)طلبہ کو ان کے بہتر اکتساب کے لئے شعوری طور پر غور و فکر کرنے اور اکتسابی صلاحیتوں کو مہمیزکرنے والی مہارتوں کو سیکھنے کا گر سکھائیں تاکہ طلبہ کمرۂ جماعت میں بہترین اکتسا ب و تعلیم کو حاصل کرسکیں۔
(4)دوران تدریس طلبہ کو ان کی تعلیمی ترقی کے مظاہرہ کا موقع فراہم کریں۔اساتذہ کی جانب سے دوران تدریس طلبہ کی تعلیمی و اکتسابی ترقی کے اظہار کے لئے فراہم کردہ موقعوں سے طلبہ نہ صرف اپنی ترقی اور تعلیمی حالت سے واقف رہتے ہیں بلکہ اعلیٰ اہداف کے تعین میں انھیں مدد بھی ملتی ہے۔
(5)طلبہ میں پائے جانے والے انفرادی اکتسابی تفاوت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اساتذہ ایسے تدابیر اختیار کریں جو طلبہ کی اکتسابی ضرورتو ں کی تکمیل میں معاون ہونے کہ ساتھ لچکدار ہو ں اور مختلف النوع تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کو ممکنبنا سکیں۔ طلبہ میں پائے جانے والے انفرادی تفاوت و تعلیمی صلاحیتوں کے حساب سے ان کی اکتسابی ضرروتوں کی تکمیل کی جاسکے۔
(6)طلبہ کو ذہنی طور پر نظم و ضبط کا عادی بنائیں تاکہ ان کے برتاؤ اور رویوں سے شائشتہ اور مہذب پن ظاہر ہو۔سماجی اقدار کے فروغ کے باعث طلبہ دوسروں کی قدر اور فکرمندی کے عادی ہوجاتے ہیں۔طلبہ میں تفریق پیدا کرنے والے عوامل و عناصر سے پرہیز کریں۔صرف مسابقتی جذبے کے فروغ کے لئے بچوں میں صحت مند مسابقت کو رواج دیں تاکہ ان کے مظاہروں میں بہتری پیدا کی جاسکے۔
(7)طلبہ کے اکتسابی جذبے کو فروغ دینے کے لئے ان کو مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں شریک ہونے پر ابھاریں۔طلبہ کو کمرۂ جماعت میں تدریسی سرگرمیوں کی انجا م دہی کے دوران ان کو اپنا تعاون تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی ترغیب و تحریک کے ساتھ مناسب مواقع بھی فراہم کریں۔
(8)طلبہ کی نشستوں کو اس طرح ترتیب دیں کہ انھیں سیکھنے ،دیکھنے اور اپنا جواب و ردعمل پیش کرنے میں کوئی دقت نہ پیش آئے۔نشستوں کی ترتیب نہ صرف طلبہ کو آرام فراہم کرتی ہے بلکہ اکتساب کی نمو میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
(9)اساتذہ اپنے درس و تدریس اور منصوبہ سبق کو موثر اور دلچسپ بنائیں۔اساتذہ کی جانب سے استعمال کردہ طریقے تدریس اور تخلیقی و اختراعی تکنیک طلبہ میں اکتساب کے فروغ اور دلچسپی کی برقراری میں نہایت مددگار ثابت ہوتی ہے۔خشک اور طلبہ کو افتادگی کی جانب مائل کرنے والے طریقے تدریس سے اجتناب کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
(10)اساتذہ طلبہ کی ہر مثبت سرگرمی کی ستائش کرتے ہوئے ان میں تحریک و رغبت کو پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔طلبہ کی تعریف ستائش سے ان میں احساس طمانیت پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی اکتسابی سرگرمیوں کو اور تیز کردیتے ہیں۔ استاد کاطلبہ کے بارے میں اپنی فکر مندی کا اظہار بھی ان میں تحریک و جذبہ پیدا کرتا ہے۔
(11)ہر طالب علم کو مخصوص تعلیمی سرگرمیاں تفویض کرتے ہوئے ان کے تعلیمی و اکتسابی مظاہرے کو مہمیز کیا جاسکتا ہے۔طلبہ کی تعلیمی و اکتسابی سرگرمیوں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی سے وہ اپنے نقائص پر قابو پانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اکتساب کے بہتر طریقے اختیارکرنے لگتے ہیں۔
(12)استاد کی جانب سے کسی بھی قسم کی جانب داری اور طرفداری کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔ اساتذہ اپنے برتاؤ اور رویوں سے طلبہ میں مساوات اور برابری کے جذبے کو فروغ دیں۔
(13) طلبہ میں ایک دوسری کی مدد اور اشتراک سے جذبہ اکتساب کو فروغ دینے کی اساتذہ کوشش کریں۔خود غرضی اور مفاد پرستی کی خرابیوں کو اجاگر کریں۔جذبہ اتحاد باہمی اور تعاون کے فروغ کے لیئے طلبہ کو راغب کریں۔اساتذہ طلبہ میں گروہی سرگرمیوں کے ذریعہ اجتماعی اور مشترکہ اکتسابی ماحول کو فروغ دیں۔
اساتذہ ہر پل یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا تبدیلیوں کی زد میں ہے۔اگر نئی نسل تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہوگی تب دنیا اسے روند کر گزر جائے گئی۔زمانے میں عزت و وقار کے لئے طلبہ کو علم و ہنر سے آراستہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر طالب علم کے اکتساب کی شرح دوسرے طالب علم سے مختلف اور جداگانہ ہوتی ہے۔طلبہ میں پائے جانے والے تفاوت و تفریق کا لحاظ کرتے ہوئے اساتذہ اور منتظمین مدارس تدریسی سرگرمیوں کی انجام دہی کو ممکن بنائیں۔ اساتذہ معاشرے کے فریم کو گزند پہنچائے بغیر طلبہ کو زندگی بسر کرنے کے گر سکھائیں۔ دنیا کے فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی اپنی سرگرمیوں اور زندگی گزارنے کی تعلیم و تربیت نہ صرف طلبہ بلکہ معاشرے کے لئے سود مند ہوتی ہے۔ طلبہ کی شخصیت کی تعمیر اورمعاشرے کی تعمیر و ترقی میں یہ حکمت عملی و اصول نہایت کارگر تصور کیا جاتا ہے۔دنیا کے فریم ورک کے احترام سے معاشرہ بھی صحت مند خطوط پر گامزن رہتا ہے۔اساتذہ مروجہ نظام تعلیم کی قباحتوں اور خرابیوں پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔وسائل کی کمی اور تنگی کا گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بچوں کی نفسیات اس بات کی غماز ہے کہ بچے ماحول سے بہت جلد مانوس ہوجاتے ہیں۔ذمہ داران مدارس اور اساتذہ طلبہ کو کمرۂ جماعت میں ایسا ماحول فراہم کریں جو انھیں خود کار اکتساب پر ابھارے سوال کرنے کی جسارت و جذبہ پیدا کرے۔کمرۂ جماعت کا ماحول طلبہ کے جذبہ تجسس اور اکتساب کو مہمیز کرتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ پر بندش لگاتے ہیں،روکنے ٹوکنے لگ جاتے ہیں،سوالات کرنے سے باز رکھتے ہیں تب طلبہ کی تخلیقی صلاحیتں ماند پڑنے لگتی ہے اور سیکھنے کا جذبہ بھی کمرۂ جماعت کے غیر موافق ماحول کی وجہ سے دم توڑنے لگتا ہے۔طلبہ کی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے انھیں موافق ماحول فراہم کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔طلبہ کو ایسا اکتسابی و تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے جس کے زیر اثر ان کی اکتسابی اور تخلیقی صلاحیتں جلا پا سکے۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں طلبہ کو ایسی سرگرمیوں میں مصروف کریں جس کے ذریعہ نہ صرف خود کار اکتساب کی راہ ہموار ہو بلکہ ان کا تخلیقی ذہن بھی ترقی کرپائے۔والدین اور اساتذہ بچوں میں مطالعہ اور کام سے لگن پیدا کرنے کی سعی و جستجو کریں۔اسکول کے علاوہ گھر کاعمدہ ماحول بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردارانجام دیتا ہے۔ اسکول اور گھر بچوں کے منفی رویوں کو مثبت رویوں میں تبدیل کرنے والا صحت مند ماحول فراہم کریں۔اساتذہ والدین اور ذمہ داران مدارس و محکمہ تعلیم کے ارباب مجاز پر تعلیمی ماحول کی تبدیلی پر انحصار کرنے کے بجائے طلبہ کی اکتسابی وتخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اپنے سے جو کچھ ہوسکتا ہے کریں۔کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں ۔ کمرۂ جماعت میں نصاب ،درسی کتب اور امتحانات کو طلبہ کی تعلیمی تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ بنائیں اور اس میں لچک و ندرت پیدا کریں۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں ایسا اکتسابی ماحول پیدا کریں جوطلبہ کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہو۔ان کی اکستابی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتا ہوں ۔ طلبہ کی مختلف ذہنی صلاحیتوں کے فروغ میں معاون ہو اورطلبہ کی تعلیمی ضرویات کی تکمیل کا متحمل ہو۔اساتذہ کمرۂ جماعت میں اکتساب کے فروغ اور طلبہ کی شخصیت سازی کے لئے موافق ماحول کی تخلیق کو ممکن بنائیں۔کمرۂ جماعت کو بچوں کی خیالی دنیا کی طرح رنگین اور جاذب و دل کش ہونا چاہئے۔کمرۂ جماعت کا ماحول روکھا،پھیکا،ساکن و جامد اور بے کیف نہ ہو۔اساتذہ روایتی طریقے تدریس کے بجائے ایسے غیر روایتی تدریسی طریقوں کو اپنائے جو طلبہ کی فطرت سے مطابقت رکھتے ہوں اور ان میں اکتسابی دلچسپی پیدا کرتے ہوں۔اسکولز اور اساتذہ بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کرتے ہیں اسی لئے ان پر زائد ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ وہ بچوں کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کمرۂ جماعت کا ماحول اور اکتسابی
حکمت عملیا ں وضع و اختیار کریں۔
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...