دو بالکل مختلف دنیائیں

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ لبرل اور سیکولر سوچ رکھنے والے تمام خواتین و حضرات (خواہ پاکستانی ہوں یا کسی بھی ملک میں) یہ سمجھتے ہیں اور برملا اظہار کرتے ہیں کہ:

1۔ مذہب انسان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے۔

2۔ ریاست یا فرد کو مذہبی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔

3۔ ریاست اور مذہب بالکل الگ الگ ہیں اور ہونے چاہئیں۔

4۔ قانون سازی صرف عوام اور ان کے نمائندوں کا حق ہے، کسی اور کا نہیں۔

5۔ میں عبادت کروں یا نہ کروں، آپ کو اس سے کیا؟ یہ میرا اور خدا کا معاملہ ہے۔ آپ دخل نہ دیں۔

6۔ خدا ہے یا نہیں، مجھے نہیں معلوم، وہ ہمارے حواس سے ماورا ہے، ہم اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔

7۔ آخرت ہو گی یا نہیں، مجھے نہیں معلوم، لیکن مجھے اس زندگی کے لطف اور دلچسپی کو آخرت کی خاطر کھونا نہیں چاہیے۔

8۔ میں سزائے موت کے خلاف ہوں، خواہ یہ سزا ریاست دے یا ہجوم۔ موت انسان کی اصلاح کا امکان بند کر دیتی ہے۔

9۔ فحاشی اور عریانی انسان کے اپنے ذہن میں ہوتی ہے، ماحول میں نہیں۔ فحاشی کے علاوہ بھی مسائل حل طلب ہیں جیسے غربت، بے روزگاری، جہالت۔

10۔ میں کیا پہنوں؟ پہنوں یا نہ پہنوں؟ میرا ذاتی مسئلہ ہے، اس پر حکومت، ریاست، معاشرے کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

11۔ پردہ دل کا ہوتا ہے، لباس کا نہیں۔

12۔ مذہبی معاملات پر کوئی قانون سازی نہ کی جائے، یہ دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ امتیاز ہے جو قابلِ قبول نہیں۔

13۔ میں رواداری، انسانی آزادی، فکر کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں۔

14۔ انسان کو جنسی آزادی ہونی چاہیے، بالرضا جنسی تعلق پر سزا نہیں ہونی چاہیے۔ سزا اُن شادی شدہ حضرات کو دی جائے جو اپنی بیویوں کے ساتھ زنا بالجبر کرتے ہیں۔

15۔ دو طرفہ رضامندی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حرج زبردستی میں ہے۔

16۔ مذہب انسان سے بڑا نہیں ہے۔ انسان پہلے آیا، مذہب بعد میں۔ مذہبی حقوق انسانی حقوق کے بعد آتے ہیں۔

17۔ ہر مذہب کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ وہ سب برابر ہیں، لیکن پابندی کس مذہب کی کرنا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

18۔ مذاہب صدیوں کی رسومات و رواج کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، انہیں جامد نہیں رہنا چاہیے، ان میں ارتقا ہونا چاہیے۔

19۔ مومن، مسلم، کافر، مشرک، منافق یہ سب ہمارے ذہن کی تخلیق ہے، انسان صرف انسان ہے اور سب انسان برابر ہیں۔

کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ مسلم علما اور دینی مزاج کے لوگ برعکس باتیں کرتے اور ان پر یقین رکھتے ہیں (دیگر مذاہب عیسائیت اور ہندو مت والے کیا کہتے ہیں، ہمیں علم نہیں):

1۔ مذہب انسان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہو سکتا ہے، لیکن جہاں مذہب اسلام کا تعلق ہے تو وہ مکمل طور پر انفرادی معاملہ نہیں، کچھ نہ کچھ اجتماعی بھی ہے، مثلاً فرض کی ادائیگی اجتماعی معاملہ ہے، اس پر عمل کرایا جائے گا، نفل کی ادائیگی انفرادی معاملہ ہے۔

2۔ اسلامی ریاست غیر مذاہب کے لوگوں کے مذہبی معاملات میں دخل نہیں دے گی، لیکن خود کو مسلمان قرار دینے والوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں مدد دینا اس کے فرائض میں ہے۔

3۔ اسلام ریاست کا مذہب ہو سکتا ہے، اللہ نے صرف مسلمان کو نہیں، انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ یا نائب بنایا ہے۔ یہ سب مسلمانوں کا کام ہے کہ تمام انسانوں کو اس ذمہ داری پر متوجہ کریں۔ پہلی ذمہ داری خود مسلمانوں پر ہے کہ اللہ کے نائب بن کر کام کریں۔

4۔ جب باشندوں کی اکثریت اسلام کو ریاست کے دین کے طور پر قبول کر لے تو قوانین قرآن و حدیث کی روشنی میں بنائے جائیں گے اور ریاست ان پر عمل کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔

قانون سازی عوام اور ان کے نمائندوں کا حق ہے جو اللہ کی ہدایات کی روشنی میں انجام دیا جائے گا۔

کوئی قانون اللہ کی دی ہوئی ابدی ہدایت کے برخلاف بنایا اور نافذ نہیں کیا جا سکتا۔

5۔ مسلمان عبادت نہ کرے تو اصلاح کے لیے اس کے علم میں اضافہ کیا جائے کہ اللہ کی عبادت سے گریز اس کی دنیا و آخرت کے لیے نقصان دہ ہے،زبردستی نہ کی جائے۔دراصل ماحول کی قوّت انسان سے بہت کچھ کرا لیتی ہے جو سزا کی طاقت سے نہیں ہو پاتا۔

صرف مسجد نہیں، ہر مذہب کی عبادت گاہ کے لیے سہولت پیدا کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

6۔ خدا پر وہ ایمان مستند اور مطلوب ہے جو بالغیب اور ’ان دیکھا‘ ہو۔ دیکھنے کے بعد ایمان کا کوئی اعتبار نہیں، نہ کوئی فائدہ ہے۔

خدا ہمارے حواس سے ماورا ضرور ہے لیکن دل سے دُور نہیں۔

ایمان موجود ہو تو ہم خدا کے وجود کا ادراک بھی کر سکتے اور اس سے باتیں بھی۔ کیونکہ وہ خود ارشاد فرماتا ہے ’’مجھ ہی سے مانگوں، میں تمہیں دوں گا‘‘۔

انسان مصیبت پڑنے پر جس ذات کا سہارا تلاش کرتا ہے، وہ خدا ہی ہے۔ چاہے مصیبت ہٹنے پر انسان خدا کا انکار کردے۔

7۔ یومِ آخرت کو یقیناً کسی نے نہیں دیکھا، لیکن اس پر ایمان کے دو پہلو ہیں: ایک، کائنات کے سب سے سچّے انسان (حضرت محمد ﷺ) نے آخرت پر ایمان لانے کو کہا ہے۔ دوسرا، کائنات کی ہر شے بالآخر فنا ہو جانے والی ہے تو یہ زمین آسمان کیوں نہیں؟

اللہ نے زندگی کے لطف اور دلچسپی کو حلال، جائز راستوں میں رکھ دیا ہے۔ حرام اس لیے بھی منع ہے کہ وہ نقصان دہ ہے، خواہ فی الحال مفید، لذیذ، آسان معلوم ہو رہا ہو۔

8۔ اللہ ہی نے بعض جرائم پر سزائے موت کا حکم دیا ہے، اس حکم پر عمل کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان مجرموں کی موت تمام انسانوں کو اُن کے شر سے محفوظ کر دے گی، [حوالہ آیت: قصاص (یعنی بدلے میں قتل) میں تمہارے لیے زندگی ہے، اے سوچنے سمجھنے والو!] آج ہر طرف زندگی کی قلّت ہے، قاتلوں اور موت کی کثرت ہے، کیا سوچنے سمجھنے والوں کو زندگی کی نشوونما کا کوئی راستہ اب بھی سجھائی نہیں دے رہا؟]

اگر مفسد اور قابلِ سزا انسان کی موت لاکھوں انسانوں کے لیے باعثِ راحت ہے تو یہ فراہم کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

9۔ فحاشی اور عریانی عین اسی طرح حقیقت ہے جیسے حیا اور پاکیزگی قابلِ محسوس چیز ہے۔ اس کو جھٹلانے کے دو ہی اسباب ہو سکتے ہیں: حقیقت سے نظریں چرانا، یا دل میں چور ہونا۔

یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ باشندوں کا ذہن مثبت چیزوں میں مشغول کرے، اور اس کے لیے مناسب ماحول مہیا کرے۔ فحاشی کے برخلاف شرم و حیا کا ماحول دینا بھی اسی طرح ذمہ داری ہے جس طرح غربت کے برخلاف خوشحالی، بے روزگاری کے مقابلے میں مناسب روزگار، جہالت کے مقابلے میں تعلیم و تربیت۔

10۔ انسانوں کو لباس کے چناؤ کی آزادی ہے لیکن کم از کم کا تعین ضرور ہونا چاہیے (جس طرح کم از کم اجرت کا تعین)۔ یہ پسند نا پسند کا نہیں، ڈسپلن کا سوال ہے۔ ستر ڈھانکنے کا حکم اللہ نے دیا ہے، کسی مولوی نے نہیں۔ یہ حکم نافذ کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر لباس ستر پوشی کرتا ہے تو اس کے بعد یہ فرد کی پسند پر چھوڑ دیا جائے کہ کیا پہنے اور کیا نہ پہنے۔

11۔ عورتوں کا بے حجاب پھرنا اُن کے حسن سے آنکھیں سینکنے والے مردوں کو تو پسند ہو سکتا ہے، مومن کو نہیں۔ مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے تو عورت کو بھی اپنی عزت و عصمت محفوظ کرنے کے لیے پردے کا حکم ہے۔ یہ حکم نہ ماننے کے نتائج عورتیں اور مرد دونوں دیکھیں گے۔

12۔ مذہبی معاملات پر قانون سازی اکثری آبادی کے نمائندوں کے مطابق ہوگی، اور اقلیت کے لیے اس کی نمائندگی کے مطابق۔ اسلامی ریاست اقلیت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، البتہ اکثریت کو اس کے دین کے مطابق چلانے کی کوشش کرے گی۔ دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ امتیاز قابلِ قبول نہیں ہوگا۔

13۔ رواداری، انسانی آزادی، فکر کی آزادی کوئی لامحدود شے نہیں ہے، ہر چیز کی (حتیٰ کہ حقوق و فرائض کی بھی) ایک حد ہے اور اس حد کی حفاظت اسلامی ریاست کا کام ہے۔

14۔ نکاح کے بغیر جنسی تعلق چاہے بالرضا ہو یا بالجبر، اس پر سزا ہوگی، جو اسلامی راست دے گی، بالرضا کی صورت میں دونوں کو، اور بالجبر کی صورت میں مرد کو۔ جن بیویوں کو شوہروں کے کسی بھی طرح کے جبر کا سامنا ہو، انہیں خلع لے لینی چاہیے، اسلامی ریاست ان کی طرف دار ہو گی۔

15۔  انسان کی جنسی آزادی محدود ہے اور کچھ ذمہ داریوں سے مشروط ہے۔ مردوں پر ذمہ داری ڈالے بغیر انہیں جنسی آزادی دینا عورتوں کے ساتھ ظلم ہوگا، البتہ مقررہ ذمہ داریاں پوری کرنے والے مردوں کو زائد شادیوں کی اجازت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے تو ریاست اسے روک نہیں سکتی۔

نکاح کے بغیر جنسی تعلق خواہ یکطرفہ ہو یا دو طرفہ، ناجائز ہے اور اللہ کی حدود کی خلاف ورزی ہے۔

16۔ پہلا انسان یعنی حضرت آدم پہلے نبی بھی تھے۔ خدا انسان سے پہلے ہے اور بعد بھی۔ مذہب یعنی اسلام انسان کے ساتھ ہی زمین پر آیا۔ البتہ دیگر تمام مذاہب انسان کے بعد بنے۔ مذہبی حقوق انسانی حقوق سے جدا نہیں۔

17۔ ہر مذہب کا احترام کرنا چاہیے، اور پابندی اس مذہب کی کرنی چاہیے جسے انسان بہ رضا و رغبت قبول کرے۔ کسی کو مذہب کی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ کسی مذہب کو قبول کر کے اس کے احکامات سے فرار ہونا ذاتی معاملہ نہیں۔

18۔ یہ بات دیگر مذاہب کے بارے میں تو سچی ہے کہ مذاہب صدیوں کی رسومات و رواج کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، وہ خواہ جامد رہیں یا ارتقا پذیر، ان کے ماننے والوں پر منحصر ہے۔ دوسری طرف، اسلام پہلا دین ہے اور آخری بھی، یہ مکمل دین ہے اور اس کے بنیادی احکامات میں ردوبدل کوئی نہیں کر سکتا، البتہ بدلتے ہوئے زمانے کے لحاظ سے احکامات کی تشریح کی جا سکتی ہے جو مستند علما کا کام ہے۔

19۔ مومن، مسلم، کافر، مشرک، منافق یہ اصطلاحات اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچنے والے قرآن کریم میں بتائی ہیں اور ان کا وہی مطلب ہے جو قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے۔ یہ کسی مولوی کے ذہن کی تخلیق نہیں۔ سوچ، طرزِ فکر، طرزِ عمل اور خصوصیات میں انسان اور انسان میں فرق ہے اور ان کے نتائج بھی یکساں نہیں ہو سکتے۔

****

حصہ
تحریر و تصنیف کے شعبے میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عامل صحافی تھے، فی الحال مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ایم اے ابلاغ عامہ اردو کالج کراچی سے ۱۹۹۸ء میں کرنے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی، جس کا تعلیم پر کوئی برا اثر نہیں پڑا، البتہ نئی نسلوں کو عبرت ملی کہ تعلیم چھوڑ دینے کا کیا نقصان ہوا کرتا ہے۔ اردو اور انگریزی فکشن سے دلچسپی ہے، اردو میں طنز و مزاح سے۔

جواب چھوڑ دیں