اظہار محبت یا اظہار بغاوت 

ہرطرف سرخی چھائی ہوئی تھی ۔ دوکانیں ، اسٹالز ، ریڑھیاں غرض ہر شے پر سرخی کا غلبہ تھا ۔
سرخ رنگ کی مختلف اشیاء بڑے سلیقے سے نمایاں کر کے سجائی گئی تھیں ۔ جن میں سرخ پھول ، سرخ کارڈ ، سرخ بھالو ، سرخ مصنوعی دل ، سرخ غبارے اور دیگر مختلف قسم کی اشیاء نمایاں تھیں ۔
”ادھر آئیے جی ! بڑی ورائٹی ہے جی ،
ادھر آئیے جی ! فریش مال ہے جی ،
دوکانداروں کے سیلز مین مختلف آوازیں لگا لگا کر گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے ۔
ذہن پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ فروری کا دوسرا ہفتہ چل رہا ہے اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کردہ مسلم ملک میں تیاریاں ہورہی ہیں ایک ایسے تہوار کی ، جو قطعًا غیر اسلامی اور غیر تہذیبی ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مناظر وطن عزیز کے ایک معروف صنعتی شہر کے ایک بازار کے تھے ۔ بازار بھی ان بازاروں میں سے ایک ہے جنہیں علم و ادب اور تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے ۔ جہاں سے علم ،ادب اور تہذیب کے شہ پارے ملتے ہیں ۔ لیکن اس روز معاملہ برعکس تھا ۔ علم کی جگہ جہالت ، ادب کی جگہ بےادبی اور تہذیب کی جگہ بدتہذیبی کے نمونے جابجا نظر آرہے تھے ۔ نوجوان لڑکے ، لڑکیاں جوش خروش سے سرخ رنگ کی مختلف اشیاء خرید رہے تھے اور اسی جذبہ سے ایک دوسرے کو دکھا دکھا کر خوش ہو رہے تھے ۔
دوکاندار اپنی اشیاء کی فروخت پر اور گاہک اپنی خریداری پر شاداں و فرحاں نظر آرہے تھے ۔
تہذیب کے نکلتے جنازے کو دیکھ کر کتب کی خریداری مؤخر کی اور کف افسوس ملتے بازار سے باہر نکل آیا ۔

چندسال قبل بدیسی تہوار کی تیاری کا یہ مشاہدہ پہلی مرتبہ ہوا جس کا عکس آج تک خیال کے آئینہ پر بالکل واضح ہے ۔
”ویلینٹائن ڈے“ جسے الفاظ کا عمدہ لبادہ اوڑھا کر ”محبت کے اظہار کا عالمی دن“ کہا جاتا ہے ۔ درحقیقت یہ اظہار محبت نہیں بلکہ اظہار بغاوت کا دن ہے ۔ اپنی روایات ، اپنی ثقافت ، اپنی تہذیب اور اپنے مذہب سے بغاوت ۔۔۔
کہ ہمیں اسلامی ثقافت ، اسلامی تہذیب اور شریعت کی حدود و قیود سے کوئی سروکار نہیں ۔ ہم جس تہذیب کو چاہیں اپنا لیں ، جس ثقافت کو چاہیں اس میں جا گھسیں ، جو روایات ، جو تہوار ، جو انداز ہمیں دل پسند ہو ہم اسی کے ہیں ۔ جہاں ہوس ، خواہش کی تکمیل ہو وہی ہمارے لیے صراط زندگی ہے ۔
ورنہ
محبت تو انسان کو فطری طور پر ودیعت کی گئی ہے اور اسے اظہار محبت کے ادب آداب بھی سکھلائے گئے ہیں ۔
لیکن
انسان جس طرح سونے جاگنے ، کھانے پینے اور چلنے پھرنے سے لے کر نفسانی خواہشات تک کی ضروریات زندگی کا محتاج ہے ۔  جس طرح ضروریات کے حصول میں انسان کو مختلف حدود و قیود کا پابند بنایا گیا ہے ۔ جس طرح حلال حرام ، جائز ناجائز کے میزان انسان کو پاکیزہ زندگی گزارنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔
اسی طرح محبت کے اظہار کی بھی حدود و قیود مقرر شدہ ہیں ۔ اظہار محبت کی ان حدود کا پاس نہ رکھنا اعتقادی ، عملی اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے ۔
مثلًا اللہ کی ذات سے محبت مومن کے ایمان کا حصہ ہے ۔ اس میں اگر حدود کا خیال نہ رکھا جائے اور اللہ کی جگہ پر مخلوق سے اظہار محبت کا وہ انداز اختیار کیا جائے جو ذات باری تعالٰی کے ساتھ مختص ہے تو یہ اعتقادی بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے ۔

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان کا معیار ہے ۔ اگر اظہار محبت اور انداز محبت میں شریعت کی قائم کردہ حدود سے تجاوز ہو تو یہ عملی بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے ۔
اسی طرح عام معاشرتی زندگی میں انسان کو مختلف رشتوں کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے ۔ رشتوں کی یہ مالا محبت کے دھاگے میں پروئی ہوتی ہے ۔ یہی محبت ہے جس کی بنیاد پر رشتوں میں قُرب اور بُعد کا تعیّن ہوتا ہے ۔ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دور کے رشتے بھی محض انسانیت کی بنیاد پر قریب ہو جاتے ہیں اور جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں قریبی رشتے حتٰی کہ خونی رشتے بھی دور ہو جاتے ہیں ۔

محبت کی بنیاد پر ایک بیٹی اپنے باپ کا جگر گوشہ کہلاتی ہے ۔
بہن بھائی محبت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوتے ہیں ۔
ایک ماں کی اپنی اولاد سے محبت خالق حقیقی کی مخلوق سے محبت کی جھلک ہوتی ہے ۔
میاں بیوی کی محبت حسن فطرت کا شاہکار ہوتی ہے ۔
کوئی بھی انسان فطری طبعیت کے موافق کسی دوسرے انسان کے قریب ہوتا ہے ۔
لیکن
محبت کے بھی کچھ اصول اور ضابطے ہیں ، کچھ پیمانے اور حدیں ہیں ، جو مقرر کر دی گئی ہیں ۔ اظہار محبت کے پیمانے ہر ایک کے لیے یہاں بھی متعین ہیں ۔ ان سے تجاوز کرنا یا اظہار محبت کے پیمانے تبدیل کرنا سراسر نقصان ہے ۔ جس کا خمیازہ پورے ماحول و معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
محبت کے پاکیزہ عنوان کو محض اپنی شیطانی ہوس مٹانے کی خاطر یا محض اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کی خاطر تختہ مشق بنانا انصاف نہیں ۔
خواہش نفس کی تکمیل کا بھی وہ جائز رستہ اپنایا جائے جو حکم الہٰی ہے اور نکاح کے پاکیزہ بندھن کے ذریعے جس پر بآسانی چلا جا سکتا ہے ۔
ویلینٹائن ڈے اور اس کے پس منظر کو دیکھا جائے تو نتیجہ نکالنا آسان ہو جاتا ہے کہ یہ مذہب بیزار قوتوں کی کارستانی ہے ۔ اور اس کی ترویج کے خواہاں وہی لوگ ہیں جن کے ہاں مذہب اور اس کی تعلیمات کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔
اس جیسے غیر مہذب تہوار کسی بھی مذہب اور تہذیب کی روایات و تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے ۔
حلال کے ہوتے ہوئے حرام کو چننا ، جائز کی موجودگی میں ناجائز کو اختیار کرنا انسانیت سے ، محبت کے مقدس رشتے سے اور مذہب کی تعلیمات سے بغاوت ہے ۔
اور جب حقوق متعین ہوں اور ادائیگی میں رکاوٹ نہ ہو ۔ جب حدود متعین ہوں اور عمل درآمد میں مشکلات نہ ہوں تو بغاوت مستحسن نہیں ہے ۔
ویلینٹائن ڈے پر محبت کے اظہار کی حمایت کرنے والوں کو بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہیے ۔ کہ نام نہاد اور ناجائز محبت کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں اور جائز محبت کے اظہار کے لیے بھی ایسے دن کا انتخاب کرنا ، جو بےحیائی کا استعارہ ہے ، مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔
لہٰذا مقدس رشتوں سے پاکیزہ محبت کے اظہار کے لیے بے ہودہ تہواروں کی آڑ لینے کی ضرورت ہی نہیں ۔ کہیں محبت کا اظہار کرتے کرتے بغاوت کے مرتکب نہ ہوجائیں ۔ اور باغی کی سزا بھی بڑی سخت ہوتی ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں